اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ جماعت اسلامی جتنا
مرضی چاہے اپنے اسلامی خود ساختہ خول سے باہر نہیں نکل سکتی۔ شاید جماعت
اسلامی کے اکابرین ایسا نہیں چاہتے ، یاوقت کے دھارے اور شیطان کی چالیں
انہیں چوکنا رکھتی ہیں یا وہ اپنے پرانے بزرگوں کے ہاتھوں مجبورہیں یا وہ
مولانا مودودی ، میاں طفیل، قاضی حسین احمد یا سید منور حسن کی وسیع النظری
اور اسلامی و سیاسی فلسفے کو مذہب و سیاست میں خلط ملط کر کے وکھرا تجربہ
کرنا چاہتے ہیں۔ پتہ نہیں وہ کیا نقطہ ہے جس پر آج جماعت اسلامی چل نکلی ہے
۔جبکہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی نے توسیاست کو کڑوی اور میٹھی
امیزش سے مرقع معتدل لباس گردانا تھا۔حاصل کلام ہرگز یہ نہیں کہ جماعت
اسلامی اپنی اساس کھو چکی ہے یا اسے کمیونزم، فاشزم یا کپیٹلزم کی بل کھاتی
اور منڈلاتی سازشوں نے گھیر رکھا ہے ۔جماعت ا سلامی کا موجودہ امیر سراج
الحق بہترین صلاحیتوں کا حامل ہے لیکن اس بار میدان میں بری طرح چت ہوا ہے
۔مجھے یہ بات کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ سراج الحق نے اپنی شخصیت کے کچھ
ایسے پر فریب گو شے چھوڑے ہیں جن کی تعریف کیے بغیر چیف جسٹس میاں ثاقب
نثار ، میڈیا او رعوام نہ رہ سکے۔ ذاتی خود نمائی کا میں کبھی قائل نہیں
رہا لیکن سراج الحق کی سادگی اور امانت داری پر شاید خودنمائی کی جزوئی
اجازت ہونی چاہیے۔ سراج الحق نے جو سب سے بڑا کام کیا وہ جماعت اسلامی کے
بے داغ دامن پر مہر امانت داری ثبت کر انا ہے ۔
جماعت اسلامی کی خدمت ، امانت داری اور سادگی تب لوگوں کو متاثر کرے گی جب
یہ ان 10 نقاط کو دل کی تختی پر کندہ کرنا کر لے گے کہ انتخاب برائے انتخاب
سے کبھی کامیابی نہیں ملتی ۔(1) جماعت اسلامی کوجلسوں اور ٹی وی پروگرامات
میں اسلام اسلام کی رٹ چھوڑنا ہوگی(کیوں کہ اس کا بادی النظر میں کوئی حاصل
حصول نہیں)۔ (2) سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کیساتھ بنا کر رکھے کہ یہ دونوں
قسم کے ادارے تقریباہر دور میں ہر مرض کی دوا رہے اور شایدلمبے عرصے تک
رہیں گے۔ (3) انتخابات کے لیے ایک الگ شعبہ(الیکشن بورڈ) قائم کرے جو صرف
اور صرف قومی ، صوبائی اور بلدیاتی نمائندوں کی کارکردگی جانچے ۔(4) جماعت
اسلامی کو اب آئی جے آئی ، ایم آر ڈی اور ایم ایم اے جیسے انتخابات اور
اتحادی محازوں پر سے اپنی توجہ ہٹا کر جماعت اسلامی کے اپنے نشان ترازو پر
مرکوز کرنا ہوگی ۔
(5) جماعت اسلامی کو 50فیصد سے زیادہ توجہ میڈیا پر دینے کی ضرورت ہے جس
پرجماعت اسلامی کی قیادت کچھ خاص توجہ نہیں دیتی۔ کیوں کہ پاکستان کی تمام
فرسٹ لیئر جماعتیں انتخابات برائے فتح لڑتے ہیں اور کامیابی کے وہ تمام
ذرائع اپناتے ہیں جو الیکشن میں کامیابی کا حقیقی زینہ ہیں۔ جیسے کہ پی ٹی
آئی ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے پاس ترجمان بیسیوں کی تعداد میں ہوتے
ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے پاس الا ماشاء اﷲ۔ اگر جماعت اسلامی کا یہ گلہ او
رشکوہ ہے کہ میڈیا اسے دکھاتا نہیں ہے تو میرے خیال میں یہ زیادتی والی بات
ہے کیوں کہ جب پانامہ ایشو چل رہا تھااور عزت ماب چیف جسٹس نے سراج الحق کو
صادق و امین کہا تھا تو تقریبا ہر ٹی وی چینل نے اس پر کئی دنوں تک شوز کیے،
ٹکر چلائے ، ویڈیو چلائیں اور لوگوں کو آگاہی دی کہ سراج الحق ایک بہترین
آدمی ہیں(6) مخصوص حلقوں میں الیکشن لڑیں تاکہ جیت کے لیے انتھک محنت کا
ثمر بھی مل سکے۔(7) خود کو قرون اولی کے آثار ضرور سمجھیں لیکن آج کے عوام
کو اُسی پیمانے میں ماپنے کی غلطی نہ کریں(9) غریبوں، مزدورں اور متوسط
طبقے کے افراد پر سیاسی محنت کا محاذ گرم کریں کہ یہ لوگ آپ سے مسائل کا حل
اور آپ کا سا تھ چاہتے ہیں اور تعداد میں ملک کا تقریبا80فیصد ہیں۔(10)سراج
الحق کو چاہیے کو وہ اب عدالت عالیہ میں ڈٹ جائیں اور عدالت میں اپنی طرف
سے جمع کرائی گئی 446 لوگوں کی لسٹ پر کاروائی کی استدعا کریں اورانصاف نہ
ملنے پر احتجاج کاحق محفوظ رکھیں۔
جماعت اسلامی کی انتخاب میں کامیابی اسی صورت ممکن ہے جب وہ اپنی دیگر
کمزوریوں ، کوتاہیوں اور نادانیوں کا بھی جائزہ لے تا کہ حقیقی سیاست کو
ایک طرف اور اسلام کو ایک طرف رکھنے کاحوصلہ پیدا ہواور اسلامی معاملات میں
الگ فرد کو موقع دیں۔ اور سیاست ، انتخابات، تربیت ، خدمت اور دیگر کاموں
میں مختلف قابلیتوں اور صلاحیتوں کے حامل لوگوں کو موقع دیں اور ہرشعبہ کے
اوپر ایک کمیٹی قائم کریں جو پارٹی کی ساخت کو اصل ہیئت میں برقراررکھ سکے۔
|