آج سے 41 سال قبل 5 جولائی 1977 کا وہ تاریک دن کون بھلا
سکتا ہے جب قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر شب خون مارا گیا۔ اتنے
سال گزرنے کے باوجود آج بھی وہ منحوس دن پا کستانی جمہوریت پر ایک سیاہ رات
کی مانند چھایا ہوا ہے۔ کسی مورخ نے کیا خوب کہا ہے وقت گزر جاتاہے، واقعات
تاریخ بن جاتے ہیں اور اگر ان سے سبق نہ سیکھا جائے تو یہ چند لمحے صدیوں
کی مسافت طے کرتے ہوئے آئندہ ادوار کے سنگ میل بن جاتے ہیں۔
پاکستانی جمہوریت پر شب خون مارنے کی روایت بڑی پرانی ہے، اسی طرح یہ بھی
ملک کا تیسرا ماشل لاء تھا جو کہ بھٹوکے فاشسٹ ازم کو ختم کرنے ، شریعت کے
نفاذ اور اسلامی اقدار کے فروغ کے نام پر نازل ہوا۔ اس وقت کے امیر مارشل
لاء عوام الناس کو 90 دن میں شریعت کے نفا ذ اور شفاف انتخابات کے سبز باغ
دکھا کر مسند اقتدار پر براجمان ہوئے اور تادم مرگ اس کا دامن نہیں چھوڑا۔
اس شب خون کا اصل مقصد پاکستان کے جلیل القدر سپوت کو سبق سکھانا تھا بقول
ہنری کسنجر نشان عبرت بنانا تھا تاکہ دوبارہ کوئی مرد مجاہد امریکی حکومت
کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کر سکے، تاکہ دوبارہ امت مسلمہ کو یکجا
کرنے اور پاکستانی عوام کو ایٹم بم جیسے تحفے نہ دے سکے۔ اس فریضہ مقدس کو
سرانجام دینے کیلئے مغربی آقاءوں کو حضرت ضیاءالحق سے بہتر کوئی شخصیت بھلا
کہاں مل سکتی تھی، جس نے چند ایمان فروش ملاءوں ، کچھ نا سمجھ دوستوں اور
پاک فوج کے چند بغل بچوں کو ساتھ ملا کر اپنے مغربی آقاءوں کی بھر پور خدمت
کی تاوقتیکہ موصوف آم کھاتے کھاتے خود تو مملکت خداداد کی جان ہمیشہ کے
لئیے چھوڑ گئے اورجاتے جاتے اپنا فضلہ اس قوم کی خدمت کے لئیے چھوڑ گئے
جنھوں نے اس قوم کو کئی دہائیوں تک بے و قوف بنائے رکھا، ملک کا پیسہ چوری
کیا، اداروں کا ستیا ناس کیا اور مجھے کیوں نکالا کے نعرے لگاتے ہوئے
پاکستان سے فرار اختیار کیا۔ محترم دنیا مکافات عمل ہے، آپ نے سنا تو ہوگا
براہ کرم اب جیل میں بیٹھ کر تسلی سے سوچئیے گا بھٹو کیوں زندہ ہے اور آپ
زندہ ہوتے ہوئے بھی عوام کی نظروں میں کیوں مر چکے ہیں۔
آج 41 سال بعد پھر مجھے پاکستانی جمہوریت ویسے ہی لرزتی ہوئی نظر آرہی ہے
جیسے پہلے فرق صرف اتنا ہے کہ کہانی کے کردار، انداز اور طریقہ واردات بدل
دیا گیا ہے تاکہ کہانی دلچسپ رہے اور عوام کی توجہ ہٹنے نہ پائے۔ آج پھر
ایک امیر وقت ویسے ہی اپنے اک لاڈلے کو مسند اقتدار پر بٹھانے کے لئیے ویسے
ہی بے قرار ہے جیسے 41 سال پہلے۔ بس اس مرتبہ عوام کے چند من پسند کرداروں
کو تبدیلی نام کی گولی دے کر پردہ سکرین پر بھیجا گیا ہے تاکہ عوام جمہوری
فلم کی یکسانیت سے بوریت کا شکار نہ ہو کل کے ہیرو آج کے ولن ہیں۔
آج بار بار میرے دل میں ایک خیال بڑی شدت سے آرہا ہے، کاش 1977 میں جو ہوا
وہ نہ ہوتا تو شاید پاکستان آج اک مضبوط جمہوری قوت ہوتا، شاید پاکستان ایک
مضبوط معیشت کی بنیاد رکھ چکا ہوتا اور ہر پیدا ہونے والا بچہ لاکھوں کا
مقروض نہ ہوتا، شاید ہم اقوام عالم میں اک باوقار قوم بن چکے ہوتے ، آج
شاید ہمیں وہی عزت و مرتبہ عالمی فورمز ہر حاصل ہوتا جو قائد عوام ذوالفقار
علی بھٹو کے دور میں حاصل تھا، شاید آج ادارے سیاست کے بجائے اس ملک کی
ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے۔ یہ بہت سے کاش میرے دل میں سے آہیں
بھرتے اور سسکیاں لیتے ہوئے نکل رہے ہیں۔
آج پھر 90 دن میں تبدیلی کی پھکی بیچنے کی بھونڈی کوشش کی جارہی ہے، آج پھر
اک مرتبہ تبدیلی کے نام پر جمہوریت کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہونے جا رہا ہے۔
آج پھر اک مرتبہ لولی لنگڑی جمہوریت عوام کے پلے ڈالی جارہی ہے تاکہ کوئی
ادارہ مضبوط نہ ہو سکے، کوئی قانون سازی نہ کر پائے، وہی کرپٹ لوگ جو کل تک
اپنا منجن کسی اور لیبل سے بیچ رہے تھے آج تبدیلی کے نام پر اپنا منافع
کمائیں۔ میرے عزیز ہم وطنو یہ ووٹ ملک کی امانت ہے اس کا استعمال سوچ سمجھ
کر کریں، کسی بوٹ پالشئے یا مالشئے کے زیر اثر نہیں۔
پاکستان پائندہ باد!
|