🌊 دریائے سوات کے کنارے... ایک ادھورا سفر

🌊 دریائے سوات کے کنارے... ایک ادھورا سفر

افتخار احمد ملک کے قلم سے

جولائی 2023 کی ایک خوبصورت مگر قدرے پریشان صبح تھی۔ جمعہ کا دن تھا، اور اسلام آباد کی فضا میں ہلکی نمی، سورج کے ساتھ سفر کی چمک گھل رہی تھی۔ ہم سب کے چہروں پر ایک ہی رنگ تھا — سفر کا رنگ۔ لیکن سفر شروع ہونے سے پہلے ہی ہمارے ایک دوست، کامران صاحب، نراض ہو بیٹھے۔ جانے کون سا جذبہ جاگا کہ بولے، “میں نہیں جا رہا۔”
ہم نے لاکھ منانے کی کوشش کی، یہاں تک کہ ان کے سامنے بریانی... اوہ معاف کیجیے گا، گوشت کی خوشبو تک دکھا دی، مگر وہ ضد پر اڑے رہے۔ آخر بڑی منتوں، وعدوں اور مذاقوں کے بعد راضی ہوئے تو ہم نے سکھ کا سانس لیا۔

سامان گاڑی میں رکھا گیا تو کسی نے ہنستے ہوئے کہا:

“کامران صاحب! اگر آنا نہیں تھا تو اپنا سامان سب سے پہلے کیوں رکھا گاڑی میں؟”
سب ہنس پڑے، اور ہنسی وہ چنگاری بن گئی جس سے سفر نے جنم لیا۔

زاہد اقبال اعوان صاحب، جو خود ساختہ کافلے کے سردار تھے، نے ڈرائیور سے کہا:
“بھائی، کشمیر روڈ سے چلنا، رش کم ہوگا۔”
لیکن ڈرائیور جیسے اپنے خوابوں میں ڈبل روڈ دیکھ کر عاشق ہو چکا تھا، وہ ادھر ہی مڑ گیا۔
اور ہم رش میں پھنس گئے۔ میں نے زاہد صاحب کو یاد دلایا،

“آپ نے کہا تھا مجھے ڈبل روڈ سے لے لینا، مگر آپ تو خود وہیں آ گئے جہاں رش ہی رش ہے!”
سب ہنسنے لگے، اور وہ رش ہمیں برا نہ لگا — جیسے خوشی کی ابتدا ہلکی سی الجھن سے ہو۔

🌿 جمعے کا سفر، وضو کے امتحان

راستے میں جمعے کا وقت قریب آیا تو ایک مسجد دیکھی، گاڑی روک دی۔
وضو کے لیے گئے تو ایک دوست بولا، “یار، اس واش روم کا پچھلا حصہ تو غائب ہے!”
میں نے جواب دیا، “آگے سے بھی کچھ خاص نہیں!”
ہنسی کے بیچ وضو کیا، جمعہ پڑھا، اور سوچا —

شاید کسی نے واقعی کہا تھا:
“نیت صاف ہو تو دروازے کی کیا ضرورت!”

🍖 دریا کنارے گوشت اور نیکی

دل چاہا کہ دریا کنارے کوئی جگہ مل جائے۔ آخر ایک خوبصورت موڑ پر رکے — سامنے بہتا دریائے سوات،
دائیں طرف درختوں کا جُھرمٹ، اور بائیں پہاڑ۔
کچا راستہ تھا، ایک گاڑی کیچڑ میں پھنسی ہوئی ملی۔
سب نے مل کر نکالا۔ کسی نے کہا،

“سفر میں نیکی بھی ہو جائے تو برکت بڑھ جاتی ہے۔”
ہم نے مسکرا کر “آمین” کہا۔

کچھ دوست گوشت گرم کرنے لگے، کچھ گاڑی نکالنے میں لگ گئے۔
اور پھر کھانے کا وقت آیا۔
ڈرائیور نے چابی ریاض کو پھینکی، مگر وہ چابی دریا کے حوالے ہو گئی۔

“ریاض کے ہاتھ تو خالی رہ گئے، مگر دریا امیر ہو گیا!”
گاڑی لاک، ہم حیران۔ چابی ڈھونڈنے نکلے مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔

کچھ مقامی بچے بھی ساتھ ہو لیے۔ ایک تجویز آئی کہ دریا کا پانی روکیں،
پتھروں سے بند بنائیں تاکہ چابی نظر آ جائے۔
پانی تو کم ہوا مگر چابی غائب ہی رہی۔
اسی وقت کسی نے کہا، “یہاں سانپ ہے!”
سب اچھل پڑے، ایک نے کہا،

“اگر سانپ نے چابی نگل لی تو اب تو ڈپلیکٹ ہی بنوانی پڑے گی!”
ہنسی اور خوف نے مل کر عجب فضا پیدا کر دی۔

☕ چائے، چٹائی اور چابی والا

چابی نہ ملی تو فیصلہ ہوا، اب چائے پی جائے۔
اقبال صاحب نے چائے بنانی شروع کی۔
اسی دوران جواد ملک صاحب نے ایک مقامی لڑکے کی چٹائی دیکھی اور آرام سے لیٹ گئے۔
لڑکا فون پر پشتو میں مصروف تھا، نہ اسے ہماری سمجھ آئی نہ ہمیں اس کی۔
تھوڑی دیر میں جواد صاحب نیند کے مزے لینے لگے۔
اتنے میں چائے تیار ہوئی، خوشبو پھیل گئی —

“چائے وہ مشروب ہے جو دکھ کو ذائقہ دے دیتا ہے!”
چائے کے دوران چابی والے سے رابطہ ہوا،
وہ کہیں گیا ہوا تھا مگر بولا، “چند لمحوں میں آتا ہوں۔”

اسی لمحے ریاض صاحب رنگ بدلنے نکلے۔
ان کی ٹراؤزر کا رنگ ایسا تھا جو دنیا میں شائد پہلی بار دیکھا گیا۔
سب ہنس پڑے۔

“یار، یہ رنگ تو صرف قوسِ قزح کے بعد ہی آتا ہے!”
یہ واقعہ آج تک یاد کیا جاتا ہے۔

آخرکار چابی ملی، تصویریں بنیں، چائے ختم ہوئی،
اور دل میں اطمینان کا دریا بہنے لگا۔
پھر ہم نے سفر دوبارہ شروع کیا —
منزل: بحرین۔

🏠 بحرین کی رات اور خوابوں کی نیند

وہاں پہنچ کر عرفان احمد اور زاہد اقبال نے ہوٹل تلاش کیا۔
ایک مناسب کرایے پر کمرہ ملا۔
وقاص جو کہ ککِ خاص تھا، فوراً کھانا بنانے میں لگ گیا۔
سب نے کھایا، تھوڑا بازار دیکھا، اور پھر نیند کی گود میں ایسے سو گئے
جیسے کبھی جاگے ہی نہ ہوں۔

“سفر تھکاوٹ نہیں دیتا، یادیں دیتا ہے — اور نیند ان یادوں کا انعام ہے۔”

🌄 واپسی، جدائی اور جھیل کی صدا

صبح ٹھنڈی ہوا کے ساتھ جاگے، چائے پی، ناشتہ کیا۔
مجھے مجبوری کے باعث واپس آنا پڑا۔
دل نہیں مان رہا تھا، مگر مجبوریوں کے پر جل نہیں ہوتے۔
دوستوں سے تصویریں لیں، الوداع کہا، اور اداس دل کے ساتھ لوٹ آیا۔

“کچھ راستے واپس نہیں آتے، صرف دل میں رہ جاتے ہیں...”

🚙 جھیل کا سفر اور حادثہ

کلام پہنچ کر انہوں نے ایک جیپ کرایے پر لی۔
ڈرائیور کو کہا گیا کہ “ہم شام تک لوٹ آئیں گے، انتظار کرنا۔”
وقاص اور کامران چھت پر چڑھ گئے — دل بہادر، ہوا دوست۔
ریاض نے آڑو خریدے، جنہیں مقامی زبان میں کچھ بھلا سا نام تھا۔
سب خوش، سب پُرجوش۔
راستہ دریا کے کنارے، درختوں کے جھرمٹ میں،
گلئشئر کے کنارے سے گزرتا ہوا — جیسے جنت کا راستہ۔

مگر قسمت نے ہنسی بدل دی۔
جیپ اچانک پیچھے ہٹنے لگی۔
چھت والے کود گئے، ایک موبائل دریا میں جا گرا۔
ڈرائیور کے بریک نہ لگے،
اور گاڑی دریا میں جانے ہی والی تھی کہ ایک بھاری پتھر درمیان آ گیا۔
اللہ کا کرم ہوا — جیپ رک گئی۔
لیکن جب ایک دوست نے چھلانگ لگائی تو اس کا پاؤں گاڑی کے نیچے پھنس گیا۔
یہ وہی دوست تھے جو کچھ دیر پہلے کہہ رہے تھے،
“میں پانی میں نہیں جاتا، بہت ٹھنڈا ہے!”
اور اب وہ خود دریا کے بیچ پھنسے ہوئے تھے۔

سب مدد کو دوڑے۔ ایک بزرگ نے کہا،
“ٹائر کھولو، پاؤں نکل آئے گا، مگر خطرہ ہے، کٹ بھی سکتا ہے!”
سب رک گئے۔
آخرکار رسے منگائے گئے، جیپ کھینچی گئی،
دوست آزاد ہوا — زخمی مگر محفوظ۔

“زندگی کبھی کبھی ایک لمحے میں امتحان لے لیتی ہے۔”

🏥 زخمی دوست اور واپسی

زخمی دوست کو سیدو شریف کے اسپتال لے جایا گیا۔
وہاں سہولیات کم تھیں، مگر دعائیں زیادہ۔
خوشی ہوئی کہ ہڈی نہیں ٹوٹی، صرف سوجن تھی۔
شکر ادا کیا، اور واپسی کا سفر شروع کیا۔
رات ہو گئی، ایک سنسان ہوٹل میں رکے،
چائے پی، کھانا کھایا، اور جیسے کسی جنگ سے لوٹے ہوں۔
کچھ دوست خاموش تھے، جنہوں نے پہلی بار ایسا سفر دیکھا تھا۔
ہم نے ان سے کہا:

“زندگی کا حصہ ہے یہ سب۔ ڈرنا نہیں، سیکھنا ہے۔”

🌅 انجام اور ادھورا وعدہ

اسلام آباد پہنچ کر میں نے زخمی دوست کی تیمارداری کی۔
سب خیریت سے تھے۔
میں نے سوچا،

“میری قسمت میں تکلیف نہیں تھی، اس لیے میں پہلے ہی لوٹ آیا۔”
پھر خود سے وعدہ کیا —
اگلی بار، جب سب تیار ہوں گے،
ہم دوبارہ جائیں گے — اسی جھیل، اسی وادی،
اسی دریا کے کنارے،
جہاں یہ سفر ادھورا رہ گیا۔


“ہم چلے تھے خوشیوں کی تلاش میں،
دریا نے دکھا دیا — سفر صرف منزل نہیں، احساس بھی ہوتا ہے۔”

 

Iftikhar Ahmed Awan
About the Author: Iftikhar Ahmed Awan Read More Articles by Iftikhar Ahmed Awan: 4 Articles with 6760 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.