تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
یہ سوال سوشل میڈیا پر وہ بااثر افراد جو نسل در نسل اقتدار کے نشہ میں دھت
ہو کر لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر کے ملک کو بھکاری
جبکہ عوام کو لاتعداد پریشانیوں میں مبتلا کرتے آ رہے ہیں اپنے خوشامدی
حواریوں کے ذریعے آئے روز اٹھا رہے ہیں اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے
تو یہ وہ ناسور ہیں جو 1947سے قبل بنائے گئے انگریزوں کے قانون جو بااثر
ظالم و جابر افراد کو تحفظ دینے جبکہ مظلوم افراد کو عدل و انصاف سے محروم
رکھنے کیلئے بنایا گیا تھا آج تک فیض یاب ہو رہے ہیں کاش یہ ناسور جو ہمیشہ
نفسا نفسی کا شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو بیٹھے ہیں یہاں اسلامی
قانون نافذ کرتے تو ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہونے والے قتل عام بے گناہ شہریوں
جس میں حاملہ خاتون سمیت دیگر افراد کو شدید تشدد کا نشانہ بنا کر بعد ازاں
انھیں گولیاں مار کر ہلاکو خان اور چنگیز خان کی یاد تازہ کرنے والے سرکاری
افسران اور اُن کے مشیر یوں کھلے عام دند دناتے نہ پھرتے افسوس صد افسوس کہ
آج بھی اُسی انگریزوں کے بنائے ہوئے قانون کی وجہ سے مظلوم مقتولین کے ورثا
کی چیخیں حکومتی درودیوار سے ٹکرا رہی ہیں لیکن اُنھیں آج بھی کہیں سے عدل
و انصاف کی توقع نہیں ہے سچ کڑوا ضرور ہوتا ہے لیکن اُس کا حقیقت سے گہرا
تعلق ہوتا ہے اور سچ یہ ہے کہ قومی ہیرو ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خاندان
کے قاتل بالخصوص محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جو اس ملک کی متعدد بار وزیر
اعظم رہی کے قاتلوں کا گرفتار نہ ہونا اس فرسودہ قانون کا کمال ہے تعجب خیز
بات تو یہ ہے کہ جو قانون ملک کے متعدد بار وزیر اعظم منتخب ہو نے والی
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو تحفظ فراہم کر رہا ہے وہ بھلا غریب
افراد کے جان و مال کا تحفظ کب کرے گا جس ملک کا چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب
نثار جس کی فرض شناسی اور ایمانداری کے چر چے ہر زرو زبان پر عام ہیں ایک
قانون شکن عناصر کے کمرے سے شراب کی بوتلیں از خود پکڑے اور وہ قانون شکن
عناصر قانون سے بچ جائے یہ کیسا قانون ہے کہ جس ملک میں قومی لٹیرے غداری
کے مر تکب ہوتے ہوئے ملک کے وزیر اعظم عمران خان جو ملک وقوم کی بقا کی جنگ
لڑ رہا ہے کو دھمکی دیتے ہوئے کہے کہ اگر تم نے ڈیم بنانے کی کوشش کی تو
تمھیں ہماری نعشوں پر سے گزرنا پڑے گا اس کے باوجود وہ ناسور تاحال آزاد
گھومتے ہوئے نظر آئے یہ کیسا قانون ہے کہ جس کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے
ہوئے آج اس ملک کا ہر ادارہ خواہ وہ صوبائی ہے یا پھر وفاقی کرپٹ ترین اعلی
افسران و دیگر اہلکاروں کی آ ماجگاہ بن چکا ہے یہ کیسا قانون ہے جس کے ہوتے
ہوئے ایک مولوی اپنی شکست پر اپنے حواریوں کی مدد سے نہ صرف توڑ پھوڑ کرے
بلکہ اپنے ملک کے خلاف غلیظ الفاظ کہے اور پھر ملک کی صدارت کا الیکشن لڑے
یہ کیسا قانون ہے کہ ایک غریب آ دمی کئی سالوں تک جیل میں رہ کر عدل و
انصاف کی توقع لگائے جیل میں ہی مر جائے اور اُسے مرنے کے دو سال بعد بری
ہونے کا فیصلہ ملے یہ کیسا قانون ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے ریمنڈ ڈیوس جیسے
غیر ملکی قاتل باعزت بری ہو کر راتوں رات جیل سے نکل کر اپنے ملک راہ فرار
اختیار کر جائے یہ کیسا قانون ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے گستاخ رسول کو سزائے
موت ملے لیکن بعد ازاں وہ بری ہو کر امریکہ پہنچ جائے یہ کیسا قانون ہے کہ
جس کے ہوتے ہوئے تمام اعلی افسران قومی و صوبائی سیکرٹری وزرا گورنر وغیرہ
کئی کئی کینال کی کوٹھیوں جس میں ہر قسم کی سہولت میسر ہو میں بڑی شان و
شوکت سے رہے جبکہ دوسری جانب غریب عوام کے بچے اور بچیاں متعدد سکولوں میں
ٹاٹوں اور چار دیواری کے بغیر تعلیم حاصل کر رہے ہو یہ کیسا قانون ہے کہ جس
کے ہوتے ہوئے بااثر افراد جس میں مفاد پرست سیاست دان وزرا و دیگر اعلی
افسران کے خاندان کے کسی فرد کو اگر کوئی نزلہ وغیرہ کی شکایت ہو جائے تو
اُن کا علاج امریکہ انگلینڈ وغیرہ کے ہسپتالوں میں ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب
غریب افراد سرکاری ہسپتالوں میں اکثر ڈاکٹروں کے بے رحمانہ رویے اور طبی
امداد کے بر وقت نہ ملنے کے سبب تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں یہ کیسا قانون
ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے اگر بااثر شخص کسی غریب شخص پر اپنی چو دھراہٹ قائم
رکھنے کیلئے تھپڑوں کی بارش کر دیتا ہے تو اُس غریب کی کہیں سنوائی نہیں
ہوتی اور اگر کوئی غریب شخص کسی مفاد پرست سیاست دان اعلی بیوروکریٹس یا
پھر کسی کرپٹ ترین وزرا وغیرہ کو صرف ایک تھپڑ مار دیتا ہے تو پورے ملک میں
بھو نچال آ جاتا ہے یہ کیسا قانون ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے سرکاری سکولوں میں
غریب بچوں کا تعلیمی معیار اور بڑے سکولوں میں امیر بچوں کا تعلیمی معیار
اور یہ کیسا قانون ہے جس کے ہوتے ہوئے مذہبی و سیاسی رہنما اقتدار کی کرسی
پانے کیلئے مذہبی و لسانی فسادات کروا کر آ گ اور خون کی ہولی کھیلتے ہیں
اور وہ اس کے باوجود اقتدار کی کرسی پر بر جمان ہو کر عیش و آ رام کی زندگی
گزارتے ہیں یہ کیسا قانون ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے بااثر افراد لوٹ مار ظلم و
ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر کے امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں
جبکہ دوسری جانب غریب افراد روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روز گاری
سے دلبرداشتہ ہو کر اپنے بچوں کو فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ خود کشیاں کر رہے
ہیں تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ میں گزشتہ روز بائی پاس
جھنگ کے مد مقابل ایک بھٹہ خشت سے گزرنے لگا تو وہاں پر ایک شخص جس کے کپڑے
پھٹے پرانے سر پر بال آ سمان پر بکھڑے ہوئے بادلوں کی طرح ہونٹ خشک جبکہ آ
نکھوں میں آ نسو سمندر میں اُٹھتی ہوئی لہروں کی طرح جو چیخ چیخ کر کہہ رہا
تھا کہ میں نے سردی کی آ مد سے قبل اپنے گھر جو کہ میں نے کرائے پر لیا تھا
کا سامان اور اپنی جواں سالہ بیٹی کا زیور یہ سوچ کر فروخت کر دیا ہے کہ
میں حاصل شدہ رقوم سے ایک چھوٹا سا پلاٹ خرید کر اُس پر مکان تعمیر کرو گا
تاکہ میرے اہلخانہ میری وفات کے بعد بھی یہاں عزت و احترام کے ساتھ رہ سکے
گے لیکن یہاں بھٹہ خشت پر آ کر معلوم ہوا ہے کہ بھٹہ خشت مالکان جہنوں نے
خود ساختہ ایک یونین بنائی ہوئی ہے نے ملکر اور بالخصوص انتظامیہ جھنگ کی
مجرمانہ خاموشی کے نتیجہ میں اینٹ فی ہزار جس کی سرکاری سطح پر چار ہزار
روپے مقرر تھی نو ہزار روپے سے لیکر دس ہزار روپے میں فروخت کر رہے ہیں جو
کہ سراسر ظلم و ناانصافی ہے اگر کوئی ایماندار اور فرض شناس آ فیسر ان بھٹہ
خشت مالکان کے ماہانہ اخراجات کا تخمینہ لگائے تو آ ٹھ لاکھ اینٹیں ماہانہ
تیار کرنے والا بھٹہ خشت کوئلے بورے و دیگر اخراجات پر تقریبا بیس لاکھ
روپے خرچ ہوتے ہیں جبکہ یہ بھٹہ خشت مالکان من مانیاں کر کے تقریبا اسی
لاکھ روپے کماتے ہیں جس کے نتیجہ میں ہم جیسے لا تعداد غریب افراد اور اُن
کے اہلخانہ سر چھپانے سے قاصر ہیں اُس شخص کی ان باتوں کو سننے کے بعد میں
سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچتا ہوا وہاں سے چلا گیا کہ اگر موجودہ
حکومت کے وزیر اعظم عمران خان اور اُس کی کا بینہ نے نیا پاکستان بنانا ہے
تو سب سے پہلے انگریزوں کے بنائے ہوئے فرسودہ قانون کو بدلنا ہو گا جس کے
بل بوتے پر یہ قومی لٹیرے بچ جاتے ہیں |