23 مارچ 2016 کو ایک نئی پہچان کے ساتھ مصطفی کمال اور
انیس قائم خانی نے اپنے دیگر ساتھیوں وسیم آفتاب ،انیس ایڈوکیٹ ،رضا ہارون
اور ڈاکٹر صغیر کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی جماعت ’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘
کے نام سے قائم کی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے زبردست عوامی مقبولیت حاصل کرلی
جس کا کریڈٹ اس پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کی نیک نام شخصیت ،ماضی میں
مئیرکراچی کی حیثیت سے ان کی شاندار کارکردگی ،ان کا بے داغ ذاتی کردار،ان
کی قابلیت،ایمانداری ،سچائی ،دلیری اور قائدانہ صلاحیت کے ساتھ ،پاک سرزمین
پارٹی کے صدر انیس قائم خانی کی تنظیم سازی کی زبردست صلاحیت اور ان دونوں
کے مخلص ساتھیوں کی انتھک محنت اور کوششوں کو جاتا ہے اس کے علاوہ پاک
سرزمین پارٹی کی مقبولیت میں مصطفی کمال کا فلسفہ ،نظریہ ، طرز سیاست
،لسانیت سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے پاکستانیت کا برملا اظہار،پارٹی کا
منفرد نام ،منفرد جھنڈا ، پاک سرزمین پارٹی کا دیا ہوا عوامی نعرہ ،عزت
،انصاف اور اختیار ، دیرینہ عوامی مسائل سے دلچسپی اور ان مسائل کو حل کرنے
کے لیے ہرممکن جدوجہد کرنے کا اعلان اور پھرعوامی حقوق کے حصول کے لیے
باالخصوص پانی کے مسئلے پر عملی طور پر عوامی دھرنا اور جلسے جلوس،وہ عوامل
ہیں جنہوں نے صرف 2 سال کی پارٹی کو عوامی سطح پر اس برق رفتاری کے ساتھ
مقبول بنادیا جس کی مثال گزشتہ 15 سال کے دوران پیش نہیں کی جاسکتی ۔
لفافہ جرنلزم کے اس دور میں لفافہ جرنلزم سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ رکھنے
والے صحافیوں ،کالم نویسوں اور تجزیہ نگاروں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ
ہوتا ہے کہ ان سے خوش اور ناراض رہنے والوں میں ترازو کے پلڑوں کی طرح
تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے جس کی حمایت میں بے لوث ہوکر لکھا جائے وہ خوش
ہوکر واہ واہ کرتے ہیں اورجن کے خلاف غیرجانبدار ہوکر کچھ لکھا جائے تو وہ
ناراض ہوکر روٹھ جاتے ہیں جبکہ آج کے مفاد پرست دور میں کسی قسم کی کوئی
پیمنٹ کسی بھی جانب سے نہ لینے والے صحافیوں ،تجزیہ نگاروں اورکالم نویسوں
کی تعداد انگلیو ں پر گنی جاسکتی ہے کہ صرف پاکستان اور پاکستانی عوام کی
بھلائی کی خاطر حق اور سچ بیان کرنے والے اب ناپید ہوتے جارہے ہیں ،راقم
الحروف کا تعلق بھی قلم قبیلے کے ان ہی لوگوں سے ہے جنہوں نے ہمیشہ ملکی
مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے وہ بات لکھی جوحقیقت تھی یا حقیقت کے بہت قریب تھی
کسی کو خوش یا ناراض کرنے کے ارادے سے راقم نے آج تک کوئی تحریر نہیں لکھی
لہذا میرے اس کالم کو کو بھی اسی تناظر میں پڑھا اور سمجھا جائے تو قارئین
،حامیوں اور مخالفین کی بڑی نوازش ہوگی۔
مثالی عوامی پذیرائی ، دوسری سیاسی پارٹیاں چھوڑ کرپاک سرزمین پارٹی میں
شامل ہونے والوں کی کثرت ،پارٹی کے کارکنوں اور ہمدردوں کی بڑھتی ہوئی
تعداد،پاک سرزمین پارٹی کے جلسوں اور جلوسوں میں عوامی کی بڑی تعداد میں
شرکت کے بعد کراچی کے عوام اور خود پاک سرزمین پارٹی کے قائدین اور کاکنان
یہ سمجھنے لگے کہ 2018 کے عام انتخابات میں پاک سرزمین پارٹی پورے پاکستان
سے نہ سہی ،پورے سندھ سے نہ سہی تو پورے کراچی اور حیدرآباد سے بڑی تعداد
میں نشستیں جیت کر مہاجر ازم اور لسانیت کی سیاست کو دفن کرنے میں کامیاب
ہوجائے گی جبکہ پاک سرزمین پارٹی کے چئیرمین مصطفی کمال اور صدر انیس قائم
خانی سمیت ان کی پارٹی کے تقریباً ہر عہدیدار نے گلی محلے ،شہر اور گاؤں
جاجا کر اپنا پیغام عوام تک پہنچانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ،انتخابات
جیتنے کے لیے جتنی جائز اور شریفانہ کوششیں ہوسکتی تھیں پاک سرزمین پارٹی
سے وابستہ امیدواروں اور کارکنوں نے کیں جس کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد
میں خاص طور پر عوامی حمایت کا ایسا ماحول بن گیا جس کے بعد پاک سرزمین
پارٹی کو یہ امید ہوچلی کے عوام نے ہماری بات سمجھ لی ہے ہمارے فلسفے اور
نظریہ کو قبول کرلیا ہے اور اب اگر ہم انتخابی اکھاڑے میں اترے تو اچھی
خاصی سیٹیں جیت کر لسانی سیاست کا جنازہ نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور
یہی وہ اندازے تھے جن کی بناء پر مصطفی کمال نے ایک سے زائد بار اپنی
تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں اس بات کا کھل کر اظہار کیا کہ’’ 2018 کے
الیکشن میں پاک سرزمین پارٹی بڑی تعداد میں انتخابی نشستیں جیت کر زبردست
انتخابی کامیابی حاصل کرے گی جس کے نتیجے میں ہمیں امید ہے کہ 2018 کے
انتخابات کے نتائج کے بعد ہماری پارٹی اس پوزیشن میں آجائے گی کہ سندھ کا
وزیراعلی یا تو ہماری پارٹی کا ہوگا یا ہمارا حمایت یافتہ ہوگا‘‘۔ایک 2
سالہ نئی سیاسی جماعت کے سربراہ کی جانب سے ایسا بیان یقینا سب کے لیے
چونکا دینے والا تھاکیونکہ کراچی اور حیدرآباد سمیت پورے سندھ کے سیاسی
ماضی اور گزشتہ 30 سالوں کے انتخابی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے مصطفی کمال
کی جانب سے کیا جانے والا یہ دعوی ٰسیاسی حلقوں اور تجزیہ کاروں کی نظر میں
دیوانے کی بڑ سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں تھا لیکن عوام کی اکثریت چونکہ
ماضی کی سیاسی جماعتوں کی بری حکومتوں کی ستائی ہوئی اور مفاد پرست سیاست
دانوں کی کرپشن سے عاجز آئی ہوئی تھی اس لیے انہیں مصطفی کمال کی سچائی
،بہادری اور پاکستانیت کے اظہار سے بھرپور انداز سیات نے بہت متاثر کیا اور
عوام کی بہت بڑی تعداد نے مصطفی کمال کے مذکورہ بیان سے امیدیں باندھ لیں
کہ انتخابات کے نتائج آئیں گے تو پاک سرزمین پارٹی کراچی اور حیدرآباد سمیت
پورے سندھ میں لسانی سیاست کرنے والے افراد اور سیاسی پارٹیوں کو بڑے مارجن
سے شکست دے گی ۔
لیکن افسوس ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا اور 2018 کے انتخابی نتائج نے پاک سرزمین
پارٹی کی قیادت سمیت تمام کارکنوں ،ہمدردوں،انتخابی امیدواروں اور ووٹرز کی
امیدوں پر پانی پھیر دیاکہ پاک سرزمین پارٹی پاکستان کے کسی بھی علاقے سے
ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی ،یہ ایک حیرت ناک اور ناقابل یقین انتخابی نتیجہ
تھا جس نے سب ہی کو چونکا کر رکھ دیا،ان انتخابی نتائج کے مطابق پاک سرزمین
پارٹی تو ہاری ہی لیکن ساتھ ہی ایم کیو ایم کی 33 سالہ سیاست کو بھی
عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑا اور کراچی وحیدرآباد کے عوام نے ان کی جاگ
مہاجر جاگ والی لسانی سیات کو مسترد کرتے ہوئے ان کے مقابلے میں اپنا ووٹ
سچے پاکستانی لیڈر عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (PTI )کے
حق میں ڈال دیا اور یوں کراچی سے عمران خان نے لسانی سیاست کرنے والی سیاسی
جماعت ایم کیو ایم کو شرمناک شکست سے دوچار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
کراچی اور حیدرآباد کی عوام پر 33 سالوں سے مسلط MQM بہت ہی کم سیٹیں جیت
پائی اور پی ٹی آئی نے صرف کراچی سے 12 سیٹیں جیت لیں جس کا سب سے بڑا فائد
ہ یہ ہوا کہ کراچی کو یرغمال بنانے والے مفاد پرست اور کرپٹ سیاست دانوں،
بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں سے کم سے کم 5 سال تک کے لیے تو
نجات مل ہی گئی ۔
کراچی اور حیدرآباد سے لسانی سیاست کرنے والوں کو شکست اور قومی سیاست کرنے
والوں کی کامیابی یقیناً خوش آئند بات ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ لسانی
سیاست سے اعلانیہ علیحدگی اور نفرت کا اظہار کرنے والے مصطفی کمال اور ان
کی قائم کردہ قومی سیاسی جمات پاک سرزمین پارٹی موجودہ عام انتخابات میں
ایک بھی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی اور انتخابی نتائج کے مطابق
کراچی کی عوام نے اجتماعی طور پر مصطفی کمال کے مقابلے میں عمران خان کا
ساتھ دینے کو ترجیح دی اور یوں کراچی و حیدرآباد کی سیاست سے فی الحال پاک
سرزمین پارٹی کو مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے جو کہ مصطفی کمال سمیت
پاک سرزمین پارٹی کی تما م قیادت ،انتخابی امیدواروں اور ہمدردوں کے لیے
ایک لمحہ فکریہ ہے !
پاکستانی کی انتخابی سیاست کا اب تک کا ریکارڈ تو یہی رہا ہے کہ ہر ہارنے
والا دھاندلی کا رونا روتا رہا ہے اور موجودہ انتخابی نتائج کے بعد تمام
ہارنے والے لیڈر اور ان کی سیاسی جماعتیں حسب معمول دھاندلی کا شور مچانے
میں مصروف ہیں لیکن شکست کا سامنا کرنے والوں کے لیے زیادہ بہتر راستہ یہ
ہے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ واقعی کوئی دھاندلی ہوئی ہے تو وہ
قانون کے مطابق اپنے انتخابی حلقے کے نتائج کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو
ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی تحریری درخواست دیں تاکہ دودھ کا دودھ اورپانی کا
پانی ہوسکے ۔محض دھاندلی کے الزمات اور دھاندلی دھاندلی کا شور مچانے سے
ہارنے والوں کا امیج عوامی حلقوں میں بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہوگا
لہذا کم سے کم پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کو پی ٹی آئی کے
سربراہ عمران خان کو الیکشن جیتنے پر مبارکبا د دینی چاہیے تھی جو کہ وہ
الحمدﷲ اپنے کامیاب ورکرز کنوشن میں دے چکے ہیں لیکن مصطفی کمال کو اب
سنجیدگی کے ساتھ ان اسباب پر غورو فکر کرنا چاہیے جن کی وجہ سے پاک سرزمین
پارٹی پورے پاکستان سے ایک بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکی کہ دھاندلی
یا انتخابی نتائج میں کسی بھی قسم کی گڑ بڑ ایک دو حلقوں میں ہونا تو ممکن
ہے لیکن تمام کے تمام حلقوں میں دھاندلی نہ تو ہوتی ہے اور نہ ہی کی جاسکتی
ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کو 2018 کے الیکشن میں شکست ہوئی ہے جو ایک تلخ حقیقت ہے
جسے ہر کسی کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے لیکن ساتھ ہی 2 سالہ نئی سیاسی
جماعت ’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ کاموازنہ 33 سالہ سیاسی پارٹی ’’ ایم کیوا
یم‘‘ یا 22 سالہ پرانی سیاسی جماعت ’’ پاکستان تحریک انصاف (PTI ) سے کرنا
بھی بالکل غلط بات ہے جس کی کسی طور حمایت نہیں کی جاسکتی ۔الیکشن میں ہار
جیت تو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حق اور سچ کے راستے پر
چلنے والے مصطفی کمال جیسے قابل ،باصلاحیت اور متحرک رہنما یا ان کی بنائی
ہوئی دو سالہ نئی سیاسی جماعت ’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ کا سوشل میڈیا یا کسی
بھی سطح پر مذاق اڑایا جائے۔مصطفی کمال ،انیس قائم خانی اور ان کے ساتھ
منسلک مخلص سیاسی رہنماؤں نے گزشتہ دو سال کے دوران جس برق رفتاری کے ساتھ
انتھک محنت کی ہے اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی لیکن اس کے ساتھ ہمیں
غیرجانبدارہوکر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ صرف 2 سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد
زبردست عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے مصطفی کمال اور ان کی نئی سیاسی پارٹی
یہ الیکشن کیوں ہاری ؟کہ کسی بھی پارٹی پر کی جانے والی مثبت تنقید اس کی
ترقی اور استحکام میں اضافے کا سبب بنتی ہے جبکہ خوشامد کرنے والے لوگوں نے
ہمیشہ ہر سیاسی جماعت کے سربراہ کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔
اگر ہم غیر جانبدارنہ انداز میں پاک سرزمین پارٹی کی انتخابی شکست کے اسباب
پر غور کریں تو ہم پر بہت سی ایسی اہم باتیں اور حقائق آشکار ہوتے ہیں جو
بہت سے لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے یا ان وجوہات کا علم ہونے کے باوجود
قیادت نے شایداپنے مشیروں کی رپورٹوں اور رائے کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے
پارٹی قیادت کے بعض غلط فیصلوں اور پارٹی پالیسی سے خلوص کے ساتھ اختلاف
کرنے والے کارکنوں اور ہمدردوں کو نظر انداز کیا جس کا نتیجہ اسے انتخابی
شکست کی صورت میں بھگتنا پڑالیکن شکست کا صرف ایک یہ ہی سبب نہیں ہے بلکہ
اس کے علاوہ بھی کئی عوامل تھے جن کی وجہ سے پی ایس پی کو ناکامی کا سامنا
کرنا پڑا۔
آئیے اب ہم ان اسباب پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں جو پاک سرزمین پارٹی کی
انتخابی شکست کا سبب بنے کہ شکست کے اسباب پر غور کرتے ہوئے اپنی غلطیوں کو
سدھارے بغیر آئندہ ہونے والے بلدیاتی یاچار پانچ سال بعد ہونے والے عام
انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
مہاجر ازم کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت ایم کیوایم سے وابستہ کارکنوں
،علاقائی سطح کے ذمہ داران اور بعض اہم لوگوں کا بڑی تعدا د میں اچانک
پاکستانیت کی سوچ رکھنے والی نئی سیاسی جماعت ’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ میں
شامل ہونا وہ اہم ترین پوائنٹ ہے جسے پاک سرزمین پارٹی کی قیادت نے یا تو
نظر انداز کیا یا اسے اپنی مقبولیت اور کامیابی کا زینہ سمجھا لیکن انتخابی
نتائج بتاتے ہیں کہ ان تمام لوگوں کے ہجوم کا پی ایس پی میں آنے سے ’’ پاک
سرزمین پارٹی ‘‘ کو ظاہری عوامی مقبولیت ،جلسے، جلوسوں میں رونق اور ورکرز
کنوشن میں دکھائی دینے والی پرجوش حمایت کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا،اس
بات پر پی ایس پی کی قیادت کو بہت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہوگا کہ ایسا
تو نہیں کہ ایم کیوایم نے پی ایس پی میں اپنے لوگ خود شامل کروائے ہوں تاکہ
پی ایس پی کی قیادت کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ عوامی سطح پر اس نے میدان مار
لیا ہے اور وہ بہت آسانی کے ساتھ ایم کیو ایم کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔
پاک سرزمین پارٹی میں ایم کیوایم کو چھوڑ کر آنے والے بہت سے کارکنوں کا
اسٹائل اور طرز سیاست مصطفی کمال کی تبلیغ بھی نہ بدل سکی اور وہ پی ایس پی
کو ایم کیو ایم سمجھ کر اپنے علاقوں میں وہی کچھ کرتے رہے جو وہ پی ایس پی
میں شامل ہونے سے پہلے کرتے رہے تھے ان کے اس طرز عمل نے بھی مصطفی کمال
اور پاک سرزمین پارٹی کے ووٹرز کو مایوس کیا جبکہ یہ بات بھی بہت واضح نظر
آئی کہ پی ایس پی کے قیام سے قبل کراچی میں جن علاقوں اور جگہوں پر ایم کیو
ایم کے دفاتر قائم تھے ان ہی علاقوں میں پی ایس پی نے اپنے دفاتر قائم کیے
اور اتفاق سے ان دفاتر میں نظرآنے والے لوگوں کی اکثریت ان ہی لوگوں کی تھی
جو اس سے قبل ایم کیو ایم کے دفاتر میں نظر آتے رہے ہیں اس وجہ سے بھی عوام
میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ جب ایم کیو ایم کے ہی سارے کارکن اور لوگ پاک
سرزمین پارٹی میں نظر آرہے ہیں تو اکیلا مصطفی کمال کراچی کے ماحول یا طرز
سیاست میں کیا تبدیلی لا سکے گا اسی وجہ سے ووٹر نے پی ایس پی کے مقابلے
میں پی ٹی آئی کو زیادہ ترجیح دی جبکہ بعض علاقوں میں جاگ مہاجر جاگ کے
نعرے نے بھی اثر دکھایا اور وہاں سے ایم کیو ایم پاکستان کے بعض رہنماؤں کو
کامیابی حاصل ہوئی لیکن افسوس کے پاک سرزمین پارٹی اپنی مخلص ،نیک نام
،قابل ،بہادر اور متحرک قیادت کی انتھک جدوجہد اور شب وروز کی محنت کے
باوجود کراچی سمیت سندھ سے بھی کوئی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکی جو کہ
ہر محب وطن اور لسانی سیاست سے بے زار پاکستانی کے لیے باعث تشویش ہے۔
عمران خان کے شدید مخالفین نواز لیگ،پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن کی
جانب سے پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کی انتخابی فتح کو تنقید کا
نشانہ بنانا ،دھاندلی کے الزامات لگانا اور ہرطرح سے عمران خان کو وزیراعظم
بننے سے روکنے کی کوششوں کا حصہ بننا تو سمجھ میں آتا ہے کہ پاکستان کی
سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس بھی الیکشن میں جب بھی کوئی ہارا اس
نے جیتنے والے کی کامیابی کو تسلیم نہیں کیا اور دھاندلی کے الزامات عائد
کیے جاتے رہے لہذا اگر اس بارعمران خان کی تاریخی انتخابی کامیابی کے خلاف
ان کے شدید سیاسی مخالفین نے دھاندلی کا شور مچایا تو اس میں کوئی نئی بات
نہیں ہے لیکن مصطفی کمال جیسے سچے اور اچھے ایماندار پاکستانی سیاست دان کی
جانب سے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگانا اور عمران خان کے سیاسی
مخالفین کی جانب سے بلائی گئی آل پاکستان کانفرنس میں جانا اور وہاں سے آکر
اس کانفرنس میں اعلان کردہ نکات کی حمایت کرنا سمجھ سے باہر ہے کیونکہ اگر
ہم مصطفی کمال کا بے داغ ماضی اور گزشتہ 2 سال کے دوران ان کا پاکستانیت کے
اظہار سے بھرپور مثبت ترین طرز سیاست دیکھیں تو ہمیں یہ بات بہت واضح طور
پر دکھائی دیتی ہے کہ سیاسی سوچ اور طرز سیاست کے حوالے سے عمرا ن خان اور
مصطفی کمال کی شخصیات میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے اور جب پاکستان کے
بدترین مفاد پرست اور کرپٹ سیاست دانو ں پر مشتمل نواز لیگ اور پیپلز پارٹی
اپنے ناجائز مفادات کو بچانے کے لیے ایک ہوسکتی ہیں اور ایک دوسرے کا خفیہ
اور اعلانیہ ساتھ دے سکتی ہیں تو پھر عمران خان اور مصطفی کمال جیسے دو سچے
محب وطن سیاست دان انتخابات سے قبل ان کرپٹ سیاست دانوں پر مشتمل سیاسی
مافیا سے نمٹنے کے لیے ایک پیج پر کیوں نہیں آئے ،ان دونوں سچے ،کھرے اور
بہادر سیاسی رہنماؤں نے ملکی مفاد میں ایک دوسرے کا خفیہ یا اعلانیہ ہاتھ
کیوں نہیں تھاما؟ اگر انتخابات سے قبل پاک سرزمین پارٹی اور پاکستان تحریک
انصاف میں صرف سیٹ ایجسمینٹ ہی ہوجاتی تو اس کا فائدہ پی ایس پی اور پی ٹی
آئی دونوں کو ہوتا اور یہ مفاد پرست ،بھتہ خور اور کرپشن میں ملوث سیاسی
جماعت ایم کیوا یم کو جو چار پانچ سیٹں مل گئی ہیں وہ بھی نہ ملتیں لیکن
پتہ نہیں کن وجوہات کی وجہ سے پی ایس پی اور پی ٹی آئی قریب نہ آسکیں اور
یوں دو اچھے سیاست دانوں کا اتحاد نہ بن سکا۔یا تو یہ دونو ں سیاست دان ایک
دوسرے کو اپنے لیے خطر ہ سمجھتے رہے یا پھر دونوں جماعتوں میں موجود بعض
مفاد پرستوں اور ایم کیو ایم کے ایجنٹوں نے عمران خان اور مصطفی کمال کے
ایک دوسرے کے قریب آنے کے تمام دروازے بند کرنے کی دانستہ کوشش کرکے میر
جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کیا۔
عمران خان گزشتہ 22 سالو ں کی جدوجہد کے بعد آج اگر پرائم منسٹر بننے والا
ہے تو اس پر جلنے ،کڑھنے اور دھاندلی کے الزامات لگانے کی بجائے اس کی طویل
سیاسی جدوجہد کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے اسے کھلے دل کے ساتھ مبارکباد
دینی چاہیے کہ اس نے اپنی پوری جوانی پاکستانی عوام کی فلاح وبہبود اور
پاکستان کی ترقی اور استحکام کی خاطر وقف کردی اور آج جب وہ برسر اقتدار
آکر وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے والا ہے تو اس کے بالوں میں سفید بال آچکے
ہیں وہ بوڑھا ہوچکا ہے لیکن اس کا حوصلہ آج بھی نوجوانوں والا ہے ،کیسے بھی
برے حالات ہوں ،کتنے ہی لوگ اس کے مخالف ہوں ،جتنی بھی اس کے ذاتی کردار پر
تنقید کی جائے کتنا بھی اسے بدنام کیا جائے کتنی بھی اس کے خلاف سازشیں
رچائی جائیں وہ ہمت نہیں ہارتا کہ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے اور سیاست بھی
ایک کھیل ہی ہے جو اچھے لوگ ملک اور قوم کے مفاد کے لیے کھیلتے ہیں اور برے
لوگ سیاست میں اپنے ذاتی مفادات کو پورا کرنے کے لیے آتے ہیں ۔ پاکستانی
قوم کو فخر ہونا چاہیے کہ آج کے مفاد پرست اور کرپٹ سیاست دانوں کی بھیڑ
میں ہمارے پاس عمران خان اور مصطفی کمال کی صورت میں دو ایسے سچے کھرے قابل
محنتی اور متحرک سیاسی رہنما موجود ہیں جو سیاست میں صرف پاکستان کی ترقی
اور استحکام اور پاکستانی عوام کی فلاح اور بہبود کے لیے آئے جن میں سے ایک
سیاست دان الحمداﷲ کامیاب ہوکر تیزی کے ساتھ اس ملک کی قیادت سنبھالنے کی
جانب بڑھ رہا ہے جبکہ دوسرا سیاست دان 2 سال کی انتھک محنت کے باوجود حوصلہ
نہیں ہارا اور ایک نئے عزم کے ساتھ آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی
تیاریوں میں مصروف ہوگیا ہے ۔
ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالی پاکستانی سیاست کے ماتھے کا جھومر کہلائے جانے کے
مستحق مصطفی کمال اور عمران خان کی جان ومال کی حفاظت کرے اور ان دونوں سے
ملک وقوم کی ترقی،استحکام اور فلاح وبہبودکے ایسے کام لے لے جو عوام کے دلو
ں اور تاریخ کے صفحات میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رکھ سکیں کہ ہمارے مفاد
پرست معاشرے میں ان دونوں محب وطن اور مخلص سیاسی رہنماؤں کا وجود کسی نعمت
سے کم نہیں بس اﷲ ہماری قوم کو وہ آنکھ عطا کردے جو اچھے اور برے میں تمیز
کرکے اپنے حکمران منتخب کرسکے ۔(آمین) |