معصوم چالاکیاں، ریاست کی نظر

 اسلامی جمہوریہ پاکستان جو خواب تھا اقبال کا ، اس کی دستار بندی اُن لاکھوں جانوں اور روحِ رواں مسٹر جناح کی جدوجہدِ مسلسل کی لازوال امانت ہے۔ ۷۰ سال کیسے گزرے بات تو کل ہی کی لگتی ہے ۔’’آزادی ایک نعمت ہے‘‘ شاید یہ الفاظ ایک سے زائد بار سماعتوں سے ٹکرائے ہوں لیکن ہمیں تو سجی سجائی چیزوں کی جیسے عادت سی ہو گئی ہو۔ کوئی کشمیر وفلسطین کی ان خون آلود گودوں اور گلی چوراہوں سے پوچھے جس نے اُس نیلے آسمان کو گواہ مان کر اپنے لالوں کو موت کے بے رحم شکنجے میں دے دیا۔نصف سے زائد عرصے پہ محیط صدی لمس کے احساس سے زیادہ کچھ محسوس نہیں ہوتی۔ ہماری بلا سے ہم کیا جانیں آزادی کس بلا کا نام ہے۔ وقت کی رفتار میں شاید گریبان میں جاھنکنے کی فرصت بھی نہ ہو۔ ہماری ناکامی کا راز ہماری ہی ان کوتاہیوں کا نتیجہ ہے جن کو اس ریاست نے اپنے سینے پر آسانی سے برداشت کیا جب زمانے کی بے رحم موجیں اس میں ہل چل پیدا کیے ہوئے تھیں۔ شاید اسلاف کے اُن قیمتی نوادرات کو ہم کہیں کھو بیٹھے جن کو ڈھونڈنے کا وقت اگر اب نہیں تو پھر جو وقت چلا گیا پھر واپس نہیں آیا۔ اگر ماضی کی بھول بھلیوں میں کہیں جا نے کا اتفاق ہو تو اپنی عقل کے گھوڑے ودڑائیں تو سمجھنا قدرے آسان ہو کہ ہم سے کہاں بھول ہوئی اور کہاں منزل ہم سے روٹھ گئی۔ نظام چلانے کے لیے نظامِ مصطفی سے بڑھ کر کوئی اور دوسرا نظام ابھی تک وقوع پزیر ہی نہیں ہوا۔ لیکن ہم تو جیسے نقل کرنے کے عادی ہو گئے ہیں اور دیوانگی میں یہاں تک چلے گئے کہ اس کو جمہوریت کا نام دینے پہ تُل گئے ۔ریاست پاکستان بھی اس کی گود میں کہیں پروان چڑھی لیکن وہ علیحدہ بات ہے کہ کبھی اس کو میثاقِ جمہوریت اور کبھی اگر معاملہ نازک مرحلے میں داخل ہو جائے تو اس کو نام نہاد آمریت کا لبادہ اُوڑھا دیا جاتا ہے۔ شطرنج کی بازی میں مہرے قلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ مہرے ناکام ہوئے تو اس کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ شاید ایسا ہی مذاق اس ریاست سے دہرایا گیا جو حالات کے مطابق مختلف شکلوں میں سامنے آیا۔ ایبٹ آباد کمیشن بے وجود چیز کو وجود دے کو قتل کرنے کی بھونڈی سازش کے پیچھے ریاست کے اثاثوں کا نقصان پہنچانے کی کوشش تو کبھی قرضوں کے نام پہ اداروں کو کمزور کرنے کی سازش کی گئی ۔اور سونے پہ سہاگہ رہی سہی کسر بدمعاشیہ اور اشرافیہ پوری کر دیتی ہے۔اور ایسے میں ریاست کا گھوڑا اگربے جان ہو تو بس اﷲ ہی حافظ ہوتا ہے۔ لیکن ہماری خوش قسمتی کہ اس ملک کو اﷲ نے دو چیزیں وافر مقدار میں عطا کی ہوئی ہیں۔ایک اس کے ذخائر دوسرا غیرت مند لوگ جو اس کو گرنے نہیں دیتے۔ وقت انسان کو سب سبق پڑھا دیتا ہے۔ زیادہ دور نہیں صرف ۴۰ سال پرانی بات ہے جب سے ہم پر زہر آلود حملے شروع کیے گئے اور اسی دوران ہم اپنا بازو بھی کھو بیٹھے ۔ ہر بار زہر وہی طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ کبھی ماڈل ٹاؤن میں بے دردی سے لاشوں کا گرنا تو کبھی کراچی اور بلوچستان میں کلبھوشن کے روپ میں ایک اور سازش ۔لیکن قوموں پہ وقت آتے ہیں اور جو کشتیاں ان طوفانوں کے بھنور سے نکل آئیں منزل ان کو خود تلاش کر لیا کرتی ہے۔ وقت صدا ایک سا نہیں رہتا اور یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہو ا ۔ نظام نے پلٹا کھایا آندھیوں اور طوفانوں کے رخ مڑنے لگے ۔اﷲ نے سنبھلنے کا ایک موقع دیا۔ اور اقبال کیا خوب کہتے ہیں کہ
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

۔ریاست میں چند عناصر چھوٹی چھوٹی چالاکیوں اور بدمعاشیوں کے سر پر اپنا سکہ بٹھانا چاہتے ہیں لیکن ریاستیں وہ کامیاب ہوتی ہیں جو ان کوشکست دیتی ہیں۔ایسا ہی کچھ ریاست کو پاکستان نے شروع کیا اور اس کو عبادت کا درجہ دے دیا گیا۔ کہیں compulsive intervention} { جبری مداخلت تو کہیں جیلوں کی صفائی تو کہیں ماڈل ٹاؤن تو کہیں سوئس اکاؤنٹ کی تحقیقات کا بے رحم پہیہ چل چکا ہے۔ اور دوسری طرف اشرافیہ کی چیخو پکار اور آہوبکا ہر سو گونج رہی ہے۔ ایسے میں کہیں ریاست اپنی رٹ ؓبحال کر رہی ہے۔ادارے مظبوط ہو رہے ہیں۔ عوام خوش ہیں۔ اور آئی ایم ایف بھی ناکامی کا منہ تک رہا ہے دشمن کو مات ہو رہی ہے۔ اور اب ہمیں اندازہ ہو رہا ہے ’’آزادی ایک نعمت ہے ‘‘ اور اس کی حفاظت کو یقینی کیسے بنانا ہے۔ اور ترقی کی راہیں آنے والی نسلوں کے لیئے کیسے ہموار کر نا ہے اور ایک مفید شہری بن کر ریاست کا ساتھ دینا ہے۔اﷲ ہماری مدد فرمائے ۔آمین!
 

Nauman Ahmed
About the Author: Nauman Ahmed Read More Articles by Nauman Ahmed: 4 Articles with 2794 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.