زندگی میں بڑے اوراہم کام انجام دینے والے افراد
خدادادصلاحیتوں اورتوانائیوں کے ساتھ پیداہوتے ہیں۔قدرت نے قیام پاکستان
کیلئے قائداعظم ؒ کومنتخب جبکہ افغانستان اورپاکستان کی بقاء کیلئے جنرل
اخترعبدالرحمن خان کاانتخاب کیا۔میں نے کامیاب افرادکوکبھی اچھلتے
اورشورمچاتے ہوئے نہیں دیکھاکیونکہ ان کاکام خودبولتا ہے۔آپ نے
دیکھاہوگاشیردبے پاؤں خاموشی سے اپنے شکار کے سرپرپہنچتا ہے اوراگرشکاربھاگ
نکلے توتعاقب کرکے اسے دبوچ کرمارگراتا ہے۔ خاموش کردارکا''وار''زیادہ کاری
ہوتا ہے،جوخاموشی سے اپناکام انجام دیتے ہیں ،تاریخ میں اس شخصیت کے شایان
شان اُس کاتذکرہ کرنامورخ پرقرض اور اس کافرض ہوتاہے۔آپ نے کئی بار
ایسادیکھاہوگا کہ ٹیم کسی بھی کھلاڑی کی بہترین کارکردگی کے بل پر کامیاب
ہومگرٹرافی ہربارکپتان وصول کرتا ہے۔اس طرح روس کی افغانستان سے پسپائی
اوردنیا میں رسوائی کیلئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اخترعبدالرحمن خان نے
کلیدی کرداراداکیا مگرٹرافی اس وقت کے ٹیم کیپٹن ایک فوجی ڈکٹیٹر نے اپنے
ہاتھوں میں تھام کرلہراناشروع کردی تھی ۔ جنرل اخترعبدالرحمن خان اقتدار سے
بہت دورتھے ،ان کافوکس پڑوسی ملک افغانستان کے اندر میدان جنگ پرتھا،انہوں
نے خاموشی مگرگرمجوشی سے جنگ کی بازی پلٹ دی جبکہ تاریخ نے بھی اس خاموش
مجاہدکوفراموش نہیں کیا۔ جنرل اخترعبدالرحمن خان کی شجاعت اورشہادت کے بعد
ان کی شخصیت پرمتعدد کتابیں لکھی گئی ہیں اوران کتب کوبہت سراہابھی گیا ہے۔
آج تک کسی کوکامیابی پلیٹ میں رکھ کرنہیں ملی ،ہمارے ہاں جو شخصیات زیادہ
کامران ہیں انہیں دوسروں سے زیادہ امتحان دینا پڑے ۔زندگی میں ایک
بار''میدان'' سب کوملتا ہے مگر ہرکوئی'' مردمیدان'' نہیں ہوتا اور کامیابی
وسرفرازی ہرکسی کونصیب نہیں ہوتی ۔ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کوایٹمی طاقت
بنانے کاکام ڈاکٹرعبدالقدیرخان سے لیا جبکہ قدرت نے قادیانیوں کودائرہ
اسلام سے خارج کرنے کیلئے ذوالفقارعلی بھٹوشہیدکاانتخاب کیا ،ڈاکٹرعبدالقدیرخان
کاکام ذوالفقارعلی بھٹوجبکہ ذوالفقارعلی بھٹو کاکام ڈاکٹرعبدالقدیرخان نہیں
کرسکتے تھے۔اﷲ تعالیٰ نے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اخترعبدالرحمن خان کوبھی
میدان دیا اورانہوں نے مردمیدان کی حیثیت سے تاریخ رقم کرتے ہوئے افغانستان
کوروس کیلئے قبرستان بنادیااورآج افغانستان بدنیت امریکہ اوراس کے اتحادیوں
کیلئے قبرستان بناہوا ہے۔امریکہ دنیا میں کسی کادوست نہیں،اس کے اتحادی
درحقیقت محض ''سہولت کار'' ہیں ۔پاکستان کی داخلی خودمختاری کاراستہ
خودداری سے ہوکرجاتا ہے۔موضوع کی طرف واپس آتے ہیں، جنرل اخترعبدالرحمن خان
کاتعلق بھارتی پنجاب میں مقیم پٹھان خاندان سے تھا ،ان کے آباؤاجدادسلطان
محمودغزنوی کی فوج کے ساتھ ہندوستان آئے اورجنگ میں تاریخی کامیابی کے
بعداپنے سلطان کے فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے ہندوستان کے مختلف شہروں میں
آبادہوگئے۔ڈاکٹر عبدالرحمن خان کے ہونہار صاحبزادے اخترعبدالرحمن خان نے
آسودگی،آسانی اورنعمتوں کی فراوانی والے ماحول میں پرورش پائی ۔
اخترعبدالرحمن خان چار برس کی عمر میں یتیم ہوگئے۔ اختر عبدالرحمن کی تعلیم
وتربیت کے دوران ان کی شفیق ومہربان والدہ ہاجرہ خاتون نے ا نہیں باپ کی
کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ 1945ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اکنامکس
نمایاں نمبرزکے ساتھ پاس کرنے کے بعد اخترعبدالرحمن خان اپنے آبائی شہرمیں
اپنی والدہ کے پاس چلے گئے۔ 1946ء میں وہ پروفیشنل زندگی کاآغازکرتے ہوئے
بحیثیت ڈی ایس پی لاہور چلے آئے ۔ تاہم اپنی ہمشیرہ کے اصرار پر
اخترعبدالرحمن خان نے ڈی ایس پی کامنصب چھوڑدیااور اپنے روشن مستقبل کیلئے
فوج انتخاب کیا ۔ 1947ء میں نوجوان اخترعبدالرحمن خان سیکنڈلیفٹیننٹ کے طور
پر مشرقی پنجاب میں تھے۔قیام پاکستان کے وقت پرعزم اورپرجوش لیفٹیننٹ
اخترعبدالرحمن خان نے ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کرنیوالے مسلمانوں
کے متعددقافلوں کوبحفاظت مادروطن کی حدودمیں پہنچایا،اس دوران جنونی ہندوؤں
اورسکھوں کے جتھوں سے کئی بار نوجوان لیفٹیننٹ اخترعبدالرحمن خان
کاآمناسامنابھی ہوتارہا جس میں بیسیوں بلوائی ان کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے۔
جنرل اخترعبدالرحمن خان ایک پروفیشنل فوجی اورقابل رشک جنرل تھے ۔جنرل ایوب
خان کی طرح جنرل اخترعبدالرحمن خان کی شخصیت بھی سحرانگیز تھی اور ملنے
والے ان سے مرعوب ہوجاتے تھے ۔
1985 ء سے 1988ء تک ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن خان نے نہ صرف
اس دور کی سپرپاور روس کاراستہ روکا بلکہ اس کاشیرازہ بھی بکھیردیا۔پاکستان
اورافغانستان کے لوگ جہاں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن خان کی
فہم وفراست اورشجاعت پررشک کرتے تھے وہاں وہ ملک دشمن قوتوں کی آنکھوں میں
چبھنے بھی لگے تھے۔روس تو ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن خان
کادشمن تھا ہی امریکہ کے حکام بھی ان سے خوفزدہ تھے۔ اس کاسبب یہ تھا کہ
دوراندیش اورمعاملہ فہم ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن خان
افغانستان میں پاکستان کی فوجی کامیابیوں کاضیاع نہیں بلکہ اس کے ثمرات
چاہتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اب جبکہ روس افغانستان سے راہ فراراختیارکررہا
ہے ، توافغانستان میں ایک خودمختار حکومت کا قیام اورسیاسی استحکام بھی
ناگزیر ہے ، ورنہ اندرونی بدنظمی اوربدانتظامی کے نتیجہ میں افغانستان
دوبارہ کسی مہم جوئی سمیت بیرونی مداخلت کا نشانہ بن سکتا ہے۔ تاریخ نے ڈی
جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن کے تحفظات اورخدشات پرمہرتصدق ثبت کردی
،روس کے نکل جانے کے بعدافغانستان میں مضبوط حکومت قائم نہ ہونے کے سبب
وہاں ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ آج افغانستان میں امریکہ اوراس کی اتحادی
افواج موجود ہیں اور ہماری ریاست کو افغان سرحد پر بھارت کے ساتھ ایل اوسی
سے بھی کئی گنا زیاد ہ چیلنجز کاسامنا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی
داخلی صورتحال اور پاکستان کی مشکلات کے تناظر میں17 اگست 1988 ء کے سانحہ
کے پس پردہ سازش کو سمجھنا اور بھی ضروری ہے۔
اس وقت جو عالمی سازش کار پاکستان کی فوجی قیادت کیخلاف سازش تیار کررہے
تھے ،ان کا نشانہ صرف جنرل ضیاالحق نہیں بلکہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر
عبدالرحمن خان بھی تھے ،کیونکہ اس خاموش مگرپرجوش مجاہدکے ہوتے ہوئے یہ
مذموم منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتاتھا۔ درحقیقت جنرل اختر عبدالرحمن خان روس
کیخلاف پاکستان کی جنگی حکمت عملی کے ماسٹرمائنڈ یعنی مرکزی معمار تھے ،
انہوں نے روس کو افغانستان میں ناکام اوروہاں سے نکلنے پر مجبور کرنے
کامنصوبہ تیار کیاتھا۔ اس وقت دنیا کی مقتدرقوتوں میں سے کوئی یہ حقیقت
تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھا کہ روس کو افغانستان میں شکست بھی ہو سکتی ہے
۔گرم پانیوں تک رسائی کیلئے روس کوبدترین رسوائی اورشرمناک پسپائی کاسامنا
کرنا پڑاتھا۔اگرروس کی تاریخی شکست کے اسباب ومحرکات کوسمجھنا ہے توجنرل
اختر عبدالرحمن خان کی شخصیت کامطالعہ کرنا ہوگا۔جنرل اختر عبدالرحمن خان
کی کامیابی وکامرانی کاکریڈٹ ان کے جذبہ ایمانی کوجاتا ہے۔
جنرل اختر عبدالرحمن خان کو ایقان کامل تھا کہ روس کیخلاف جنگ میں صرف
ابتدائی دور میں عارضی طورپردشواری ہوگی مگر جس وقت مہم جو افغان اپنے دشمن
کیخلاف متحداورمستعد ہوگئے ا ور گرم پانی تک رسائی کیلئے آنیوالے روس کی
افواج پر گوریلے اندازمیں حملے شروع ہو گئے تو امریکہ سمیت یورپ بھی روس
کیخلاف پاکستان اور افغانستان کے مزاحمتی گروپس کی مدد کیلئے اٹھ کھڑاہو
گا۔جولوگ غیوراورنڈر افغانوں کے قبائلی نظام بارے معلومات رکھتے ہیں انہیں
علم ہے آسمان سے ستارے زمین پراتارے جاسکتے ہیں مگر افغان متحارب قبائل کو
کسی ایک پلیٹ فارم پر یکجا نہیں کیا جاسکتا مگرصدآفرین زیرک جنرل اختر
عبدالرحمن خان نے قلیل مدت میں منتشر اورمتحارب افغانوں کوآپس میں
جوڑدیااوریہ اتحاد ایک سیلاب کی مانند روس کواپنے ساتھ بہا لے گیا۔ افغان
مزاحمتی گروپس کے مثالی اتحاد اور ان کے درمیان فوجی امداد کی شفاف تقسیم
نے روس کیخلاف جنگ میں مزید شدت پیدا کر دی تھی۔روس کو شکست فاش کے بعد
افغانستان سے جانا پڑا مگراس نے اپنے دشمن کوفراموش نہیں کیا ۔17اگست 1988ء
کوایک سانحہ میں جنرل اخترعبدالرحمن خان سمیت متعدد فوجی حکام شہید ہوگئے
اوریہ سانحہ آج بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔جنرل اخترعبدالرحمن خان کے
چارصاحبزادے اکبر اختر خان ،ہمایوں اخترخان ،ہارون اخترخان اور غازی
اخترخان اپنے شہید والدکے نقش قدم پرچلتے ہوئے اپنے اپنے اندازسے ملک وقوم
کی خدمت کررہے ہیں۔جنرل اخترعبدالرحمن جام شہادت نوش کرکے آسودہ خاک ہوگئے
مگر ان کی کامیابیاں قومی تاریخ کاجلی عنوان ہیں۔ہمایوں اخترخان بڑے فخر سے
اپنے والدجنرل اخترعبدالرحمن شہید کی یادیں تازہ کرتے ہیں۔باپ کی شہادت کے
بعد ان کے احترام کوبرقرارجبکہ نام اور کام کو زندہ رکھنا بلکہ مزیدروشن
کرنافرمانبرداربیٹوں پرقرض اوران کافرض ہوتا ہے ،اس سلسلہ میں ہمایوں
اخترخان بھرپوراندازسے بیٹا ہونے حق اداکررہے ہیں ۔ہمایوں اخترخان کی گہری
دلچسپی کے نتیجہ میں جنرل اخترعبدالرحمن شہید فاؤنڈیشن ایک موثرادارے کی
حیثیت سے نادارومفلس اورمستحق شہریوں کی بحالی اورخوشحالی کیلئے سرگرم ہے ۔
ہمایوں اخترخان اورہارون اخترخان نے کاروبار کے ساتھ ساتھ میدان سیاست کا
رخ کیا۔دونوں بھائی 1993ء میں لاہور کینٹ سے قومی اورصوبائی اسمبلی کے
ارکان منتخب ہوئے،دونوں بھائیوں نے وفاقی سطح پرمختلف مگراہم عہدوں پرکام
اوراپنے منصب سے انصاف کیا ۔ہمایوں اخترخان وفاقی وزیرتجارت بھی رہے ،ان
دنوں وہ پی ٹی آئی میں ہیں۔این اے 131کے ضمنی الیکشن کیلئے ہمایوں اخترخان
کا ووٹرز سے مسلسل اورموثر را بطہ ہے۔اس حلقہ سے ان کی کامیابی کے امکانات
روشن ہیں کیونکہ ہمایوں اخترخان نے 1993ء میں ممبرقومی اسمبلی کی حیثیت سے
مقامی آبادیوں میں ترقیاتی منصوبوں کاجال بچھایاتھااور مقامی افراد کی خوشی
غمی میں شریک ہوکراپنے اخلاص کے انمٹ نقوش چھوڑے تھے۔کپتان عمران خان کواین
اے131کیلئے ہمایوں اختر خان سے زیادہ بہترکوئی امیدوارنہیں ملے گا۔ کپتان
عمران خان کے منجھے ہوئے ٹیم ممبر کی حیثیت سے تجربہ کار ہمایوں اخترخان کی
وفاق اورکابینہ میں ضرورت ہے۔ہمایوں اخترخان کی سیاست سے کچھ لوگ اختلاف کر
تے ہیں مگران کی پاکستانیت، اہلیت اورقابلیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ |