105کا سوال ہے بابا گورنر ہاؤس دیکھوں گا

تبدیلی کے نعرے فضا میں اس قدر سنائی دے رہے تھے کہ یوں لگا کہ اب تو پاکستان کی قسمت سنور گئی نئیا پار لگ گئی ،پرانے دن پھر گئے غریب کی غربت،مفلس کا افلاس،بھوکے کو کھانا،بے روزگار کو روزگار الغرض کہ ہر ضرورت پوری ہوگی،انصاف کے نام لیوا انصاف لوگوں کی دہلیز پر انصاف فراہم کریں گے،مینڈیٹ اور شفاف سسٹم کی ضمانت کے وعدے وفا ہونے کا وقت تھا لیکن پھر آواز آئی جناب سو دن کا ٹائم تو دیں ہم دیکھیں آپ کے مقدر بدل کہ رکھ دیں گے تو صاحب دل پھر اس امید پر اس بچے کی طرح خاموش ہو گیا کہ جس کی ماں کھلونوں کی دکان کے پاس سے گزری اور بچے کے ضد کرنے پر دلاسا دینے کے لیئے کہا کہ آج تمہارے ابا آئیں گے ان کو کہوں گی وہ تمہیں لا دیں گے لیکن جب چھ ماہ بعد وہی بچا اسی طرح اسی دکان کے سامنے سے دوبارہ گزرتا ہے اور اسی طرح کی خواہش اس کے من میں دوبارہ جاگتی ہے تو سوائے ماں کی آنکھوں کے آنسوؤں کے اور کچھ نہیں ملتااب آپ کہیں گے کہاں کی اینٹ کہاں کا روڈا تم نے ٹاپک سے کیسے جوڈا تو سنیں جناب ہمیں کہا گیا آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے اچھا ہے خود کشی کر لینا پھر صدا بلند ہوئی کہ اس کے بغیر چارا نہیں ،اس سے پہلے کی سن لیں ایک سیاست دان فرط جزبات میں یہ تک کہہ گئے تھے کہ ہمارا وزیرِ اعظم بنتے ہی دوسرے دن پاکستان کا قرضہ اتر جائے گا ،معیشت اپنی ٹانگوں پر کھڑی ہو جائے گی لیکن یہاں تو گنگا الٹی بہہ گئی جو ڈالر پہلے ایک سو دس اور ایک سو بیس پر رہتا تھا آج وہ بڑھتے بڑھتے ایک سو اڑتیس پر جا پہنچا ہے،مجھے آج خان صاحب کے وہ جملے یاد آرہے ہیں کہ جن میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرداری صاحب کو گھسیٹنے والے کہاں ہے وغیرہ آج میں یہ سوال کرتا ہوں کہ سرِ عام لٹکانے اور کرپشن سے پاک کرنے کے دعوے بس کرسی کے حصول سے پہلے تک تھے کیوں کہ جیسے رہائی کا پروانا جاری کیا گیاجبکہ دعوے اس کے برعکس تھے.اسی طرح تعلیم عام کرنے کی بات کرنے والے اور گورنر ہاسز کو تعلیمی اداروں اور دیگر فلاحی کاموں کے لئے وقف کرنے والے بس نمود و نمائش کے بھنور میں پھنس کر ہی رہ گئے. پبلک کو گورنر ہاؤس دکھانے کا لالچ دے کر ایک ایسا آئٹم بم ان پر گرایا کہ مجھے ایک صاحب ملے جو یہ کہہ رہے تھے صاحب گاڑی بھی ڈرائیو بھی کر لیتا ہوں بس ایک سو پانچ روپے کا سوال ہے میری مدد کردو اﷲ تمہیں بہت دیگا.میں نے پوچھا عجیب بھکاری ہولوگ ایک روپیہ مانگتے ہیں پانچ دس مانگتے ہیں سیدھے ہی ایک سو پانچ چکر کیا ہے.کہنے لگا کیا سناؤ صاحب تبدیلی کی خواہش نے تبدیل کر دیا.ننھی سی آرزو لئے پھرتا ہوں شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات.یہ بات کہہ کر توجہ اس بات کی طرف کرنا مقصود ہے کہ ڈالر ایک سو اڈتیس روپے،سی این گی ایک سو پانچ روپے،کرایوں میں اضافہ یہ سب تبدیلی ہی تو ہے .انصاف کے حامی اور داعی انصاف کے قاتل بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں.ظلم و بربریت کی داستان جو دنیا نے دیکھی،اس سانحہ میں ملوث ملزمان کو نواز کر انصاف کو پاؤں تلے روندا جا رہا ہے لیکن میں صدقے میں واری کہ دعوا پھر بھی برقرار کہ جناب انصافی ہیں انصافی .قصہ مختصر کہ تبدیلی شاید چہروں میں تو آگئی لیکن سسٹم کی تبدیلی ابھی بہت دور نظر آتی ہے.

Muhammad Tayyab
About the Author: Muhammad Tayyab Read More Articles by Muhammad Tayyab: 6 Articles with 7116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.