شبلی و حالی (تعلقات کا از سر نو جائزہ)

علامہ شبلی نعمانی اور مولانا الطاف حسین حالی کے مابین زندگی بھر دوستانہ تعلقات قائم رہے، لیکن بعض اکابر کی تحریروں سے دونوں کے درمیان معاصرانہ چشمک نے وہ شہرت پائی کہ ان بزرگوں کی شخصیات مسخ ہو کر رہ گئیں۔ درج ذیل مقالے میں ان کے تعلقات کی حقیقی صورت پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

شبلی اور حالی
تعلقات کا ازسرِنَو جائزہ

علامہ شبلی نعمانی اور مولانا الطاف حسین حالی کے باہمی تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے، جن کا اظہار دونوں کے سوانحی حالات اور پھر ان کی مراسلت سے لگایا جا سکتا ہے۔ حالی عمر میں شبلی سے بیس برس بڑے تھے، لیکن تعلقات کی نوعیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالی نے شبلی کا بزرگ بننے کی کوشش نہیں کی، شاید وہ برادرِ بزرگ بننے کو بھی تیار نہ تھے، یہی وجہ ہے یہ کہ انھوں نے زندگی بھر شبلی کا احترام ملحوظ رکھا۔
شبلی و حالی کے مابین بعض امور میں اگر کبھی اختلاف ہوا بھی تو دھیمے سُروں میں؛ لیکن مہدی افادی، مولوی عبدالحق اور سید سلیمان ندوی نے دونوں بزرگوں کے درمیان اختلافات کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔
مہدی افادی نے اپنے ایک مضمون ’حالی و شبلی کی معاصرانہ چشمک‘ کے ذریعے ان ’اختلافات‘ کو خوب ہَوا دی، لکھتے ہیں کہ ’اصلی کام حالی و شبلی کو باہم ٹکرانا ہے‘۔مضمون میں اس ’چشمک‘ کی کئی ایک مثالیں دینے کے بعد مہدی کہتے ہیں کہ ’یہاں تک تو چشمک کی صرف نرم مثالیں تھیں، یعنی تلخ گولیاں غلافِ شکر میں، اَب ذرا قوی شواہد لیجیے‘ ،البتہ مضمون کے آخر میں یہ بیان داغ دیتے ہیں کہ ’میری غایت محض تنشیطِ ادب، یعنی احباب کی دِماغی تفریح کے سوا اَور کچھ نہیں ہے‘،لیکن یار لوگ تو ’معاصرانہ چشمک‘ کو لے اُڑے، حتیٰ کہ اس جملے کی بازگشت آج تک سنائی دے رہی ہے۔اس حوالے سے آلِ احمد سرور کا تبصرہ بہت اہم ہے، لکھتے ہیں:
ہم لوگوں میں یہ ایک عام کمزوری ہے کہ پہلے انسانوں کے بُت بناتے ہیں اور پھر ان بتوں کو آپس میں ٹکرا کر خوش ہوتے ہیں۔ خدا جانے، کس گھڑی میں مہدی افادی نے حالی اور شبلی کی ’معاصرانہ چشمک‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا کہ اب ادبی حلقوں میں حالی و شبلی کا موازنہ اور ایک کو دوسرے سے بڑھانے یا گھٹانے کی کوشش اچھا خاصا فرض بن گئی ہے۔
عبداللطیف اعظمی کا کہنا ہے کہ ’موصوف [مہدی افادی]نے صرف معاصرانہ چشمک کی تصنیف ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اپنے بہت سے خطوط میں بھی اس کی شکایت کی ہے‘۔یوں یہ روایت آگے بڑھتی رہی، چنانچہ ان’اختلافات‘کو نمایاں کرنے میں مولوی عبدالحق کی ’خدمات‘ بھی قابلِ ذکر ہیں۔ مولوی صاحب کے خیال میں، حالی کے برعکس ’شبلی کی طبیعت میں ضبط بالکل نہ تھا‘، چنانچہ ’جب کبھی ان کے دل میں کوئی بات آتی تو فوراً کہہ گزرتے‘۔ مولوی صاحب کے مطابق، ’وہ نجی صحبتوں میں ایسی باتیں کرتے تھے، جن سے سرسید اور مولانا حالی کی تنقیص نکلتی تھی‘، اس سلسلے میں انھوں نے ایک واقعہ بیان کیا ہے:
جن دِنوں حیاتِ جاوید شائع ہوئی تو مولانا شبلی کے لیے، جو اُس وقت اتفاق سے حیدرآباد میں وارِد تھے، مَیں نے یہ کتاب لے جا کر ان کی خدمت میں پیش کی۔ اُس وقت وہاں اَور بھی کئی اشخاص موجود تھے۔ مولانا شبلی نے یہ کتاب دیکھتے ہی فرمایا، ’یہ کذب و افترا کا آئینہ ہے‘۔ مولانا نے کتاب کو پڑھے بغیر ہی یہ راے دے دی۔
اگر اس بیان کا جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ مولوی صاحب نے یہ فرض کر کے کہ حیاتِ جاوید کا اوّلین نسخہ اُن کے پاس آیا، انھی نے اسے شبلی کے سامنے پیش کیا اور شبلی نے بغیر تردّد کے اس پر تبصرہ کر دیا، حالانکہ بقول شیخ محمد اکرام، ’وہ [شبلی] کتاب کی عام اشاعت سے پہلے اسے یا اس کے بعض اجزا دیکھ چکے تھے‘ویسے بھی حیاتِ جاوید سے متعلق شبلی کی تنقیدی راے کوئی راز کی بات نہیں، بلکہ اس کا اظہار تو انھوں نے مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کے نام اپنے دو خطوط میں بھی کیا ہے(جن کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا)۔
مولوی صاحب مولانا حالی کو ’بڑے صاحبِ دل آدمی‘ قرار دیتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ حالی نے ’ان [شبلی] کی کتابوں پر بڑے اچھے تبصرے کیے اور جو باتیں قابلِ تعریف تھیں، ان کی جی بھر کر داد دی‘۔مولوی صاحب کی یہ بات بالکل درست ہے۔ ۳۰؍نومبر ۱۹۰۶ء کو حالی نے شبلی کو ایک طویل خط لکھا، جس سے دونوں کے تعلقات کی گہرائی، خلوص اور باہمی عقیدت و احترام کا اندازہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ شبلی کی تصانیف کے بارے میں حالی کے خیالات کا اظہار بھی۔ حالی لکھتے ہیں:
اِس قدر مدت کے بعد عنایت نامہ کے ورُود نے میری آنکھوں کے ساتھ وہی کام کیا، جو پیراہنِ یوسف نے چشم یعقوب کے ساتھ کیا تھا۔
میری کوتاہ قلمی سے اگر آپ یہ سمجھے ہوں تو کچھ تعجب نہیں کہ مَیں آپ کے حقوقِ صحبت کو بھول گیا ہوں، مگر مولانا! یہ تغافل اسی قسم کا ہے، جس کی نسبت کہا گیا ہے ۔۔۔ تغافلے کہ کم از صد نگاہ حسرت نیست۔ مَیں اپنے حالات کی تفصیل لکھ کر آپ کو ملول کرنا نہیں چاہتا۔
آپ کے گراں بہا عطیہ کا دِل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، گو اس سے پورا پورا مستفید نہیں ہو سکتا۔ ایک آنکھ سے بالکل نظر نہیں آتا، دوسری آنکھ میں بھی موتیا کا پانی آنا شروع ہو گیا ہے۔ داہنی آنکھ بنوانے کا ارادہ ہے، لیکن کھانسی کی وجہ سے فروری تک آپریشن کرانا ملتوی کر دیا ہے۔۔۔۔ چونکہ مَیں بذاتِ خود کتابوں سے کماحقہ استفادہ حاصل نہیں کر سکتا، اس لیے اپنی ہوس کو اس طرح پورا کرتا ہوں کہ اَور لوگوں کے لیے لائبریری سے کتابیں منگواتا ہوں۔۔۔ اسی بنا پر سوانح مولانا روم لائبریری کی طرف سے منگوائی گئی تھی، لیکن چونکہ وہ آپ نے خاص میرے لیے عنایت فرمائی ہے، اس لیے اس کو اپنے پاس رکھوں گا اور لائبریری کے لیے دوسرا نسخہ اسی درجے کا بصیغہ ویلوپی ایبل ارسال فرمانا ہوگا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، آپ کی جملہ تصانیف لائبریری میں آ گئی ہیں۔ صرف الغزالی اَب تک نہیں آئی تھی، لیکن اَب عبداللہ خاں کو حیدرآباد لکھ دیا گیا ہے کہ اس کا ایک نسخہ فوراً بھیج دیں۔ مجھے ٹھیک معلوم نہیں کہ المامون اور سیرۃ النعمان بھی آگئی ہیں یا نہیں، مَیں لائبریرین سے دریافت کر کے ان کے لیے بھی شاید تکلیف دوں۔ باقی الفاروق، سفر نامہ روم و مصر وغیرہ، رسائلِ شبلی، تاریخِ علمِ کلام کے دونوں حصے [الکلام اور علم الکلام]، یہ سب کتابیں لائبریری میں موجود ہیں۔ سوانح کے ساتھ دیوانِ فارسی بھی پارسل میں شامل کرا دیجیے گا۔
سوانح[مولانا روم] کو مَیں اَب تک ایک سرسری نظر سے دیکھ سکا ہوں۔ اوّل مولوی وحید الدین دیکھنے کو لے گئے، ان کے بعد غلام حسین نے مانگ لی۔ آپ کی تصنیفات کی نسبت مَیں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ من حرف منزلتکم فی الصنیف کل لسانہ۔ آپ کا وجود قوم کے لیے باعث فخر ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو بہت مدت تک زندہ و سلامت رکھے۔
موازنۂ انیس و دبیر کا مسودہ مَیں نے میر کاظم علی صاحب معتمد تعمیراتِ سرکارِ عالی سے بڑے تقاضوں کے ساتھ حیدرآباد میں منگوا کر دیکھا تھا اور جس رقعہ کے ساتھ ان کے دفتر میں اس کو واپس بھیجا تھا، اس میں ان کو بہت غیرت دِلائی تھی کہ اَب تک اس کے شائع کرنے کا یہاں کسی کو خیال نہیں آیا، یا تو سرکار کی طرف سے آپ اس کو چھپوا دیں یا بعض اشخاص، جو اس کے چھاپنے پر آمادہ ہیں، ان کو اجازت دے دیں اور سب سے بہتر یہ ہے کہ اس مسودے کو خود مولانا کے پاس بھجوا دیں، کیونکہ اس میں جابجا کورے اَوراق چھوڑ دیے گئے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کو اس میں کچھ اَور اضافہ کرنا منظور ہے۔ میر کاظم علی صاحب نے بہت دِن کے بعد اس کا یہ جواب دیا کہ سرکار سے اس کے چھاپنے کی منظوری لے لی گئی ہے، لیکن باوجود اس کے کہ مَیں اس کے بعد کئی مہینے تک وہاں ٹھہرا رہا، میرے سامنے اس کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔ بفرضِ محال چھپتا بھی تو بالکل مسخ ہوتا۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ یہاں چھپنے کو دے دیا۔ جب موازنہ بالکل چھپ جائے تو ازراہِ عنایت اس کی بھی ایک جلد سیکرٹری وکٹوریا میموریل لائبریری کے نام ضرور بصیغہ ویلو پی ایبل بھجوا دیجیے گا۔
یہی نہیں کہ مولانا حالی شبلی کی قدر کرتے تھے، بلکہ جہاں انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ شبلی کو نظرانداز کیا گیا ہے، وہ اس پر حیرت کا اظہار کرتے تھے۔ مولوی عبدالحق نے ایک فہرست تیار کی، جس میں کچھ ایسے لوگوں کا انتخاب کیا گیا تھا، جن کے کام پر تنقیدی مضامین لکھنے کا منصوبہ تھا۔ دانستہ یا نادانستہ اس میں شبلی کا نام شامل نہ ہو سکا تو مولانا حالی نے انھیں لکھا:
جن لوگوں کو آپ نے اس غرض سے انتخاب کیا ہے کہ ان کے کام پر کریٹکل ایسے [critical essay] لکھے جائیں، ان میں سے ایک شخص کا نام ہونے اور ایک کا نہ ہونے سے نہایت تعجب ہوا۔ مولوی سید احمد صاحب میرے نہایت دوست ہیں اور اردو ڈکشنری لکھنے میں جو محنت اور استقلال انھوں نے دِکھایا ہے، اس کی مَیں دل سے قدر کرتا ہوں۔ ان کی ڈکشنری پر ۸۸ء میں ایک لمبا ریویو مَیں خود لکھ چکا ہوں، مگر ماڈرن اردو لٹریچر کا ہیرو مَیں اُن کو نہیں کہہ سکتا اور اس سے بھی زیادہ تعجب شمس العلما مولوی شبلی نعمانی کا نام چھوڑ دینے پر ہے۔ اس فروگذاشت کو سوا اس کے کہ آپ کو انتخاب کرتے وقت ان کا خیال نہ آیا ہو، مَیں اَور کسی بات پر محمول نہیں کر سکتا۔
خود مولوی عبدالحق نے بھی ایک واقعہ بیان کیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ شبلی پر بے جا تنقید پر بھی حالی خاموش نہیں رہتے تھے۔ اگرچہ ان کا لہجہ دھیما ہوتا تھا، لیکن وہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے۔ ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خاں نے دکن ریویو میں مولانا شبلی کی کسی کتاب یا رسالے پر دو مضامین لکھے، جن میں بقول مولوی عبدالحق، ’کسی قدر شوخی سے کام لیا گیا تھا‘۔ جب حالی حیدرآباد جانا ہوا تو ان کی ظفر علی خاں سے ملاقات ہو گئی۔ مولوی صاحب لکھتے ہیں:
دورانِ گفتگو میں انھوں نے متذکرے مضامین کے متعلق ظفر علی خاں کو ایسے شفقت آمیز پیرایے میں نصیحت کرنا شروع کی کہ ان سے کوئی جواب بن نہ پڑا اور وہ سر جھکائے آنکھیں نیچی کیے چپ چاپ سنا کیے۔ مولانا نے یہ بھی فرمایا، ’مَیں تنقید سے منع نہیں کرتا، تنقید بہت اچھی چیز ہے اور اگر آپ لوگ تنقید نہ کریں گے تو ہماری اصلاح کیونکر ہو گی، لیکن تنقید میں ذاتیات سے بحث کرنا یا ہنسی اڑانا منصب تنقید کے خلاف ہے‘۔
مندرجہ بالا اقتباسات سے ثابت ہو جاتا ہے کہ حالی کے دل میں شبلی کی بڑی قدر تھی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شبلی بھی ’بڑے صاحبِ دل آدمی‘ تھے۔ نواب محسن الملک کے نام۱۹؍اپریل ۱۹۰۳ء کے خط میں شبلی نے حالی کو ’ہمارے بزرگ مولانا حالی‘ کہہ کر یاد کیا ہے۔حالی نے شبلی کو حیاتِ سعدی کا نسخہ بھیجا تو شبلی نے اُس پر نہ صرف تبصرہ کیا، بلکہ مولوی محمد سمیع کو اس کے مطالعے کی ترغیب دِلاتے ہوئے لکھا:
یہ شیخ سعدی کی نہایت دلچسپ محققانہ سوانح عمری ہے۔ مَیں نے بے اختیار اس کو تمھارے لیے پسند کیا اور مولوی حالی صاحب کو لکھ دیا ہے کہ وہ تمھارے نام بھیج دیں۔ دیکھو، کہیں واپس نہ جائے، قیمت ایک روپیہ چار آنے ہے۔ واقعی بے مثل ہے اور تم کو اپنے پاس رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اس کتاب کے اَور خریدار پیدا کرنے چاہییں۔
گویا مولوی صاحب جن معنوں میں مولانا حالی کو ’بڑے صاحب دل آدمی‘ قرار دیتے ہیں، شبلی بھی انھی اوصاف سے متصف تھے۔ اس بات کے ثبوت میں ایک اَور مثال پیش کی جا سکتی ہے، یعنی جب شعر العجم کی دوسری جلد میں شیخ سعدی کے حالات قلم بند کرنے کا وقت آیا تو شبلی نے حاشیے میں حالی کو درج ذیل الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا:
مولوی الطاف حسین صاحب حالی نے حیاتِ سعدی میں سعدی کے حالات اور شاعری پر جو کچھ لکھ دیا، اس کے بعد کچھ لکھنا بے فائدہ ہے، لیکن بعض تعلیم یافتہ دوستوں نے حد سے زیادہ اصرار کیا اور آخر مجبوراً لکھنا پڑا۔
شبلی یادگارِ غالب کے متعلق بھی نہایت اچھی راے رکھتے تھے۔ شیخ رشید الدین انصاری کے کسی سوال کے جواب میں شبلی نے لکھا کہ ’مرزا غالب کے حالات و ریویو حالی صاحب نے جس تفصیل سے لکھے ہیں، اس کے بعد کسی اَور کتاب کی کیا ضرورت ہے‘۔
شبلی و حالی کے مابین اختلافات پر گفتگو کرنے کے بعد مہدی افادی کی طرح مولوی عبدالحق بھی وضاحت کرتے ہیں کہ ’مولانا شبلی کو مولانا حالی سے کوئی بغض نہ تھا‘۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذکورہ دونوں بزرگوں کے دلوں میں کوئی بغض نہیں تھا تو پھر ان کے مابین مبینہ ’اختلافات‘ کو نمایاں کرنے کا کیا سبب تھا۔
حیاتِ شبلی میں سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ مولانا شبلی کو اپنے معاصرین میں مولانا حالی کے ساتھ سب سے زیادہ عقیدت، محبت اور اُلفت تھی، ساتھ ہی دو اقتباسات دے کریہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’ یہ چوٹ مولانا حالی پر ہے‘، حالانکہ دونوں اقتباسات میں حالی کا براہِ راست ذکر نہ تھا؛ البتہ حیاتِ جاوید سے متعلق ایک دو جملوں سے شبلی کی ناپسندیدگی ضرور ظاہر ہوتی ہے۔ حبیب الرحمن شروانی کے نام شبلی نے حیاتِ جاوید کو سید صاحب کی یک رُخی تصویر اور مدلل مداحی قرار دیا۔اس سے پہلے وہ یہ بھی لکھ چکے تھے کہ ’حیاتِ جاوید کو مَیں لائف نہیں، کتاب المناقب سمجھتا ہوں اور وہ بھی غیر مکمل‘۔
چونکہ حالی کی نسبت سرسید سے شبلی کی قربت بہت زیادہ تھی، چنانچہ بقول شیخ محمد اکرام، ’اگر ان [شبلی] کی طبیعت کو کسی معاصر کے حالات لکھنے گوارا ہوتے تو وہ حالی کی نسبت کہیں زیادہ مکمل اور زیادہ دلچسپ تصویریں پیش کرتے‘۔ ان کے نزدیک، ’حالی کا کام ایک ریسرچ سکالر کا تھا، انھوں نے سرسید کے کریکٹر اور کارناموں کے بنیادی پہلوؤں اور بنیادی احسانات کو روزِ روشن کی طرح عیاں کر دیا، لیکن پھر بھی کئی اہم معاملات کے اہم پہلو رہ گئے ہیں‘،اور آلِ احمد سرور نے حالی کی اس کمزوری کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ’وہ وہاں بھی خاموش رہتے ہیں، جہاں خاموشی گناہ ہے‘، چنانچہ ’انھوں نے سرسید کی بہت سے کوتاہیوں کی تاویلیں کی ہیں‘۔
حالی سے متعلق شبلی کے مذکورہ بالا خیالات پر خود ان کے قریبی دوست مہدی افادی نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا تھا۔ اگرچہ ان کا یہ کہنا ادبی تنقید کا حصہ نہیں بن سکتا کہ ’شیش محل میں بیٹھ کر اَوروں پر پتھر پھینکنا ایک خوش ادائی سہی، لیکن کیا دانائی بھی ہے‘،البتہ ان کا یہ سوال قابلِ توجہ ہے کہ ’بلحاظِ فن حالی کے جس اقتصار کی طرف نیک نیتی سے شبلی کا ذہن منتقل ہوا ہے، خود ان کی تصنیفات میں یہ رعایت کہاں تک ملحوظ رکھی گئی ہے، یعنی المامون، سیرۃ النعمان، الفاروق اور الغزالی میں انسانی کمزوریاں کس حد تک اُبھار کر دِکھائی گئی ہے؟‘
بہرحال، کسی ہم عصر کی ایک کتاب پر تنقیدی راے سے ’معاصرانہ چشمک‘ کا مذکور غالباً عجلت پسندی ہے، ورنہ تو شبلی مولانا حالی کے علم و عرفان کے نہ صرف قائل تھے، بلکہ انھیں خود پر برتری دیتے تھے۔ خود کو دریا اور حالی کو کنویں سے تشبیہ دیتے ہوئے انھوں نے اس امر کا اعتراف کیا:
جب تک کافی موادِ تحریر موجود نہ ہو، مَیں ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، مگر حالی کی نکتہ آفرینی اس کی محتاج نہیں۔ اُن کی دقیقہ رَس اور نکتہ سنج طبیعت ایسی جگہ سے مطلب نکال لاتی ہے، جہاں ذہن بھی منتقل نہیں ہوتا۔
اس کے ثبوت میں سید سلیمان ندوی کا درج ذیل بیان نہایت اہم ہے:
مولانا کو اپنے معاصرین میں مولانا حالی کے ساتھ سب سے زیادہ عقیدت، محبت اور الفت تھی اور اُن کی دقتِ نظر اور ان کی سخن فہمی کے ہمیشہ مداح رہے۔ فرماتے تھے کہ وہ جوہر کو خوب سمجھتے تھے اور بڑی نازُک تنقید کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ جاحظ کی کتاب البیان و التبیین جب نئی نئی چھپ کر آئی تو مجھے وہ بے ترتیب اور پراگندہ معلوم ہوئی۔ رات کو مولانا حالی آئے اور وہ کتاب مانگ کر لے گئے۔ صبح کو واپس کی تو فرمایا کہ ’یہ نثر کا حماسہ ہے‘۔مولانا [شبلی] کہتے تھے کہ’ اُن کے اس ایک فقرے نے کتاب کے موضوع کو میرے سامنے آئینہ کر دیا اور اُس کی ترتیب کا وہ پہلو میرے سامنے آیا، جو پہلے سامنے نہ تھا‘۔
جنوری ۱۸۹۴ء میں جب شبلی کو ’شمس العلما‘ کا خطاب ملا تو علی گڑھ کالج کی علمی مجلسوں نے ۱۹؍جنوری کو ان کے اعزاز میں ایک بڑا جلسہ ترتیب دیا، جس میں جملہ اکابرِ کالج نے شرکت کی، بالخصوص سرسید احمد خاں، سید محمود، نواب محسن الملک، نواب مزمل اللہ خاں، مسٹر بیک (پرنسپل کالج)، پروفیسر آرنلڈ، جسٹس سید کرامت حسین (پروفیسر)، خواجہ غلام الثقلین، مولانا ظفر علی خاں، مولوی بہادر علی، بعض طلبہ اور مولانا الطاف حسین حالی شامل تھے۔ دیگر اکابر کی طرف سے تہنیتی تقاریر کے علاوہ اس جلسے کی خاص بات مولانا حالی کا تیرہ اشعار پر مشتمل قصیدہ ’من الحبیب الی الحبیب‘ تھا، جو انھوں نے اس موقعے کے لیے لکھا تھا۔ قصیدے کے اوّلین تین اشعار پیش کیے جاتے ہیں:
یا وحیداً من الکرام فریداً
و عزیزاً کمثل علقٍ نفیس
[اے بڑے آدمیوں میں یکتا او ریگانہ اور نادر الوجود، مثل نفیس و نادر چیز کے]
انت اولی بان تُلَقَّبَ شمساً
بَل باَنْ یَّجْعَلون شمس الشموس
[تُو اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ تجھ کو آفتاب کا لقب دیا جائے، بلکہ اس بات کا کہ تجھ کو آفتابوں کا آفتاب قرار دیا جائے]
انت شمسُ الھُدیٰ و لستَ بشمس
یعتریھا الخنوس بعد الخنوس
[تُو ہدایت کا آفتاب ہے اور وہ آفتاب نہیں، جس کو غروب پر غروب لاحق ہوتا ہے]
اس قصیدے کا جواب شبلی نے یورپی خواتین و افسران اور رؤسا و طلبہ علی گڑھ کالج کی طرف سے اسٹریچی ہال میں ۱۷؍فروری۱۸۹۴ء کو منعقدہ ایک عظیم الشان جلسے میں دیا، جس میں رسم خلعت اور عطاے خطاب سرکاری طور پر ادا کی گئی۔ اس موقع پر اپنے خطاب کے آخر میں شبلی نے کہا:
عطاے خطاب کی تقریب میں اکثر بزرگانِ قوم نے مبارک بادی کے جو خطوط لکھے اور میرے رُتبہ اور حالت سے بہ درجہا بڑھ کر جن الفاظ میں قدردانی کا اظہار کیا، ان کا اثر اگرچہ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ مَیں ’ایاز قدر خود بشناس‘ کا مقولہ بھول جاتا، تاہم کچھ شبہ نہیں کہ وہ تحریریں میرے دائمی شرف و عزت کی باعث ہیں اور مَیں ان بزرگوں کا جس قدر شکریہ کروں، کم ہے۔مسلمانوں کے عہد حکومت میں اور آج بھی جہاں اسلامی حکومت ہے، وہاں کے حکومت کے عطا کردہ خطابات سے قومی خطابات کی عزت زیادہ کی جاتی ہے، اس لحاظ سے میری اس عزت افزائی کی نسبت ان بزرگانِ قوم کی طرف سے پسندیدگی اور خوشی کا اظہار، جو ہماری قوم کے جائز قائم مقام ہیں؛ علی الخصوص لسان الملک، فخر قوم اور مخدومِ قوم مولانا الطاف حسین صاحب حالی دام مجدہ کی نظم، جو جنابِ موصوف نے اس موقع پر لکھی ہے، میرے لیے تمغاے فخر اور سندِ عزت ہے۔ بے شبہ یہ وہ بڑی سے بڑی عزت ہے، جو مجھ کو حاصل ہو سکتی تھی اور جس کے حاصل ہونے پر مجھ کو اَور کسی عزت کی خواہش نہیں ہو سکتی۔
ایک طرف حالی کا خراجِ عقیدت تو دوسری جانب شبلی کی طرف سے حالی کی نظم کو تمغاے فخر اور سند عزت قرار دینے سے دونوں کے گہرے اور پُرخلوص تعلقات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جب مولانا حالی کو ’شمس العلما‘ کا خطاب دیا گیا تو مولانا شبلی نے کہا کہ ’اَب اس خطاب کی عزت بڑھ گئی ہے‘۔
۱۸۹۹ء میں شبلی کی علالت اس حد تک شدت اختیار کر گئی کہ انھیں زندگی کی امید نہ رہی۔ ایسے میں مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کو گونڈہ کے ایک اسسٹنٹ سرجن ڈاکٹر مصطفی خاں کی اعظم گڑھ تعیناتی سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’انھوں نے عجیب گرم جوشی سے علاج کیا اور اس سے کچھ فائدہ بھی ہے‘۔پھر کچھ امید بندھی تو ۱۱؍جون ۱۸۹۹ء کو انھی کو لکھا کہ ’اگر خدا نے صحت کامل دی تو مَیں اپنے تمام خالص دوستوں کو مدعو کروں گا، جن میں مولانا حالی، خواجہ عزیز الدین، میر ولایت حسین وغیرہ ہوں گے‘۔اسی سلسلے میں شبلی نے گیارہ اشعار پر مشتمل ایک نظم لکھی، جس کے آخری دو شعر ملاحظہ کیجیے:
مژدۂ صحتِ من ہاں برسانند کنوں
ہر کسے را کہ بمن دعویٰ اخلاص و وفاست
می تواں گفت بہ مہدی و بہ حالی و عزیز
بہ شد آں بندہ کہ از حلقہ بگوشانِ شماست
مرض سے نجات کے بعد مذکورہ بالا ’قصیدیہ کشمیریہ‘ تخلیق ہوا تو اس کی کاپیاں دوستوں کو بھی ارسال کیں۔ مولانا حالی کو بھی بھیجیں، جن کے جواب میں انھوں نے درج ذیل خط لکھا:
قصیدۂ کشمیریہ کی متعدد کاپیاں وصول ہوئیں۔ پہلے اس سے کہ آپ کے عطیے کا شکریہ ادا کروں، مجھ کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے، جس نے مدتِ دراز کے بعد آپ کی صحت کا مژدہ آپ ہی کی زبان سے سنوایا۔ فی الواقع آپ کی حالت نازُک ہو گئی تھی اور مرض کو حد سے زیادہ امتداد ہو گیا تھا، باوجودیکہ آب و ہوا کی بہت ضرورت تھی، مگر آپ کو اس کا موقع نہیں ملا۔ اَب درحقیقت صرف خدا کے فضل پر اور بحسب ظاہر شفیق و ہمدرد معالج پر صحت کا انحصار ہے۔ اذا اراد اللّٰہ شیئاً ھیئا اسبابہ، ایسی حالت میں ڈاکٹر مصطفی خاں صاحب کا اعظم گڑھ میں آنا صاف دلالت کرتا ہے کہ خداتعالیٰ کو ابھی آپ کی قومی خدمات کا سلسلہ بہت دیر تک جاری رکھنا منظور تھا۔ فالحمد اللّٰہ ثم الحمد للّٰہ علی ما انعم علینا با بقائکم و بنعمۃ وجوکم لدینا۔ ۔۔۔
اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالی،شبلی کی صحت و سلامتی کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں اور ان کی صحت یابی کی اطلاع پا کر اللہ کے حضور شکر ادا کرتے ہیں۔حالی کے مذکورہ بالا خط میں سات اشعار پر مشتمل ’قطعہ در شکر صحت یابی شمس العلما مولانا شبلی نعمانی‘ درج کیا، جس کا پہلا شعر پیش کیا جاتا ہے:
للّٰہ الحمد پس از ناخوشی و رنجِ دراز
شبلیِ ما بہ مراد از سرِ بالیں برخاست
یہی نہیں، بلکہ انھیں شبلی کی فتوحات سے بھی خاص دلچسپی ہے، چنانچہ روم میں منعقدہ اورینٹل کانفرنس میں شبلی کی متوقع شرکت کے بارے میں استفسار کے ذریعے اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہیں:
مسٹر آرنلڈ کی تحریر سے اور نیز آپ کے اعلان سے، جو چودھویں[صدی؟] میں چھپا تھا، یہ معلوم ہوا تھا کہ اورینٹل کانفرنس میں، جو اِس سال روم یا اٹلی میں ہونے والی ہے، آپ کا بھی ارادہ تشریف لے جانے کا ہے اور مَیں خیال کر رہا تھا کہ آپ روانہ ہو گئے ہوں گے، مگر قصیدۂ مذکور کے وصول ہونے سے معلوم ہوا کہ ابھی آپ اعظم گڑھ میں تشریف رکھتے ہیں۔ مجھے تاریخ روانگی ٹھیک طور پر یاد نہیں رہی۔ معلوم نہیں کہ ارادہ فسخ ہو گیا یا تاریخ معین ابھی نہیں آئی۔
اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علی گڑھ کالج کے حالات سے دونوں کو دلچسپی تھی، چنانچہ جب کالج کے حالات زیادہ ہی ابتر ہو گئے توشبلی کی طرح حالی بھی پریشان رہنے لگے:
مسٹر بیک کے مرنے کا قبل از وقت ایسا افسوس ہوا کہ بیان نہیں ہو سکتا۔ سید محمود کی بے اعتدالیاں اَب حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں اور لوگوں کو اُن کی آڑ میں کالج کو درہم برہم کرنے کا خاصا موقع مل گیا ہے۔ مَیں نے سنا ہے کہ محسن الملک کو نواب لفٹنٹ گورنر نے نینی تال پر بلایا ہے۔ سید محمود پریزیڈنٹی سے علیحدہ کرنا نہایت ضرور ہے۔ کاش! ہزآنر اُن کے برطرف کرنے کا مشورہ دیں۔ مسٹر ماریسن کو مسٹر بک کی جگہ پرنسپلی پر ولایت سے بلایا گیا ہے، مگر معلوم نہیں کہ انھوں نے تار کا کیا جواب دیا؟ دو نئے پروفیسر ولایت سے اَور بلائے ہیں۔ سردست کالج کی حالت نہایت نازُک ہے۔ خدا انجام خیر کرے۔
ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’شبلی کے علی گڑھ سے ترکِ تعلق کے بعد وہاں کے نازُک حالات کا مولانا حالی نے ان سے جس انداز میں ذِکر کیا ہے، وہ دونوں کے ذہنی اشتراک کا بھی پتا دیتا ہے‘۔
۱۷؍مئی ۱۹۰۷ء کے روز اتفاقیہ بندوق چل جانے سے شبلی کے گزندِ پا کا واقعہ پیش آیا۔ اخبارات کے ذریعے یہ اطلاع ان کے تلامذہ، معتقدین اور احباب تک پہنچی تو ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی، ایسے میں بہت سے عیادت کو آئے، بعض نے خطوط لکھ کر خیریت معلوم کی۔ حالی بھی شبلی کے ایک پاؤں کے ضائع ہو جانے پر افسردہ تھے اور ان کی عیادت کے لیے بھی بے قرار، لیکن ایک تو اُن دِنوں حالی نے آنکھ بنوائی ہوئی تھی اور ڈاکٹروں نے انھیں لکھنے پڑھنے سے بالکل منع کر دیا تھا، دوسرے کبر سنی، چنانچہ وہ فوری طور پر اعظم گڑھ تک کا سفر نہ کر سکے۔ ایسے میں ان کے صاحب زادے حامد حسن نعمانی کے نام ایک خط میں اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرتے ہیں:
آج تک جو کچھ اخبارات کے حوالے سے جناب مولانا [شبلی] کے حالات سنے گئے ہیں، ان سے کچھ تشفی نہیں ہوئی، اس لیے ناچار آپ [حامد حسن نعمانی] کو تکلیف دیتا ہوں کہ آپ میرا یہ خط مولانا کو دِکھا کر اور جو کچھ وہ اپنا حال لکھوائیں، اس کو قلم بند کر کے ازراہِ لطف میرے پاس بھیج دیں، نیز یہ بھی [کذا] لکھیں کہ بمبئی ڈاکٹر رجب علی، جو مولانا کو وہاں سے بلاتے ہیں، وہاں جانے کا ارادہ ہے یا نہیں۔۔۔۔ مولانا کے دیکھنے کو اعظم گڑھ آنے کا بھی قصد ہے، مگر اَب تک ایسے موانع پیش آتے رہے کہ یہ ارادہ پورا نہیں ہو سکا۔ اگر لکھنؤ آنا ہوا تو اعظم گڑھ آنے سے پہلے آپ کو اطلاع دوں گا۔ مولانا کی خدمت میں بصد حسرت دیدار و اشتیاق زیارتِ سلام و نیاز کہہ دیجیے گا۔
شبلی کی زندگی کا یہ حادثہ ایک طرف ایک المیے کا باعث بنا تو دوسری جانب اس واقعے کی کئی ایک شاعرانہ توجیہات بھی سامنے آئی۔ شبلی کے تلامذہ اور بعض احباب نے اس سانحے پر رباعیات و قطعات لکھے ، جو سید سلیمان ندوی کے سپرد کر دیے گئے، جنھوں نے یہ تمام شعری کاوشیں الندوہ کے دو شماروں (ستمبر اور اکتوبر) میں شائع کر دی۔ ان رباعیات کو دیکھ کر مولانا حالی نے بھی ایک رباعی کہی اور مینیجر الندوہ کو بھیج دی۔ حالی نے لکھا:
رسالہ الندوہ میں مولانا شبلی کے احباب کی رباعیات دیکھ کر مجھے بھی یہ خیال ہوا کہ ان کے زمرۂ احباب میں ہونے کا فخر حاصل کروں،لہٰذا ذیل کے چار مصرعے موزوں کر کے آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں، الندوہ کے کسی آئندہ نمبر میں ان کو بھی درج فرما دیجیے گا:
شبلی کہ گزندِ پاش بر دل شکن است
باخستگیش خجستگی مقترن است
چنداں کہ بکاھند فزایند اینجا
کاراستن چمن ز پیراستن است
حالی کے ان جذبات پر شبلی نے الندوہ کے شمارہ دسمبر ۱۹۰۷ء میں ’مولانا حالی کی ذرہ نوازی‘ کے عنوان سے ایک مختصر سا شذرہ لکھا، جس میں حالی کے مذکورہ خط اور رباعی کے اندراج کے بعد ان الفاظ میں اپنی نیاز مندی کا اظہار کیا:
مولانا کا میری نسبت ایسے خیالات ظاہر کرنا محض ان کی ذرّہ نوازی ہے۔ وہ میرے احباب میں شامل ہونے کا ننگ گوارا فرماتے ہیں، لیکن میری عزت یہ ہے کہ مجھ کو اپنے نیاز مندوں کے زمرے میں شامل ہونے کی اجازت دیں۔ اب چند ہی ایسی صورتیں باقی رہ گئی ہیں، جن کو دیکھ کر قدما کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، خدا ان بزرگوں کا سایہ قائم رکھے، آمین۔
۱۹۰۸ء میں شبلی کی فارسی نظموں کا مجموعہ دستۂ گُل شائع ہوا تو حالی کی خدمت میں بھی پیش کیا۔ یہ وہ مجموعہ ہے، جس میں عطیہ سے متعلق ’زیادہ شوخ اور آزاد اشعار قلم سے نکل گئے‘ تھے۔جب یہ مجموعہ حالی کے مطالعے میں آیا تووہ پکار اُٹھے:
کوئی کیونکر مان سکتا ہے کہ یہ اُس شخص کا کلام ہے، جس نے سیرۃ النعمان، الفاروق اور سوانح مولانا روم جیسی مقدس کتابیں لکھی ہیں۔ غزلیں کاہے کو ہیں، شرابِ دوآتشہ ہے، جس کے نشے میں خمارِ چشم ساقی بھی ملا ہوا ہے۔ غزلیاتِ حافظ کا جو حصہ محض رِندی و بے باکی کے مضامین پر مشتمل ہے، ممکن ہے کہ اس کے الفاظ میں زیادہ دِل رُبائی ہو، مگر خیالات کے لحاظ سے تو یہ غزلیں اس سے بہت زیادہ گرم ہیں۔
حالی نے اس مجموعہ کلام پر شبلی کو یوں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’میرا ارادہ تھا کہ اپنا فارسی کلامِ نظم و نثر، جو کچھ ہے، اس کو بھی چھپوا کر شائع کر دوں، مگر دستۂ گُل دیکھنے کے بعد میری غزلیں خود میری نظر سے گر ئیں۔۔۔ و لیس فی ذلک شائبۃ من التصنع‘۔
۱۹۰۹ء میں شبلی کا دوسرا مجموعہ کلام بُوے گُل شائع ہوا، جس کے بارے میں خود شبلی کو خود احساس تھا کہ بالکل پھیکا ہے شبلی کے مطابق:
بُوے گُل کی نسبت تمام اہلِ نظر کی راے ہے کہ دستۂ گُل اور اس میں جذب و سلوک کا فرق ہے۔ واقعی دونوں کے شانِ نزول اسی قدر مختلف ہیں، جس قدر دونوں کے جوش و سرمستی میں فرق ہے۔ لیکن مولانا حالی سب سے مختلف الراے ہیں۔ وہ بُوے گُل کو حال بتاتے ہیں اور دستۂ گُل کو قال۔
مذکورہ بالا تمام بحث سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ حیاتِ جاوید پر چند جملوں کے علاوہ شبلی کے زبان و قلم سے حالی سے متعلق شاید ہی کوئی ناگوار جملہ ادا ہوا ہو۔ رہی بات حیاتِ جاوید پر اعتراض کی تو بقول سید سلیمان ندوی، ’یہ مولانا حالی کی ذات پر نہیں، جن کی وہ بے حد قدر کرتے تھے، بلکہ سرسید کے ناتمام بایگرفی (سوانح عمری) پر اظہارِ خیال ہے‘۔ سید صاحب کے خیال میں، ’اگر حیاتِ جاوید کا مصنف مولانا کا کوئی عزیز بھی ہوتا، تب بھی وہ اس تصنیف کے متعلق اسی قسم کی راے قائم کرتے‘۔وجہ محض یہ تھی کہ شبلی سرسید کے دَورِ آخر کی پالیسیوں سے متفق نہ تھے۔ سرسید سے اختلاف کرنے والوں میں ڈپٹی نذیر احمد بھی شامل تھے، جن کے معروف ناول ابن الوقت کو سرسید کا خاکہ قرار دیا جاتا ہے اور سرسید سے اختلاف تو حالی کو بھی تھا، اس امر کی تصدیق آلِ احمد سرور بھی کرتے ہیں:
حالی بھی ایک زمانے میں حیاتِ جاوید لکھنے کا ارادہ ترک کر چکے تھے اور سرسید کے مرنے سے کچھ پہلے، پیسہ اخبار میں ان کا، وقار الملک اور محسن الملک کا ایک بیان سرسید کے خلاف نکلنے والا تھا کہ ان کی وفات کی خبر نے قدرتی طور پر اسے روک دیا۔
سرسید سے حالی کے درج بالا اختلاف کے بعد شبلی و حالی کی ’معاصرانہ چشمک‘ میں کچھ حقیقت نہیں رہتی، بلکہ ثابت ہو جاتا ہے کہ دونوں بزرگوں کے درمیان احترام کا رشتہ زندگی بھر قائم رہا اور وہ ایک دوسرے کے علمی کاموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ ،،
 

ڈاکٹر خالد ندیم
About the Author: ڈاکٹر خالد ندیم Read More Articles by ڈاکٹر خالد ندیم: 14 Articles with 39510 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.