میں پیشے کے لحاظ سے پرائیویٹ سیکٹر کا ملازم ہوں سالانہ
چھٹیوں میں کسی بیرونی اسلامی مالک میں سیرو سیاحت پر جانے کا پروگرام بنا
تو ملک کے مشہور دانشور اور دوستوں کے ساتھ جمہوریہ ازبکستان جانے کا موقع
ملا ۔ میرے لیئے بڑی حیرانگی کی بات تھی کہ لاہور سے صرف دو گھنٹے کی
فلائیٹ ہم کو تاشقند لے پہنچی ، تاشقند جو کہ ازبکستان معتدل موسم کا ملک
کا دارلخلافہ ہونے کے ساتھ ازبکستان کا سب سے بڑا آبادی والا شہر ہے۔
تاشقند پہنچنے کے بعد ایک الگ ہی دنیا ہمارے سامنے تھی اور ہم کو ازبک لوگ
سینے پر دل کی جانب اپنا دائیاں ہاتھ رکھ کر ذرا سا جھک کر رحمت کہ کر خوش
آمدید کہ رہے تھے دراصل ازبک لوگ اپنے سے دوسرے لوگوں کو ملنے پر اسی انداز
میں عزت دیتے ہیں اور اپنی پر کشش محبت میں جکڑ لیتے ہیں۔یہ انکی صدیوں
پرانی روایت چلی آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس سے آزادی کے بعد دنیا میں
ازبکستان واحد ملک ہے جس کا سٹینڈرڈ ٹائم پاکستان کے ٹائم کے برابر ہے اور
ازبک لوگ پاکستانیوں سے بے تحاشہ محبت رکھتے ہیں اور پاکستان کا نام بھی
ازبک شہر کراکل پاکستان سے اخز کیا گیا تھا ۔کراکل پاکستان ازبک ملک کا وہ
شہر ہے جس کی کراکل ٹوپی جناب قائد اعظم پہنا کرتے تھے ۔خیر ایئر پورٹ سے
ہمیں سیدھا ازبک ریسٹوران میں لے جایا گیا جہاں پر کھانے کی میز پر فریش
کچومر سالاد ہمارا منتظر تھا سالاد کی جھٹی لگانے کے بعد ہمیں پلاؤ کی ڈش
پیش کی گئی جو کہ ازبک لوگوں سے ساری دنیا میں پلاؤکی ڈش متعارف ہوئی ۔پلاؤ
کھانے کے بعد بتدریج ہمیں دنبہ کے گوشت کے سیخ کباب اور تکے پیش کیئے گئے
اور اس کے بعد فروٹ میں تربوز اور خربوزہ کاٹ کر پیش کیا گیا جو کہ دونوں
پھل بھی ازبک کی سرزمین سے ساری دنیا تک پھیلے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ازبک
الفاظوں میں ہے ساڑھے سات ہزار الفاظ ایسے ہیں جو کہ ہماری اردو زبان کے
حصہ ہیں۔ جن میں چند ایک الفاظ یہ ہیں شوربہ(سالن) ،پلاؤ، کاسا(پیسوں والا
برتن) ، پیشی کی نماز مطلب( ظہر کی نماز کا وقت) ، لوٹا، کباب، چلہ کاٹنا ،
چائے خانے، سموسہ یہ سب اشیاء اور الفاظ ازبکستان سے ہی ہماری زمین پر
پہنچی واپس چلتے ہیں۔ ازبک کھانے کی طرف ازبک لوگ بڑے آرام سے کھانا تناول
کرتے ہیں اور یہ ان کی روٹین کی خوراک کا مینیو ہے جو کہ ہمیں پیش کیا گیا
کھانے کا دورانیہ تقریباً ایک گھنٹہ ہوتا ہے جو کہ سالاد سے شروع ہو کر
فروٹ پر ختم ہوتا ہے۔ کھانے انتہائی لزیز اور کم مرچ، مصالحہ اورگھی آئل کی
کم مقدار میں پکے ہوتے ہیں جو کہ زیادہ مرغن اور طبیعت کیلئے بوجھل نہیں
ہوتے ۔ کھانے کے بعد ہم مختلف اسلامی ورثوں کی زیارتوں کے لیئے روانہ ہوئے
جن میں خاص خاص تاشقند میں ہم نے دیکھیں ان میں حضرت عثمانؓ کا قرآن شریف
جو کہ آج بھی ان کے لہو مبارک کے نشانات سمیت میوزیم میں موجود ہے، امیر
تیمور کا مزار جو کہ ازبک قوم کا ہیرو مانا جاتا ہے جس کی اپنی الگ ہی
تاریخ ہے۔تاشقند کی براڈ وے سٹریٹ سے جو کہ مختلف آرٹسٹوں ( سکیچ میکر)اور
مختلف اشیاء بیچتے ہوئے ازبک لوگ اپنا روزگار بنائے ہوئے ہیں۔ اسی دوران
ازبک لوگوں سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا جو کہ غریب ہونے کے باوجود خوددار ،خوش
لباس ، خوش اخلاق، مہمان نواز مطمئن پائے گئے۔تاشقند کے بعد ہم بذریعہ تیز
ٹرین (فاسٹ ٹرین) جو کہ سیمی بلٹ ٹرین جو کہ ہمیں ساڑھے چار گھنٹے میں
تاشقند براستہ سمر قند سے بخارا لے گئی اس ٹرین کا نام افر سیاب ٹرین رکھا
گیا ہے جو کہ سمر قند کا پرانا نام تھا۔ٹرین کا بھی ایک الگ ماحول صاف
ستھری نوی نکور ٹرین مجال ہے کہ ہمیں ازبکستان کی سڑکوں ، پارکوں اور ٹرین
میں ایک ٹافی کا ریپر بھی ملاہو۔ازبک قوم صفائی نصف ایمان پر عمل پیرا ہے
اس مزے دار ٹرین کے سفر کے بعد ہم بخاراپہنچے جو کہ سلک روڈ پر واقع
2700سال پرانا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ سینٹرل اشیاء کا مین بزنس حب اور اہم
گزر گاہ تھی اور روحانی پیشوواوں کا آبائی اور آخری آرام کا شہر بھی ہے۔
ازبکستان کی سرزمین اسلامی تعمیرات ،مدرسونں ، مسجدوں کی سرزمین بھی ہے
مثلاً بخارا جیسے شہر سے حضرت بہاوالدین نقشبندی ، حضرت امام بخاری ابن
الشیخ، بو علی سینا،ملا نصیر الدین جیسی بڑی ہستیوں کا تعلق بھی اسی عظیم
شہر سے ہے اور شہر بھر میں اسلامی عمارات اپنے حسن کے ساتھ آج بھی آب و تاب
کے ساتھ آباد ہیں اور بخارا جیسے شہر کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے جس کے کلاں
مینار نے چنگیز خان کو جھکنے پر مجبور کر دیا تھا۔اور آج بھی کلاں مینار
اپنے روب اور دب دبے کے ساتھ اسی طرح سلامت کھڑا ہے۔ بخارا کی سیاحت کے بعد
ہم افر سیاب ٹرین کے ذریعے واپس سمر قند کی جانب لوٹے اور سمر قند جسکا
پرانا نامافرسیاب تھا یہ شہر تاشقند کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے اور اسکے بعد
بخارا اور خیوا جو کہ ازبکستان کے نمایاں شہروں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
سمر قند سے چند میلوں پر واقع گاؤں خرتنگ کے مقام پر حضرت امام بخاری ؒ کا
روزہ مبارک ہے جو کہ ایک اپنی الگ ہی داستاں رکھے ہوئے ہے۔ سمر قند بھی قدم
قدم پر اسلامی اقدار کو اجاگر کئے ہوئے ہے اور بہت سی عظیم ہستیوں کو اپنی
آغوش میں سلائے ہوئے ہے۔ سمر قند میں ہم نے حضرت دانیال کی 18میٹر لمبی قبر
کی زیارت کی جس میں حضرت دانیال کی باقیات کو امیر تیمور سمر قند لایا اور
ان کو اس قبر میں دفنا دیا حضرت دانیال کے دو مزارات ہیں ایک ایران کے شہر
سوس میں اور دوسرا سمر قند میں ، سمر قند میں ہم نے آپ ؒ کے کزن قاسم ابن
عباس کے مزار پر حاضری دی اورازبک لوگ ان کو شاہ زنداں کا لقب دیتے ہیں۔
آخر میں ہم نے مرزا اولغ بیگ کے بنائے ہوئے ستاروں کے مطلع بنائی گئی
Observatory کو بھی وزٹ کیا جو کہ ستاروں کے مجموعے اور سورج چاند کی چال
کے مطلق بڑی دلچسپی رکھتا تھا اور ماہر فلکیات تھا اور امیر تیمور کا پوتا
اور شاہ رخ خان کا بیٹا تھا جسکو اس کے اپنے نالائق بیٹے عبدالطیف نے لوگوں
اورعلماء کرام کے دباؤ میں آکر مارڈالا تھا یہ ہی وجہ ہے کہ اس کے قتل کے
بعد ازبک لوگوں نے اپنی اولاد کا نام کبھی عبدالطیف نہیں رکھا۔ سمر قند کی
سیر و تفریح کے بعد ہم ٹرین کے ذریعے دوبارہ تاشقند پہنچے اور اب میں اپنے
ہوٹل میں بیٹھ کر اپنی ٹوٹی پھوٹی یاد داشت کو ٹوٹے پھوٹے انداز میں تحریر
کررہا ہوں اور ازبک قوم کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ ان کی صفائی ستھرائی،
ریشم سے نرم رویے ، غربت کے عالم میں بھی ٹھراؤ اور مطمئن چہرے ، خوش
اخلاقی ، مہمان نوازی، خود اعتمادی ، خودداری ، کسی کے آگے ہاتھ ناں
پھیلانے کی عادت ، کرنسی کی قدر انتہائی کم ہونے کے باوجود اچھا گزر بسر
آخر یہ کونسی مٹی سے بنائی گئی قوم ہے جو کہ ہمارے جیسے کروڑوں پتی ملک کے
لوگوں کو منہ چڑھا رہی ہے اور شرم دلارہی ہے مگر شرم ہم کو مگر آئے گی نہیں۔
میں تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اﷲ آپ کو بھی ہمت عطافرمائے تو کم خرچ
والے اس ملک کو ضرور وزٹ کریں اسلامی تہذیب کے ساتھ ساتھ انسانی ،اخلاقی
اقدار کو بھی غرو رسے ملاحظہ کریں۔بلکہ میں تو کہوں گا چلنا ہے تو ایک بار
ازبکستان کو ضرور چلئے۔ |