پاکستان کے صحرا

سچ کہتے ہیں کہ خوبصورتی منظر یا چہرے میں نہیں دیکھنے والی آنکھ میں پوشیدہ ہوتی ہے۔کسی کو گورا رنگ بھاتا ہے تو کسی کو کالا۔ کسی کے دل میں نخلستان کی جگہ ہوتی ہے تو کسی کے قلب و روح پر ریگستان چھا جاتا ہے۔ ہرے بھرے شمالی علاقہ جات کی طرح قدرت نے صحرا کو بھی ایک منفرد خوبصورتی سے نوازا ہے جو اپنے چاہنے والوں کے دلوں کواتناہی کیف و سرور عطا کرتی ہے جو سرسبز وادیاں اپنے عشاق پر نچھاور کرتی ہیں۔

پاکستان کے دامن میں جہاں کشمیر٬ گلگت بلتستان وشمالی علاقہ جات کی سرسبز وادیاں ہیں وہیں اس کا دامن دلوں کو مسخر کرنے والے صحراؤں سے بھی بھرا ہوا ہے۔ صحرائے چولستان٬ تھر اور تھل٬ اور خاران جیسے خوبصورت خطے اپنی پہچان آپ ہیں۔
 

صحرائے چولستان
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ریاست بہاولپور میں موجود صحرائے چولستان کو مقامی آبادی ’’روہی ‘‘ کے نام سے بھی پکارتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس خطے کی آواز خواجہ غلام فرید کی شاعری میں بھی اسے روہی کے نام سے پکارا گیا ہے۔ جس قدر’’روہی ‘‘میں ریت موجود ہے اسی تناسب سے منظرکشی خواجہ غلام فرید کی شاعری میں بھی موجود ہے۔ آپ لفظوں سے ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ سننے اور پڑھنے والوں پر ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو’’روہی ‘‘میں محسوس کرتے ہیں-
وچ روہی دے رہندیاں نازک نازک جٹیاں
راتیں کرن شکاردلاں دے ڈیہاں ولوڑن مٹیاں
 

image


لفظ ’’چولستان‘‘ ترکی لفظ ’’چول‘‘ سے لیا گیا ہے جس کے معنی ’’صحرا‘‘ کے ہیں۔ تاریخی ضلع بہاولنگر معدوم سے معلوم تک میں اس لفظ کی کئی توجیہات پیش کی گئی ہے۔ 1945 میں منعقد ہونے والی سلوی کلچر کانفرنس میں لیفٹننٹ کرنل ویسٹ لینڈ نے 1870 سے 1935 کے درمیان چولستان کے سروے پر مشتمل ایک منفرد نقشہ پیش کیاتھا۔ جس میں ریت کے ٹیلوں کی جگہ بدلنے کی واردات دکھائی گئی تھی۔ اس نقشہ کے مطابق ریت کے ٹیلوں نے ان 65 برسوں میں آدھ میل سفر طے کیا تھا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ لفظ ’’چولن ‘‘اسی حرکت کی غمازی کرتا ہے۔ یہ قیاس بھی کیا جاتا ہے کہ لفظ چولستان ایک عراقی لفظ ’’چیلستان‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی ہیں ’’بے آب وگیاہ وادی‘‘۔ مقامی زبان سرائیکی میں ’’چھول‘‘ لہر کے معنوں میں لیا جاتا ہے ‘اسی انداز سے اگر لفظ ’’چھولیاں‘‘ ادا کیا جائے تو وہ اپنے آہنگ کی بنیاد پر لفظ ’’چولستان‘‘ کے قریب تر ہے۔ مقامی روایات کے مطابق لفظ چولستان کا ماخذ ’’چولی‘‘ ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چولستان کی عورتیں چونکہ گھاگھرے پر کسی ہوئی چولی پہنتی جو کہ شکل وشبہات میں اس خطہ کے ٹیلوں سے ملتی جلتی ہے۔ خطہ کی مقامی بولی میں ’’روہ‘‘ پہاڑ کو کہتے ہیں۔ چونکہ چولستان میں جدھر بھی نظردوڑائی جائے تو ریت کے ٹیلے پہاڑوں کا سا منظر پیش کرتے ہیں اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ اسے اسی حوالے سے ’’روہی ‘‘کا نام دیا گیا ہو۔

چولستان بہاولپور سے کم وبیش 30 کلومیٹر کی مسافت پر موجود ہے۔ اس کا رقبہ ایک ہزار‘ دو سو مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ علاقہ صحرائے تھر سے جا ملتا ہے جوکہ بھارت اور سندھ تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ جنوب مشرق میں بھارتی ریاست راجھستان سے جا ملتا ہے جسے تھر کہتے ہیں۔ مورخین کے مطابق چولستان کے صحرا میں کسی زمانے میں 400 قلعے موجود تھے۔ یہ قلعہ تین قطاروں میں تھے۔ پہلی قطار پھولرا سے شروع ہوکر لیرا تک٬ دوسری رکن پور سے اسلام گڑھ جبکہ تیسری بیلکنار سے کپوتک تھی۔ ان کی دیواریں جپسم اور گارے سے تعمیر کی گئی تھیں۔ کچھ کا وجود تو ایک ہزار قبل مسیح کا پتہ دیتا تھا۔ اس کا مشہور و معروف مقام قلعہ ڈیراول ہے جسے قلعہ ڈیر اور سنگھ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قلعہ بہاول پور کی تحصیل احمد پور شرقیہ سے 49 کلومیٹر کی مسافت پر صحرا کے وسط میں موجود ہے۔ 220 میٹر کے اس چوکور قلعہ میں 40 برج ہیں۔ اس قلعہ میں سے ایک سرنگ موجود ہے جو اپنے عروج کے زمانہ میں براستہ جیسلمیر٬ دہلی تک جاتی تھی۔ قلعہ کی دیوار کے ساتھ ساتھ ایک نالہ موجود ہے۔ مورخین کے مطابق یہاں سے ایک دریا گزرتا تھا جو کہ دریائے ستلج کی ایک شاخ تھی۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ یہ قلعہ ریاست جیسلمیر کے راجہ کی ملکیت تھا‘ اسے اس کے بھانجے نے تعمیر کروایا۔ اس قلعہ کی دوبارہ تعمیر نواب محمد بہاول خان اول نے 1733 میں کروائی۔ جبکہ ریاست بہاول پور کی الگ عملداری کا آغاز 1690 میں ہوا اور مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا 1719 تا 1748 کے دور میں باقی صوبے داروں کی طرح یہ ریاست بھی خودمختار ہوگئی جبکہ 22 فروری 1833 کو انگریزوں اور بہاولپور ریاست کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کی روسے یہ ریاست بڑٹش سٹیٹس آف انڈیا کے ماتحت آگئی جو کہ ڈائریکٹ برطانوی عمل داری کا حصہ نہیں تھی۔

چولستان کے زیریں علاقہ کو ’’ہاکڑہ ‘‘کہا جاتا ہے۔ جہاں خود رو جھاڑیاں اور پودے مثلا سر٬ تیلے٬سرکانے٬ سروٹ اور ملھے جیسے نباتات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اس علاقہ کے ٹیلوں کی بلندی دو سو فٹ تک ہوتی ہے۔ آندھیوں اور طوفانوں سے چولستان میں جہاں ٹیلے ایک جگہ سے دوسری جگہ سرکتے ہیں وہیں یہ مختلف شکلیں بھی اختیار کر لیتے ہیں ‘جن میں ایک ’’برخان‘‘ کہلاتی ہے۔ ’’برخان‘‘ شکل وشبہات میں پہلی تاریخوں کے چاند سے مماثلت رکھتے ہیں۔
 

image



چولستان میں پانی کی قلت رہتی ہے۔ لوگ ٹوبھوں سے پانی پیتے ہیں۔ جو کسی گہرے علاقے میں بارش کے آنے سے جمع ہوجاتا ہے۔ زیرِ زمین پانی 80 فٹ نیچے موجود ہے مگر وہ کڑوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قبل از مسیح چولستان ایک سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔4000 قبل مسیح دریائے ہاکڑہ کے کنارے اس کی عظیم تہذیب ہاکڑہ نے سانسیں لینا شروع کیں‘جو کہ 1200 قبل مسیح تک پوری آب وتاب کے ساتھ موجود رہی کیونکہ دریا اپنے عروج پر تھا ۔600 ق م میں دریا کے پانی میں کمی ہونا شروع ہوئی اور بالاآخر ایک عظیم تہذیب اپنے انجام کو پہنچی ۔ اس کا مقام مصری٬ بابلی اور میسوپوٹیمائی تہذیبیں کے قریب تھا۔

چولستان میں بولے جانا والا مارواڑی لہجہ ہے اپنے اندر بہت سے تاریخی وجغرافیائی عوامل کو ظاہر کرتا ہے جبکہ ریاست میں موجود ڈائیلیکٹ کو ریاستی بھی کہا جاتا ہے۔ چولستانی معیشت کا انحصار زیادہ تر گائے٬ بکریوں٬ بھیڑوں پر کیا جاتا ہے مگر موسم سرما میں یہاں مختلف قسم کی دستکاری اور مٹی کے برتن بھی بنائے جاتے ہیں ۔اس ضمن میں احمد پور شرقیہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ جہاں کے مٹی کے برتن پنجاب سمیت پورے ملک میں اپنی کھپت رکھتے ہیں۔

چولستانی خواتین بھی اپنی فطرت کے مطابق زیورات سے خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں ۔ان کے زیورات میں نتھ٬ کٹ مالا٬ کنگن اور پازیب کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ جبکہ دیگر صحرائی علاقوں کی مانند ادھر بھی خواتین کی کلائیاں چوڑیوں سے بھری رہتی ہیں۔ چولستان میں بارشوں سے اگنے والا ایک جنگل بھی موجود ہے ۔

سالانہ بارش کی اوسط 12سینٹی میٹر ہے۔ چولستان میں موجود ڈیر اور مسجد کم وبیش سو برس قبل تعمیر کی گئی۔ اس کی تعمیرمیں سفید ماربل استعمال ہوا۔ اس کا طرز تعمیر دہلی کے لال قلعہ اور کسی قدر بابری مسجد سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ چولستان میں موجود چنٹر پیر کا مزار پوری ریاست میں ایک روحانی مقام کا درجہ رکھتا ہے جبکہ روہی میں ہونے والی جیپ ریلی پاکستان سمیت دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔
 

image


1999 کی خشک سالی نے چولستان کی زراعت اور جانوروں پر تباہ کن اثرات مرتب کئے ۔اس ضمن میں پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز(pcrwr) نے دین گڑھ فیلڈ اسٹیشن پر کام کیا جس کے چولستان زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ سائنٹیفیک سروے کے مطابق اس خطہ میں آبی ذخائر بنانے کی گنجائش موجود ہے۔ ادارے کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ آبی ذخیرہ ایسی جگہ پر بنایا جاسکتا ہے جس میں پانی جمع کرنے کی قوت ہے نیز وہ زمین پانی کو بھی کم جذب کرتی ہو۔ایک آبی ذخیرہ کی گنجائش پندرہ ہزار کیوبک میٹر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ انسانوں اور دو لاکھ مویشیوں کیلئے 70 لاکھ کیوبک میٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ باقی ذخیرہ کیا گیا تین سو ملین کیوبک میٹر پانی زراعت اور فارمنگ کیلئے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔

صحرائے تھر
صحرائے تھر دنیا کا نواں بڑا گرم ترین صحرا ہے۔ اس کا کل رقبہ 77,000 مربع میل ہے جو کہ 200,000مربع کلومیٹر بنتا ہے۔ صحرائے تھر پاکستان کی جنوب مشرق اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔350 کلومیٹر تک کی سرحد ہمسایہ ملک بھارت سے ملتی ہے۔ اس خطہ میں مسلمان اور ہندو رہائش پذیر ہیں ۔ پاکستانی تھر میں سندھی اور کولہی آباد ہیں جبکہ بھارت کی ریاست راجھستان کی 40 فیصد آبادی تھر کے علاقہ میں رہائش پذیر ہے۔ ہزاروں برس قبل تھر کا علاقہ سمندر کا حصہ تھا٬ موسمی تبدیلیوں کے باعث سمندر پیچھے ہٹتا گیا اور بارش کی کمی اور دیگر اسباب نے مل کر اسے ایک بے آب وگیاہ صحرا میں بدل دیا جو اب اپنی تشنگی میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔
 

image


’’مارو تھر برسیورے‘‘ جب بادل گرجتے٬ چمکتے تھر کا رُخ کرتے ہیں تو تھر کی صنفِ نازک شہروں کے رئیسوں کے گھر کام کرتے ہوئے بے اختیار اس جملے کو گنگناتی ہے اور اسکی آنکھوں سے بھی پانی جاری ہوجاتا ہے۔ مانا کہ تھر اپنے اندر ایک حسن رکھتا ہے مگر سیاح کی آنکھ سے ہٹ کر احساسات کو پرکھا جائے تو پانی کی تلاش میں پھرتی عورت کو بے بسییوں کو شاعر نے خونِ جگر سے لکھ دیا ہے
’’مھنجے تھر جو حال جے پچھندیں روئی پوندیں روئی پوندیں‘‘ترجمہ:’’میرے تھر کا حال جو پوچھو گے تو رو پڑو گے رو پڑو گے)۔یہ لفظ شاعر کے دل کے غمکدے سے نکلے تو تھر کے باسی کا نوحہ بن کر ایسے گونجے کہ ہر باسی کی زبان پر آگئے۔

اس صحرا میں تاریخی مساجد٬ مندر٬ گرینائٹ کے پہاڑ٬ نمک کی جھیلیں اور زیر زمین کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ نباتات اور حیوانات سے مزین یہ خطہ اپنی خوبصورتی میں منفرد ہے۔ یہ صحرا ’’عظیم ہندوستانی صحرا‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ اسلام کوٹ کے نزدیک کوئلے کے بڑے ذخائر ہمیں تحقیق کی دعوت دے رہے ہیں۔ کراچی سے کم وبیش چار سو کلومیٹر کی مسافت ہے۔ تھرپارکر دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔ تھر اور پارکر۔ پاکستان بننے سے قبل تھرپارکر صوبہ سندھ کا سب سے بڑا ضلع تھا‘جس کا دارلحکومت میر پور خاص تھا۔۔ جسے تقسیم کر کے تین اضلاع میر پور خاص٬ تھرایٹ اور عمرکوٹ بنا دیئے گئے۔

تھر میں ننگرپارکر٬ مٹھی٬ اسلام کوٹ٬ چھاچھرو٬ کانٹیو٬ چیلہار٬ کھینسر اور ڈیپلو کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ مٹھی اس کا ضلعی ہیڈ کواٹر ہے۔ ماروی کے دیس میں 16 لاکھ سے زائد افراد بستے ہیں۔ مقامی آبادی جھونپڑیوں میں رہتی ہے جسے چونرا کہا جاتا ہے۔ تھر کے مسلمان اور ہندو کی جھونپڑی مختلف ہوتی ہے۔ مسلمان اپنا چونرا کی چھت گنبد کی طرح گول بناتے ہیں جبکہ ہندو کے چونرے کی چھت پنسل کی نوک کی مانند ہوتی ہے۔ یہ چونرا گندم کے بھوسے یا روئی ملے گارے سے دس سے بارہ فٹ میں تعمیر کیا جاتا ہے۔ گول دیوار کے اوپر لکڑی سے بنا فریم رکھا جاتا ہے جس میں صحرائی گھاس شامل ہوتی ہے اور اس کی شکل چھتری کی طرح ہوتی ہے۔ یہ طرزِ تعمیر افریقہ میں موجود گول کمروں سے مماثلت رکھتا ہے۔ اکثر گاؤں دس بارہ چونروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آبادی ایسے مقام پر ہوتی ہے جہاں دو ریت کے بڑے ٹیلوں کے مابین پانی جمع ہوسکے جسے مقامی زبان میں ’’بھٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔
 

image


تھر کے موسموں میں ’’چوماسہ ‘‘کو خصوصی مقام حاصل ہے ۔یہ چار مہینے رہتا ہے اور اس کی برسات میں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے اور اس کی خنک ہوائیں انسانی وجود پر رومانوی سحر طاری کردیتی ہیں۔

یہاں کی زراعت میں کالاتل٬ سفید تل٬ گوارا٬ مکئی٬ جوار٬ ٹماٹر٬ اسپغول٬ پیاز اور گاجرکی کاشت بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاقہ ڈیپلو میں بغیر کھاد کے بھی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔ لوبان اور چندن کے درخت بھی موجود ہیں۔ مور٬ تلور٬ تیتر اور ہرن جیسے نایاب وخوبصورت جانور تھر کاحصہ ہیں مگر پانی کی کمی اور غیر قانونی شکار کی وجہ سے یہ دن بدن ناپید ہوتے جارہے ہیں۔

صحرائے تھر میں میاں نوازشریف کے پچھلے دور سے قبل کیکڑا جیسی ٹرانسپورٹ تھی۔ اس دور میں پختہ سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ارباب غلام رحیم نے وزیراعلی بن کر اس علاقہ پر توجہ دی۔ وزیراعظم شوکت عزیز نے ادھر سے الیکشن جیت کر ادھر کی آبادی کو کسی قدر سہولتیں بھی فراہم کیں۔ میر پور اور مٹھی کی رابطہ سڑک کی تعمیر نو کی گئی۔ ضلع تھر کوعمر کوٹ و بدین سے بذریعہ سڑک ملا دیا گیا۔ فراہمی ِ آب کے منصوبے بھی مکمل کیئے گئے مگر بڑے قصبوں اور شہروں تک پانی اور بجلی پہنچی اور سیاسی رکاوٹیں دیہی تھر کی ترقی میں رکاوٹ رہیں۔

صحرائے تھر میں زہریلے قسم کے سانپوں کی کثرت ہے۔ مرکزِ صحت صرف قصبوں نما شہروں میں ہیں اور وہاں بھی سانپ کاٹے کی ویکسین کی عدم دستیابی کی شکایت رہتی ہے اور تھر کے باسی تڑ پ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔

ننگر پارکر کا علاقہ عمر کوٹ سے کم وبیش 200 کلومیٹر کی مسافت پررن کچھ اور تھر کے سنگم پر بارڈر کے نزدیک واقع ہے۔ ننگر پارکر سے قبل ایک چھوٹا سا گاؤں بھالو ہے۔ جو سندھ کی معروف لوک داستان ماروی کی ہیرؤئن کا نگر تھا۔ بھالو کے بعد بو ڈیسر کا علاقہ ہے جہاں بارانی جھیل کے قریب مور محو رقص ہو کر جنگل میں منگل کا سماں باندھ دیتے ہیں٬ اب نہیں معلوم لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟

صحرائے وادی
صحرائے وادی سندھ پاکستان کے شمال علاقہ میں موجود صحرا ہے جو کہ غیر آباد علاقہ ہے۔ یہ دریائے چناب اور سندھ کے درمیان اور پنجاب کے شمال مغربی علاقے پر مشتمل ہے ۔اس کا کل رقبہ 19500مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ موسمِ گرما میں یہ علاقہ گرم ترین اور موسم ِ سرما میں سرد ترین ہوجاتا ہے۔ موسمی تغیر و تبدل اور سختی کے باعث یہ علاقہ غیر آباد ہے۔
 

image


صحرائے تھل
صحرائے تھل پنجاب کے ایک صحرا کا نام ہے جسے کسی زمانے میں ’’دو آبہ سندھ ساگر‘‘ بھی کہا جاتا تھا ۔جس کا علاقہ پوٹھوہار اور سلسلہ کوہ نمک کے جنوب میں دریائے جہلم اور دریائے سندھ کے درمیان میانوالی٬ جھنگ٬ بھکر٬ خوشاب اور مظفر گڑھ پر مشتمل ہے۔ تھل کی لمبائی 190 میل اور چوڑائی زیادہ سے زیادہ 70 کلومیٹر ہے۔ دریائے سندھ اس کا مغربی کنارہ ہے جبکہ جہلم٬ چناب اور راوی مل کر اس کی مشرقی سرحد کا تعین کرتے ہیں۔ یہ تھل کا علاقہ ان اضلاع پر مشتمل ایک مثلث بناتا ہے اور مظفر گڑھ جا کر اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔ خوشاب سے میانوالی کے جنوب کا سارا علاقہ صحرائے تھل پر مشتمل ہے۔ دریائے سندھ سے نکالی جانے والی نہر نے علاقے کوسیراب کر دیا ہے اور ریت کے ٹیلے سرسبز کھیتوں میں تو بدلتے جارہے ہیں لیکن اس سے علاقہ کی قدرتی ہیت میں تبدیلی رونما ہورہی ہے جس سے اس کی قدیم شناخت معدوم ہوتی جارہی ہے۔ اس کی مقامی زبان کا تعلق قدیم زمانے سے گردانا جاتا ہے جسے تھلوچی آہنگ میں ادا کیا جاتا ہے۔ ستر کی دہائی کے بعد ماہر لسانیات اس کے کچھ حصے کو سرائیکی اور کچھ کو ہندکو کے زیرِاثر گردانتے ہیں جبکہ عمومی طور پر یہ سارا خطہ سرائیکی کہلاتا ہے۔ بنیادی لفظوں کے فرق کی وجہ سے کچھ لوگ اسے علاقہ کی زبان کو پنجابی کا تھلوچی لہجہ قرار دیتے ہیں۔
 

image

تھل کے بااثر قبائل میں سید٬ بلوچ٬ بھچر٬ چھینہ٬ ٹوانہ٬ بگھور٬ سیال٬ گاہی٬ آہیر٬ لاشاری٬ راجپوت٬ کھر٬ کلو اور کھوکھر سمیت مختلف قبائل شامل ہیں۔ یہاں کی زرعی فصلیں گندم٬ جوار٬ گوارا٬ باجرہ٬ سرسوں٬ اور تارا میرا شامل ہیں جبکہ کالے اور سفید چنے جیسی سوغات ملک بھر میں مشہور ہے۔ اس کے ثقافتی میلوں میں ’’نور پور تھل کا میلہ‘‘ ٬’’میلہ بابا سیدن شاہ ‘‘٬ ’’میلہ پیر شاہ صغیر‘‘ اور ماڑی شاہ صغیر میلہ قابلِ ذکر ہیں۔

گریٹر تھل کینال کا منصوبہ پہلی مرتبہ آج سے 130 برس قبل 1873 میں پیش کیا گیا۔ دریائے سندھ کے ذریعے اس علاقہ کو سیراب کرنے کا یہ منصوبہ 1919, ,1921,1924,1925 ,1936,اور 1949 میں زیرِ بحث آیا۔ ایگزیکٹو کمیٹی آف نیشنل اکنامک کونسل میں یہ معاملہ 1975 میں پھر پیش ہوا مگر پذیرائی حاصل نہ کرسکا۔ بالاآخر 16 اگست 2001 کواس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے تیس بلین روپے اس منصوبے کیلئے مختص کئے۔
 

image

صحرائے خاران
صحرائے خاران کا علاقہ بلوچستان کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اسے عام طور پر ’’مٹی کے صحرا‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے مئی 1998 کے دھماکے اسی علاقے میں کئے جو اس خطے کی وجہ شہرت بنے مگر دھماکوں کے بعد کئے گئے وعدے اس کے باسیوں سے پورے نہیں کئے گئے۔
 

image

حکومت اگر ذرا سی توجہ دے تو ان خوبصورت صحراؤں کو ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے ڈالر کمانے کا ذریعہ بناسکتی ہے جس سے جہاں ان علاقے کے مکینوں کی زندگی میں انقلاب آئے گا وہیں ملکی خزانہ میں بھی اضافہ ہوگااور تھل کے مکین اپنے علاقے کے قدرتی حسن کوبھی بحال رکھنا چاہیں گے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

A desert is a barren area of land. There are a lot of hot and some cold deserts across the world. But do you know Pakistan also hosts some beautiful deserts? Here are five amazing beautiful deserts of Pakistan you show know about.