پیدائش و ابتدائی حالات:
آپکی پیدائش ٧-محرم الحرام-١٩٦٥ کو ضلع رامپور کے ایک چھوٹے سے گاؤں لالہ
نگلا کے ایک دیندار گھرانے میں ہوئی. آپ کے والد گرامی کا نام مولانا محمد
نور اور والدہ محترمہ کا نام حبیبن بیگم ہے. آپکی ابتدائی تعلیم گھر میں ہی
ہوئی قرآن کریم پڑھنے کے ساتھ ساتھ اردو و فارسی کی ابتدائی کتب والد گرامی
سے ہی پڑھیں. اسکے بعد قصبہ کیمری میں عبد الجلیل صاحب کے پاس فارسی کا
بقاعدہ آغاز کیا اور مولانا تمئیز الدین صاحب کے پاس دو سال مسلسل فارسی کی
کتابوں کا مطالعہ کیا جس کے سبب فارسی ادب کی مروجہ کتب کی افہام و تفہیم
میں دشواری پیش نہیں ہوئی.
ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آعلی تعلیم کے لئے سنیت کی عظیم درس گاہ
دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف میں داخل ہوئے اور علامہ شیخ طریق اللہ
اور حضرت علامہ و ماہر علم و فن مولانا عبد المصطفی صاحب علیہما الرحمہ سے
اکتساب فیض کیا مگر وہاں کی آب و ہوا راس نہیں آیی قلیل مدت کے بعد سنیت کی
شہرہ آفاق درس گاہ جامعہ نعیمیہ مردآباد میں داخلہ لیا جہاں ماہر علوم و
فنون اساتذہ موجود تھے انہیں میں الحاج مبین الدین امروہی سے اکتساب علم
کیا اس کے بعد سنبھل ضلع مرادآباد حاضر ہر کر استاد گرامی حافظ معین صاحب
سے خصوصی طور پر مختلف علوم کا درس حاصل کیا دو سالہ قلیل مدت میں مختصر
ألمعأني،شرح ملأ حسن أور میبذي جیسی مختلف فنون کی کتابیں از ابتدا تا آخر
پڑھیں.
١٩٨٤ میں مرکز علم و فن الجامعہ الاشرفیه مبارکپور میں داخلہ لیا یہ وہ
زمانہ تھا کہ اپنے وقت کی نابغہ روزگار شخصیت حضرت علامہ و مولانا
بحرالعلوم عبد المنان علیہ الرحمہ گھوسی تشریف لےجا چکے تھے اور الجامعہ
الاشرفیه مبارکپور میں اس وقت حضور محدث کبیر ،مفسر آعظم عبد الله خان جیسی
مستند و عبقری شخصیات مسند تدریس پر جلوہ افروز تھیں.
بقول استاد گرامی--
"قبلہ عبد الله خان عزیزی علیہ الرحمہ نے جامعہ کی لائبریری سے اپنے نام سے
نایاب کتب کا ذخیرہ نکال کر مجھ پر احسان عظیم فرمایا. میں نے قیام اشرفیہ
کے دوران شرح أبن عقيل ،إبن رضى،شرح مسلم الثبوت،شرح متنبیه أز علأمه
برقوقي جیسی تحقیقی و تنقیدی کتابوں کہ فی الوقت علمی ذوق کے فقدان کے سبب
مدارس کے اکثر طلباء محروم رہتے ہیں-- کا بنظرعمیق مطالعہ کیا. الجامعة
الشرفية میں میرے مطالعہ کا طریقہ یہ رہتا---کہ میں رات ١٠ بجے تک درسی
کتابوں کی بحث و تکرار سے فراغت کے بعد ١٢ بجے تک دینی اور ١٢ سے رات ٢ بجے
تک جدید علوم و فنون کے کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا."
درس و تدریس:
اشرفیہ سے فراغت کے بعد دار العلوم علیمیہ جمدہ شاہی سے اپنی درس و تدریس
کا بقاعدہ آغاز فرمایا جمدہ شاہی کی لائبریری علمی کتب کے گراں قدر سرمایے
سے مزیّن تھی حضرت نے وہاں علم تفسیر پر خاص توجہ مرکوز کی فن تفسیر کی
مستند کتب کا خوب مطالعہ کیا.جمدہ شاہی سے شروع ہونے والا درس و تدریس کا
غیر مقطوع سلسلہ تاہنوز جاری ہے.
تصنیف و تالیف:
استاد گرامی کو مضمون نگاری اور خامہ فرسائی کا زمانہ طالب علمی سے ہی خاصہ
لگاؤ رہا ہے حضرت نے فراغت کے بعد درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف
کا پوری دلجمعی کے ساتھ آغاز فرمایا اور مختلف موضوعات پر تحقیقی و تنقیدی
مقالات تحریر فرماۓ اور علماء اہلسنّت کی خصوصاً رضویات کی جانب توجہ
فرمائی حضرت نے سیّدی آعلی حضرت کی تصانیف میں جابجا بکھرے مختلف علوم و
فنون کو تلاشنے اور یکجا کرنے کا کام شروع کیا محنت شاقہ کے بعد لگ بھگ ساڑ
ے سات سو صفحات کا ایک طویل خاکہ تیار ہو کر سامنے آیا اس کے متعلق ماہر
رضویات پروفیسر مسعود احمد نقشبندی علیہ الرحمہ کو مکتوب لکھا مگر یہ نایاب
ذخیرہ چند مصروفیت کے سبب منظرعام پر آنے سے محروم رہا.
٢٠٠٧ میں مناظر اہل سنّت حضرت علامہ و مولانا عبد الستار صاحب ہمدانی
(پوربندر) نے جب امام اہل سنّت علیہ الرحمہ کی گراں قدر تصنیفات میں مضمر
مختلف علوم و فنون پر مشتمل ایک خاکہ تیار کرنے کی خواہش ظاہر کی تو حضرت
نے اسی تیار شدہ خاکے پرناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے ٣٥٠ علوم پر مبنی ایک مختصر
خاکہ علامہ ہمدانی کو ارسال فرمایا یہاں اس امر کی وضاحت کرنا اشد ضروری
ہےکہ ٣٥٠علوم سے مراد بعض مستقل علوم اور باقی انکی مشہور شاخیں اور شعبہ
جات ہیں جیسے کہ اصول حدیث کہ اسے٢٢ مختلف شاخوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
اور پورے علم حدیث کی مجموعی طور لگ بھگ٦٠-٦٥ شاخیں برآمد ہوتی ہیں.
حضور آعلی حضرت علیہ الرحمہ کے تحقیقی رسالے ألصمصأم على مشكك في آية علوم
الأرحام جو ایک پادری کے قران پاک پر کئے گئے اعتراضات کے جوابات میں لکھا
گیا تھا اور آعلی حضرت علیہ الرحمہ نے اس رسالے کو کو دلائل و براہین سے
مزیّن کرتے ہوے پادری کو دندان شکن جواب عنایات فرمایا تھا استاد گرامی
علامہ اسحاق مصباحی نے اس رسالے کا تجزیہ کرنے کے بعد کے بعد یہ ثابت کیا
کہ اس رسالے میں ٦٥ علوم کے وہ قضیے پائے جا سکتے ہیں کہ جن پر مستقل
تصنیفات کی جا سکیں اس تجزیاتی کام کو رسالے کی شکل میں امام احمد رضا
اکیڈمی بریلی شریف نے شائع کیا تھا اور حلقہ ارباب علم و دانش نے کلمہ
آفریں کہا. آعلی حضرت علیہ الرحمہ کی درود تاج پر مشہور زمانہ کتاب الأمن
وألعلى كا سليس عربی میں ترجمه فرمایا علاوہ ازیں رد قاديانيت کے تعلق سے
عمدة العلماء اور زبدة الأذكيا حضرت علامہ و مولانا محمد احمد مصباحی صاحب
نے چار رسائل حضرت کے پاس بھیجے اس وقت آعلی حضرت علیہ الرحمہ کی کسی تصنیف
کی عربی نہیں ہوئی تھی یہ ١٩٩٢ء کا واقعہ ہے. قبلہ مصباحی صاحب کی ایماء
منشاء پر استاد گرامی نے عربی میں ترجمہ کیا مگر صد افسوس! چند ذاتی
مصروفیات کے سبب الجامعة الاشرفیہ جانا ممکن نہ ہو سکا اسلئے علامہ عبد
الستار ہمدانی نے زیورطبع سے آراستہ وپیراستہ فرما کر شائع فرمایا.
اس کے بعد آپ نے قہر الدیان علی مرتد بقادیان، الجراز الدیانی علی المرتد
القادیانی، آعلی الافادہ فی بیان الشہادہ، ازاحۃ العیب جیسے دیگر ١٤ رسائل
کا عربی میں ترجمہ کیا.
بقول استاد گرامی "میں ان تمام تر تفصیلات کا ذکر کر کے اپنی مدح سرائی کا
ہرگز متمنی نہیں مگر الحمد لله رضویات کا یہ تحقیقی کام میرے کرم فرما
ومربی علامہ مصباحی صاحب کی صحیح رہنمائی کی بدولت فقیر کے قلم سے پاۓ
تکمیل کو پہنچا .الحمد لله آج عالم سنیت میں بے شمار علماء کرام خصوصاً
فرزندان اشرفية جن کے قلم کی پختگی اور انکے پرندہ فکر کی پرواز دیکھ کر بے
پناہ خوشی ہوتی ہے. رضویات کے حوالے سے الجامعة الأشرفية کی ایک سنہری
تاریخ رہی ہے علامہ عبد الرؤف صاحب بلیاوی علیہ الرحمہ اور بحر العلوم حضرت
علامہ مفتی عبد المننان صاحب علیہ الرحمہ کہ جن پر خود حضور مفتی اعظم ہند
علیہ الرحمہ اتنا بھروسہ فرماتے تھے کہ آپنے فتاویٰ رضویہ کی جلدیں قبلہ
حافظ عبد الرؤف صاحب کے علاوہ کسی کے سپرد نہیں کیں اور آپنے فتاویٰ رضویہ
کی تصیح کرنے کے بعد شائع فرمایا.
اس جگہ میرا ماننا یہ ہے کہ عالم سنیت میں اس وقت ایسے افراد کم ہی ہونگے
جو اس کار عظیم کو انجام تک پہنچا سکتےتھے کیوں کہ آعلی حضرت عظيم البركة
علیہ الرحمہ کی مغلق و دقیق عبارات کو سہی طور پر سمجھنا درس نظامی پر مکمل
دسترس رکھنا اور اصل مصادر تک آگاہی جزو لاينفك کا درجہ رکھتی ہے اور یہ
عبقری شخصیات ان صلاحیتوں سے مالامال تھیں اور حسب امید اس تاریخ ساز کام
کو بحسن و خوبی انجام دیا.
علماء اور دانشوروں میں نظریاتی اختلافات ہوتے رہتے ہیں بعض مذہب شکن افراد
اپنے ذاتی مفادات کی حصولیابی کے لئے کسی بھی تحریک یا شخصیت کو استعمال
کرنے میں گریز نہیں کرتے.کسی خانقاہ یا تحریک کے نام پر چندہ لے کر شکم
پروری کرنا اور بات ہے اور قلم لیکر دین و مسلک کے لئے مختلف نازک حالات
میں کوہ محن بن کرے کھڑا ہو جانا اور بات ہے. اس رضویات کی تحریک کو بام
عروج پر لے جانا فرزندان اشرفیہ کا ہی کام تھا.اس حقیقت کو جان بوجھ کر
نظرانداز کرنا کوتاہ نظری کی آعلی مثال ہوگی کہ جو کام رضویات کے حوالے سے
فارغین اشرفیہ اور ابناے اشرفیہ نے انجام دیا ہے اتنا کسی خانقاہ یا ادارے
کے دامن میں نہیں آیا.ہاں میں تسلیم کرتا ہوں کہ چند صاحبان سے سہوا یا
عمدا یا پھر عقل وفہم میں پختگی نہ ہونے کے سبب سخت وتلخ کلمات نکل گئے
ہمارے حساب سے ان حضرات کو اپنے مختلف نظریات کو رکھنے کے لئے معتدل راستہ
اختیار کرنا چاہیے تھا تاکہ قوم میں تاثر نا جاۓ کہ سیّدی آعلی حضرت عظيم
البركة علیہ الرحمہ سے لکھنے میں غلطی واقع ہوئی ہے.
أستغفر الله میں یہ نہیں کہتا کہ سیّدی آعلی حضرت عظيم البركة علیہ الرحمہ
اغلاط سے شرعاً معصوم ہیں مگر جہاں تک ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے اکابرین
مثلا امام غزالی ،علامہ نابلسی ،علامہ سعد الدین تفتازانی،شیخ عبد الحق
محدث دہلوی ،شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی،حضرت مجد الف ثانی ،مفتی ارشاد حسین
رامپوری،شاہ عبد القادر بدایونی،علامہ فضل الحق خیرآبادی، حضور آعلی حضرت
عظيم البركة علیھم الرحمة والرضوان جيسي عظیم ترین شخصیات کے بارےمیں دعوی
کیا جا سکتا ہے کہ انکی تصنیفات اغلاط سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ کمال
احتیاط پر مبنی ہیں اور انکی تصنیفات یقیناً لائق اعتماد ہیں. کم از کم
عقاید کے میدان میں ہمیں اپنے نظریات کو انکے افکار سے ہم اہنگ کرنے کی
ضرورت ہے کیوں کہ ہماری فہم و فراست میں وہ پختگی نہیں جو ان بزرگان دین کا
طرہ امتیاز ہے.ہمیں اپنے بزرگوں کی باتوں کو ہدف تنقیص بنانے کے بجاۓ مثبت
ومعتدل نظریات رکھنے کی ضرورت ہے."
اس کے علاوہ حضرت کے مختلف موضوعات پر مشتمل مقالات و مضامین ملک کے بیشتر
رسائل میں وقتاً فوقتاً شائع ہو کر داد تحسین حاصل کر چکے ہیں. |