"جنگ ستمبر 1965 کے ہیرو ایم ایم عالم کی یاد میں"
سکواڈرن لیڈر زاہد یعقوب عامر کی کتاب ایم ایم عالم سے
اقتباسات!
ایم ایم عالم (محمد محمود عالم) ایک بے مثال ہیرو تھے، جنہوں نے جنگ ستمبر
1965ء میں جرأت و عزم کے انمٹ باب رقم کئے۔ ان کے حوصلوں کی قدر اور منزلت
تک تو ہم نہیں پہنچ پائیں گے، مگر ان کو یاد ضرور رکھا جائے گا۔ وہ ایک
بلند عزم انسان، ایک سچے پاکستانی اور ایک پکے مسلمان تھے۔ ان کے لئے اپنی
ذات محض اتنی ہی عزیز تھی جتنی کسی خاص انسان کو ہوتی ہے۔ وہ مختلف دوسری
ترجیحات کے مالک تھے۔ امت، خاندان اور پھر پاکستان کی محبت نبھاتے نبھاتے
وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ انہوں نے پاک فضائیہ چھوڑ کر بھی پاک
فضائیہ کو نہ چھوڑا۔ ان کے لہو میں ہوا بازی، ہوائی جانثاری اور پھر فضائیہ
کے مستقر رچ بس گئے تھے۔ بالعموم یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ بنگالی تھے،
جس کی وجہ سے ان کی ذات کو کبھی کھل کرسامنے نہیں آنے دیا گیا، حالانکہ
ایسی سوچ کے حامل افراد کے لئے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ ایم ایم عالم
بنگالی نہیں تھے، بھارت کے صوبہ بہار میں پیدا ہوئے، کلکتہ میں رہے اور
1947ء کو ہجرت کرنے کے سبب ڈھاکہ میں مقیم ہوئے۔ یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ
ان کی بنگلہ دیش سے بطور مُلک ہمدردیاں زیادہ تھیں، وہ ساری زندگی یہ درس
دیتے رہے کہ پاکستان کی ترقی اور سالمیت کو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں
پہنچا سکتی۔ ان کا ایمان و ایقان تھا کہ پاکستان پر اللہ کی طرف سے عطا
کردہ ایک جھنڈا آویزاں ہے۔ وہ آخری لمحے تک پاکستان اور پاک فضائیہ کی محبت
کا درس دیتے رہے۔ ایم ایم عالم 18مارچ 2013ء کو77 برس کی عمر میں اپنے خالق
کے پاس لو ٹ گئے۔
کلکتہ کے ایک ملازمت پیشہ مسلمان گھرانے میں 6جولائی1935ء کو ایم ایم عالم
(محمد مسعود عالم) کے ہاں ایک بچے نے جنم لیا، وہ بچہ جس کے مقّدر میں
تاریخ بنانے کے فیصلے رقم ہو چکے تھے۔ یہ بچہ بھی ایم ایم عالم ہی تھا، مگر
یہ محمد محمود عالم تھا۔ وہ محمد محمود عالم جو ہَوا بازی کی تاریخ میں ایم
ایم عالم کے نام سے پاکستان کے لئے بالخصوص اور عالمِ اسلام کے لئے بالعموم
وجہ شہرت بنے۔ تاریخ کے ماتھے پر ایک بے مثال جھومر، دشمن پاکستان کے لئے
وجہ ہزیمت۔ ایم ایم عالم کے والد محترم محمد مسعود عالم بنیادی طور پر
بھارت کے صوبہ بہار کے رہنے والے تھے۔ اپنی ملازمت کے سلسلے میں وہ کلکتہ
منتقل ہو گئے ،پھر یہیں ان کے پہلے بیٹے نے جنم لیا۔ایم ایم عالم کی پیدائش
پہ بے انتہا خوشیاں منائی گئیں۔ بیٹے کو دیکھ کر والد محترم کے دل میں جس
پہلی خواہش نے جنم لیا، وہ اپنے بیٹے کو سول سروسز میں کمیشن دلوانے کی
تھی۔ شاید ہر باپ کے لئے اُس کا پیشہ نہایت محترم و مقدم ہوتا ہے۔ محمد
مسعود عالم بھی یہی چاہتے تھے۔ ایم ایم عالم پڑھائی میں نہایت اچھے تھے۔
دلجمعی سے اپنی پڑھائی میں مشغول رہتے تھے۔
آپ نے ڈھاکہ کے ایک ایسے سکول میں داخلہ لیا جو کہ حا ل ہی میں قائم ہوا
تھا۔ نیو گورنمنٹ ہائی سکول ڈھاکہ۔ یہ سکول1951ء میں قائم ہوا۔ اس سکول سے
میٹرک کا پہلا گروپ 1952ء میں فارغ التحصیل ہوا اور اس میں ایم ایم عالم
بھی شامل تھے۔ اس سکول کے پہلے رزلٹ میں یہ رقم ہے کہ میٹرک کے رزلٹ میں
فرسٹ آنے والے طالبِ علم کا نام ایم ایم عالم ہے۔ گویا وہ تو پیدا ہی تاریخ
رقم کرنے اور ریکارڈ قائم کرنے کے لئے تھے۔
ایم ایم عالم کو بچپن ہی سے فلائنگ سے بہت دلچسپی تھی۔ اُنہوں نے اپنے بچپن
کے کھیلوں میں جہازوں کے ماڈل بنانا، مختلف مشینری کو آپس میں ملا کر چھوٹے
چھوٹے جہاز بنا کر اُڑانا بھی شامل کیا ہوا تھا۔ مختلف جہازوں کی تصویریں
اُن کے پاس ہوتی تھیں اور وہ اُن کو کسی جگہ پھیلا کر سب بہن بھائیوں کو
دِکھاتے تھے۔ وہ ابھی محض سولہ سال کی عمر تک پہنچے تھے کہ ڈھاکہ میں موجود
ایک فلائنگ کلب چلے جاتے تھے، وہاں جہازوں کو دیکھنا اُن کا پسندیدہ شوق
تھا۔ یہ وہ عوامل ہیں جو ایم ایم عالم کے شوق کو پروان چڑھانے میں کلیدی
اہمیت کے حامل ہیں۔ 6ستمبر1965ء کی شام دشمن کی طرف سے پاکستان پر حملے کی
منصوبہ بندی کی گئی۔ دشمن پر حملے کے لئے متعدد فارمیشن ترتیب دی گئیں۔
پٹھان کوٹ کے انڈین، ائر بیس پر دشمن کے دس جہاز تباہ ہوئے، جس کا تذکرہ
انڈیا نے اپنے سرکاری اعدادوشمار میں بھی کیا ہے۔ مزید برآں یہ تمام
اعدادوشمار ثابت بھی کرتے ہیں کہ دشمن کو ایک بھاری نقصان اُٹھانا پڑا،
تاہم آدم پور اور ہلواڑہ کے اوپر کئے گئے حملوں کے نتائج بہت زیادہ توقعات
کے مطابق نہیں تھے۔ ہلواڑہ پر حملہ کرنے کے دوران پاک فضائیہ اپنے دو
بہترین ہوا بازوں سے محروم ہو گئی۔ سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی اور فلائٹ
لیفٹیننٹ یونس حسن خواجہ اس معرکے میں جامِ شہادت نوش کر گئے، جبکہ سیسل
چودھری واپس آئے۔
ایم ایم عالم سرگودھا میں پاک فضائیہ کے سکواڈرن نمبر 11کی کمان کر رہے
تھے۔ اُنہوں نے نمبر33 ونگ کے پائلٹوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ’’انشاء
اﷲ ہم سرفراز رفیقی اور یونس حسن کے خون کا بدلہ لیں گے‘‘۔۔۔ ایم ایم عالم
آدم پور پر کئے جانے والے حملے میں ایک ہنٹر جہاز کو نشانہ بنا چکے تھے،
مگر اُن میں دشمن کو تباہ کرنے کا عزم مزید زندہ تھا۔ایم ایم عالم نے اپنی
ایک ملاقات میں ایک عزیز کو بتایا کہ جب 7ستمبر 1965ء کو ائرڈیفنس الرٹ کے
لئے وہ لوگ تیار بیٹھے تھے تو اُنہیں حکم تھا کہ جہاز کے کاک پٹ میں ہی
بیٹھیں۔ وہ کاک پٹ میں مستعد بیٹھے تھے، ایسے میں اُنہوں نے قرآن پاک کا
نسخہ جیب سے نکال کر تلاوت شروع کر دی۔ وہ تلاوت کر رہے تھے کہ اُنہیں ہلکی
سی نیند آگئی اور اُس سائرن کے ساتھ اُن کی آنکھ کھلی جوکہ دشمن کے حملے سے
خبردار کرنے کے لئے بجایا جاتا ہے ۔7ستمبر کی سُہانی صبح کے پانچ بج کر
سینتالیس منٹ پر یہ اطلاع ملی کہ دشمن کی ایک فارمیشن جس کا نمبر27 ہے اور
جس کی کمان انڈین ائر فورس کے سکواڈرن لیڈر ڈی ۔ ایس جوگ کر رہے ہیں ، نے
سرگودھا پر حملہ کر دیا ہے۔ پہلے یہ فارمیشن ’’چھوٹا سرگودھا،، کی لینڈنگ
’’ائرسٹریپ،، کو نشانہ بنانے کے لئے کی گئی۔ جب یہ وہاں پہنچی تو کسی جہاز
کو وہاں نہ پاکر واپس پلٹی اور سرگودھا کے مین بیس پر حملہ کرنا چاہا۔ ایم
ایم عالم نے فوری طور پر اپنے جہاز کو سٹارٹ کیا اور پھر مقررہ وقت میں ہوا
میں موجود تھے۔ آپ اپنی ایمان پرور کارکردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہ اُنہیں ہوا میں پہنچ کر بھی اُس تلاوت کا اثر محسوس ہو رہا تھا۔ بے شک
ایسے معرکے اور حریت و حکمت کے باب رقم ہونے میں وہ قرآنی طاقت بھی شامل
تھی جو ایم ایم عالم کے ایمان کا حصہ تھی۔
ایم ایم عالم کے کارناموں کا علم مشرقی پاکستان میں ایم ایم عالم کے خاندان
کو بذریعہ اخبار ہوا۔ ڈھاکہ کے عظیم پورہ میں موجود آفیسرز فلیٹس میں مقیم
ایم ایم عالم کا خاندان فرطِ جذبات اور خوشی سے نہال تھا۔ بہنیں اپنے بھائی
کے لئے دُعائیں کر رہی تھیں۔ آج وہ پوری قوم کا بھائی ، بیٹا اور ہیرو تھا۔
اُس بھائی کی شفقت اور محبت یاد آرہی تھی۔ سب کا جی چاہ رہا تھا کہ ایم ایم
عالم سے ملاقات ہو، جلد از جلد وہ اپنی بانہوں میں لے کر بہنوں کے ماتھے پر
بوسا دے، مگر وہ تو اپنی کمٹمنٹ نبھا رہے تھے۔ جنگِ ستمبر کے بعد بھی اُن
کی ضرورت تھی۔ مختلف ذرائع ابلاغ میں اُن کے انٹرویو اور ریڈیو کے ترانوں
میں اُن کا ذکر تھا۔والد کے چہرے پرایک لازوال فخر اور خوشی تھی۔ وہ مختلف
اخبار نویسوں کے درمیان ایم ایم عالم کے بچپن کے قصّوں اور باتوں کا تذکرہ
کر رہے تھے۔ لوگ مبارکباد کے لئے آتے تو وہ عظیم باپ محبت اور فخر کے جذبات
میں اپنے عالم کو یاد کرتے، جس نے ایک عالمی ریکارڈ قائم کر دیا تھا۔ عالمی
ریکارڈ کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے ہمارے دشمن کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ بے شک
وہ بیٹے سے جلد از جلد ملنے کے لئے بے تاب رہتے تھے، مگر بیٹا تو پاک
فضائیہ اور دھرتی ماں سے کیا گیا وعدہ نبھا رہا تھا۔یہ1966ء کی ایک پُر سوز
رات تھی۔ ایک بیٹا اپنے باپ سے ملنے جارہا تھا۔ وہ بیٹا جس کے مقدّر میں
ایک عالمی ریکارڈ لکھا گیا تھا۔ اُس نے پاک فضائیہ، پاکستان اور اپنے والد
محترم کا نام روشن کیا تھا۔ باپ اور ایک عظیم بیٹے کی یہ جنگ ستمبر1965ء کے
بعد پہلی ملاقات تھی، مگر نہ بیٹا آگے بڑھ کر باپ کا ہاتھ چوم سکتا تھا اور
نہ ہی باپ بیٹے کو اپنے بازوؤں کے حصّار میں لے کر سینے سے لگا سکتا تھا کہ
ایم ایم عالم کے والد محترم محمد مسعود عالم انتقال کر گئے تھے۔
قارئین! صرفِ چشم تصّور سے دیکھیں اور گوشِ تصّور سے سُنیں کہ وہ باپ اور
بیٹے کی گفتگو کیا ہوتی جس نے ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا، جس نے دشمن
کے نو جہازوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا، جس نے ایک تاریخ رقم کی
تھی، جو اپنے فرائض کی ادائیگی کے سبب باپ سے ملنے نہیں آسکا تھا۔ جب وہ
باپ بیٹا آپس میں ملتے تو کیا سماں ہوتا۔ باپ کو محسوس ہوتا کہ یہ دُنیا کا
سب سے ہونہار بیٹا ہے اور بیٹا یقیناًمحسوس کرتا کہ اُس نے باپ کی زندگی
بھر کی تھکان کو فخر و انبساط میں تبدیل کر دیاہے۔ صد افسوس کہ وہ دونوں
زندگی میں نہ مل سکے اور بیٹا اپنے مرحوم باپ کو کندھا دینے کے لئے مغربی
پاکستان سے مشرقی پاکستان پہنچ گیا۔
ایم ایم عالم ایک درویش صفت انسان تھے۔ اُن کے لئے مراتب کا ہونا عزت و
تکریم کا باعث نہیں تھا، بلکہ ایک ڈسپلن، اُصول پسندی اور راست گوئی کا
حامل ہونا ایک معیار تھا۔ اسی وجہ سے آپ کے ساتھ مامور ہونے والے بیٹ مین
بھی بہت زیادہ عرصے تک آپ کے ہمراہ کام میں مشغول نہیں رہ پاتے تھے۔ ایسے
ہی ایک بیٹ مین عامر بھی ہیں۔ عامر شہزاد اٹک سے تعلق رکھنے والا یہ بانکا،
سجیلہ نوجوان ایم ایم عالم کے ہمراہ آخری وقت تک تعلق نبھاتا رہا، خدمت
کرتا رہا، عامر نے دو سال اور تین ماہ تک ایم ایم عالم کی خدمت کی۔ عامر کے
ساتھ یہ پچھلے پندرہ سال میں سب سے طویل عرصہ تھا جو اُنہوں نے بسر کیا۔ اس
نوجوان نے عالم مرحوم کی خدمت ایک باپ کی طرح کی۔ عامر اپنی ذات میں ایک
سچا اور سادہ سا انسان، عالم کے ذکر پراُس کے چہرے پہ ایک اُداسی پھیل
گئی۔گویا ہوا کہ:’’عالم صاحب تو میرے لئے ایک باپ تھے۔ ایک شفیق باپ، مجھے
ڈانٹا تو ہمیشہ میری غلطی کے سبب۔ پھر اس ڈانٹ کو دل میں نہ رکھتے تھے۔
مجھے بُلاتے اور سمجھاتے، میری اس ڈانٹ کا ازالہ کرتے تھے‘‘۔
ایم ایم عالم کی داستان حیات محبت اور صرف محبت سے عبارت رہی، ساری زندگی
بہن بھائیوں، اہل وطن اور پھر اپنی دھرتی ماں کی محبت میں گزار دی، مگر اس
کا حاصل کیا تھا؟۔۔۔یہ آخری واقعہ اور پھر اس عظیم ہیرو کی سوانح حیات کا
اختتام‘‘MT-1 راشد بیان کرتے ہیں کہ، ایم ایم عالم پی این ایس شفاء کراچی
میں آئی سی یو میں زیر علاج تھے، پاک فضائیہ کے ایک جے سی او بھی اس جگہ
دوسرے بیڈ پر تھے اور نہایت تکلیف میں تھے۔ وہ جے سی او کچھ سنبھلے تو راشد
نے ان سے باتیں کرنا شروع کر دیں تا کہ ان کا دل کچھ بہل جائے۔باتوں ہی
باتوں میں راشد نے پوچھا کہ آپ کا پسندیدہ ہیرو کون ہے؟ اس لاچار شخص نے
بڑی محبت سے کہا کہ ایم ایم عالم۔۔۔ راشد نے کہا کہ اگر ہم آپ کی ملاقات ان
سے کرا دیں تو آپ کو کیسا لگے گا؟ ان کے چہرے پر زندگی کی رمق دوڑ آئی۔
بولے کہ آپ کا مجھ پر احسان ہو گا۔اس مریض کو آئی سی یو سے شفٹ کرتے ہوئے
راشد نے ان کا اسٹریچر روک دیا اور اشارہ کیا کہ سامنے ایم ایم عالم بستر
پر دراز ہیں۔ اس شخص کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑگئی۔ اس نے سٹریچر پر لیٹے
ہوئے ہی ایم ایم عالم کو باقاعدہ فوجی انداز میں سلیوٹ کیا۔ اس کی آنکھوں
سے آنسو گر رہے تھے۔بالکل برستی بارش کی طرح ۔ ایسے آنسو جن کا کوئی موازنہ
یا مقابلہ نہیں۔ ایسے آنسو جو کسی اپنے کے لئے ہوتے ہیں ۔ایسے آنسو جو پانی
کے قطرے نہیں، خون جگر ہوتے ہیں ۔بلاشبہ کسی انسان سے اتنی محبت کی مثال
نہیں ملتی ۔شاید یہ سلیوٹ کسی رینک کا سلیوٹ نہیں تھا۔ یہ ہم بھی جانتے
ہیں، آپ بھی جانتے ہیں، سب اہل نظر جانتے ہیں۔ایم ایم عالم کے لئے پورے
پاکستان کا سلیوٹ۔
|