مفتی شاکراﷲ چترالی
ایم فل اسٹوڈنٹ اسلامیہ کالج یونی ورسٹی پشاور
کامیابی کاحصول ہرذِی شعورانسان کی فطری خواہش،جبّلی آرزواورتشنہ تعبیرخواب
ہے،ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کامیابی کامعیارتقریباہرفردِبشرکامختلف
ہوتاہے،اورہرایک کے لیے کامیابی ایک جدامعنی کاحامل ہے،کوئی حصول زمین و
جائیدادکے لیے مرکھپتاہے،کسی کے لیے زر ’’ہمہ اوست‘‘ ہے،کوئی’’زن‘‘ پرمتاعِ
دل وجان لٹاتاہے اور بہت سوں کے لیے مرتبت اورشہرت کے بغیر زندگی بے معنی
ہے۔
پھراگران باتوں میں سرسری نظرمیں اتفاق بھی کچھ لوگوں میں محسوس ہو
مگرکیفیّت اورکمیّت وغیرہ کے لحاظ سے اتناتفاوت اورفرق ہوگاکہ اس کو اتفاق
کہنا’’برعکس نام نہادن زنگی راکافور‘‘ کے مترادف ہوگا،بایں ہمہ اس سے بھی
انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ اختلافِ فکرونظر تفصیل میں ہے،اجمال میں آتے ہوئے
منتشراورمتشتّت آراء کے اس سمندر کوکوزے میں بندکیاجاسکتاہے۔چنانچہ ہم کہہ
سکتے ہیں کہ بحیثیت مسلمان ہماری آرزو ہے کہ خود کوبھی نجات ملے اورساری
انسانیت کے لیے بھی ہم ہدایت ونجات کاذریعہ بنیں،اوربحیثیت انسان ہماری
خواہش ضروریات ِزندگانی کاحصول اورخواہشات ِنفسانی کی تکمیل ہے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہرخواہش پہ دم نکلے
اب ان تشنہ کام آرزوں کی تکمیل کی صورت میں حصول ِکامیابی کے لیے قانونِ
فطرت اورسنت ِخداوندی یہ ہے کہ اس کے لیے سعی پیہم اورجہد ِمسلسل کی جائے
کہ ’’من جدّوجد‘‘ یہ عام سی بات ہے جومحتاج ِدلیل وبیان نہیں،لیکن کبھی
انسان کے ہاتھ سعی بسیار اورخون پسینہ ایک کرنے کے بعدبھی ناکامی کے سواکچھ
نہیں لگتا یا کامیابی ہاتھ لگ کر پھرچھن جاتی ہے اورکبھی برائے نام اورنہ
ہونے کے برابر محنت سے یامحض بہانے سے ہی تصورات سے بالاترکامیابی ملتی
ہے،یعنی بعینہ وہی بات بن جاتی ہے کہ
’’رحمت حق بہانہ می جوید بہانمی جوید‘‘
مگرسوال یہ ہے کہ ایساکیوں اورکب ہوتاہے؟ واقعات کے تجزیے سے یہی بات
دیکھنے کوملتی ہے کہ ایسی صورتحال میں کچھ باطنی صفات پس ِپردہ عوامل کاکام
دیتی ہیں،اچھی صفات ہوں تونتیجہ اچھااورپھل میٹھا ہوتا ہے،خدانخواستہ بری
صفات ہوں توپھر انسان کو بھگتنا پڑتاہے،ہاتھ لگی کامیابی سے ہاتھ
دھوناپڑتاہے۔
گویاچارباتیں ہمارے سامنے آگئی ہیں،واقعات کے ذریعے ان کو مبرہن اورمدّلل
کرنے کے بعد مطلب کی طرف آئیں گے:
پہلی بات: جدوجہد کے ذریعے دین یاآخرت کی کامیابی۔
دوسری بات: محنت کے بل بوتے دنیامیں عروج۔
تیسری بات:صفات کی وجہ سے دینی سرخروئی۔
چوتھی بات:باطنی اوصاف کی بدولت دنیامیں کامرانی۔
پہلی بات کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی زندگی ایک واضح ثبوت ہے کہ
والد سے جدائی،بادشاہ وقت سے ٹکراو،آگ کی صورت میں ان کے عتاب کاشکار ہونا،
ہجرت،بیوی اورنومولود لخت ِجگر کوبے آب وگیاہ بیابان میں بے یارومددگار
چھوڑ دینا اورپھر جوان سال بیٹے کی قربانی وغیرہ سینکڑوں مجاہدات
اورآزمائشوں کے بعد خود بھی ’’امام النّاس‘‘ ٹھہرے اورآئندہ کے لیے بھی
نبوّت آپ کی نسل میں رکھ دی گئی،اورخودآقائے نامدارﷺ کی مبارک زندگی اس
سلسلے میں شاہدِعدل ہے،اب بھی یہ سلسلہ رکا،تھمانہیں جاری وساری ہے،چنانچہ
مثالیں بے شمار۔
دوسری بات کے لیے ایک ہی مثال کافی ہے،ہجرت کے بعدجب انصار اور مہاجرین میں
مواخاۃ کرائی گئی تواکثریت نے رخصت پرعمل کرتے ہوئے دنیاوی معاملات میں
انصار کی معاونت پراکتفافرمایا، اوراپنے اوقات کودین اورجہادکے لیے وقف
کردیا اوربعض حضرات نے معاونت کوقبول کرنے کی بجائے عزیمت کا راستہ اختیار
فرمایا،ان میں حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ بھی تھے،انہوں نے تجارت شروع کی
توجلدہی فتوحات کادروازہ ان پرکھل گیا،اب یہ خودجہاد کے سلسلے میں اوردوسرے
معاملات میں بھی حضورﷺ کے بڑے معاون بن گئے اورانصار سے بڑھ کر آپﷺ کی مالی
معاونت ونصرت کرنے لگے۔مثالیں ہزاروں ہیں مگر تحریر کادامن تنگ ہے۔
اور ہاں محنت کے ساتھ ہمت بھی بڑی چیزہے،اس جہان ِتگ ودو میں بہ اندازہ ہمت
ہی محنت کی توفیق اورکامیابی ملتی ہے،اس کے لیے ارادے اورعزائم اونچے
رکھیں، مثلا تعلیم ہوتو پی ایچ ڈی سے کم ٹارگٹ نہ ہو،صرف عالم نہ بنیں،محقق
بنیں،معاش کامیدان ہوتوصرف ذاتی مفادات پرہی نگاہیں نہ ہوں،ملک سنوارنے کی
نیت کیجیے اورتبلیغ ِدین کی بات ہوتوہرانسان میں پہنچنے کی کڑھن ہو یہ
ہرگزنہ سوچے کہ یہ کام ہم سے کیسے ہوں گے؟
توفیق بہ اندازہ ہمت ہے ازلّ سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہرنہ ہواتھا
تیسری بات کے لیے بنی اسرائیل کی فاحشہ عورت کے پیاسے کتّے کوپانی پلانے
پرمغفرت اوربنی اسرائیل ہی کے کفل نامی شخص کے حالات کی ماری ہوئی عورت کو
’’جومجبوراًکچھ رقم کے لیے اپنی عزت نیلام کررہی تھی‘‘کوچھوڑنے اوررقم
بخشنے پر مغفرت کاذکراحادیث میں موجود ہے، یہ معمول کے اعمال ہیں ان میں
کوئی بڑی قربانی اور جدوجہد نہیں مگران دونوں کے پیچھے مخلوق پرترس کھانے
اوران کے ساتھ بے لوث ہمدردی کے پوشیدہ جذبات اورباطنی اوصاف نے ان کوانمول
کردیا۔
علاوہ ازیں پہلی اورتیسری بات کے لیے’’نسیم ِہدایت کے جھونکے‘‘ نامی کتاب
میں عصرِحاضر کے پرُفتن اورمسلمانوں کے زبوں حالی کے دور میں ہدایت کی عظیم
دولت سے مالامال ہونے والے نومسلم بھائیوں اوربہنوں کے سینکڑوں واقعات چشم
کشا مثالیں ہیں،ریڈلے جیکز(حالیہ مریم) کوبھی اس موقع پرپڑھ لیجیے گا۔
چوتھی بات کے لیے احادیث میں مذکور بنی اسرائیل کاایک قصہ پیش خدمت ہے کہ
ایک شخص نے حضرت موسی علیہ السّلام سے درخواست کی کہ ہم کلامی پرحق تعالیٰ
سے عرض کردینا کہ مجھے میرے مقدّرکی روزی یکمشت عطافرمادے،حضرت موسی ؑ نے
بہت سمجھایا مگراس کااصرار بڑھتاہی گیا،درخواست پہنچانے پر اس کو بہت
سارامال مل گیا،اِدھر اس نے بقدرِضرورت کچھ رکھنے کے بعد باقی ساراغریبوں
اور محتاجوں پر لٹاناشروع کردیا،اُدھر کافی دنوں بعدحضرت موسی ؑ کویادآیا
توسوچاکہ جاکر دیکھوں کیاکیفیت ہے؟آکرحضرت نے خلاف ِتوقّع عجیب ماجرادیکھا
کہ زبوں حالی کیاہوتی؟یہاں تو ساقی کی نوازش جاری ہے،مال آرہاہے،
جارہاہے،حضرت نے ہم کلام ہوکر حق تعالیٰ سے پوچھا کہ اس کی روزی توختم
تھی،اب کیوں اورکیسے مل رہا ہے؟ جواب آیا کہ: سخیوں پر دروازے بند نہیں
ہوتے،جی ہاں سخاوت ایک باطنی صفت ہے،یہ ساری کرشمہ سازیاں اسی کی رہین منّت
تھیں۔
اس تک کیامحدود؟ ترمذی شریف کی روایت ہے’’تم اس طرح توکل کروجس طرح اس کاحق
ہے توتمہیں بھی پرندوں کی طرح روزی ملنے لگے گی۔‘‘
جی جناب!مغربی دنیا صرف ذہانت اورمحنت کے بل بوتے پردنیا میں کامیاب اور
ترقی یافتہ نہیں ہوئی،ان میں یہی باطنی صفات ہیں جوکسی زمانے میں مسلمانوں
کا زیور ہواکرتی تھیں،مگراب بدقسمتی سے ہم خیانت،جھوٹ،کرپشن اورظلم کے بغیر
کامیابی کوناممکن سمجھتے ہیں۔
آئیے عہد کریں کہ معاشرے کے اس زعم ِ باطل کو توڑیں گے،کامیابی کے ان زرّیں
اصولوں کواپناکر بھی اونچے اونچے عزائم لے کر،محنت کو شعاربناکر اوراچھی
صفات سے آراستہ پیراستہ ہوکر میدان ِعمل میں قدم رکھیں گے، پھران شاء اﷲ
کامیابی قدم چومنے کودوڑ آئے گی،اسی سے تشنہ لب انسانیت کوامن اور راحت
کاساحل ملے گا۔
حسنِ کردار سے ایسا نورِجسم ہو جا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہوجا ئے
٭٭٭ |