بالی یاترا (پہلی قسط)

آفس سے چھٹی لیے ہوئے ایک سال کا عرصہ دراز گزر چکا تھا اور ان کی جانب سے مسلسل دباؤ تھا کہ تیس دن نا سہی، پندرہ دن کیلئے ہم سے رخصت لو اور اپنی چھٹیاں استعمال کرو۔ ہمیں آفس سے چھٹی لے کر گھر بیٹھنا کبھی گوارا نہیں رہا. آخر کار سوچ بچار کر کے ستمبر کے مہینے کا انتخاب کیا۔ سفر کیلئے ستمبر کا مہینہ اس لیے بھی چنا تھا کہ اس ماہ کی چھبیس کو صاحبزادے کی تاریخِ پیدائش تھی...
ہمارا مقصد صاحبزادے کو سالگرہ کا تحفہ دینا نہیں تھا۔ بلکہ ائیرلائن کی بچہ پالیسی کا فائدہ اٹھانا تھا جس کے تحت دو سال سے چھوٹے بچے کی رعایتی ٹکٹ ہوتی ہے جو نارمل ٹکٹ کا دس فیصد ہوتی ہے، اور یوں ہمیں ستمبر میں دو ہفتے کا سفر درکار تھا.

روایت سابقہ کو برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامی سفر کی ٹھانی اور نقشہ گوگلیہ کھول کر ریاض سے دو گھنٹے کی مسافت پر ایک خیالی پرکار سے دائرہ کھینچا کہ اس حصار سے باہر نہ نکلیں گے. اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں سے صاحبزادے کی حرکتوں سے واقفیت ایک اہم وجہ تھی. دراصل صاحبزادے ائیرلائن کی پالیسی سے متفق تھے. جب ان کی ٹکٹ بغیر سیٹ کے ہے، تو سیٹ پر بیٹھنا انھیں اپنی شان کے خلاف محسوس ہوتا تھا اور وہ وقتاً فوقتاً پورے جہاز کے دورے پر نکلتے رہتے تھے. ہمیں بذاتِ خود تو ان کی اس حرکت سے کوئی اختلاف نہ تھا کہ آپ ایک آزاد پنچھی کو چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر کتنا ہی قید کروگے، لیکن ہوائی میزبانوں اور دیگر مسافروں کو یہ دورے کچھ خاص پسند نہ آتے تھے.

نقشہ گوگلیہ کے مطابق دو گھنٹے کے اس حصار میں سوائے دبئی کے اور کوئی بین الاقوامی پرواز نہ تھی. دبئی ہمیں کچھ خاص نہیں بھاتا. ہم سیر و تفریح کیلئے ایسے مقامات کا انتخاب کرتےہیں جہاں پہاڑ، دریا، جھیل، سمندر، آبشار وغیرہ جیسے قدرت کے حسین نظارے ہوں، تاریخ کی جھلکیاں ہوں، یا ثقافتی مقامات ہوں. ہماری اس کسوٹی پر دبئی پورا نہیں اترتا کہ وہاں کے قدرتی مناظر بھی مصنوعی ہیں.

اور ہم ویسے بھی سعودی عرب کی جھلستی گرمی کے ستائے ہوئے آسمان سے گِر کر کھجور میں اٹکنا نہیں چاہتے تھے.
سو، ہم پھیلتے گئے اور دائرہ وسیع کرتے رہے. چار گھنٹے کے حصار میں قاہرہ، عمان اور کراچی شامل ہوئے. کراچی تو اپنا شہر ہے. ہم دیارِ غیر کے رسیا تھے، سو، مزید پھیلنے پر مجبور ہوئے اور چھ گھنٹے کے دائرے میں پہنچے تو باکو، استنبول اور یورپ دریافت ہوئے.
باکو ہماری قدرت والی کسوٹی پر پورا اتر رہا تھا لیکن دل کو کچھ بھایا نہیں.
استنبول... استنبول ہمارے دل کے بہت قریب ہے. نا صرف قدرتی اعتبار سے، بلکہ تاریخی، ثقافتی اور موسمیاتی لحاظ سے بھی ہمیں بہت پسند ہے لیکن ترکی کو شرفِ زیارت بخشے ہمیں ایک سال ہی ہوا تھا.
اور یورپ... حقیقت کچھ یوں ہے کہ ہم تو یورپ کے بہت دلدادہ ہیں، لیکن یورپ کچھ خاص ہمارا دلدادہ نہیں۔ اسے ہم سے یہ خدشہ ہے کہ ہم وہاں جا کر واپس نہیں آئیں گے. ہم سے مراد ہماری ذات نہیں، بلکہ ہماری قوم ہے. ان کا یہ خدشہ کچھ بے جا بھی نہیں کہ زمینی حقائق یہی کچھ کہتے ہیں. اسی ڈر کے پیشِ نظر ہم نے وہاں جانے کا خیال کبھی اپنے دل میں نہیں آنے دیا.
سو، ہم مزید پھیلتے گئے اور دائرہ کار آٹھ گھنٹے، اور پھر بارہ گھنٹے تک بڑھاتے چلے گئے.

اس دوران دنیا کے کئی ممالک دریافت کیے. ایک طرف خلیجی ممالک کی گرمی تو دوسری طرف یورپی ممالک کی سرد مہری نے اس وسیع و عریض دنیا پر ہمارے لیے چند ملک ہی سیاحت کیلئے چھوڑے تھے.

عزت دار مہمان جب کسی کے گھر جاتا ہے تو اس کی آؤ بھگت میں لمبی چوڑی تیاریاں کی جاتی ہیں. مہمان آتا اپنی مرضی سے ہے لیکن جاتا میزبان کی مرضی سے ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ دیر تک اپنے ہاں بٹھایا جاتا ہے. اس کی دلجوئی کیلئے اس سے تا دیر گفت و شنید کی جاتی ہے کہ اسے بوریت یا اکیلے پن کا احساس نا ہو. اس سے کہا جاتا ہے کہ فون سے کام نہیں چلے گا، آپ کو بذاتِ خود ہمارے پاس آنا پڑے گا... اور اب آ ہی گئے ہیں، تو ہم آپ کو اتنا جلدی واپس نہیں جانے دیں گے.

ہمارا پاسپورٹ دنیا کے بہترین پاسپورٹوں میں سے ہے. سو، اسے بھی ایک عزت دار مہمان کی طرح میزبان ایمبیسی میں بلایا جاتا ہے اور مہمان نوازی کےتمام تر آداب ملحوظِ خاطر رکھے جاتے ہیں. ہم اس لمبی چوڑی مہمان نوازی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے... سو، کسی ایسے میزبان ملک کی تلاش میں تھے جو آنلائن پر اکتفا کرے اور گھر نا بلائے.

بالآخر انڈونیشیا پر انگلی، یعنی کرسر، رکھا اور پروازیں ڈھونڈھنے لگے.ریاض سے انڈونیشیا گیارہ گھنٹے کی پرواز ہے۔

انڈونیشیا سترہ ہزار جزیروں پر مشتمل ملک ہے جس کے اڑھتیس صوبے ہیں. یہ آبادی کے لحاظ سے مسلم اکثریت والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے. اس کی آبادی اٹھائیس کروڑ ہے. اڑھتیس صوبوں میں سے ایک صوبہ بالی ہے جو ہماری منزل تھا.

 

Yasir
About the Author: Yasir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.