مفت کے مفتی حضرات

کہا جاتا ہے کہ ممتاز مفتی سے کسی نے پوچھا کہ آپ کس مسلک کے مفتی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کے میں مفت کا مفتی ہوں۔ ہمارے ہاں آج کل ہر شعبے میں مفت کے مفتی صاحبان موجود ہیں، مثلا آپ کسی صاحب کو پاکستان کی معیشت کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے دیکھیں تو پوچھنے پر پتہ چلے گا کہ ان کا معیشت کے شعبے سے علمی و عملی کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں البتہ بضد ہیں کہ حکومت پاکستان ان کی تھیوری پر عمل کرے ورنہ پاکستان کی بہتری ممکن ہی نہیں۔

اسی طرح آپ سیاست کو لیجئے ، جتنے منہ اتنی باتیں اور ان باتیں کرنے والوں سے پوچھیں تو اکثر کا سیاست سے عملی اور علمی کوئی تعلق نہیں ، ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جو علومِ سیاسی میں کسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نہیں وہ اپنی سیاسی آرا کو ڈنکے کی چوٹ پر پیش کرتے ہیں اور ان کو واہ واہ کرنے والے بھی بکثرت مل جاتے ہیں۔

ہماری سیاسی و معاشی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ یہ مفت کے مفتی صاحبان بھی ہیں۔یہ ایسے مفتی صاحبان ہیں کہ جو یہ جانتے ہیں کہ وہ اقتصاد و سیاست کے بارے میں کچھ نہیں جانتے لیکن اس کے باوجود اپنی آرا دینے سے باز نہیں آتے، بلکہ بعض تو یہ جاننے کے باوجود کہ وہ کچھ نہیں جانتے اس بات پر ڈٹ جاتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔

مفتی حضرات کا ذکر ہوتو مفتی محمود کو بھلا کیسے بھلایا جا سکتا ہے، یہ وہ مفتی صاحب ہیں جو قیام پاکستان کی مخالف شخصیتوں میں اول نمبر پر تھے، انہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں کسی قسم کا حصہ نہیں لیا، نہ کوئی ریلی نکالی، نہ نعرہ لگایا، نہ پمفلٹ لکھا بلکہ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ یہ کانگرس کے ہم عقیدہ اور گاندھی جی کے ہم خیال تھے۔

قیام پاکستان کے لئےانہوں نے ایک لفظ تک خرچ نہیں کیا لیکن جب پاکستان بن گیا تو یہ مفت میں پاکستان کے مالک بن گئے بلکہ انہوں نے اس پر خدا کا شکر بھی ادا کیا کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔

ان دنوں مفتی محمود کے جانشین اور صاحبزادے مولانا فضل الرحمان پاکستان میں صدارتی امیدوار ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر اور متحدہ اپوزیشن کی جانب سے نامزد صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طور پر ان کا نام اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ شاید میں پیپلز پارٹی کے بھی قابل قبول ہوں، سابق صدر آصف زرداری میرے پرانے دوست ہیں ان کے ساتھ جو تعلقات ہیں انہیں نہ تو میں اور نہ ہی میں کبھی انہوں نے کسی سے مخفی رکھا، پیر صاحب پگارا نے ہمیشہ کی طرح بہت زیادہ شفقت اور محبت کا مظاہرہ کیا او ر میں کنگری ہأس سے مطمن ہوکر جارہاہوں۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے صدارتی امیدوار اعتزاز احسن کے کاغذات نامزدگی منظورکر لئے گئےہیں چیف الیکشن کمشنر سردار رضا کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے نامزد صدارتی امیدوار اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ امید ہے مولانا فضل الرحمان میرے حق میں دستبردار ہونگے۔

مولانا فضل الرحمان نے سال 2003ء میں ہندوستان کا ایک انتہائی اہم دورہ کیا تھا جو سال 2002ء کے انتخابات بعد کسی سیاست دان کا ہندوستان کا پہلا دورہ تھا۔ اس وقت وہ ایم ایم اے کے قائد تھے ۔مفتی محمود کے دلبر ہونے کے ناطے اس وقت ہندوستان میں مولانا کا زبردست استقبال کیا گیا تھا اور کسی نے بھی مولانا یا ان کے والد گرامی کی حب الوطنی اور پاکستانی ہونے پر کوئی سوال نہیں اٹھایا تھا۔ آج تک کسی نے بھی مولانا کے سامنے یہ سوال اٹھانے کی جرات نہیں کی کہ مولانا آپ کو تو مفت میں پاکستان ملا ہے ، آپ کا پاکستان کی سیاست سے نظریاتی اور علمی طور پر کیا تعلق ہے؟ !

چلیں اب تو مولانا پاکستان کے صدارتی امیدوار ہیں، اب تو ان سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ ان اکہتر سالوں میں ان کے نظریات اور ان کے والد گرامی کے نظریات میں کوئی اختلاف پیدا ہوا ہے اور ان کے نکتہ نظر میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے یا اب بھی ان کے نزدیک پاکستان کا بنانا ایک گناہ تھا ۔۔۔

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 64542 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.