محترمہ کلثوم نواز کا تعلق شادی سے قبل عام اور متوسظ
طبقے سے تھا، رستم زماں گاما پہلوان ان کے نانا تھے ان کے والد کا نام
ڈاکٹر حفیظ تھا سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی کے بعد ڈاکٹر صاحب مصری شاہ لاہور
میں شام کے وقت غریب لوگوں کے لیے مفت کلینک کیا کرتے تھے، پاکستان کے
اوائل کے دن تھے جب محترمہ کی پڑھے لکھے گھرانے میں پیدائش ہوئی والدین
تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے انہیں بھی تعلیمی میدان میں اچھا ماحول اور
نسبتاًبہتر مواقع میسر آئے اور یوں انہوں نے اردو ادب میں ماسٹر ڈگری حاصل
کی۔محترمہ غالباً 1971میں میاں نواز شریف کے عقد میں آئیں ،اﷲ نے انہیں دو
بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا،بیٹوں کے نام میاں بیوی نے باہم مشاورت سے
حسن اور حسین اور بیٹیوں کے نام اسماء اور مریم رکھے،بچوں کے نام ان دونوں
میاں بیوی کی دینی رغبت کا واضح اظہار ہیں ،محترمہ کلثوم نواز نے شروع سے
آخر تک اپنا وقار ملحوظ اور محفوظ رکھا،بلاشبہ وہ ایک باوقار خاتون
تھیں،انہوں نے کبھی بھی نمود ونمائش ظاہر ہونے دی نہ خود کو کبھی دوسروں سے
ممتاز کر کے نمایاں ہونے کی کوشش کی، وہ ایک غریب پرور خاتون تھیں، محترمہ
نے اپنے شوہر میاں محمد نواز شریف کا ہر موقع پر ساتھ دیا،جب 1999میں پرویز
مشرف نے میاں صاحب کی حکومت پر قبضہ کر لیا اور سارے خاندان کے مردوں کو
پابند سلاسل کیا ساتھ ہی احتساب کے نام پر انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ شروع
کیا مرضی کی عدالتیں بنواکر میاں صاحب کا ٹرائل شروع ہو ا اور اتنی اسپیڈ
سے شروع ہو ا کہ میاں نواز شریف کو فوراً ہی 21 سال کے لیے نا اہل اور عمر
قید کی سزا سنا دی گئی ،نجانے آج وہ مقدمے فیصلے اور سنانے والے صاحب کن
رنگوں میں ہو ں گے،تاہم اس وقت جب میاں صاحب کا نام لینا بھی جرم تھا
محترمہ کلثوم نواز میدان میں آئیں اور ایک ڈکٹیٹر کو ناکوں چنے چبوا دیے
نتیجتاً اپنے شوہر اور خاندان کو صاف بچا لے گئیں،محترمہ کلثوم نواز نے اس
وقت اس شدت سے مشرف کے خلاف تحریک چلائی کہ فوراً ہی کمانڈو صاحب کو مرضی
کے فیصلے کرو ا لینے کے باوجود شریف خاندان کو چھوڑتے ہی بنی،ایک دن صبح
سویرے قوم کو پتہ چلا کہ جس شخص اور خاندان کو قوم کا مجرم اور چور قرار
دیا جا رہا تھا عدالت نے سزا تک سنا دی تھی وہ اسپیشل جہاز لیکر جدہ سدھار
چکے ہیں،کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے دس سالہ معاہدہ کیا تھا کیا ہو گا مگر
کیا چوروں اور ڈاکوؤں سے معاہدے کیے جاتے ہیں یا انہیں سزا دی جاتی ہے جواب
یقینایہی ہے کہ سزا دی جاتی ہے مگر واقعی اگرکوئی چور اور ڈاکو ہوتو،جنہوں
نے معاہدہ کیا اور باہر بھجوانے کے انتطام کر دیے سوال ان کی کریڈیبیلٹی پر
اٹھاکیوں کہ اس وقت طاقت اور اقتدار میں وہ تھے، پاکستانی سیاسی تاریخ کی
جب بھی بات ہو گی تو محترمہ فاطمہ جناح،محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترمہ
کلثوم نواز کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا،کیوں کہ ایک نے ایوبی آمریت
کا سامنا کیا ایک نے ضیالحق کا مقابلہ کیا اور ایک پرویز مشرف کے لیے لوہے
کا چنا ثابت ہوئی، محترمہ کلثوم نواز جہاں اور جس حال میں بھی رہیں انہیں
کسی نے کبھی شکوہ کناں نہیں دیکھا،وہ ہر حال میں شکر گزار اور خوش رہنے
والی خاتون تھیں،پاکستان میں جب ان کی طبیعت ناساز ہوئی تو انہیں کینسرکے
علاج کے لیے لندن جانا پڑا جس دن وہ لندن جا رہی تھیں اس وقت دوسری طرف وہ
این اے 153کے لیے میدان میں تھیں اس وقت چند چھچھورے کہہ رہے تھے کوئی
بیماری نہیں بس شکست سے ڈر کر بھاگ رہی ہیں مگر پھر دونوں باتیں الٹ ثابت
ہوئیں وہ یہاں نہ ہو کہ بھی یہاں تھیں اور واضح مارجن سے جیت گئیں اور ان
کی موت نے ان کی بیماری پر بھی مہر تصدیق ثبت کر دی ویسے حیرت ہے کہ ہم
بحیثیت قوم اس حد تک اخلاقی دیولیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی
بیماری کا یقین دلانے کے لیے باقاعدہ مرنا پڑتا ہے افسوس ہے ان گز بھر لمبی
زبانوں پر کہ جو اپنی ماں جیسی عورت کی بیماری کا مذاق اڑاتے رہے،طرح طرح
کی بولیاں اور دشنام طرازیاں ان کا وطیرہ رہا ،اور تو اور جہاں محترمہ داخل
رہیں اس ہسپتال اور ان کے گھر کے دروازوں پر پتھر اور جوتے برسائے جاتے
رہے،میاں صاحب اور مریم نواز کو طعنے دیے جاتے رہے کہ یہ احتساب عدالت سے
بچنے کے لیے محترمہ کلثوم نواز کو استعمال کر رہے ہیں ،وہ بیماری میں محتمہ
کلثوم نواز کے پاس ہونے کے لیے بار بار استثناء کی درخواست کرتے رہے مگر
پروپیگنڈا فیکٹریوں کی بھرمار کی وجہ سے انہیں حاضری سے استثناء نہ مل سکا
،جب سزا ہو گئی تو ایک بار پھر طوفان بدتمیزی اپنے عروج پر پہنچا کہ ہو نہ
ہو یہ ضرور ڈرامہ ہے جیل سے بچنے کے لیے اب میاں صاحب اور ان کی بیٹی واپس
نہیں آئیں گے کہ ان کی اہلیہ اور بیٹی کی ماں ڈیتھ بیڈ پر ہے اور حیرت مجھے
ان عالی دماغوں پر بھی ہے کہ جن پر اچھے بھلے پڑھے لکھے ہونے کا لیبل لگا
ہے وہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہے ،لفافہ ماسٹر اور بغض سے بھرے صحافیوں اور
اینکروں کو تو چھوڑیے کیوں کہ ادھر تو پیسہ پھینک تماشہ دیکھ چلتا ہے افسوس
چند سیاستدانوں پر ہے جو بظاہر اچھے بھلے معزز نظر آتے ہیں،میاں صاحب او ر
ان کی بیٹی جیل کے لیے واپس آئے اور آنے سے پہلے بات کرنے کے لیے بیٹی اپنی
امی اور شوہر اپنی بیوی کو آوازیں دیتے رہے کہ شاید ایک بار ہی سہی وہ
آنکھیں کھول کر انہیں الوداع کر دیں،مگر ایسا نہ ہو سکا اور یہ دونوں باپ
بیٹی سزا بھگتنے کے لیے لندن سے پاکستان روانہ ہو گئے،یہاں آ جانے اورجیل
پہنچ جانے کے بعد بھی کچھ بدکردار باز نہ آئے اور بڑی اسکرینوں پر بیٹھ کر
ایک ماں کی بیماری کا مذاق اڑاتے رہے کسی نے سچ کہا ہے کہ زبان کردا ر کا
اور کردار خاندان کا پتہ دیتا ہے،آج محترمہ کلثوم نواز اس دنیا میں نہیں
رہی ہیں تو بہت سے افسوس اور پچھتاوے کاظہار کر رہے ہیں مگر کچھ اب بھی
ایسے ہیں جو نجانے کس مٹی سے بنے ہیں کہ مردوں کو بھی معاف کرنے کو تیا ر
نہیں ،مگر محترمہ کلثوم نواز ان سب کی اچھائی برائی بکوا س و دشنام سے بے
نیاز اگلی منزل کو روانہ ہو چکی ہیں، اﷲ ان کی وہ منزلیں آسان کرے اور یہاں
رہنے والوں اور پروپیگنڈا ماسٹرز کو اﷲ ہدایت دے۔۔
|