آج میں آپکو ایک مجبور ، لاچار
اور بے کس انسان کی کہانی سنانا چاہتا ہوں جو دردناک بھی ہے اور سبق آموز
بھی۔ اسے سُن کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ آدمی حالات کے ہاتھوں کتنا
مجبور ہوجاتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انسان خودکشی کے بارے میں
سوچنے لگتا ہے۔ بچوں سے بےزار ہوجاتا ہے اور موت کا انتظار کرنے لگتا ہے
مگر وہ بھی ملتوی ہوجاتی ہے۔ موت کی جتنی خواہش کرتا ہے وہ اتنی ہی دور
ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر زندگی کچھوے کی چال کی مانند گزرتی رہتی ہے۔ میں
عموماً بزرگان دین کے مزارات پر جاتا رہتا ہوں، جس سے مجھے روحانی تسکین
میسر آتی ہے۔ ایک دن میں قصور کے ایک مشہور بزرگ کے مزار پر حاضر ہوا۔ وہ
جمعرات کا دن تھا اور محفل سماع ہورہی تھی۔ مجھے قوالیاں سننے کا بہت شوق
ہے۔ میں نے وہاں ایک بزرگ کو دیکھا جو مسلسل روئے جارہے تھے ۔ جب قوالیاں
ختم ہوئیں تو میرا دل چاہا کہ بزرگ سے حالات معلوم کیے جائیں ۔ میں نے
انہیں سلام کیا اور حال احوال پوچھے۔ تھوڑی گفتگو کے بعد میں نے اندازہ لگا
لیا کہ بزرگ دکھی ہیں ۔ میرا جی چاہا کہ ان سے تفصیل سے گفتگو کی جائے۔ میں
انہیں اپنے گھر لے آیا اور جو کچھ ہوسکتا تھا خاطر تواضع کی۔ معلوم ہوا کہ
آپ للیانی کے نزدیک ایک قصبہ ستوکی سے تشریف لائے تھے۔ ستوکی لاہور سے قصور
جاتے وقت للیانی کے نزدیک فیروزپور روڈ پر واقع ہے۔ للیانی ضلع قصور میں
آتا ہے اور لاہور سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ چونکہ میں
للیانی کا رہنے والا ہوں اسلیے ستوکی سے اچھی طرح واقف ہوں۔ ستوکی کیلیے
راستہ للیانی ہی سے جاتا ہے، جو کہ آگے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
بابا جی سے تعارفی گفتگو کے بعد میں اصل موضوع کی طرف آیا اور ان سے مزید
حال احوال دریافت کیئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ اتنے غمگین کیوں ہیں مجھے ضرور
بتائیے۔ بابا جی پھٹ پڑے اور آنسوؤں کا سیلاب رواں ہوگیا۔ مجھے ان سے دلی
وابستگی ہوگئی۔ میں نے انہیں اپنے گھر ہی پر چند روز قیام کی دعوت دے دی
جسے انہوں نے حیل و حجت کے بعد قبول کرلی۔ ان کے آرام کا خاص خیال رکھا۔
بابا جی نے مجھے جو واقعات سنائے وہ میں انکی ہی زبانی سنانا چاہوں گا تاکہ
بیان کرنے میں آسانی رہے۔
بابا جی نے اپنی روداد کچھ اس طرح بیان کی:۔
“میں احمد آباد ہندوستان میں پیدا ہوا۔ قیام پاکستان کے وقت میری عمر پانچ
سال تھی۔ اچھا کھاتا پیتا گھرانہ تھا۔ میرے والد صاحب تین بھائی تھے۔ دادا
دادی سب لوگ اکٹھے ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ اتنا چھوٹا ہونے کے باوجود
مجھے بچپن کے کافی واقعات یاد ہیں۔ والد صاحب کے ایک بھائی بڑے اور ایک
چھوٹے تھے۔ سب کا مشترکہ کاروبار تھا۔ پاکستان بننے کے دو سال بعد میرے
والدین پاکستان منتقل ہوگئے۔ دادا دادی اور باقی چچا اور تایا ہندوستان ہی
میں مقیم رہے۔ پاکستان میں ہم لوگ پہلے لاہور میں مقیم رہے اور اسکے بعد
ستوکی منتقل ہوگئے۔ یہاں زمینداری شروع کردی۔ حالانکہ اس کا کوئی تجربہ
نہیں تھا۔ ساتھ ہی کاہنہ کاچھا میں کپڑے کی دکان کھول لی۔ اللہ کے فضل سے د
وکانداری خوب چلی اور زمینداری بھی خوب پھلی پھولی۔ والد صاحب نے مجھے
قریبی سکول میں داخل کروادیا۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ میری اپنی سگی
والدہ کا ہندوستان میں ہی انتقال ہوگیا تھا اور والد صاحب نے دوسری شادی
کرلی تھی۔ جب تک ہندوستان میں رہا میری پرورش میری دادی اماں نے کی۔ وہ
مجھے بہت پیار کرتی تھیں۔ جب میں والدین کے ساتھ پاکستان آرہا تھا تو وہ بے
حد اداس تھیں۔ ہندوستان میں تو میں آرام سے رہا، لیکن جونہی پاکستان پہنچا
پریشانیوں نے گھیر لیا۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں بھی مجھے احساس تھا کہ میری
اپنی والدہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ پاکستان پہنچ کر میں احساسِ محرومی
میں مُبتلا ہوگیا۔ اب میرا خیال رکھنے والا کوئی نہ تھا۔ مجھے پیار کرنے
والا کوئی نہ تھا۔ حد تو یہ تھی کہ اپنی بپتا کس کو سناتے؟ والد صاحب کو
ہماری کوئی پرواہ ہی نہ تھی۔ خیر اسی طرح دو سال گذر گئے۔ اس دوران ہمارا
ایک بھائی اس دنیا میں آگیا۔ اب ہم پر پریشانیاں مزید بڑھ گئیں۔ اپنے کپڑے
خود ہی دھونا پڑتے۔ نومولود کیلئے ایک نوکر رکھ لیا گیا جو کہ اسکے کپڑے
وغیرہ دھوتا تھا اور گھر کا کام کرتا تھا۔ اس دوران والد صاحب کے چھوٹے
بھائی اور ہمارے دادا دادی بھی پاکستان آگئے۔ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی رہنے
لگے۔ اب ہمیں کچھ راحت، آرام اور سکون میسر ہوا۔ گویا کہ ہماری ماں آگئی
ہو۔ اسی دن سے ہم اپنے دادا دادی کے ساتھ الگ کمرے میں سونے لگے۔ ہمارے چچا
شادی شدہ تھے ، وہ بھی کاروبار میں شریک ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد ہمارے تایا
بھی اپنے بچوں کے ساتھ آگئے اور ہمارے ساتھ رہنے لگے۔ اس طرح ہمارا پورا
خاندان آگیا۔ تایا کی بڑی بیٹی سے ہماری دادی کو بڑی انسیت تھی۔ اسی دوران
ہمارے چچا کے ہاں بھی بچے پیدا ہوگئے۔ پہلے ایک بیٹی اور پھر مزید بچے۔ اب
ہماری دادی کی توجہ منقسم ہوگئی۔ تایا کا ایک بیٹا بھی تھا جو کہ مجھ سے
بڑا تھا۔ تایا زاد بہن اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی تھی اور ہر کام میں مجھ
سے اسکا مقابلہ کرتی رہتی تھی۔ باقی گھر والے بھی میرے کزن کی تعریفیں کرتے
رہتے تھے۔ اب میں بالکل محرومیت کا شکار ہوگیا۔ یہ سچ ہے کہ میں شروع ہی سے
بالکل شریف واقع ہوا ہوں، مجھ میں کسی قسم کی کوئی چالاکی نہیں تھی۔ اسی
طرح وقت گزرتا گیا۔ ہم تمام بچوں کی ضرورت کی ذمہ داری ہمارے چچا کے پاس
تھی۔ چونکہ ہمارا مشترکہ کاروبار اور مشترکہ رہائش تھی اسی لئے گھر کے ایک
فرد کو یہ ذمہ داری دے دی گئی تھی۔ جب ہم لوگ یعنی میں اور میرا کزن چھوٹے
تھے تو ہم لوگوں کے لیے کپڑے سلوائے جاتے تھے، جب ہم لوگ بڑے ہوگئے یعنی
میٹرک میں پہنچ گئے تو ہمیں چچا نے اجازت دے دی کہ ہم لوگ مشترکہ کپڑے
استعمال کرسکتے ہیں۔
اس زمانے میں چچا تایا اور ابّا کے کپڑے ایک ہی الماری میں مشترکہ ہوتے تھے
اور جسکی مرضی جو کپڑے پہن لے۔ اس اجازت سے میرے کزن کو تو بہت فائدہ ہوا،
کیونکہ اسکا قد مجھ سے کچھ بڑا تھا اور کپڑے اسکو بالکل فٹ آجاتے تھے، مگر
مجھے ڈھیلے ڈھالے رہتے تھے۔ مجبوراً مجھے وہی کپڑے پہننا پڑتے تھے، کیونکہ
الگ سے سلوانا بند کردیا گیا تھا۔ ہمارے مشترکہ کاروبار سے ہمارے چچا نے
خوب فائدہ اٹھایا۔ چند دن ایک جوڑا استعمال کرتے پھر نوکروں کو دے دیتے۔ جب
سے یہ ہندوستان سے آئے تھے ہم لوگوں کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے تھے۔ ہر وقت
غصے میں رہتے۔ چھوٹا ہونیکا سب سے زیادہ فائدہ انہوں نے اٹھایا۔ ہمارے والد
صاحب کو ہماری بالکل پرواہ نہ تھی، اب جوں جوں ہمارے بھائی بہن (دوسری ماں
سے) بڑے ہورہے تھے انکی توجہ ہماری طرف کم سے کم تر ہوتی جارہی تھی۔ دادی
اماں اگر کبھی میری طرفداری کرتیں تو انہیں چچا صاحب ڈانٹ دیتے کہ وہ مجھے
بگاڑ رہی ہیں۔ اس طرح ان پر بھی پابندیاں لگنا شروع ہوگئیں۔ اسی طرح وقت
گذرتا رہا، میں اور میرا کزن کالج میں پہنچ گئے، یہ میں بار بار کزن کا ذکر
اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ گھر میں لڑکوں میں ہم دونوں ہی بڑے تھے اور ایک
ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ کالج میں داخلے سے پہلے ہم سب لوگ لاہور شفٹ ہوگئے
تھے اور یہاں ایک بڑا سا گھر کرایہ پر حاصل کرلیا تھا۔ کاروبار بھی خوب چل
رہا تھا۔ گھر میں ایک گاڑی بھی آگئی تھی۔ آہستہ آہستہ ہمارے ابا چچا اور
تایا نے ایک مشترکہ گھر بنا لیا۔ اس وقت میں بی اے میں تھا۔ میرے فائنل
امتحانات ہونیوالے تھے۔ گھر میں خوب شور مچا رہتا تھا۔ نئے گھر میں شفٹ
ہونیکی تیاریاں ہورہی تھیں۔ میں بالکل ڈسٹرب ہوگیا تھا کہ پڑھائی کیسے
کروں۔ کسی کو میری پراہ نہ تھی۔ شام کو میں اپنی کتابیں لے کر نئے گھر میں
آجاتا۔ رات کو امتحان کی تیاری کرتا اور وہیں سوجاتا اور صبح کو واپس اپنے
گھر آجاتا۔ کیونکہ نئے گھر میں کھانے پینے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ ہمارے
والد چچا اور تایا کو ہمارا کوئی خیال نہیں تھا۔
خیر ،یہ وقت بھی اللہ نے خیریت سے گزار دیا اور میں پاس ہوگیا۔ ہم لوگ اس
دوران نئے گھر میں شفٹ ہوچکے تھے۔ ہمارا کزن سائیکل نہیں چلاتا تھا حالانکہ
مجھ سے بڑا تھا۔ غالباً اسکا اپنے باپ سے کوئی جھگڑا تھا۔ خمیازہ مجھے
بھگتنے پڑا۔ یعنی سب لوگوں کے کام مجھے کرنے پڑتے کیونکہ میں سائیکل چلانا
جانتا تھا۔ ہمارے چچا اور تایا نے مجھ پر اتنے ظُلم کیے کہ اب سوچتا ہوں کہ
یہ لوگ کتنے ظالم تھے!!!۔
شاید میرے والد بھی مجھ سے بدلہ لے رہے تھے۔ وہ بالکل خاموش رہتے تھے اور
مجھے سب لوگوں کی غلامیاں کرنی پڑتی تھیں۔ جب میرا بی اے کا رزلٹ آیا تو
کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اپنے پاس ہونے کی خبر چچا کو سنائی تو انہوں
نے کوئی خاص دھیان ہی نہ دیا بلکہ بولے کہ تمہاری چچی بیمار ہیں ٹیکہ
لگوانا ہے، کمپاؤنڈر کو بلا لاؤ۔ اس زمانے میں ہمارے ہاں یہ رواج عام تھا
کہ اپنا علاج خود ہی کرلیتے تھے۔ اب میں نے سائیکل اٹھائی اور محض کمپاؤنڈر
کو بلانے پانچ میل کا سفر کیا۔بی اے کرنے کے بعد میں نے یونیورسٹی میں
داخلہ لے لیا اور دو سال میں ایم اے کر لیا۔ ہمارا گھر ابھی بھی مشترکہ
تھا۔ سب لوگوں کا کھانا ایک ہی کچن میں پکتا تھا۔ ایک وقت آیا کہ کاروبار
نہ ہونے کے برابر ہوگیا۔ اس لیے سب نے الگ الگ کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ
کیا۔ والد صاحب نے بھی اپنا الگ کاروبار شروع کیا۔ ایم اے کرنے کے بعد مجھے
بھی شامل کرلیا۔ ابھی میرے دوسرے سوتیلے بھائی چھوٹے تھے۔ کاروبار میں میرا
دل نہ لگتا تھا کیونکہ یہاں اپنے ضمیر کو بیچنا پڑتا تھا۔ ان پڑھ لوگوں کو
’جی حضور!‘ کہنا پڑتا تھا۔ میرے دل پر بڑا بوجھ رہتا تھا اور اپنی بے عزتی
محسوس کرتا۔ گاہکوں کو چائے بنا کر دینا پڑتی، یہ کام کوئی ان پڑھ ہی
کرسکتا تھا۔ میرے ضمیر پر بڑا بوجھ رہتا۔ والد صاحب سے بھی تناؤ رہنے لگا۔
وہ مجھے بالکل جاہل سمجھتے اور اپنے دوستوں سے میری برائیاں کرتے رہتے تھے،
تنگ آکر میں پنڈی چلا گیا۔ یہاں میرے ایک بچپن کا دوست رہتا تھا۔ اس کے ماں
باپ پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔ وہ اپنے دو بھائیوں کے ساتھ رہتا تھا۔ میری طرح
چھڑا چھانٹ تھا۔ اس نے نوکری دلانے کی کافی کوشش کی ، مگر کام نہ بنا۔ میں
نے سوچا آخر کب تک دوست پر بوجھ بنا رہوں گا۔اس لیئے کچھ عرصے بعد واپس
لاہور گھر آگیا۔ یہاں میںیہ بات بتاتا چلوں کہ میرے تقریباً تمام دوست
نوکریاں کرتے تھے اور میں انکے حالات دیکھ کر خوش ہوتا تھا اور انکو خوش
نصیب سمجھتا تھا۔ میرے تمام دوست خود ہی اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے تھے اور
خوشحالی کی زندگی گزار رہے تھے۔ یہاں ایک ہم تھے کہ زندگی سے بیزار، احساس
محرومی میں مبتلا۔ میں بھی ایک آزاد زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ گھر کے ماحول
سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میں یہاں مشترکہ فیملی میں خوش نہ رہ سکوں گا،
مگر بے حد مجبور تھا۔ اس لیے زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لیے واپس
آگیا، جب واپس آیا تو والد صاحب کا رویہ بدلا ہوا تھا، وہ کافی نرم ہوگئے
تھے، دوبارہ ان کے ساتھ کاروبار میں شریک ہوگیا۔ میں چونکہ پڑھا لکھا تھا
اس لیے جلد ہی کاروبار کو سمجھ لیا۔ اب حالات اچھے ہوگئے تھے۔ میرے تمام
دوستوں کی شادیاں ہوگئیں تھیں صرف ایک میں ہی رہ گیا تھا۔ کچھ عرصے بعد میں
نے اپنی پسند کا اظہار کردیا۔ وہ اپنے ہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ نہایت
ہی شریف اور پڑھی لکھی فیملی تھی۔ گھر میں کھسر پھسر ہوئی اور کچھ لوگوں نے
ناپسندیدگی کا اظہار کیا، مگر میری بات مان لی گئی اور شادی ہوگئی۔یہ شادی
کیا ہوئی، ہماری شامت آگئی۔ ہمارے والدین چچا تایا وغیرہ بہت بڑے جہیز کی
توقعات رکھتے تھے۔ مجھے گھر والوں کی توقعات کا سوچ کر بہت دکھ ہوتا تھا۔
ہماری بیوی کے والد محض ایک سرکاری ملازم تھے، نہایت ایماندار، نیک اور
پابند صوم و صلوٰة۔ بھلا انکی اتنی آمدنی کہاں کہ وہ کاروباری لوگوں کی
خواہشات پوری کرسکیں۔ جب شادی کے بعد رخصتی ہونے والی تھی اس وقت لڑکی
والوں نے بلایا کہ آکر جہیز دیکھ لیں اور پیک کرلیں۔ ہمارے والد محترم اتنے
افسردہ تھے کہ کہنے لگے ”انکو “لے جاؤ یہ دیکھ لیں گے، (یعنی میری طرف
اشارہ تھا کہ میں جاکر دیکھوں)، اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ جہیز کی
تفصیل ان تک یعنی والد صاحب تک پہلے ہی پہنچ چکی ہوگی، اسی لیے وہ اب جانا
نہیں چاہتے تھے۔گھر والوں کی باتیں سن کر میرے دل پر کیا گزری یہ میں ہی
جانتا ہوں۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ واقعی اس گھر میں میرا کوئی بھی
ہمدرد نہیں ہے ، یہاں تک کہ ہمارے دادا دادی تک بہک گئے تھے۔کسی میں ہمت
ہوتی تو ان سے پوچھتا کہ اے چچا تایو! تمہاری شادیوں میں کتنا جہیز ملا
تھا۔ کیا تمہاری بیویاں سونے چاندی سے لدی ہوئی آئی تھیں۔ کیا اللہ نے
تمہیں پہلے ہی بہت کچھ نہیں دے رکھا جو تم لالچ کررہے ہو۔
اب جناب، شادی کے بعد جب گھر پہنچے تو عورتوں نے کہرام مچا یا ہوا تھا،
کیونکہ اب بات کرنے کی آزادی تھی، ہماری چچی، تائی، اور تایا زاد بڑی بہن
بہت آگے آگے تھیں۔ طرح طرح کی باتیں میرے کانوں میں آرہی تھیں۔ سب جہیز کا
رونا رو رہے تھے۔ اسی دوران ہماری تائی نے فرمایا کہ آئیندہ بارات سیالکوٹ
نہیں جائے گی۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے بہت سے قریبی رشتہ دار
سیالکوٹ میں رہتے ہیں اور میری بارات بھی سیالکوٹ گئی تھی۔ آگے آنے والے
حالات سے میں نے اندازہ لگایا کہ دراصل ہماری چچی اور تائی اپنی اپنی
بیٹیوں کا رشتہ مجھ سے کرنا چاہتی تھیں، جسمیں وہ ناکام ہوگئیں، دوسری وجہ
یہ تھی کہ چونکہ میرا رشتہ جہاں ہوا تھا ان سے خاندانی رنجشیں تھیں، آپس کے
تعلقات اچھے نہ تھے۔ میرے چچا اور تا یا کو یہ دکھ تھا کہ ایک غریب گھرانے
کی بیٹی ہمارے امیر گھرانے میں آکر خوب عیش کرے گی، جبکہ انکو اپنی بیٹیاں
نہ جانے کہیں کسی غریب گھرانے میں نہ دینا پڑیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں شادیاں
صرف رشتہ داروں میں ہوتی تھیں۔ان لوگوں کا رویہ دیکھ کر میں بڑا پریشان
ہوتا۔ افسوس تو اس بات کا ہوتا کہ ہمارے والد صاحب بھی اپنے بھائیوں کے
ہمنوا بن گئے تھے۔ ہم لوگوں کے باہر گھومنے پھرنے سے بھی یہ سب لوگ ناک
بھوں چڑہاتے، ہمارے لیے کوئی الگ سے کمرہ بھی نہ بنایا گیا تھا۔ ایک جگہ
خالی پڑی تھی وہاں والد صاحب نے ارادہ کیا کہ ہمارے لیے کمرہ بنادیا جائے۔
اس پر انکے بھائیوں نے اعتراض کردیا۔ اس طرح کچھ دنوں کے بعد ہی ہمارے والد
چچا تایا نے گھر کو تقسیم کرلیا۔ کچن تو پہلے ہی الگ الگ ہوگئے تھے۔ گھر کا
سارا کام بیوی کے سپرد کردیا گیا، کھانا پکانا، کپڑے دھونا، صفائی کرنا،
مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا۔ میں تو بھئی اپنی بیوی کی ہمت کی داد دیتا
ہوں۔ مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں کرتی تھی۔ سب کچھ برداشت کرتی رہتی تھی،
تاکہ گھر میں دنگا فساد نہ ہو، غریب گھر کی بیٹی اور کر بھی کیا سکتی تھی۔
سب گھر والوں کی غلامی اسکی قسمت میں لکھا تھا۔ میں بھی بڑا مجبور تھا۔ ہم
میاں بیوی اپنے گھر والوں سے اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ سیروتفریح کیلئے بھی
اکیلے نہ جاسکتے تھے۔ ہم دونوں گھر والوں کے سامنے اکٹھے ایک صوفے پر بھی
نہ بیٹھ سکتے تھے۔ چچا تایا کے بچوں اور اپنی بہنوں کو ساتھ لے جانا پڑتا
تھا۔ اگر کبھی نہ لے جاتے تو سب کے منہ پھول جاتے۔ مجھے باغات میں گھومنے
پھرنے کا بہت شوق تھا۔ بس ہماری سیر گاہ صرف باغات یا تاریخی مقامات ہوتے
تھے۔ ہماری شادی میں تصاویر بھی کوئی خاص نہیں بنی تھیں، کیونکہ اس زمانے
میں ایسا فیشن نہیں تھا، جیسا کہ آج ہے۔
بہرحال،ہمیں یہ شوق تھا کہ اپنی ایک تصویر یادگار کے طور پر سٹوڈیو سے
بنوائیں، مگر اسکے لیے بھی اکیلے جانا مشکل تھا، ساتھ بہن کی تصویر بھی
کھینچوائی گئی، اگر اسے شامل نہ کرتے تو والدین افسردہ ہوجاتے تھے، یعنی
میاںبیوی بھی اپنی مرضی سے اپنی تصویر نہیں بنواسکتے تھے۔گھر میں کافی
خوشحالی تھی۔ گاڑی تھی، ٹیلی فون تھا، جو کہ اس زمانے میں بڑی بات ہوتی
تھی، مگر ہماری بیوی اپنے گھر والوں کو فون بھی نہ کرسکتی تھی۔ ہماری بیوی
بے حد خوفزدہ رہتی تھی۔ اسی لیے وہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتی تھی جس
سے لڑائی جھگڑے ہوں۔ آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا، اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا
عطا کردیا۔ ماشاءاللہ تندرست و صحتمند اور خوبصورت تھا۔ اب ہمارے گھر میں
رونق آگئی تھی۔ اپنے غم کو بھول کر بیٹے کے پیار میں کھو گئے، گویا اللہ نے
ہمیں ایک کھلونا دیدیا تھا۔ سب گھر والوں کا رویہ ویسا ہی رہا۔ جیسا کہ میں
نے پہلے ذکر کیا تھا۔ ہمارا تایا زاد بھائی مجھ سے بڑا تھا، لیکن میری شادی
اس سے پہلے ہوگئی تھی، اس لیے تایا اور انکی فیملی ہم لوگوں سے سخت متنفر
تھے۔ وہ ہمارے بیٹے سے سخت نفرت کرتے تھے۔
اس وقت ایک واقعه یاد آرہا ہے۔ ’ہمارے چچا کا سب سے چھوٹا بیٹا ہمارے بڑے
بیٹے سے تقریباً ایک سال ہی بڑا ہوگا، جب ہمارا بیٹا چلنے پھرنے لگا تو وہ
اپنے چچا یعنی ہمارے چچا کے بیٹے کے ساتھ کھیل رہا تھا، کیونکہ گھر میں
اسکا ہم عمر اور کوئی نہ تھا، ہمارے تایا اپنے بھائی کے بیٹے کی انگلی پکڑ
کر لان میں اسے سیر کرانے لگے، انہوں نے ہمارے بیٹے پر کوئی توجہ نہیں دی،
حالانکہ میرا بیٹا چھوٹا تھا، وہ بےچارہ کھڑا معصومیت سے دیکھتا رہا، یہ
منظر دیکھ کر مجھے بے حد رنج ہوا اور میرے آنسو آگئے۔‘ اتنی شدید نفرت کرتے
تھے یہ سب لوگ میرے بچے سے۔ میرا بیٹا ایک سال کا ہوگیا۔ ہم میاں بیوی نے
اسکی پہلی سالگرہ منانے کا فیصلہ کیا۔ خوب تیاریاں کیں، کیک وغیرہ کا آرڈر
دیا گیا،رشتہ داروں کو بھی بلایا گیا، تاکہ اچھی رونق ہوجائے۔ کیک کاٹا
گیا، تصاویر بنائی گئیں، مگر ایک بات بہت بری لگی، ہمارے سگے والد اور
دوسری والدہ سمیت چچا چچی، تایا تائی وغیرہ کوئی بھی ہماری تقریب میں شامل
نہ ہوا، شاید وہ ہم دونوں میاں بیوی کو اکٹھا دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ انکو
بڑی شرم آرہی تھی، حالات میں تناؤ بڑھنا شروع ہوگیا۔ ہمارے چچا ہمارے سگے
والد کو ہمارے ہی خلاف خوب اکساتے تھے۔ یہاں تک کہ ہماری دادی جو ہم سے بہت
پیار کرتی تھیں وہ بھی متحدہ محاذ کا حصہ بن گئیں۔ ان لوگوں کو یہ غم کھائے
جارہا تھا کہ ایک غریب دشمن کی بیٹی ہمارے ہاں کیوں آرام اور سکون سے زندگی
گزارے۔
ایک اور واقعہ مجھے یاد آگیا، جس کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں جو کہ
ہماری شادی کے چند دن بعد ہی پیش آیا: ’ہمیں شکار کھیلنے کا شوق تھا، مگر
ہمارے پاس ذاتی بندوق نہیں تھی۔ گھر میں ہمارے چچا کے پاس ایک ائیر گن تھی
جو کہ دراصل مشترکہ جائیداد کا حصہ تھی۔ یعنی اس وقت خریدی گئی تھی جب ہم
لوگوں کا مشترکہ کاروبار تھا۔ میں نے چچا کے بیٹے سے کہا کہ وہ گن لے آئے ۔
ہم لوگ شکار پر جانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے والد سے جازت لینے چلا گیا۔ مگر
انہوںنے انکار کردیا ، مجھے بہت افسوس ہوا اور میں نے اسے بولا کوئی بات
نہیں ہم اپنی ایک گن خرید لیں گے۔پھر وہ واپس اپنے گھر گیا اور اپنے باپ کو
یہ بات بتائی۔ وہ بڑے سیخ پا ہوئے اور میرے پاس آکر یہ طعنہ دیا ::: کیا
تمہیں جہیز میں اتنے پیسے ملے ہیں جو تم گن خرید لو گے؟ ::: کہاں کی تان
کہاں نکالی!!!! ‘ اب آپ ہی انصاف کیجئے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ
یہ سب لوگ جہیز کے کتنے لالچی تھے۔ بہرحال، مجھے حالات سے سمجھوتا کرنا پڑا
کیونکہ میرے پاس تو کوئی راستہ ہی نہ تھا، کاش میں اس وقت اپنا ہی کوئی کام
یا نوکری وغیرہ کررہا ہوتا، تو شاید میں اپنا راستہ الگ کرلیتا۔ یہ لوگ
میری بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھتے تھے اور ہم لوگ حالات کی چکی میں پستے
جارہے تھے۔
ہمارے والد صاحب نے جو نیا کاروبار شروع کیا تھا اسمیں چچا کو بھی شامل
کرلیا تھا۔ وہ اپنا بھی الگ ذاتی کاروبار کر رہے تھے۔ جب ہمارا کاروبار خوب
چلنے لگا تو ہم لوگوں سے مال بٹورنا شروع کردیا اور اپنے ذاتی کاروبار کا
رونا روتے رہتے تھے۔ بس مجبوری تھی۔ وہ ہمارے سلیپنگ پارٹنر تھے۔ ایک وقت
آیا کہ میرے چھوٹے بھائی کو بھی کاوربار میں شامل کرلیا۔اس کے کچھ عرصے بعد
والد صاحب نے چچا کو کاروبار سے الگ کردیا کیونکہ اس کاروبار کو شروع کرنے
اور چلانے والے ہمارے ہی والد تھے۔ چچا تو محض سلیپنگ پارٹنر تھے۔ دوسرے ہم
دو بھائی بھی ورکنگ پارٹنر بن گئے۔ اس لیے کاروبار میں چچا کو شامل کرنے کا
کوئی جواز نہ تھا ۔ہم لوگ کل تین بھائی تھے۔ میں سب سے بڑا اور مجھ سے
چھوٹے دو بھائی، وہ دوسری والدہ سے تھے۔ اب والد اور چچا میں دشمنی کا آغاز
ہوگیا کیونکہ چچا کی مفت کی کمائی کا ذریعہ بند ہوگیا تھا۔ وہ میرے بدترین
دشمن بن گئے۔ انکا خیال یہ تھا کہ میں نے انکو کاروبار سے الگ کروایا ہے۔
یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہے، جب تک ہمارے چچا ہمارے بزنس پارٹنر
رہے، تب تک ہم لوگ ہی انکے اخراجات اٹھاتے رہے۔ مثال کے طور پر انکی بیٹیوں
کی شادی اور تعلیم کے تمام اخراجات، انکے بچوں کو اسکولوں سے لانا لیجانا
بھی میری ڈیوٹی تھی، انکے بچے بیمار ہوں تو میں ہی انکو لیکر ہسپتال جاتا
تھا۔ میری ڈیوٹی نوکروں کی طرح تھی۔ چچا کے ذمہ اس طرح کی کوئی ڈیوٹی نہیں
تھی۔
ہمارے کاروبار میں شامل رہ کر انہوں نے خوب عیش ہی عیش کیے، اتنی خدمات کے
باوجود اس شخص کا رویہ میرے ساتھ دشمنوں جیسا ہی رہا، جب سب سے چھوٹے تیسرے
بھائی کو کاروبار میں شامل کرلیا گیا، پھر میرے والد صاحب کا رویہ میرے
ساتھ دوبارہ تلخ ہونا شروع ہوگیا۔ مگر میں نے کوئی پرواہ نہ کی اور کاروبار
میں دل و جان سے شامل رہا۔ اب وہ وقت آگیا کہ تمام کاروباری معاملات میرے
پاس آگئے اور کاروبار خوب چلنے لگا۔ پھر والد صاحب مجھ سے کافی متاثر ہوئے
اور میری تعریف کرتے رہتے۔ پیسے کا کنڑول انہی کے پاس تھا۔ وہ مجھے تمام
معاملات سے باخبر رکھتے، اسی دوران دوکان کے مالک نے تنگ کرنا شروع کردیا،
وہ اپنی جائیداد بیچنا چاہتا تھا، مگر بہت زیادہ پیسے مانگ رہا تھا، کیونکہ
ہماری دوکان کرائے کی تھی۔ اس لیے معاملہ طے نہ ہوسکا۔ خیر ہم نے نزدیک ہی
ایک دوکان دیکھ لی اور خریدنے کا ارادہ کیا۔ پہلے تو والد صاحب اور چھوٹا
بھائی پرُجوش تھا مگر جب سودا وغیرہ ہونے لگا تو نہ معلوم کیوں دونوں پیچھے
ہٹ گئے!!!۔ انہوں نے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ اب میں اکیلا رہ گیا۔ میںنے
موقع سے فائدہ اٹھایا اور سودا طے کرکے ایڈوانس رقم دے دی۔ باقی رقم بھی
والد صاحب سے لیکر ادا کرکے قبضہ لے لیا۔ مگر افسوس، اس موقع پر کوئی بھی
میرے ساتھ نہ گیا، نہ والد صاحب نہ چھوٹا بھائی۔ مجھے اپنی دکان کے ملازم
کو لیجانا پڑا۔ مجھے آج تک وجہ سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ لوگ ایک دم پیچھے
کیوں ہٹ گئے تھے، حالانکہ دوکان ہم دو بھائیوں کے نام ہی خریدی گئی تھی۔
دوکان کافی پرانی تھی، اس لیے توڑ کر دوبارہ بنوائی گئی۔ یہ سارا کام بھی
میں نے اور ایک ملازم نے انجام دیا۔ اس کے بعد ہم لوگ نئی دوکان میں شفٹ
ہوگئے۔ والد صاحب بیمار رہنا شروع ہوگئے تھے۔ اس لیے اب دوکان پر کبھی کبھی
آتے تھے۔ دو تین سال بعد چھوٹے بھائی کا رویہ مجھ سے خراب رہنے لگا۔ اس نئی
دکان میں آنے سے پہلے ہی اسکی شادی بھی ہوچکی تھی۔ کاروبار میںمیری بالکل
مدد نہیں کرتا تھا اور سالوں مجھ سے بات چیت بھی نہیں کرتا تھا۔ میںنے والد
صاحب کو تمام معاملات کے بارے میں بتایا اور عرض کی کہ آپ بھی دوکان پر
تھوڑی دیر کے لیے آجایا کریں تاکہ آپ خود بھی سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ
لیا کریں۔ چند دن تو وہ آئے مگر پھر چھوڑ دیا۔ آخر میں نے الگ سے اپنی نئی
فرم بنالی۔ میر ی فرم کا دفتر بھی اسی بلڈنگ میں تھا۔ والد صاحب کو اس بات
کا بے حد افسوس ہوا۔ مگر انہوں نے مجھے منع نہ کیا۔ میں نے انکو بتایا کہ
مشترکہ کاروبار بھی چلاتا رہوں گا اور اپنا بھی کام کرونگا۔ مگر ایسا کرنا
میرے لیے مشکل ترین ہوگیا، کیونکہ کئی معاملات میں والد صاحب مجھ سے تعاون
نہیں کرتے تھے۔ انکو میرے نئے کاروبار سے سخت رنج تھا۔ مجبوراً مجھے اپنا
کاروبار بند کرنا پڑا۔ میں نے کوئی تین سال اپنا ذاتی کام کیا تھا۔ دراصل
میں نے بڑی مجبوری میں اپنا الگ کاروبار شروع کیا تھا اور اسکی وجہ بھائی
اور والد صاحب کا طرزعمل تھا۔ کیونکہ مشترکہ کاروبار اس طرح نہیں چلتے کہ
پارٹنر آپس میں بول چال ہی بند کردیں۔
ایک موقع ایسا بھی آیا کہ چھوٹے بھائی نے دوکان پر آنا جانا ہی بند کردیا۔
جب والد صاحب نے وجہ پوچھی تو بولے کہ میں کوئی اور کام کرنا چاہتا ہوں اور
کام کی تلاش میں ہوں۔ یہ بات والد صاحب ہی نے مجھے بتائی ۔ دراصل جب سے
چھوٹا بھائی کاروبار میں آیا تھا، والد صاحب کا رویہ اسی وقت سے بدلنا شروع
ہوگیا تھا۔ بلکہ ایک موقع تو ایسا بھی آیا تھا کہ والد صاحب نے مجھے چھوٹے
بھائی سے ذلیل بھی کروایا تھا۔ ہوا کچھ اس طرح تھا کہ میں چونکہ بڑا تھا،
میرے بچے بڑے ہورہے تھے اور مجھے مزید کمروں کی ضرور ت تھی۔ میں بیوی اور
تین بچے سب ایک ہی کمرے میں رہ رہے تھے۔ میں نے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ
کوئی پلاٹ وغیرہ خرید لیں تاکہ گھر بنا سکیں۔ میں نے یہ بھی کہا کہ چھوٹے
بھائیوں کو بھی آئیندہ جگہ کہ ضرورت پڑے گی اس لیے انکے لیے بھی پلاٹ خرید
لیں۔ جیسا کہ میںنے بتا یا تھا کہ ہم کل تین بھائی تھے ، دو کی شادی ہوگئی
تھی تیسرا ابھی کالج میں تھا۔ والد صاحب کو میرا یہ مشورہ برا لگا اور وہ
یہ سمجھتے کہ شاید میں الگ ہونا چاہتا ہوں۔ پہلے تو چھوٹے بھائی کو بلاکر
اسے میرے خلاف خوب اکسایا، پھربعد میں مجھے بلا کر اس سے ذلیل کروایا۔
چھوٹا بھائی والد کی آشیرواد سے اچھل اچھل کر مجھ سے بات کررہا تھا۔
حالانکہ میں اس سے تقریباً چھ سال بڑا ہوں گا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ایک
دن آئیگا جب تم بھی یہ مطالبہ کرو گے کیونکہ ایک ہی مشترکہ گھر میں اتنے
سارے افراد نہیں رہ سکتے۔ مگر وہ تو اسطرح برتاؤ کررہا تھا گویا کہ وہ بڑا
اور میں چھوٹا ہوں۔ یہ واقعہ اس سے پہلے کا ہے جب میں نے الگ سے اپنا
کاروبار شروع کیا تھا۔ میرے والد کے دماغ میں میرے خلاف اتنا بغض تھا کہ
ایک دن وہ فرمانے لگے کہ تم ’ میرے بچوں‘ کو مارنا چاہتے ہو۔ گویا کہ میں
انکا بیٹا نہیں تھا۔ یہاں انہوں نے ایک لکیر کھینچ دی تھی ’سگا اور
سوتیلا‘۔ میں ان حالات میں اتنا تنگ آگیا تھا کہ خودکشی کرنے کو جی چاہتا
تھا۔ دوسری والدہ صاحبہ کا رویہ بھی میری بیوی سے بہت امتیازی تھا۔ جب کسی
مہمان کو دعوت دینا ہوتی تو میری دوسری والدہ حساب لگاتیں کہ کس دن میری
بیوی کی کھانا پکانے کی باری ہے۔ بس اسی دن مہمان کو دعوت دیتی تھیں، اپنی
چھوٹی بہو کا بہت خیال رکھتی تھیں کہ اسے کوئی کام نہ کرنے پڑے۔ اب سب سے
چھوٹے بھائی کی بھی شادی ہوگئی تھی۔ جب سب سے چھوٹی بہو کی کھانا پکانے کی
باری ہوتی تو ساتھ خود بھی بیٹھ جاتیں اور روٹیاں پکانے میں مدد کرنے
لگتیں۔ والد صاحب بھی ایسا ہی طرزعمل رکھتے۔ ہم لوگ دوپہر کو جب سورہے ہوتے
تو ہماری بیوی ہی کو جگا کر چائے بنواتے اور کسی بہو سے کبھی کچھ نہ کہتے۔
مجھے تو کبھی کبھی ایسا لگتا تھا کہ شاید یہ میرے سگے باپ نہیں بلکہ سوتیلے
باپ ہیں۔ میں تو اپنی شادی کا ذکر کر ہی چکا ہوں۔ نہ کوئی بینڈ نہ کوئی
باجا،نہ ہی تصاویر، بالکل سادگی سے ہوئی۔ لیکن اپنے دو سگے بیٹوں یعنی میرے
دو سوتیلے بھائیوں کی شادیاں بڑی دھوم دھام سے کیں۔ ایک کی شادی میں تو
فوجی بینڈ بھی آیا اور دوسرے کی شادی پر بھی بے دریغ پیسہ خرچ کیا۔
ایک واقعہ سناتا ہوں جو میرے سینے پر کنندہ ہوگیا ہے۔ ’جب میرے منجلے بھائی
کی شادی ہورہی تھی تومیں خود وڈیو بنا رہا تھا، کیونکہ مجھے فوٹوگرافی کا
کافی شوق تھا۔ میرے پاس مووی کیمرہ تھا۔ اس زمانے میں کمرشل مووی نہیں بنتی
تھی۔ یعنی اس وقت وی سی آر والے کیمرے پاکستان نهیں آۓ تھے۔ یہ صرف
پروجیکٹر والا ساونڈلیس مووی کیمرہ تھا۔ اتفاق سے میرے کیمرے کا سیل خراب
ہوگیا۔ میرے ساتھ ایک اور ایکسپرٹ بھی تھے، انہوں نے جلدی سے سیل نکال کر
کپڑے سے خوب صاف کیا تاکہ کسی طرح مووی بن جائے، مگر کیمرہ تھوڑا چلتا اور
پھر بند ہوجاتا۔ اب دیکھیے ہمارے والد محترم کیا فرماتے ہیں ::: کہنے لگے
کہ اسے (یعنی مجھے) یہ غم ہے کہ اسکی شادی میں مووی نہیں بنی تھی اِسی لیے
اِسنے جان بوجھ کر کیمرہ خراب کردیا ::: اس بات سے آپ خود اندازہ لگا لیں
کہ آیا وہ مجھے سگا بیٹا تسلیم کرتے تھے یا سوتیلا۔ ایک تو میں مووی بنا
رہا تھا جو میرا کام نہیں تھا، دوسرا ملزم بھی میں ٹھہرایا جارہا تھا۔ اگر
والد صاحب کو اتنا شک و شبہ تھا تو پہلے کسی ایکسپرٹ کا انتظام کر لیا ہوتا
اور اپنی مرضی کی فلم بنوالیتے۔ ‘
سب سے چھوٹا تیسرا بھائی بھی کاروبار میں شامل ہوگیا تھا۔ میرے ساتھ وہ
اچھی طرح پیش آتا تھا۔ جیسا میں کہوں ویسا ہی کرتا تھا۔ میںنے اسکو بھی
کاروبار کے ایک شعبے سے منسلک کردیا۔ مگر جیسے ہی اسکی شادی ہوئی وہ بدلنا
شروع ہوگیا۔ والد صاحب دونوں چھوٹے بھائیوں سے مشورے کیا کرتے تھے اور مجھ
سے فاصلے بڑھانے لگے۔ اسی طرح اب ہم لوگوں کے درمیان تناو کافی بڑھ گیا اور
کاروبار زوال پذیر ہونا شروع ہوگیا۔ والد صاحب بھی بیمار رہنے لگے اور پھر
فوت ہوگئے۔ والد صاحب کی وفات کے بعد میں نے سب سے چھوٹے بھائی کو بھی
پارٹنر بنا لیا، کیونکہ پہلے وہ پارٹنر نہیں تھا۔ حالانکہ منجلا بھائی
مخالفت کررہا تھا۔ ہم بھائیوں نے والد صاحب کا کاروباری حصہ پورے کا پورا
سب سے چھوٹے بھائی کو دے دیا اور اسکو پارٹنر بھی بنا لیا۔ اب اس کا حصہ ہم
سب سے زیادہ ہوگیا۔ گوکہ نئی پارٹنرشپ ڈیڈ لکھی گئی۔ اب ہم لوگ برابر کے
حصے دار تھے۔ ابھی نئی فرم کو قائم ہوئے فقط چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ اسی سب
سے چھوٹے بھائی نے اپنے بڑے بھائی سے ملکر شور مچانا شروع کردیا کہ فرم ختم
کرو اور اپنے اپنے حصے بانٹو۔ دوکان بیچو اور ہمیں حصہ دو۔ میں بڑا حیران
ہوا کہ اسے کیا ہوگیا ہے۔ میں نے دونوں کو سمجھایا کہ اتنے جلدی کیوں
کاروبار ختم کررہے ہو لوگ کیا کہیں گے، مگر میری آواز صدا بصحرہ ثابت ہوئی۔
میں یہ واضح کردوں کہ دوکان میرے اور منجلے بھائی کے نام تھی، اس میں کسی
کا حصہ نہیں بنتا تھا۔ گھر میں ہمارے چچا بہکانے والوں میں پیش پیش تھے۔
ساتھ ہی سب سے چھوٹے بھائی کے سسرال والے بھی میرے ان دونوں بھائیوں کے کان
بھر رہے تھے۔ بلکہ وہ تو بہت ہی خطرناک ترین لوگ تھے۔ جادو ٹونہ تعویزات و
عملیات کرنے کرانے والے لوگ اور انکا تو ایک ایسا جادوگر بھی واقف تھا جو
پیسے ہی کام ہونے کے بعد لیتا تھا۔ وہ کالا علم میں بہت ماہر تھا۔ اس کا
نام سجاد عرف سجادہ تھا۔ میرے اردگرد گھیرا تنگ ہونا شروع ہوگیا اور بالآخر
مجھے دوکان بیچنا ہی پڑی۔
دراصل میرے خلاف یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ کیونکہ دونوں چھوٹے بھائی
کوئی نیا کاروبار کرنا چاہتے تھے۔ صرف میں ہی پرانا کاروبار کرنا چاہتا
تھا۔ اس لیے انہوںنے سوچا کہ جب دوکان بک جائے گی تو اس کے (یعنی میرے )
پاؤں کٹ جائیں گے، یہ کہیں کا نہ رہے گا۔ میں نے بڑی محنت سے دوکان خریدی
اور بنوائی تھی۔ اس کے بیچنے کا غم سوائے میرے اور کس کو ہوسکتا تھا۔ وہ
بھائی جس نے دوکان خریدنے اور قبضہ لینے میں میری کوئی مدد نہیں کی تھی اب
بیچنے میں آگے آگے تھا۔ حالانکہ وہ خود بھی آدھے حصے کا مالک تھا۔ مزے کی
بات یہ ہے کہ سب سے چھوٹا بھائی جس نے یہ سازش تیار کی تھی ، یہ ظاہر کررہا
تھا کہ گویا اسے دوکان بیچنے کا بہت غم ہو اور میں نے اسکو دوکان بکنے پر
آنسو بہاتے دیکھا۔ کتنا چالاک آدمی تھا یہ !!!!۔
اس تمام کارروائی کے دوران بھی منجلا بھائی مجھ سے بات نہ کرتا تھا۔ بس
یہیں سے میری تباہی کا آغاز ہوگیا۔ میں کوئی اور کام بھی نہ کرسکا ۔ بچوں
کو میں نے نوکریوں کی طرف راغب کردیا۔ بڑا بیٹا ڈاکٹر بن گیا، اسکو اچھی
نوکری مل گئی ، چھوٹا بھی نوکری پر لگ گیا۔ اب دونوں کی شادیاں کردی ہیں۔
صرف سب سے چھوٹا بیٹا رہ گیا ہے۔ ہزاروں کوشش کے باوجود بھی اسکو کہیں
نوکری نہیں مل رہی، یہی غم مجھے کھائے جارہا ہے۔
گھر والدین کا تھا جس میں سے کچھ حصہ مجھے مل گیا تھا۔ مگر یہاں سکون بالکل
نہیں تھا۔ مجبوری میں گزارہ کررہے تھے۔ گھر میں ہر وقت پریشانی رہتی تھی۔
میں نے وقت گزارنے کے لیے ایک جگہ نوکری کرلی تھی۔ فرم کا مالک میرا جاننے
والا تھا۔ میرے پاس چونکہ تجربہ تھا اس لیے انہوں نے مجھے اپنی فرم میں جگہ
دے دی تھی۔ وہ میرے حالات دیکھ کر بہت تعجب کرتے تھے کہ یہ سب کچھ کیسے
ہوگیا۔ لوگ ہمیں ’سیٹھ صاحب‘ کہتے تھے اور مارکیٹ میں بے حد عزت تھی۔ ہم
کبھی سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ حالات ایک دم اتنے خراب ہوجائیں گے کہ مجھے
نوکری کرنی پڑے گی۔ کبھی کبھی فرم کے مالک سے بھی گھریلو حالات پر بات چیت
ہوجاتی تھی۔ وہ میری بے حد عزت کرتے تھے۔ مگر کبھی کبھی وہ کچھ ایسی باتیں
بھی کہہ جاتے تھے کہ جس سے دل کو ایک جھٹکا سا لگتا تھا اور میں اپنے آپ کو
کوسنے لگتا تھا۔ ایک دن مجھے کہنے لگے کہ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا ہے کہ
تمہاری کوئی ’بیٹی‘ نہیں ہے۔ مجھے اس طعنے کا بے حد رنج ہوا۔ کیا یہ میرے
اختیار میں تھا؟ دنیا میں میری طرح کتنے لوگ ہونگے جن کے ہاں کوئی بیٹی
نہیں ہے اور ماشاءاللہ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ میںنے تو کئی ایسے
خاندانوں کو دیکھا اور سنا ہے کہ انکے ہاں ایک بھی بیٹا نہیں ہے، صرف
بیٹیاں اور وہ بھی دس دس بارہ بارہ، مگر وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
میرا تو یہ ایمان ہے کہ بیٹا ہو یا بیٹی اسمیں انسان کا کوئی اختیار نہیں
ہے اور اگر اسکے ہاں بیٹی پیدا نہیں ہوتی تو رزق تو اللہ ہی نے دینا ہے۔
ایسی باتیں عموماً وہ لوگ ہی کرتے ہیں جن کو اللہ نے بیٹیوں سے نوازا ہو۔
ہمارے دفتر میں جہاں میں نوکری کرتا تھا، یہ بات پورے سٹاف کو معلوم ہوگئی
تھی، وہ لوگ بھی جانتے بوجھتے ہوئے مجھ سے بار بار یہی سوال کرتے تھے کہ
آپکے کتنے بچے ہیں؟ جب میں انہیں بتاتا کہ میرے تین بیٹے ہیں، تو وہ تعجب
سے پوچھتے کوئی بیٹی نہیں ہے؟ مجھے ان لوگوں کی باتوں سے سخت مایوسی ہونے
لگی تھی۔ میں تو اپنا غم بھلانے دفتر آتا تھا، مگر یہاں مجھے پریشان کیا
جانے لگا تھا۔ گھرمیں بھی پریشانی بڑھنے لگی۔ بچوں کی شادی کے بعد بہوؤں نے
گھر کے کام کاج میں اپنی ساس یعنی میری بیوی کا کوئی ہاتھ نہ بٹایا، دو دو
بہوؤں کے ہونے کے باوجود میری بیوی کو گھر کے سارے کام بڑھاپے میں خود کرنے
پڑتے تھے۔ دراصل آج کل کى بہٶ، بہٶ نہيں هوتى بلکه بهٶ ہوتى ہے۔ جب میری
بیوی بہو بن کر آئی تھی تو اس وقت بھی اسکو سارے کام کرنا پڑے اور اب بھی
خودکرنے پڑتے ہیں۔ معلوم نہیں کن گناہوں کی سزا مل رہی تھی۔ چھوٹے بیٹے کی
مجھے بے حد فکر لگی رہتی تھی۔ اسکی گھر میں کوئی عزت نہیں تھی، اسکو تو
کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا کیونکہ وہ بے روزگار تھا۔ اب میں
دفتری حالات سے بھی تنگ آگیا تھا اور گھریلو پریشانیوں سے بھی ۔ ہمارے گھر
کو ایسی نظر بد لگ گئی تھی کہ حالات درست ہی نہیں ہونے پہ آرہے تھے۔ بچوں
میں ناچاقی بڑھنے لگی تھی۔ اس لیے میں نے الگ رہنے کا ارادہ کرلیا۔ ستوکی
گاؤں میں ہم لوگ پہلے بھی رہ چکے تھے اور لوگ بھی واقف تھے، اسلیے یہاں میں
نے ایک چھوٹا سا مکان خرید لیا ہے ۔ میں بیوی اور چھوٹا بیٹا یہاں شفٹ
ہوگئے ہیں۔ نوکری چھوڑ دی ہے۔ یہاں آکر ہم لوگوں نے گھر میں ہی بچوں کو
تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ کافی بچے آجاتے ہیں انکو دینی و دنیاوی
تعلیم دی جاتی ہے۔ درود و سلام کی محفلیں بھی ہوتی ہیں، ذکر و اذکار بھی
ہوتا ہے۔ قصور میںبزرگ کے مزار پر بھی باقاعدہ حاضری دیتا ہوں، محفل سماع
میں شرکت بھی کرتا ہوں۔ چھوٹا بیٹا بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دیتا ہے۔ بس
یہی ہماری آمدنی کے ذریعے ہیں۔ جو مل جائے روکھی سوکھی کھا لیتے ہیں۔ اللہ
سے دعا کرتا رہتا ہوں چھوٹے بیٹے کی بھی شادی ہوجائے تاکہ اس فرض سے بھی
سبکدوش ہوجائیں۔ ہمیں ایک اچھی اور نیک بہو چاہیے اور کچھ نہیں، جو ہماری
بیٹی بن کررہے ۔روتا اس لیے ہوں کہ ہم لوگوں نے زندگی بھر دکھ درد اٹھائے
اور ہمارے اپنے بھی ہمارے کام نہ آئے۔ حج کرنے کی تمنا تھی، وہ بھی پوری نہ
ہوسکی۔
جب ہم بھائی الگ الگ ہوئے، میں نے اپنا کاروبار شروع کرنے کی کافی کوشش کی،
مگر ہر دفعہ ناکام رہا۔ میرے دل میں ہر وقت ایک خوف سا رہتا تھا۔ بچے اس
وقت زیرتعلیم تھے اور چھوٹے تھے۔ جب ہم بھائیوں کا مشترکہ کاروبار ختم ہوا
اس وقت پیسہ بہت محدود تھا۔ پھر بھی کئی کاروبار کیے مگر ہر بار ناکام رہا۔
جب ہم بھائیوں کا مشترکہ کاروبار تھا اس وقت میں بہت ہمت والا اور کاروبار
کا مرکزی کردار تھا۔ مگر علیحدگی کے بعد نہ جانے کیا ہوگیا تھا کہ دل میں
ہر وقت ایک انجانا سا خوف رہنے لگا تھا۔ کئی بار روحانی علاج بھی کروایا
مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ عاملوں کو بھی دکھا ڈالا مگر حالات جوں کے توں ہی
رہے۔ میر ی قوت ارادی کم سے کم تر ہوتی چلی گئی کسی نے مجھے یہ بھی بتایا
کہ تم پر کافی پرانے جادو کا اثر ہے۔ جب تاریخ کا حساب لگایا گیا تو یہ وہی
تاریخ بنتی تھی جب میں نے والد صاحب کی زندگی میں اپنا الگ کاروبار شروع
کیا تھا اور پھر بعد میں جلد ہی وہ کاروبار بند کردیا تھا۔ کیونکہ والد
صاحب ناراض ہوگئے تھے۔ کسی نے مجھے یہ بھی بتایا کہ تمہیں ایک بہت بڑے حصے
سے محروم کردیا گیا ہے۔ مجھے یا د آرہا ہے کہ ایک دفعہ سب سے چھوٹے بھائی
نے مجھ سے والد صاحب کی وفات کے بعد ایک سادہ کاغذ پر دستخط کروائے تھے اور
یہ کہا تھا کہ یہ لیٹر بینک مینیجرخود لکھ لے گا۔ بینک میں اباجی کا اکاونٹ
تھا وہاں سے پیسے نکلوانے تھے۔ مجھے یہ بتایا کہ تھوڑی سی رقم ہے۔ میں نے
بلا چوں و چرا دستخط کردیئے تھے۔ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ اس میں کتنی رقم
تھی۔ دوسرا واقعہ بھی اسی طرح کا ہے، یہی سب سے چھوٹے بھائی نے ابا جی کی
حیات میں ایک کورے کاغذ پر میری بیوی سے دستخط کروائے تھے اور یہ کہا تھا
کہ بینک سے ایک سرٹیفکیٹ کیش کروانا ہے جو کہ میری بیوی کے نام تھا۔
درخواست میں یہ لکھنا ہے کہ ذکوٰة نہ کاٹی جائے۔ جب میں گھر آیا تو بیوی نے
مجھے یہ بات بتائی۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ میری غیر موجودگی میں بیوی سے
کورے کاغذ پر دستخط کیسے کروالیے۔ اب چونکہ والد صاحب حیات تھے اس لیے
خاموش رہا۔ عامل کی بات پر مجھے یہ دو واقعات یاد آگئے۔ خیر، مجھے اب اسکا
رنج نہیں ہے۔ جس کی قسمت میں جتنا ہوتا ہے اتنا ہی ملتا ہے۔ مگر مجھے افسوس
اس بات کا ہے کہ بچوں کو کاروباری نہ بنا سکا۔ نوکریوں کی وجہ سے بچے تقسیم
ہوگئے اور سب کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ اب بڑھاپے میںسزا بھگت رہا ہوں۔ مو ت کی
دعائیں کرتا رہتا ہوں، مگر وہ بھی دور بھاگتی جارہی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ
بھی سوچتا ہوں کہ کاش میں نے شادی ہی نہ کی ہوتی۔ شادی نہ کرنے سے سب لوگ
خوش رہتے ہیں اور پھر یہ ساری کہانی جنم ہی نہ لیتی۔
نوکریوں کی وجہ سے دو بیٹے اپنی فیملی کے ساتھ لاہور ہی میں رہتے ہیں، گھر
کا جو حصہ مجھے ملا تھا وہ وہیں مقیم ہیں۔ کبھی کبھی بیٹے ہم لوگوں سے
ملاقات کےلئے آجاتے ہیں۔ بڑے بیٹے کے دو بچے ہیں ایک بیٹی اور ایک بیٹا۔
بڑے ہی پیارے بچے ہیں۔ میں آپکو بتا نہیں سکتا کہ ہم لوگ اپنے پوتا پوتی کے
بغیر کیسے زندگی گزار رہے ہیں۔یہ ہماری آنکھوں میں ہر وقت بسے رہتے ہیں۔
بچے بھی ہم لوگوں سے بے حد مانوس ہیں۔ اب ہمیں بیٹوں کی زبانی معلوم ہوا ہے
کہ گھر میں آسیب ہے۔ چیزیں غائب ہوجاتی ہیں۔ بڑے عالم دین اور عاملوں سے
رجوع کیا۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ گھر چھوڑ دو۔ آخر ہمیں تنگ کرنے کا مقصد کیا
ہے؟ معلوم ہوا ہے کہ گھر پر کوئی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمیں تنگ کیا
جا رہا ہے۔ آخر تنگ آکر بیٹوں نے گھر کو خیر باد کہہ دیا ہے اور کرائے کا
گھر حاصل کرلیا ہے۔ گھر میں تالے لگا دیئے تھے۔ میںتو بالکل اس گھر میں
نہیں جاتا۔ دو ڈھائی سال بعد بچے گھر کی خبر لینے گئے تو دیکھا کہ
بھائیوںنے گھر پر قبضہ کرلیا ہے۔ ایک بھائی نے اوپر والے حصے پر اور دوسرے
نے نیچے والے حصے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ہمارے گھر کی تقسیم کوئی تحریری شکل
میں نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے جعلی کاغذات بنوالیے ہیں اور یہ ظاہر کردیا ہے
کہ ہم نے اپنا حصہ انہیں بیچ دیا ہے۔ چچا اور تایا بھی ان لوگوں کو سپورٹ
کررہے ہیں۔ ہم لوگوں میں اتنی طاقت بھی نہیں ہے کہ اپنے حقوق کی حفاظت
کرسکیں۔ اب ہم نے اس کو بھی اللہ کی مرضی جان کر خاموشی اختیار کرلی ہے۔
مجھے قوی امید ہے کہ اللہ ہی اس کا حساب کتاب لے گا۔ کیونکہ میرا ایمان ہے
کہ اللہ ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیتا ہے۔ میں تو ہمیشہ اللہ ہی سے مدد مانگتا
رہتا ہوں۔ بس اسی طرح زندگی کے دن پورے کر رہا ہوں۔ بس یہی میری کہانی ہے۔
“
میں نے دیکھا کہ باباجی کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ بابا جی کی یہ روداد
تقریباً تین دن بعد ختم ہوئی۔ یہ واقعات سنتے سنتے میرے بھی آنسو آجاتے
تھے۔ مجھے بابا جی سے بے حد پیار ہوگیا تھا اور میںنے انہیں اپنے باپ کا
درجہ دے دیا تھا۔ اتفاق سے میرے بھی ماں باپ نہیں ہیں۔ میرے ماں باپ تو
بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ میں نے بابا جی سے درخواست کی کہ اب وہ میرے
پاس ہی رہا کریں مگر وہ نہ مانے، کہنے لگے کہ میں کسی پر بوجھ نہیں بننا
چاہتا۔ ہاں! کبھی کبھی آجایا کروں گا۔ میں نے باباجی کی ہمت بندھائی ” اللہ
پر بھروسہ کریں، اللہ ضرور آپکو اور آپکے بیوی بچوں کو خوشیاں دے گا“۔
باباجی نے کہا کہ کچھ اپنے بارے میں بھی تو بتاؤ، کہاں کے رہنے والے ہو،
کیا کام کرتے ہو؟ ماں باپ بہن بھائیوں کے بارے میں بتاؤ۔ میں نے ان سے وعدہ
کیا کہ پھر کسی وقت اپنے بارے میں ضرور بتاؤں گا۔ |