پاکستان کے ایٹمی اثاثے امریکہ
اور ورلڈ پولیس مین بننے کے خوا ہشمند تمام ملکوں کے لئے درد سر بنا ہوا
ہے۔وہ تمام ممالک کو کہ نہیں چاہتے کہ کوئی مسلم ریاست ناقابل تسخیر ہو ان
کے لئے کسی مسلم مملکت کے ایٹمی قوت کا حامل ہونا ناقابل قبول ہے۔اگر تاریخ
کی کڑیاں ملائی جائیں تو یہ نقطہ کچھ تسلی بخش نہیں ہے کہ امریکہ اور اس کے
اتحادی اس ناپاک جنگ کو پاکستان کی سرزمین میں دھکیل چکا ہے ۔ سوچنے والے
کس انداز اور پیرائے میں سوچ رہے ہیں ہمیں کچھ اندازہ نہیں ہے مگر جس ٹارگٹ
کی جانب وہ قوتیں بڑھ رہی ہیں جو انہوں نے کچھ عرصے سے متعین کیا ہوا ہے ۔
اس سے کم از کم ہمارے لا شعور میں کچھ محسوس ضرور ہورہا ہے۔ امریکہ نے اس
قوت کو ختم کردیا جو ببانگ دہل امریکہ کے سامنے سینہ سپر تھا یعنی عراق کی
اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ تجزیاتی جادو گروں کا یہ کہنا کہ امریکہ نے عراق پر
حملہ اس لئے کیا تھا کہ اسے معلوم تھا کہ اس کے پاس ایٹمی ہتھیا ر ہیں جو
کہ امریکہ اور استعماری قوتوں کے لئے خطرہ تھا ۔ اگر ایسا تھا تو کہاں گیا
وہ ایٹمی ہتھیار۔ امریکہ نے خود ہی کہہ دیا کہ عراق سے ایٹمی ہتھیار نہیں
ملے۔ ہمارے خیال میں امریکن ایجنسیاں اتنی مضبوط ضرور ہیں کہ وہ یہ معلوم
کر سکیں کہ کس کے پاس کتنی اہلیت ہے اور کون کتنا فائٹ کر سکتا ہے۔ عراق کے
پاس ایٹمی ہتھیار نہیں تھا عراق کے ایٹمی پلانٹ تو اسرائیل نے پہلے ہی
بمباری کرکے ختم کردیا تھا۔لہٰذا بہانہ سمجھ میں نہ آنے والا تھا مگر
امریکہ نے حملہ کیا اور عراق کو تباہ و برباد کردیا۔ ایران بھی یہود و ہنود
کے لئے کم خطر ہ نہیں ہے احمدی نژاد کے بیانات کانٹے کی طرح چھبتے ضرور ہیں
مگر انہیں معلوم ہے کہ اس کے ساتھ فوجی کاروائی بہتر ترکیب نہیں ہے ۔ لہٰذا
معاشی بائیکاٹ کے زریعے دنیا سے الگ کردیا۔ عراق کے ساتھ بھی پہلے یہی حربہ
استعمال کیا تھا ۔ افغانستان پر حملہ کر کے اس خطے میں باقاعدہ اپنی فوج لے
کر آیا جو کہ عرصے سے امریکہ کا خواب تھا تاکہ نئے اُبھرتے ہوئے طاقتوں پر
نظر رکھ سکے۔
9-11کے بعد امریکہ کو اس خطے میں گھسنے کا باقاعد ہ جواز مل گیا۔ اور
پاکستان کے آمر جنرل مشرف نے انہیں یہ موقع فراہم کردیا۔جنرل کے مطابق بش
کے فون کے جواب yes sir یا no میں دینا تھا وہ کہتے ہیں کہ اگر یس سر نہ
کہتے تو ہمارا بہت برا ہوجاتا۔ اب اس کی تابعداری کی وجہ سے ہمارے پانچوں
انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی کے اندر ہے۔ لہٰذا اب پاکستان کے ساتھ معاہدے
ہوئے اور پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن گیا۔یہ بھی ایک طرح کا
حربہ ہی تھا جس میں پاکستان بری طرح پھنس گیا۔ پاکستان کا امریکا کے اتحادی
بننا چین جیسے دوست ملک کے ساتھ بہتر پالیسی نہیں تھی۔ چین نے بھی پاکستان
دوستی سے تھوڑا سا ہاتھ کھینچ لیا تھا اور بھارت جیسے ازلی دشمن کے ساتھ
روابط بڑھے تھے مگر اب حالات کافی بہتر ہیں۔ ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ
امریکہ کا اصل ٹارگٹ یہ نہیں ہے کہ طالبا ن کو ختم کیا جائے اگر یہی اس کا
مقصد ہوتا تو شائد وہ یہ مقصد بہت پہلے حاصل کرچکا ہوتا۔ اتنا وقت لگانا ،
پاکستان میں خفیہ طریقے سے ایجنیساں لے کر آنا ، پاکستان کے اہم لوگوں کے
ساتھ براہ راست روابط زہن کی گھنٹیاں ضرور بجا رہی ہیں ۔ وکی لیکس نے
انکشاف کیا تھا کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی پلانٹ تک رسائی چاہتا تھا اور
اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ پاکستان یورنیم کی افزودگی کم کردے مگر انہیں
کامیابی نہیں ملی ۔ یہ تو ایک طریقہ تھا رسائی کا ،مگر اس کا یہ مطلب نہیں
کہ امریکہ اور زرائع سے رسائی کی کوشش نہیں کرے گا۔
امریکا آیا تو طالبان کو سبق سکھانے کے لئے تھا مگر کن چکروں میں پڑ گیا ۔
پاکستان کے اندرونی معاملات میں اتنی دلچسپی کیوں ہے ۔ پھر بدنام زمانہ
بلیک واٹر کی پاکستان میں موجودگی کا انکشاف، امریکن ایمبیسی کو دیا جانے
والا وسیع و عریض پلاٹ ،وکی لیکس کا امریکن ایمبیسی کی سر گرمیوں کے حوالے
سے انکشافات ۔؟؟؟؟
اور حال ہی میں جو بائیڈن کا بیان پاک فوج کے بارے میں۔۔۔ یہ سب کس بات کی
طرف اشارہ ہے کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اندرون خانہ ہمارے خلاف کاروائی شروع
ہوچکی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھرہم کیا کر رہے ہیں۔ ہماری پالیسی کیا ہے۔
55ارب ڈالر کا مقروض ملک ، بے روزگاری ، مہنگائی اور امن و امان کی دگرگوں
صورت حال اور سب سے بڑھ کر طالبان کے خلاف غیر منافع کی جنگ۔۔۔۔ ہمارا
ڈائرکشن کیا ہے ؟؟؟ |