پاکستانی ثقافت اور کلچر سے
آگاہی ر کھنے والے لوگ اس حقیقت سے بخوبی آگا ہ ہیں کہ گاﺅں میں اقلیتوں کے
ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھا جا تا ہے اور انسان ہو نے کے نا طے انھیں کس
قسم کے احترام سے نوازا جا تا ہے۔ گاﺅں کے چوہدری، وڈیرے اور منتخب لوگ
اقلیتوں سے جس آمرانہ اور قاہرانہ انداز سے پیش آتے ہیں اس کے تصور سے
کلیجہ دہل جا تا ہے۔ جوان لڑ کیوں کا اغوا ان کی آ بر و ریزی اور ہوس پرستی
کی لرزہ خیز داستانیں کسی نہ کسی رنگ میں اخبا روں کی بھی زینت بنتی ہیں
لیکن پھر بھی یہ ان حقائق کی مکمل عکاس نہیں ہو تیں جو فی الو اقع عمل پذیر
ہو رہا ہو تا ہے لیکن باعثِ حیرت ہے کہ کو ئی بھی ذی شعور شخص چوہدر یوں
اور وڈیروں کے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھا نے اور ان کا ہاتھ ر وکنے کے
لئے میدانِ عمل میں نہیں نکلتا بلکہ سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے با
وجود اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے کیونکہ وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ آنکھیں بند
کرنے میں ہی اس کی عافیت ہے وگرنہ اسے بھی رسوائی کی اس دلدل میں گھسیٹ لیا
جا ئے گا جس کے غلیظ چھینٹے اس کے اجلے دامن کو داغدار کر دیں گے اور یوں
برا ئی قدم بقدم آگے بڑھتی چلی جا تی ہے۔۔
اقلیتوں کا ذکر ہی کیا وہاں پر تو معاشرے کے معز زین کو بھی دم مارنے کی
مجال نہیں ہو تی کیونکہ چو ہدریوں نے اپنے مخصوص علا قوں میں کرا ئے کے
قاتل، اوباش، غنڈے اور مضبوط جتھے تشکیل دے رکھے ہو تے ہیں جنکا واحد مقصد
کمزو روں کو دبا نا ،شرفا کی تذلیل کرنا،انھیں زیرِ پا رکھنا اور اپنے پنجہ
استبداد میں جکڑنا ہو تا ہے ۔ جھو ٹی کہا نیاں جھوٹی گو اہیاں، جھو ٹی
شہادتیں اور جھو ٹے الزامات جبر وتشدد کے تخلیق کردہ ماحول میں روز مرہ کا
معمول ہو تے ہیں۔ چوہدریوں کے حاشیہ بردار اور کا سہ لیس اپنے غیر انسا نی
اور فتنہ انگیز اعمال پر فخر کرتے ہیں اور اپنی بہادری کے قصے مزے لے لے کر
سنا تے ہیں لہٰذا ایسے ما حول میں اقلیتوں پر کیا گزرتی ہے اور انھیں مذہب
کی تلوار سے کس بری طرح سے ذبح کیا جاتا ہے اسے سمجھنا چنداں دشوار نہیں ہے
جس ملک میں ذاتی اقتدار کے لئے ایک منتخب وزیرِ اعظم کو جھو ٹے مقدمے میں
سرِ دار لٹکا دیا جا تا ہے وہاں پر قانون و انصاف کی عملداری کا نقشہ کیا
ہے سمجھنے کے لئے کسی افلا طونی منطق کی ضرورت نہیں ہے یہ با لکل آسانی سے
سمجھ میں آ جاتا ہے کہ ہا تھی کے پا ﺅں میں سب کا پا ﺅں ہی سب سے بڑی سچا
ئی ہے۔
ابھی تو چند ماہ قبل کا واقعہ ہے کہ لاہور میں احمدیوں کا بری طرح سے قتلِ
عام کیا گیا، انکی عبادت گا ہوں پر حملے کئے گئے اور انکے ساتھ جسطرح کا
سلوک روا رکھا گیا اسے دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ،
گوجرا نوا لہ، سیالکوٹ اور پاکستان میں بہت سے دوسرے مقامات پر ہونے والے
واقعات اس پر مزید روشنی ڈالنے کےلئے کافی ہیں۔ ۷۷۹۱ کی قومی اتحاد کی
تحریک میں بھی مذ ہبی جنو نیوں نے لوگوں کے گھر و ں کو جلایا تھا ، مخا
لفین کو قتل کیا تھا اور ان پر متشدد حملے کئے تھے اور یہ سب کچھ نظامِ
مصطفےٰ کے نام پر کیا گیا تھا ۔ سلمان تاثیر نے ایسی ہی واردا توں کو روکنے
کے لئے ایک آمر کے بنا ئے گئے قانون پر اظہارِ خیال کیا تاکہ انسانی جانوں
کے ضیاع کو روکا جا سکے لیکن شدت پسند حلقوں نے سلمان تا ثیر پر توہینِ
رسالت کا الزام لگا کر اسکے قتل کا فتویٰ جاری کر دیا۔سلمان تا ثیر کی
زندگی ہمارے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے اسکی پوری زندگی میں کو ئی
ایسا وا قعہ نہیں ہے جس سے توہین رسا لت کی بو آتی ہو اور نہ ہی وہ ایسی
کسی حرکت کا تصور کر سکتا تھا وہ ایک سچا عاشقِ رسول تھا اور اسکے آ با ﺅ
اجداد نے تو شانِ رسالت ﷺ پر قربان ہو نے وا لوں کے لئے اپنی پلکیں بچھا ئی
تھیں لیکن با عثِ حیرت ہے کہ ا نہی کی اولاد کو ذاتی انتقام کا نشا نہ بنا
کر شہید کر دیا گیا ہے حا لانکہ انسان کے بنا ئے ہو ئے قانوں پر اظہارِ
خیال توہینِ رسالت ﷺ نہیں ہے۔۔
دنیا میں انصاف پسندی برابری اور تکریمِ انسا نیت کے نغمے گا نا دوسری بات
ہے لیکن اقلیتوں کو اسلامی احکامات کے مطا بق حقوق د ینا دوسری بات ہے۔جب
کسی فرد اور گروہ کو خود سے کمتر اور حقیر تصور کر لیاجا تا ہے تو پھر نہ
کہیں پر حقوق ہو تے ہیں اور نہ ہی کو ئی برابری کا تصور۔ لہٰذا اقلیتوں کی
بے چارگی اور مجبو ری سے بھر پور فا ئدہ اٹھا یا جا تا ہے۔ گا ﺅں کا چوہدری
چو نکہ علاقے کا خود ساختہ خدا بنا ہو تا ہے لہٰذا اسکے سا منے کسی کو سر
اٹھا نے کی مجا ل نہیں ہو تی۔ جسکی لاٹھی اسکی بھینس کا قانون کل بھی اپنی
پو ری حشر سامانیوں کے ساتھ رو بہ عمل تھا اور آج بھی اسی طرح سے رو بہ عمل
ہے یہ الگ بات کہ اس کی اشکال قدرے بدل گئی ہیں۔ کمزور ،بے یا رو مدد گار،
لاچار اور خستہ حال لوگ دھونس اور دھا ندلی کے سارے نشتروں کو سہنے کے عمل
سے گزرتے ہیں اور وہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں جسے تہذیب کے فرزند جرمِ ضعیفی
کی سزا مرگِ مفا جات کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔بانیِ پاکستان قائدِ اعظم
محمد علی جناح اقلیتوں کو برابری کے حقوق دینا چا ہتے تھے اور یہی وہ زریں
درس ہے جو ہما رے پیا رے بنی حضرت محمد مصطفٰے ﷺ نے اپنی امت کو دیا تھا
لیکن ہم ہیں کہ کسی قانون اور ضابطے پر عمل پیرا ہو نے کی بجا ئے فرعونیت
کا مظاہرہ کر کے کمزوروں کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں اور جو ایسا کرنے کی
کوشش کرتا ہے اس پر فتویٰ لگا کر اسکے قتل کی حد لگا دیتے ہیں۔
موقف کی سچا ئی ذاتی مفا دات کی نذ ہو جا ئے تو پھر دھمکیوں اور متشدد
رویوں سے لو گوں کو ڈرا یا دھمکایا جاتا ہے تا کہ لوگ ظلم کے خلاف آواز
بلند نہ کریں ، بر بریت کو بریت نہ لکھیں، خونِ نا حق کو خونِ نا حق نہ
لکھیں میڈیا کو دھمکیاں، کا لم نگاروں کو دھمکیاں،جنازہ پڑ ھانے والوں کو
دھمکیاں، جنا زہ پڑھنے والوں کو دھمکیاں،بے رحم قتل کی مذ مت کرنے وا لوں
کو دھمکیاں اور عدلیہ کو د ھمکیاں ۔ عارف بھٹی کے قتل کے واقعہ کے بعد
عدلیہ بھی محتاط ہو چکی ہے لہٰذا وہ مذہبی معاملات سے خود کو دور رکھنا چا
ہتی ہے اور کسی ایسے مقدمے میں الجھنا نہیں چا ہتی جس میں مذہبی جذبات کو
ٹھیس پہنچتی ہو۔ وہ گواہیوں، شہادتوں اور وقوعہ کو من و عن تسلیم کرلیتی ہے
اور یوں شدت پسندوں کی گرفت سے خود کو بچا لیتی ہے وگرنہ بصورتِ دیگر انکا
انجام بھی سلمان تاثیر اور عارف بھٹی سے مختلف نہیں ہو گا ۔ لیکن سچ نہ
دھمکیوں سے دبا ہے نہ دبے گا کیونکہ سچ کے سورج کو دنیا کی کو ئی طاقت روک
نہیں سکتی اور سچ یہی ہے کہ سلمان تا ثیر کا قتل اسلام کی بنیادی تعلیمات
کی صریح خلاف ورزی ہے کیونکہ کسی انسان کی جان لینے کا اختیار کسی فردِ
واحد کو حاصل نہیں ہو تا۔۔۔
سلمان تاثیر اس بے رحم تشدد اور طوقِ غلامی کے خلا ف ایک شمشیرِ برہنہ بن
کر نکلا۔ سکہ شاہی اور ظلم و جبر کو چیلنج کیا اور ایک انتہا ئی مشکل کام
کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا لیکن قوت و حشمت کے پجا ریوں کو بھلا یہ
کیسے گوارا تھا کہ کو ئی انکی تشکیل کردہ جنت میں دخل اندا زی کرے اور اسکو
مسمار کرنے کی جسارت کرے۔ لہٰذا سلمان تا ثیر پر ایک ایسے محاذ سے فائر کیا
گیا جسے برداشت کرنا اور جس سے بچ جا نا اسکے بس میں نہیں تھا۔ مذہب ہمیشہ
سے انسا نوں کی کمزوری رہا ہے اور اسکی نفسیا تی کیفیات اور اثرات سے کو ئی
بھی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔ وڈیروں نے ہمیشہ اپنے مفا دات کے تحفظ
کی خا طر مذہب کو ڈھال بنا یا اور مذہبی پیشو ائیت نے ہمیشہ وڈیروں اور
طاقت وروں کو تحفظ فرا ہم کیا کیونکہ انکی اپنی بقا بھی اسی میں مضمر ہو تی
ہے لہٰذا سلمان تاثیر کے خلاف بھی اسی حربے کو آزما نے کا فیصلہ کیا گیا
لیکن سلمان تا ثیر نے انکے سامنے سرِتسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ
اپنے موقف کی سچا ئی کا ببا نگِ دہل اعلان کر دیا۔ موت کے سوداگروں نے اپنی
جنو نیت میں اسکی زندگی کا خاتمہ تو کر دیا لیکن اسکی روح میں تکریمِ انسا
نیت کی چھپی سچا ئی کو مارنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ تکریمِ انسا نیت کی
یہ شمع ہر اس شخص کے دل میں روشن رہے گئی جو انسانی خون کی حرمت کا قائل ہے
اور اس آئیت پر ایمان رکھتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل
ہے۔
رقصِ پا بجو لاں کی، اس نے ہم کو راہ دکھا ئی۔۔ظلم و ستم کے اندھیا روں
میں، اپنے لہو سے شمع جلا ئی
طائرِ بے نوا تھا وہ ،قفسِ جبر کے اندر۔۔ پھر بھی اس نے ہار نہ مانی، پھر
بھی اس نے غزل تھی گا ئی
جنرل ضیا ا لحق پاکستان کا انتہا ئی بے رحم اور سفاک آمر تھا اسی آمر نے
سرِ عام کہا تھا کہ آئین چند صفحوں کی معمولی کتاب ہے جسے میں جب چا ہوں
پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں حا لا نکہ یہ وہی آ ئین ہے جس میں تو ہینِ رسالت کا
وہ قانون بھی ہے جس پر اظہارِ خیال کی وجہ سے سلمان تا ثیر کے قتل کا فتویٰ
جاری کیا گیا لیکن با عثِ حیرت ہے کہ جنرل ضیا ا لحق جو اس آئین کو پھاڑنے
کی بات کرتا ہے اس پر کو ئی فتویٰ نہیں لگتا بلکہ مذہبی پیشوا ئیت اسکے ناز
اور نخرے اٹھا تی ہے اور ذا تی مفادت کے حصول کی خا طر اسکی دست بو سی بھی
کرتی ہے۔ مفادات مقدم ہو جا ئیں تو پھر اس ہجومِ بلا میں نا موسِ رسالت ﷺ
کا علم بلند کرنے کا کہاں ہوش رہتا ہے۔سلمان تا ثیر پر جنرل ضیا الحق کے
دور میں کی گئی آئینی ترمیم پر اعتراض کی بنیاد پر تو ہینِ رسالت ﷺ کا
الزام تھوپا گیا اور مذہبی پیشوا ئیت نے اسکے قتل کا فتوی جاری کر دیااور
پھر مذہبی جنو نیت کے شکار ممتاز قادری نے سلمان تا ثیر کا بے رحمی سے قتل
کر ڈالا لیکن جنرل ضیا ا لحق جو پورے آئین کو پھا ڑنے کی بات کرتا ہے اسکے
بارے میں کو ئی فتوی سامنے نہیں آتابلکہ اسے امیرا لمومنیں کے لقب سے نوازا
جا تا رہا۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے گورنر سلیمان تا ثیر کا مذ
ہب کے نام پر قتل ملک کے استحکام کے خلاف ایک گہری سازش ہے۔ سلمان تا ثیر
کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے انتہا ئی اہم را ہنما ﺅں میں ہو تا تھا۔
انھوں نے جمہو ریت کی جنگ بڑی جرات اور دلیری سے لڑی ہے پوری قوم اسکے جرات
مندانہ موقف اور جمہو ریت کے لئے اسکی قربا نیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی
ہے۔ انھوں نے شا ہی قلعے کی صعوبتوں کو بھی دیکھا ہوا تھا۔ جنرل ضیا کی بے
رحم فوجی ڈکٹیٹر شب کا بھی سامنا کیا ہو ا تھا، میاں برادران کی سول آمریت
کو بھی بڑی جرات سے برداشت کیا تھا۔لیکن یہ ساری صعو بتیں جمہو ریت کی جنگ
میں اسکے پا ئے استقلال میں لغزش پیدا نہ کر سکیں ۔۷۷۹۱ میں سلمان تاثیر کی
شادی کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ جنرل ضیا الحق نے ملک میں مارشل لا
نافذ کر کے سلمان تا ثیر کو پی پی پی کا جیا لا ہو نے کی بنا پر گرفتار کر
کے شاہی قلعے میں بند کر دیا۔ اس زمانے میں میڈیا کی سہو لیات نہیں تھیں
لہٰذا کئی دن تک یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ سلمان تا ثیر زندہ بھی ہے یا کہ
نہیں ۔کافی دنوں کے بعد اس نے جیل سے جو پہلا پیغام اپنے اہلِ خانہ کو دیا
اسکے الفاظ تھے کہ میں نے بھی شیر کا دودھ پیا ہے اور میں وہ لکڑی نہیں ہوں
جسے با آسانی جلایا جا سکے لہذا آپ میری وجہ سے پریشان نہ ہوں میں امتحان
کی ان گھڑ یوں سے سرخرو ہو کر نکلوں گا ۔سلمان تا ثیر نے جمہو ریت کے لئے
دئے گئے ا پنے عہد اور وچن کو کبھی سر نگوں نہیں ہو نے دیا بلکہ وہ جمہو
ریت کے لئے سب امتحا نوں سے گزرتا چلا گیا اور حریت پسند،انسان دوست اور
وطن پرست حلقوں میں اپنی شنا حت بنا تا چلا گیا۔سلمان تاثیر نے اپنے موقف
کی سچا ئی کو اپنے لہو کی لکیر سے جس دلیرانہ اور جرات مندانہ انداز میں
رقم کیا ہے،حریت پسند اسکی اس قربا نی سے خود میں نیا حو صلہ اور توا نا ئی
محسوس کر رہے ہیں اور تکریمِ انسانیت کےلئے اس کی جراتوں کو سلام پیش کر
رہے ہیں۔۔ |