ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور رجب حرمت والے مہینے ہیں ۔ابن
عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے خطبہِ حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد
فرمایا " تمھارا خون، تمھارا مال اور تمھاری عزت ایک دوسر ے پر اسی طرح
حرام ہے جس طرح تمھارے آج کے دن کی، اس شہر کی اور اس مہینے کی حرمت
ہے۔اسلام حقیقی معاشرتی اور فلاحی اساس کے قیام کادرس بھی دیتا ہے اور
گمراہی اور پستی کے راستے سے نکل کرمتوازن اور معتد ل راستہ اختیار کرنے کی
تلقین بھی کرتا ہے۔بلاشبہ اسلام کلی طور پر نسل انسانی کی بقا ء کا ضامن
ہے۔محرم الحرام ہمیں پیغام دیتا ہے کہ اپنی زندگیوں کومفید ، مثبت اور صحیح
کاموں میں استعمال کریں اور اچھے اعمال کے ذریعے ان اچھی گھڑیوں کو اپنے
لیے حجت اور توشہ بنائیں تاکہ کل آنے والے وقت میں مایوسی ، پریشانی اور
پشیمانی کے بجائے خدا کی ملاقات کا شرف حاصل ہوسکے۔ واقعہ حسین و کربلا
ہمیں ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے تاکہ ہم ایک دوسرے کے دست وگریباں ہونے
کے بجائے شیروشکر بن کر رہیں ۔کسی ذاتی رنجش یا دشمنی کوبھول کر صلح وعفو
سے کام لیا جائے اور محمد ﷺ اور انکے لاڈلے امام حسینؓ کی سنت زندہ کوکیا
جائے۔ دشمن ہر لمحہ آلتی پالتی مارے شطرنج کی نت نئی چالیں کھیل رہا ہے اور
ہر لحظہ مومن کوچاروں شانے چت کرنے کی ٹھانے ہوئے ہے، جسے ناکام بنانے کی
ضرورت ہے۔
ماہ محرم شروع ہوتے ہیں تمام میڈیا ہاؤسز پر ٹکرز اور بریکنگ نیوز کے ذریعے
سے قیامت صغریٰ کی عملامنظرکشی کی جاتی ہے کہ ماتمی جلوس فلاح جگہ سے برآمد
ہو نگے اور شہروں کے شہر Cordon Off کردیے جاتے ہیں اور ملک کی بڑی اور اہم
شاہرائیں کینٹینرز اور بیریئر وغیرہ رکھ کر عام ٹریفک کے لیے بند کردی
جاتیں ہیں ۔اس خصوصی مشق سے ایک برا تاثریہ ابھرتا ہے کہ خدانخواستہ یہاں
کسی اقلیت کو کوئی خطر ہ ہے حالانکہ پاکستان میں دہشت گردی نام کی کوئی چیز
نہیں ہے ۔سب پاکستانی بھائی ہیں ۔ماہ محترم و مکرم میں اہل تشیع بھائیوں کو
خصوصی سیکیورٹی ضرور دیے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔مگر اس کے ساتھ ساتھ
دوسرے مسا لک و مکاتب فکر کے لوگوں میں اخوت و بھائی چارے کا درس بھی عا م
کیا جائے اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سے شیعہ و سنی برادری کو ـ
ـ’’اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں تفرقہ بازی مت کرو‘‘
کی دعوت دی جائے ۔
متحدہ علماء محاذ، سنی اتحاد کونسل، شیعہ کونسل، متحد ہ علماء کونسل، سیاسی
فائدے کی امن کمیٹیاں اور اس جیسی بے شمار بنی تعصبی و جماعتی کمیٹیاں اور
کونسلیں اپنے اپنے مسالک کے دفا ع کے لیے ہیں۔ مسالک سے بالا تر ہو کر
کمیٹی کا قیام ضروری ہے جو سال بھر کے لیے ہو اور طویل المدتی "بین المذاہب
قومی ہم آہنگی " یا" بین المسالک قومی ہم آہنگی "کے پیغام پر کام کرے۔کیوں
کہ صرف محرم الحرام اور ربیع الاول وغیرہ میں ہی نمائشی ٹی وی ٹاک شوز،
بیانات ، محفلیں منعقد کرانامسئلے کا شافی حل نہیں ہے ۔ایک سینٹرل علماء
کونسل ہو جس میں تمام مسالک ،مکاتب فکر اور ڈی سی آفس کا ایک نمائندہ ہو جو
مل بیٹھ کر تمام معاملات اور پروگرامات خوش اسلوبی سے طہ کریں۔ کیوں کہ اگر
ایسے سنجیدہ معاملات پر خدانخوستہ کاہلی اور لاپرواہی یا نسلی تعصب سے کام
لیا گیا تو پھر خدانخواستہ راجہ بازار، شکار پور جیسے واقعات رونما ہونے کا
خدشہ رہتا ہے۔
اب ہر چیز کا الزام بھار ت اور امریکہ پہ لگا نا عقلمندانہ روش نہیں ہے
بلکہ غیر دانشمندانہ سوچ کی عکاس ہے ۔ عشروں سے ہم یہ رونا رو رہے ہیں کہ
بھار تی ایجنسی "را " بلوچستان اور کراچی کی صورتحال کی ذمہ دار ہے اور
پنجابی طالبان وغیرہ کو اسلحہ فراہم کرتی ہے ۔اگر ایسا ہے توبھارت سے اپنی
دوستی کی پینگیں کم کر کے اپنا دوٹوک موقف پیش کرنا چاہیے!!خداراہ ان جعلی
دواساز کمپنیوں اور انکے بروکرز کے ہتھکنڈوں سے باہر آئیں اور اپنی
کوتاہیوں پر نظر ڈال کر اپنی صفوں سے کال بھیڑوں کو نکال
باہرپھینکیں۔اوربیچارے معصوم عوام پر ظلم وبربریت کا باب ہمیشہ کے لیے بند
کریں۔ یہ موضوع وقت ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحا د پیداکریں اوراسلام اور
پاکستانیت کی پہچان اپنائیں۔حسین ؓ کی سنت محمد مصطفی علیہ السلام کی ہر
ادا پرمر مٹنے کا نام ہے اور پیار ے آقاﷺ نے تو راستے سے کانٹا ہٹانے تک
کوصدقہ اوراپنی سنت کہا ہے۔قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے ۔ اسلام زندہ
ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
|