ملک میں سیاسی ،معاشی ،افراتفری تو کب سے جاری ہے ہم
مذہبی تنازعات ،گروپ بندیوں ،تفرقہ بازی کا بھی شکار ہیں جس کے باعث ملکی
یکجہتی کو کاری ضرب لگ رہی ہے ۔ملک دشمنی اندرونی وبیرونی قوتوں کے علاوہ
یہود ونصٰاری واحد اسلامی ایٹمی طاقت کو کسی طرح ختم کرنے کے درپے ہیں ۔ایک
طرف تو ہم مغربی طاقتوں کے نشانہ پر ہیں وہ شام ،لیبیا ،مصر ،عراق ،افغانستان
،یمن ،فلسطین ،لبنان جیسے حالات ہمارے ملک میں بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔انہوں
نے ہماری فوج کو اپنے ہی ملک میں اپنی توانائیاں ،طاقت صرف کرنے پر لگادیا
ہے ۔دہشت گردی کے نام پر ہم پر تھونپی یا اپنے سے خود ہی سوار کرنے والی
جنگ نے ہمارے ستر ہزار کے قریب پاکستانی شہید کروادیئے ۔سو ارب ڈالر کا
ہمیں معاشی نقصان ہوا لیکن تاحال کوئی بھی طاقت خصوصاً امریکہ ہم سے مطمئن
نہیں ہے ہر وقت ڈو مور کا مطالبہ کرتا رہتا ہے ۔ہماری امداد بند کردی ہے ۔اتنے
ناگفتہ بہ حالات میں جب ہم کھربوں ڈالر کے قرضوں میں دھنسے ہوئے ہیں ۔بے
روزگاری مہنگائی ،بدامنی کا جن ہمیں نگلنے کو تیار ہے ۔صر ف ایک خوبی ہمیں
تما م تر صورتحال سے نکال سکتی ہے وہ ہے قومی یکجہتی ،مذہبی رواداری ،ہم
آہنگی ،قوت برداشت ،ایک وقت تھا یہاں پر کوئی مذہبی منافرت نہ تھی ۔مجھے
یاد ہے کہ اہل تشیع حضرات بھی سنیوں کی مسجد میں آکر اپنی نماز ادا کرتے
تھے ۔دیوبندی ،بریلوی ،اہلحدیث سب مل کر رہ رہے تھے لیکن پھر ایسا وقت آیا
کہ ہمارے جنازوں،مسجدوں ،گرجاگھروں ،امام بارگاہوں ،مراکز ،بازاروں ،ٹرینوں
،سڑکوں پر خود کش حملے ،دھماکے شروع ہوگئے جس کے باعث ہمارا امن اور معیشت
دونوں تباہ ہوگئے ۔مذہبی منافرت پر مبنی تقاریروں ،جلسوں ،کتابو ں نے بھی
جلتی پر تیل کا کام کیا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ ہمیں محرم الحرام ،عید میلاد
النبی ،عید بقر عید وغیر ہ پر صرف سیکورٹی کے لئے اربوں خرچ کرنے پڑتے ہیں
ایسے حالات میں ہمیں قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم ان اخراجات کو
بچا کر اپنی دیگر مشکلات ،بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی پرخر چ کرسکیں ۔ہمارے
اندر مذہبی رواداری اور قوت برداشت پیدا کرنے کے لئے ہمارے علماء کرام ،مذہبی
جماعتوں ،گروپوں کو مولانا طارق جمیل والا کردار ادا کرنا ہوگا ۔مولانا کو
اﷲ تعالی لمبی عمر عطا فرمائے ۔انہوں نے کبھی بھی مذہبی منافرت ،تفریق کی
بات نہیں کی ۔ایسے مقررین جن کی تقاریر ویڈیو کو سب سے زیادہ سنا جاتا ہے ۔ان
کا اگر کسی شہر وغیرہ میں پروگرام ہو تو تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی ۔الیکٹرانک
میڈیا ،سوشل میڈیا ،کتب ورسائل ان کے بیانات سے بھرے پڑے ہیں ہر طبقہ فکر
کا شخص ان کی تقاریر کو بڑی دلچسپی سے سنتا ہے وہ ہمیشہ اعلی اخلاق ،مذہبی
رواداری ،محبت واخوت کی بات کرتے ہیں وہ جس طبقہ فکر میں بھی چلے جائیں ان
کی تقاریر کو سننے والوں کا سمندر امڈ آتا ہے کیوں؟ اس لئے کہ وہ کسی کا دل
نہیں دکھاتے ،کسی فرقے کی تذلیل نہیں کرتے ان کے بقول دوسروں کے مسلک کو
چھیڑو نہیں اور اپنے مسلک کو چھوڑوں نہیں ۔ہمیں یہی پالیسی اپنانی چاہئے ۔مولانا
اکثر یہاں فرماتے ہیں کہ دین اسلام پھیلا ہی عمدہ اخلاق کے باعث ہے ۔بدقسمتی
سے جس کی آج ہم میں بہت کمی ہے جس کا فائدہ ہمارا دشمن اٹھارہا ہے ۔مولانا
طارق جمیل جن کا ہر طبقہ فکر ،جماعت سے تعلق رہتا ہے وہ ان سے ملنا جلنا
رکھتے ہیں چہ جائیکہ وہ بریلوی ،دیو بندی ،سنی ،شیعہ ،اہلحدیث ،سیاسی ،غیر
سیاسی ،طالب ،عالم ،مدارس ،یونیورسٹی ،ایوان بالا ،ایوان زیرین ،صوبائی
اسمبلیوں سے تعلق رکھتا ہے وہ امن محبت ،بھائی چارے کا پیغام ہر کسی کو
پہنچاتے ہیں ۔اسی لئے اندرون وبیروں ملک انہیں خوب سنا جاتا ہے ۔کوئی
حکومتی ادارہ آج تک یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے کوئی ایسی بات کہہ دی
ہوجس سے ملک میں افراتفری یا مذہبی منافرت پھیلتی ہو ۔اسی قسم کے رویہ کی
ضرورت ہمارے میڈیا اور دیگر مذہبی جماعتوں اداروں میں ہے ۔ہم نے بدقسمتی سے
اسلام کا صحیح چہر ہ غیر مسلموں کو تو چھوڑیں اپنو ں تک کو نہیں دکھایا ۔ہم
نے انہیں تقسیم کرنے اور جنت حاصل کرنے کے شارٹ کٹ طریقے بتا کر انہیں دنیا
وآخرت کی بھلائی اورکامیابی سے کوسوں دورکھا ۔حالانکہ ایک حدیث ؐکے مطابق
ہماری زبان سے بعض اوقات ایسے بول نکل جاتے ہیں جو ہمیں جنت کے اعلی درجوں
تک پہنچا دیتے ہیں جبکہ یہی زبان ایسے بول نکال دیتی ہے جو ہمیں جہنم کے
آخری حصے میں پھینکوا دیتی ہے ۔ہمیں اپنی زبانوں سے میٹھے بول بولنے چاہیں
۔اس سلسلے میں ہر قسم کے میڈیا کا اہم کردار ہے وہ ایسے پروگراموں ،خبروں ،انٹرویوں
،مضامین سے اجتناب کریں جو مذہبی منافرت پھیلانے کا باعث بنیں ۔اہل بیت ؓکی
محبت تو ہر مسلمان کے دل میں ہے ہی لیکن صحابہ کرام اجمعینؓ ،خلفائے راشدینؓ
کی محنت بھی ہمارے دین کا اہم جزو ہونا چاہئے ۔ان کے خلاف جتنا مواد کتابوں
،لٹریچر کی صورت میں موجود ہے یا آرہا ہے اسے ضبط کرنے کے علاوہ بھرپور
کاروائی ذمہ داروں کے خلاف کرنی چاہئے جن جماعتوں ،تنظیموں کو بیرون ملک سے
فنڈنگ ہوتی ہے اور جو مذہبی منافرت پھیلانے میں مصروف ہیں ان کا سدباب کیا
جائے ۔ہمارے لئے مولانا طارق جمیل کا کردار ایک ماڈل کردار ہے جن کی کوششوں
کے باعث ملک سے تفرقہ بازی ،مذہبی منافرت کا خاتمہ ہورہا ہے ہمیں پیار محبت
کا پیغام اقوام عالم کو دینا چاہئے ۔آج مغربی اور تمام تر اسلام دشمن قوتوں
نے شام ،عراق ،لبنان ،یمن وغیر ہ میں خصوصاًمذہبی نفرتوں کا بیج بو کر
مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا ہے ان کا کھربو ں کا اسلحہ
فروخت ہورہا ہے اور ہمارے اسلامی ممالک ایک ایک کرکے تباہ وبرباد ہورہے ہیں
۔ایک ملک کے بعد دوسرے ملک کا نمبر آجاتا ہے ہمیں اپنی تمام تر طاقت ،وسائل
اپنے اندرونی خلفشار ،اختلاف ،تقسیم سے ہٹا کر اپنے مسائل پر لگانے کا موقع
اس وقت ہی مل سکتا ہے جب ہم اپنے اختلافات ،نفرتوں کو مذہبی رواداری سے ختم
نہ کریں ۔
|