دفعہ 106 کے تحت کیسے قادیانی و لاھوری گروپ "غیرمسلم اقلیت" قرارپائے

1974ء -- قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو۔۔
مفتی محمود فرماتے ہیں کہ ایسے میں اراکین اسمبلی کو قادیانیوں و مرزائیوں کے بارے انکی اصل حقیقت پر قائل کرنا آسان کام نہیں تہا یعنی

”یہ مسئلہ بہت بڑا اور مشکل تہا“

اس موقع پر پورے ایوان کی طرف سے مفتی محمود کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اور مفتی محمود نے راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا،حوالے نوٹ کئے، سوالات ترتیب دیئےاور اس نتیجے میں قادیانیت مرزائیت کیخلاف مکمل کامیابی پہلے ہی دن مل گئی۔

مناظرہ طے تھا اور اب سوالات مفتی محمود کی طرف سے اور جوابات مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے جو ھوئے وہ بالترتیب یہ تھے 👇

👈سوال۔: مرزا غلام احمد کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟

👈 جواب : وہ امتی نبی تہے۔امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپ کے کامل اتباع کی وجہ سے نبوت کا مقام حاصل کر لے۔

👈 سوال : اس پر وحی آتی تہی؟

👈 جواب : آتی تہی۔

👈 سوال : (اس میں) خطا کا کوئی احتمال؟

👈 جواب : بالکل نہیں۔

👈 سوال : مرزا قادیانی نے لکہا ہے جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا“ خواہ اس کو میرا نام نہ پہنچا ہو (وہ) کافر ہے۔پکا کافر۔دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اس عبارت سے تو 70 کروڑ مسلمان سب کافر ہیں؟

👈 جواب : کافر تو ہیں لیکن چہوٹے کافر ہیں“جیسا کہ امام بخاری نے اپنے صحیح میں ”کفردون کفر“ کی روایت درج کی ہے۔

👈 سوال : آگے مرزا نے لکہا ہے۔پکا کافر؟

👈 جواب : اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔

👈 سوال : اس آگے لکہا ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔حالانکہ چہوٹا کفر ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے؟

👈 جواب : دراصل دائرہ اسلام کے کئی کٹیگیریاں ہیں۔اگر بعض سے نکلا ہے تو بعض سے نہیں نکلا ہے۔
سوال ایک جگہ اس نے لکہا ہے کہ "جہنمی" بہی ہیں؟

نوٹ : (یہاں مفتی محمود فرماتے ہیں جب قوی اسمبلی کے ممبران نے جب یہ سنا تو سب کے کان کہڑے ہوگئے کہ اچہا ہم جہنمی ہیں اس سے ممبروں کو دہچکا لگا)

اسی موقع پر دوسرا سوال کیاگیا کہ:

👈 مرزا قادیانی سے پہلے کوئی نبی آیا ہے جو امتی نبی ہو؟ کیا صدیق اکبر ؓ یا حضرت عمر فاروق ؓ امتی نبی تہے؟

👈 جواب : نہیں تھے۔

👈 اس جواب پر مفتی محمود کا سوال یہ کہ پہر تو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد آپ کا ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا؟
بس فرق یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت ختم سمجہتے ہیں اور تم مرزا غلام قادیانی کے بعد نبوت ختم سمجہتے ہو۔
تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام قادیانی ہے۔
اور ہمارے خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

👈جواب : وہ فنا فی الرسول تہے۔

یہ ان کا اپنا کمال تہا کہ وہ عین محمد ہوگئے تہے (معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوسکتی تہی)

👈سوال : مرزا غلام قادیانی نے اپنے کتابوں کے بارے میں لکہا ہے۔ اسے ہر مسلم محبت و مودت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔ اور ان کے معارف سے نفع اٹہاتا ہے۔ مجہے قبول کرتا ہے۔اور(میرے) دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔مگر (ذزیتہ البغایا) بدکار عورتوں کی اولاد وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا رکہی ہے۔وہ مجہے قبول نہیں کرتے؟

👈 جواب : بغایا کہ معنی سرکشوں کے ہیں۔

👈 سوال : بغایا کا لفظ قرآن پاک میں آیا ہے” و ما کانت امک بغیا“ سورہ مریم)
ترجمہ : تیری ماں بدکارہ نہ تہی“

👈 جواب : قرآن میں بغیا ہے۔بغایا نہیں۔

👈 مرزا طاھر قادیانی کے اس جواب پر مفتی محمود نے فرمایا کہ صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔نیز جامع ترمذی شریف میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بہی مذکور ہے یعنی ”البغایا للاتی ینکحن انفسہن بغیر بینہ“ )پھر جوش سےکہا) میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ بغیہ کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہر گز نہیں کر کے دکہا سکتے۔!!!

👈(اور مرزا طاہر لاجواب ہوا یہاں)👉

13 دن کے سوال جواب کے بعد جب فیصلہ کی گہڑی آئی تو 22 اگست1974 کو اپوزیشن کی طرف سے 6 افراد پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔جن میں مفتی محمود ، شاہ احمدنورانی، پروفیسر غفور احمد صاحب، چودہری ظہور الہی صاحب، مسٹر غلام فاروق، سردار مولا بخش سومرو اور حکومت کی طرف سے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ تہے انکے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ یہ آئینی و قانون طور پر اس کا حل نکالیں۔تاکہ آئین پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قادیانیوں مرزائیوں کو "کافر" کو درج کردیا جائے۔
لیکن اس موقع پر ایک اور مناظرہ منتظر تہا۔۔۔۔۔

👈 کفرِ قادیانیت و لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح 13 دن تک جاری رہی۔

11 دن ربوہ گروپ پر.

2 دن لاہوری گروپ پر۔

ہر روز 8 گھنٹے جرح ہوئی۔

👈 اس طویل جرح و تنقید نے قادیانیت کے بھیانک چہرے کو بےنقاب کر کے رکھ دیا۔
👈 اس کے بعد ایک اور مناظرہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے شروع ہوا کہ آئین پاکستان میں اس مقدمہ کا ”حاصل مغز “کیسے لکھا جائے؟
مسلسل بحث مباحثہ کےبعد ۔۔

👈 22 اگست سے 5 ستمبر 1974 کی شام تک اس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے۔مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔ سب سے زیادہ جہگڑا دفعہ 106 میں ترمیم کے مسئلے پر ہوا۔حکومت چاہتی تھی اس میں ترمیم نہ ہو کیونکہ دفعہ 106 کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی تہی۔

ایک سیٹ بلوچستان میں۔
ایک سیٹ سرحد میں۔
2 سیٹیں سندھ میں۔
3 سیٹیں پنجاب میں۔

علاوہ کچھ 6 اقلیتوں کے نام بہی لکہےتھے۔

👈 عیسائی۔
👈 ہندو۔
👈 پارسی۔
👈 بدھ مت
👈 شیڈول کاسٹ اچہوت۔

مفتی محمود اور دیگر کمیٹی کے ارکان یہ چاہتے تہے کہ ان 6 کی قطار میں " قادیانیوں " کو بہی شامل کیا جائے تاکہ کوئی "شبہ" باقی نہ رہے اس موقع پر مفتی محمود نے کہا جب اور اقلیتوں اور فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو قادیانیوں اور مرزائیوں کا نام بہی لکھ دیں۔

👈 وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے جواب دیا کہ ان اقلیتوں کا خود کا مطالبہ تہا کہ ہمارا نام لکھا جائے جبکہ مرزائیوں کی یہ ڈیمانڈ نہیں۔

👈 مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو تمہاری تنگ نظری اور ہماری فراخ دلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان مرزائیوں کو بغیر ان کی ڈیمانڈ کے انہیں دے رہے ہیں (کمال جواب)

اس بحث مباحثہ کا 5 ستمبر کی شام تک قائم شدہ "کمیٹی" کوئی فیصلہ ہی نہ کرسکی چنانچہ 6 ستمبر کو وزیراعظم ذوالفقار علی بہٹو نے مفتی محمود سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم منسٹر ہاوس بلایا لیکن یہاں بہی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔

بڑے بحث و مباحثہ کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بہٹو نےاس حوالے سے کچھ وقت لیا۔

عصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے مفتی محمود اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔

👈 مفتی محمود اور کمیٹی نے وہاں بہی اپنے طےشدہ پرانے موقف کو دہرایا کہ دفعہ 106 میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مرزائیوں کا نام بھی لکہاجائے اور اس کی تصریح کی جائے اور بریکٹ میں (قادیانی اور لاہوری گروپ) لکہا جائے۔

وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ مرزائی اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے بلکہ احمدی کہتے ہیں۔

👈 مفتی محمود صاحب نے کہا کہ : احمدی تو ہم ہیں ہم ان قادیانیوں اور مرزائیوں کو احمدی تسلیم نہیں کرتے۔پہر تجویز کیا کہ ان مرزائیوں قادیانیوں کو مرزا غلام احمد کے پیرو کار لکھ دو۔

👈 وزیرقانون نے نکتہ اٹہایا کہ آئین میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا (حالانکہ محمد علی جناح کا نام آئین میں موجود ہے)
👈 مفتی محمود نے جواب دیا کہ شیطان۔ ابلیس۔ خنزیر اور فرعون کے نام بھی تو قرآن پاک میں موجود ہیں۔کیا ان ناموں سے نعوذ باللہ قرآن پاک کی صداقت و تقدس پر کوئی اثر پڑا؟

👈 اس موقع پر وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ "چلیں ایسا لکھ دیتے ہیں کہ جو لوگ اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔

👈 مفتی محمود نے کہا بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکہتا ہے۔صرف وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔لہذا یوں لکھ دیا جائے کہ قادیانی گروپ۔لاہوری گروپ یہ دو عدد گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں۔

👈👈 اور پہر الحمدللہ بالآخر اس پر فیصلہ ہوگیا۔

👈 یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا۔

👈 7 ستمبر 1974ء اسلامی جمہوریہ ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تہا جب 1953ء اور 74ء کے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا اور قومی اسمبلی نے ملی امنگوں کی ترجمانی کی۔ عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دیا اور 👈 قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا 👉

👈 دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا کہ :
👈 ”جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکہتا ہو۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بہی معنی و مطلب یا کسی بہی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو وہ آئین و قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں 👉

👈 یوں دفعہ 106 کی نئی شکل کچھ یوں بنی۔۔ 👇

بلوچستان پنجاب سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لیے مخصوص نشستیں ہوں گی جو عیسائی۔ہندو سکھ۔بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانیوں گروہ یا لاہوری افراد( جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکہتے ہیں۔
(ان قادیانیوں مرزائیوں کی) بلوچستان میں ایک نشست۔ سرحد میں ایک نشست۔ پنجاب میں 3 سیٹس۔ سندھ میں 2 سیٹیں ہوں گی۔

👈 یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر آج بھی موجود ہے کہ اس ترمیم کے حق میں 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بہی ووٹ نہیں آیا۔

اس موقع پر اس مقدمہ کے قائد مفتی محمود نے فرمایا۔۔ 👇

اس فیصلے پر ساری قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔
مرزائیوں قادیانیوں کو اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیئے کیونکہ اب انہیں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں گے اور فرمایا کہ سیاسی طور پر تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ (ملک کے ایسے) الجھے ہوئے مسائل کا حل بندوق کی گولی میں نہیں۔بلکہ مذاکرات کی میز پر ملتے ہیں

*(نوٹ) احباب سے لائیک کمنٹس کی حاجت ھرگز نہیں مگر مؤدبانہ گزارش ہے کہ ختم نبوت بارے اس آگاہی مہم کو زیادہ سے زیادہ شیئر کیاجائے، تحریر : میاں خالد جمیل

عنوان : دفعہ 106 کے تحت قادیانی و لاھوری گروپ "غیرمسلم اقلیت" قرار

1974ء -- قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو۔۔
مفتی محمود فرماتے ہیں کہ ایسے میں اراکین اسمبلی کو قادیانیوں و مرزائیوں کے بارے انکی اصل حقیقت پر قائل کرنا آسان کام نہیں تہا یعنی

”یہ مسئلہ بہت بڑا اور مشکل تہا“

اس موقع پر پورے ایوان کی طرف سے مفتی محمود کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اور مفتی محمود نے راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا،حوالے نوٹ کئے، سوالات ترتیب دیئےاور اس نتیجے میں قادیانیت مرزائیت کیخلاف مکمل کامیابی پہلے ہی دن مل گئی۔

مناظرہ طے تھا اور اب سوالات مفتی محمود کی طرف سے اور جوابات مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے جو ھوئے وہ بالترتیب یہ تھے 👇

👈سوال۔: مرزا غلام احمد کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟

👈 جواب : وہ امتی نبی تہے۔امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپ کے کامل اتباع کی وجہ سے نبوت کا مقام حاصل کر لے۔

👈 سوال : اس پر وحی آتی تہی؟

👈 جواب : آتی تہی۔

👈 سوال : (اس میں) خطا کا کوئی احتمال؟

👈 جواب : بالکل نہیں۔

👈 سوال : مرزا قادیانی نے لکہا ہے جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا“ خواہ اس کو میرا نام نہ پہنچا ہو (وہ) کافر ہے۔پکا کافر۔دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اس عبارت سے تو 70 کروڑ مسلمان سب کافر ہیں؟

👈 جواب : کافر تو ہیں لیکن چہوٹے کافر ہیں“جیسا کہ امام بخاری نے اپنے صحیح میں ”کفردون کفر“ کی روایت درج کی ہے۔

👈 سوال : آگے مرزا نے لکہا ہے۔پکا کافر؟

👈 جواب : اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔

👈 سوال : اس آگے لکہا ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔حالانکہ چہوٹا کفر ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے؟

👈 جواب : دراصل دائرہ اسلام کے کئی کٹیگیریاں ہیں۔اگر بعض سے نکلا ہے تو بعض سے نہیں نکلا ہے۔
سوال ایک جگہ اس نے لکہا ہے کہ "جہنمی" بہی ہیں؟

نوٹ : (یہاں مفتی محمود فرماتے ہیں جب قوی اسمبلی کے ممبران نے جب یہ سنا تو سب کے کان کہڑے ہوگئے کہ اچہا ہم جہنمی ہیں اس سے ممبروں کو دہچکا لگا)

اسی موقع پر دوسرا سوال کیاگیا کہ:

👈 مرزا قادیانی سے پہلے کوئی نبی آیا ہے جو امتی نبی ہو؟ کیا صدیق اکبر ؓ یا حضرت عمر فاروق ؓ امتی نبی تہے؟

👈 جواب : نہیں تھے۔

👈 اس جواب پر مفتی محمود کا سوال یہ کہ پہر تو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد آپ کا ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا؟
بس فرق یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت ختم سمجہتے ہیں اور تم مرزا غلام قادیانی کے بعد نبوت ختم سمجہتے ہو۔
تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام قادیانی ہے۔
اور ہمارے خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

👈جواب : وہ فنا فی الرسول تہے۔

یہ ان کا اپنا کمال تہا کہ وہ عین محمد ہوگئے تہے (معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوسکتی تہی)

👈سوال : مرزا غلام قادیانی نے اپنے کتابوں کے بارے میں لکہا ہے۔ اسے ہر مسلم محبت و مودت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔ اور ان کے معارف سے نفع اٹہاتا ہے۔ مجہے قبول کرتا ہے۔اور(میرے) دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔مگر (ذزیتہ البغایا) بدکار عورتوں کی اولاد وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا رکہی ہے۔وہ مجہے قبول نہیں کرتے؟

👈 جواب : بغایا کہ معنی سرکشوں کے ہیں۔

👈 سوال : بغایا کا لفظ قرآن پاک میں آیا ہے” و ما کانت امک بغیا“ سورہ مریم)
ترجمہ : تیری ماں بدکارہ نہ تہی“

👈 جواب : قرآن میں بغیا ہے۔بغایا نہیں۔

👈 مرزا طاھر قادیانی کے اس جواب پر مفتی محمود نے فرمایا کہ صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔نیز جامع ترمذی شریف میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بہی مذکور ہے یعنی ”البغایا للاتی ینکحن انفسہن بغیر بینہ“ )پھر جوش سےکہا) میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ بغیہ کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہر گز نہیں کر کے دکہا سکتے۔!!!

👈(اور مرزا طاہر لاجواب ہوا یہاں)👉

13 دن کے سوال جواب کے بعد جب فیصلہ کی گہڑی آئی تو 22 اگست1974 کو اپوزیشن کی طرف سے 6 افراد پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔جن میں مفتی محمود ، شاہ احمدنورانی، پروفیسر غفور احمد صاحب، چودہری ظہور الہی صاحب، مسٹر غلام فاروق، سردار مولا بخش سومرو اور حکومت کی طرف سے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ تہے انکے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ یہ آئینی و قانون طور پر اس کا حل نکالیں۔تاکہ آئین پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قادیانیوں مرزائیوں کو "کافر" کو درج کردیا جائے۔
لیکن اس موقع پر ایک اور مناظرہ منتظر تہا۔۔۔۔۔

👈 کفرِ قادیانیت و لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح 13 دن تک جاری رہی۔

11 دن ربوہ گروپ پر.

2 دن لاہوری گروپ پر۔

ہر روز 8 گھنٹے جرح ہوئی۔

👈 اس طویل جرح و تنقید نے قادیانیت کے بھیانک چہرے کو بےنقاب کر کے رکھ دیا۔
👈 اس کے بعد ایک اور مناظرہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے شروع ہوا کہ آئین پاکستان میں اس مقدمہ کا ”حاصل مغز “کیسے لکھا جائے؟
مسلسل بحث مباحثہ کےبعد ۔۔

👈 22 اگست سے 5 ستمبر 1974 کی شام تک اس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے۔مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔ سب سے زیادہ جہگڑا دفعہ 106 میں ترمیم کے مسئلے پر ہوا۔حکومت چاہتی تھی اس میں ترمیم نہ ہو کیونکہ دفعہ 106 کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی تہی۔

ایک سیٹ بلوچستان میں۔
ایک سیٹ سرحد میں۔
2 سیٹیں سندھ میں۔
3 سیٹیں پنجاب میں۔

علاوہ کچھ 6 اقلیتوں کے نام بہی لکہےتھے۔

👈 عیسائی۔
👈 ہندو۔
👈 پارسی۔
👈 بدھ مت
👈 شیڈول کاسٹ اچہوت۔

مفتی محمود اور دیگر کمیٹی کے ارکان یہ چاہتے تہے کہ ان 6 کی قطار میں " قادیانیوں " کو بہی شامل کیا جائے تاکہ کوئی "شبہ" باقی نہ رہے اس موقع پر مفتی محمود نے کہا جب اور اقلیتوں اور فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو قادیانیوں اور مرزائیوں کا نام بہی لکھ دیں۔

👈 وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے جواب دیا کہ ان اقلیتوں کا خود کا مطالبہ تہا کہ ہمارا نام لکھا جائے جبکہ مرزائیوں کی یہ ڈیمانڈ نہیں۔

👈 مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو تمہاری تنگ نظری اور ہماری فراخ دلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان مرزائیوں کو بغیر ان کی ڈیمانڈ کے انہیں دے رہے ہیں (کمال جواب)

اس بحث مباحثہ کا 5 ستمبر کی شام تک قائم شدہ "کمیٹی" کوئی فیصلہ ہی نہ کرسکی چنانچہ 6 ستمبر کو وزیراعظم ذوالفقار علی بہٹو نے مفتی محمود سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم منسٹر ہاوس بلایا لیکن یہاں بہی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔

بڑے بحث و مباحثہ کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بہٹو نےاس حوالے سے کچھ وقت لیا۔

عصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے مفتی محمود اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔

👈 مفتی محمود اور کمیٹی نے وہاں بہی اپنے طےشدہ پرانے موقف کو دہرایا کہ دفعہ 106 میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مرزائیوں کا نام بھی لکہاجائے اور اس کی تصریح کی جائے اور بریکٹ میں (قادیانی اور لاہوری گروپ) لکہا جائے۔

وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ مرزائی اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے بلکہ احمدی کہتے ہیں۔

👈 مفتی محمود صاحب نے کہا کہ : احمدی تو ہم ہیں ہم ان قادیانیوں اور مرزائیوں کو احمدی تسلیم نہیں کرتے۔پہر تجویز کیا کہ ان مرزائیوں قادیانیوں کو مرزا غلام احمد کے پیرو کار لکھ دو۔

👈 وزیرقانون نے نکتہ اٹہایا کہ آئین میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا (حالانکہ محمد علی جناح کا نام آئین میں موجود ہے)
👈 مفتی محمود نے جواب دیا کہ شیطان۔ ابلیس۔ خنزیر اور فرعون کے نام بھی تو قرآن پاک میں موجود ہیں۔کیا ان ناموں سے نعوذ باللہ قرآن پاک کی صداقت و تقدس پر کوئی اثر پڑا؟

👈 اس موقع پر وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ "چلیں ایسا لکھ دیتے ہیں کہ جو لوگ اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔

👈 مفتی محمود نے کہا بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکہتا ہے۔صرف وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔لہذا یوں لکھ دیا جائے کہ قادیانی گروپ۔لاہوری گروپ یہ دو عدد گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں۔

👈👈 اور پہر الحمدللہ بالآخر اس پر فیصلہ ہوگیا۔

👈 یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا۔

👈 7 ستمبر 1974ء اسلامی جمہوریہ ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تہا جب 1953ء اور 74ء کے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا اور قومی اسمبلی نے ملی امنگوں کی ترجمانی کی۔ عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دیا اور 👈 قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا 👉

👈 دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا کہ :
👈 ”جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکہتا ہو۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بہی معنی و مطلب یا کسی بہی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو وہ آئین و قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں 👉

👈 یوں دفعہ 106 کی نئی شکل کچھ یوں بنی۔۔ 👇

بلوچستان پنجاب سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لیے مخصوص نشستیں ہوں گی جو عیسائی۔ہندو سکھ۔بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانیوں گروہ یا لاہوری افراد( جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکہتے ہیں۔
(ان قادیانیوں مرزائیوں کی) بلوچستان میں ایک نشست۔ سرحد میں ایک نشست۔ پنجاب میں 3 سیٹس۔ سندھ میں 2 سیٹیں ہوں گی۔

👈 یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر آج بھی موجود ہے کہ اس ترمیم کے حق میں 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بہی ووٹ نہیں آیا۔

اس موقع پر اس مقدمہ کے قائد مفتی محمود نے فرمایا۔۔ 👇

اس فیصلے پر ساری قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔
مرزائیوں قادیانیوں کو اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیئے کیونکہ اب انہیں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں گے اور فرمایا کہ سیاسی طور پر تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ (ملک کے ایسے) الجھے ہوئے مسائل کا حل بندوق کی گولی میں نہیں۔بلکہ مذاکرات کی میز پر ملتے ہیں

*(نوٹ) احباب سے لائیک کمنٹس کی حاجت ھر گز نہیں مگر مؤدبانہ گزارش ہے کہ ختم نبوت بارے اس آگاہی مہم کو شیئر کیاجائے، شکریہ*
 

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 334593 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More