امام عشق ومحبت مولانا احمد رضا خان رحمہ اللہ

جب ہم نے اسلامی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اسلام کے پردہ میں پر اسلام کے ایسے سپوتوں کی تصویریں دکھائی دیتی ہیں، جنہوں نے "العلماء ورثۃ الانبیاء" کا حق ادا کردیا۔ امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام مالک،حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل کے علاوہ امام رازی و امام غزالی جیسی متعدد ہستیاں نظر آتی ہیں جنہوں نے علم وفن کی آبیاری کے ساتھ فکری وعمل، اصلاح و تجدید کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ایسی ہی ستودہ صفات شخصیتوں میں ایک بہت ہی سنہرا نام مفکر اسلام، شیخ الاسلام امام احمد رضا خان بریلوی کا ہے۔امام احمد رضا خان بریلوی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھےآپ نے علوم و فنون کی کھیتی کو سبزہ زار بنادیا، ہندوستانیوں کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد رہنے کا فہم وشعور بخشا، لوگوں میں ہمت و جرأت کی روح پھونکی اور اسلام کی صحیح تصویر پیش فرماکر اسلامی قوانین کی بالادستی کا برملا اظہار فرمایا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ عظیم المرتبت مفسر،جلیل القدر محدث اور بلند پایہ فقیہ تھے،آپ کی نابغۂ روزگار شخصیت نے تنہا وہ کام انجام دئے جو ایک انجمن اور تحریک انجام نہيں دے سکتی۔آپ نے اپنی ساری زندگی اسلام کی نشر واشاعت اور دفاع اہل سنت کے لئے وقف کردی تھی۔

امام عشق ومحبت مولانا احمد رضا خان
جب ہم نے اسلامی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اسلام کے پردہ میں پر اسلام کے ایسے سپوتوں کی تصویریں دکھائی دیتی ہیں، جنہوں نے "العلماء ورثۃ الانبیاء" کا حق ادا کردیا۔ امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام مالک،حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل کے علاوہ امام رازی و امام غزالی جیسی متعدد ہستیاں نظر آتی ہیں جنہوں نے علم وفن کی آبیاری کے ساتھ فکری وعمل، اصلاح و تجدید کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ایسی ہی ستودہ صفات شخصیتوں میں ایک بہت ہی سنہرا نام مفکر اسلام، شیخ الاسلام امام احمد رضا خان بریلوی کا ہے۔امام احمد رضا خان بریلوی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھےآپ نے علوم و فنون کی کھیتی کو سبزہ زار بنادیا، ہندوستانیوں کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد رہنے کا فہم وشعور بخشا، لوگوں میں ہمت و جرأت کی روح پھونکی اور اسلام کی صحیح تصویر پیش فرماکر اسلامی قوانین کی بالادستی کا برملا اظہار فرمایا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ عظیم المرتبت مفسر،جلیل القدر محدث اور بلند پایہ فقیہ تھے،آپ کی نابغۂ روزگار شخصیت نے تنہا وہ کام انجام دئے جو ایک انجمن اور تحریک انجام نہيں دے سکتی۔آپ نے اپنی ساری زندگی اسلام کی نشر واشاعت اور دفاع اہل سنت کے لئے وقف کردی تھی۔
آپ کی پیدائش: 14 جون 1856ءکو جبکہ وفات: 28 اکتوبر 1921ءکو ہوئی ۔آپ حسان الہند اعلیٰ حضرت،امام اہلِ سنت،مجدداسلام،شیخ الاسلام،حامیِ سنت،ماحیِ بدعت جیسےعظیم القابات سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ شمالی بھارت کے شہر بریلی کے ایک مشہور عالمِ دین تھے جن کا تعلق فقہ حنفی سے تھا۔ امام احمد رضا خان کی وجہ شہرت میں اہم آپ کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں لکھے نعتیہ مجموعے اور آپ کے ہزا رہا فتاوی کا ضخیم علمی مجموعہ جو 30 جلدوں پر مشتمل فتاوی رضویہ کے نام سے موسوم ہےجو کہ فقہ کا انسائکلو پیڈیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اہلسنت کی ایک بڑی تعداد آپ ہی کی نسبت سے بریلوی کہلاتے ہیں۔
https://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/ala-hazrat-imam-ahmed-raza-khan-barelvi
اعلیٰ حضرت کی پیدائش 14 جون 1856ء کو بریلی میں ہوئی۔آپ کااسمِ گرامی محمد۔تاریخی نام"المختار"جدامجدمولانا رضاعلی خاں رحمۃ اللہ علیہ نے"احمدرضا"نام رکھا،اوراسی نام سے مشہور ہوئے
تحصیل علم
اعلیٰ حضرت عظیم المرتبت امام الشاہ احمد رضا خان کی رسمِ بسم اللہ کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری ہوگیا آپ رحمہ اللہ نےچاربرس کی ننھی عمر میں ناظرہ قرآن مجید ختم کرلیا۔چھ سال کی عمر میں ماہِ ربیع الاول شریف کی تقریب میں ایک بہت بڑے اجتماع کے سامنے "میلاد شریف"کے موضوع پر ایک پر مغز اور جامع بیان کرکےعلمائے کرام اور مشائخ عظام سےتحسین و آفرین کی دادوصول کی۔ابتدائی اردو اور فارسی کی کتب پڑھنے کے بعد" میزان و منشعب "حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگ سے پڑھیں۔پھر آپ نے اپنے والدِ ماجد سندالمحققین حضرت مولانا شاہ نقی علی خان سے اکیس علوم حاصل کیے۔"شرحِ چغمینی" کابعض حصہ حضرت علامہ مولانا عبدالعلی رام پوری پڑھا۔ابتدائی "علم ِتکسیر وجفر" شیخ المشائخ حضرت شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی سے حاصل کیے۔علمِ تصوف کی تعلیم استاذ العارفین مولانا سید آلِ رسول مارہروی سے حاصل فرمائی۔تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر میں 14/شعبان المعظم 1286ھ،مطابق 19/نومبر 1869ء کو فارغ التحصیل ہوئے اور دستارِ فضیلت سے نوازے گئے۔
آپ کے اساتذہ کرام میں
• مرزا غلام قادر بیگ بریلوی م 1898ء
• والد ماجد مولانا محمد نقی علی خان بریلوی م 1297ھ 1880ء
• مولانا عبد العلی خان رامپوری م 1303ھ 1885ء تلمیذ علامہ فضل حق خیرآبادی م 1278ھ 1861ء
• شاہ ابو الحسین احمد نوری مارہروی م 1324 ھ 1906ء مولانا نور احمد بدایونی م 1301ھ
• شاہ آل رسول مارہروی م 1297ھ 1879ء تلمیذ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی م 1239ھ۔
• امام شافعیہ شیخ حسین صالح م 1306ھ 1884ء
• مفتی حنفیہ شیخ عبد الرحمٰن سراج م 1301ھ 1883ء
• مفتی شافعیہ شیخ احمد بن زین دحلان م 1299ھ 1881ء قاضی القضاۃ حرم محترم۔
جیسے عظیم المرتبت اساتذہ شامل ہیں
امام احمد رضا کی فقہی بصیرت مرتبہ محمد یٰس اختر مصباحی، ناشر رضوی کتاب گھر دہلی
آپ نے اپنے والد ماجد اور اساتذہ سے مندرجہ ذیل اکیس علوم کی تعلیم حاصل کی۔
۱……علم قرآن، ۲……علم تفسیر، ۳……علم حدیث، ۴……اصول حدیث، ۵……کتب فقہ حنفی، ۶……کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، ۷……اصولِ فقہ، ۸……جدلِ مہذب، ۹……علم العقائد والکلام(جومذاہب باطلہ کی تردید کے لئے ایجاد ہوا)، ۱۰……علم نحو، ۱۱……علم صرف، ۱۲……علم معانی، ۱۳……علم بیان، ۱۴……علم بدیع، ۱۵……علم منطق، ۱۶……علم مناظرہ، ۱۷……علم فلسفہ مدلسہ، ۱۸……ابتدائی علم تکسیر، ۱۹……ابتدائی علم ہیئت، ۲۰……علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم،۲۱……ابتدائی علم ہندسہ۔
(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ 99)

جبکہ مندرجہ ذیل علوم آپ نے بغیر کسی استاد محض اپنی خداداد ذہانت اور صلاحیت سے حاصل کیئے:
۲۲……قرأت، ۲۳……تجوید، ۲۴……تصوف، ۲۵……سلوک، ۲۶……علم اخلاق، ۲۷……اسماء الرجال، ۲۸……سیر، ۲۹……تواریخ، ۳۰……لغت، ۳۱……ادب مع جملہ فنون، ۳۲……ارثماطیقی، ۳۳……جبرومقابلہ، ۳۴……حساب ستینی، ۳۵……لوغارثمات(لوگارثم)، ۳۶……علم التوقیت، ۳۷……مناظرہ، ۳۸……علم الاکر، ۳۹……زیجات، ۴۰……مثلث کُروی، ۴۱……مثلث مسطح، ۴۲……ہیئت جدیدہ(انگریزی فلسفہ)، ۴۳……مربعات، ۴۴……منتہی علم جفر، ۴۵……علم زائرچہ، ۴۶……علمِ فرائض، ۴۷……نظم عربی، ۴۸…… نظم فارسی، ۴۹…… نظم ہندی، ۵۰……انشاء نثر عربی، ۵۱……انشاء نثر فارسی، ۵۲……انشاء نثر ہندی، ۵۳……خط نسخ، ۵۴……خط نستعلیق، ۵۵……منتہی علم حساب، ۵۶……منتہی علم ہیئت، ۵۷……منتہی علم ہندسہ، ۵۸……منتہی علم تکسیر، ۵۹……علم رسم خط قرآن مجید۔
(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ ۹۹)

مذکورہ بالا 59علوم و فنون میں سے پچاس فنون پر آپ کی تصانیف موجود ہیں ذہانت کا یہ عالم تھا کہ دورانِ تعلیم صرف آٹھ برس کی عمر میں علم نحو کی کتاب ہدایت النحو کی شرح عربی زبان میں لکھ دی۔ اور محض تیرہ سال دس ماہ اور پانچ دن کی عمر شریف میں مروجہ علوم و فنون کی تکمیل کرکے ۱۴؍ شعبان ۱۲۸۶ھ بمطابق ۱۹؍ نومبر ۱۸۶۹ء کو سند فراغت حاصل کی، اسی روز مسئلہ رضاعت پر ایک فتویٰ تحریر فرماکر والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا، والد ماجد نے لائق اور ذہین بیٹے کی تحریر اور فتویٰ ملاحظہ فرماکر تحسین فرمائی اوراس دن سے فتویٰ نویسی کی خدمت آپ کے سپرد کردی۔
اللہ رب العزت نے آپ کو قوتِ حافظہ سے خوب نوازا تھا۔صرف مغرب اور عشاء کے درمیانی وقت میں ایک پارہ حفظ کرلیتے تھے،اور ایک ماہ میں قرآنِ مجید مکمل کرلیا۔اعلیٰ حضرت کے اساتذہ کی فہرست توبہت مختصر ہے،لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کےحبیب مکرم ﷺ کی عطا سےآپ کاسینہ علم ومعرفت کا خزینہ تھا۔یہی وجہ ہےکہ آپ بہت سے علوم کے بانی وموجدہیں۔
دو مرتبہ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ درس و تدریس کے علاوہ مختلف علوم و فنون پر کئی کتابیں اور رسائل تصنیف و تالیف کیے۔ قرآن کا اردو ترجمہ بھی کیا جو کنز الایمان کے نام سے مشہور ہے۔ علوم ریاضی و جفر میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ شعر و شاعری سے بھی لگاؤ تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں بہت سی نعتیں اور سلام لکھے ہیں۔ انہوں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایک ہزار کے قریب کتابیں تصنیف کیں۔ بعض جگہ ان کتابوں کی تعداد چودہ سو ہے۔ ۔
الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات ابی الوہابیۃ ،1312ھ، مطبع اہلسنت بریلی و رضا اکیڈمی ممبئی (ستروجہ سے امام وہابیہ دہلوی پر لزوم کفر
فتاوی الحرمین برجف ندوۃالمین 1317ھ، (عربی)، مطبع گلزار حسینی ومکتبہ ایایشیق استنبول (ندوۃ العلماء والوں کے عقائد اور ان پر فتاوائے حرمین
الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ 1323ھ(عربی)، مطبح اہلسنت وجاعت بریلی، (الدولۃ والمکیۃ پر مصنف کا مبسوط حاشیہ فرقہ نیچریہ کا رد
علوم و فنون پر گہرائی وگیرائی کا حال یہ ہے کہ جب کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو تشنہ نہیں چھوڑتے بلکہ علوم و فنون حکمت و معرفت کا دریا بہادیتے ہیں، شواہد و نصوص جس کثرت کے ساتھ جمع کرنے کا التزام اعلی حضرت مجدد دین ملت امام الشاہ احمد رضا خان کے یہاں ملتا ہے اس کی نظیراس کی مثال آپ کے معاصرین میں تو مفقود ہی ہے بلکہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔
علوم عقلیہ اور علوم عصریہ پر آپ کوعبورحاصل تھا کہ آپ اپنے وقت کے ابو نصر فارابی، بو علی سینا، ابن الہیثیم کےقدم بہ قدم نظر آتے ہیں، بلکہ بعض چیزوں میں ان مشاہیراسلام پر بھی سبقت رکھتے ہیں، ریاضی اور حساب وغیرہ میں آپ کی مہارت کا حال یہ تھا کہ ڈاکٹر ضیاء الدین سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے ریاضی دان کے پیچیدہ اور لاینحل مسئلےاعلی حضرت امام احمد رضا کے ھاںمنٹوں میں حل ہوا کرتے تھے اسی لئے ایک جلسہ میں جب ڈاکٹر موصوف کیلئے ہندوستان کامایہ ناز ریاضی دان ہونے کا اعلان کیا گیا تو ڈاکٹر صاحب نے برجستہ کہا کہ ان الفاظ کا مستحق میں نہیں بلکہ مولانا احمد رضا ہیں۔
مفتی بُرہان اُلحق جبلپوری علیہ الرحمہ امام احمد رضا خان رحمہ اللہ کے تعلق سے ڈاکٹر ضیاء الدین کے تاثرات نقل کرتے ہوئے "اکرام امام احمد رضا" میں لکھتے ہیں: "اتنا زبردست محقق عالم اس وقت ان کے سوا شاید ہی کوئی ہو، اﷲ نے ایسا علم دیا ہے کہ عقل بھی حیران ہے، دینی مذہبی اسلامی علوم کے ساتھ ریاضی، اقلیدس، جبر و مقابلہ، توقیت و غیرہ اتنی زبردست قابلیت اور مہارت کہ میری عقل جس ریاضی کے مسئلہ کو ہفتوں غور و فکر کے بعد بھی حل نہ کرسکی، حضرت نے چند منٹ میں حل کرکے رکھ دیا، یہ ہستی نوبل پرائز کی مستحق ہے، مگر گوشہ نشینی، ریا اور نام و نمود سے پاک شہرت کی طالب نہیں"۔ اعلی حضرت امام احمد رضا معتدل اور صالح فکر کے حامل تھے، آپ کی سیاسی سوجھ بوجھ کا حال یہ تھا کہ جس مسئلہ میں آپ نے رائے زنی فرمادی اور جس فراست کے ساتھ مستقبل کی تصویر کشی کردی اس میں کبھی کسی کو انگلی اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی، آپ تقسیم ہند کے محالف تھے مگر کفار و مشرکین کو مساجد کے ممبروں تک لے جانے کے بھی قائل نہیں تھے، آپ کی یہ اعتدال فکری ہی تھی کہ آپ نے اسلام مخالف تمام تحریکوں کا تعاقب کیا خواہ وہ مغربی ہوں یا مشرقی۔ آپ نے "گڑ کھانے اور گٹکاسے پرہیزی" کے مقولہ پر کبھی عمل نہ کیا بلکہ آپ نے اپنے آبا ءو اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جہاں انگریزوں کی مخالفت کی وہیں اسلام کے دوسرے دشمن عناصر کو کبھی برداشت نہیں کیا، آپ کی انگریزی حکومت کی مخالفت کا حال یہ تھا کہ آپ نے نہ تو کبھی انگریزوں کے کورٹ کو تسلیم کیا اور نہ ہی ان کی حکومت کو بلکہ آپ جب کبھی لفافوں پر ٹکٹ چسپاں کرتے تو الٹا کرکے لگاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں نے انگریزوں کا سر نیچا کردیا۔
آپ کی تصانیف،مؤلفات ورسائل اور کلام میں عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رنگارنگ جلوے بکھرےنظر آتے ہیں،آپ کے نظم ونثر میں محبت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عنصر غالب رہا-
اگر آپ کی تصانیف کی طرف طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے تقریباً 50علوم وفنون پر ایک ہزار سے زائد کتب تصنیف فرمائیں۔ ان علوم میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ جن کے آپ موجد تھے اور بعض ایسے کہ آپ کے وصال کے بعد اب ان علوم کی ادنی معلومات رکھنے والا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔ نیز مختلف فنون کی ڈیڑھ سو کے قریب مشہور کتابوں پر آپ نے حواشی تحریر فرمائے جو کسی طرح بھی مستقل تصانیف سے کم نہیں۔
آپ نے شان رسالت ،فضائل ومناقب اور عقائد پر کم و بیش(62)کتا بیں رقم فرمائیں،حدیث اور اصول حدیث پرتیرہ(13)کتابیں،علم کلام اور مناظرہ پر(35)فقہ اور اصول فقہ پر 159 کتابیں اور متفرق باطل فرقوں کے رد میں (400)سے زائد کتابیں لکھی اس کے علاوہ بہت سی کتب مطبوعہ اورغیر مطبوعہ بھی ہیں
آپ کی تصانیف میں ایک شہرۂ آفاق کتاب فقہ کا انسائیکلوپیڈیا"العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ "جو "فتاوی رضویہ"کے نام سے جاناجاتاہے-
آپ نے اردو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی فرمایا،جس کا نام "کنز الایمان"ہے-
• نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان: اس کتاب میں آپ نے قرآنی آیات سے زمین کو ساکن ثابت کیا ہے۔[18] اور سائنس دانوں کے اس نظریے کا کہ زمین گردش کرتی ہے رد فرمایا ہے۔
• جد الممتار علی الردالمختار:علامہ ابن عابدین شامی کی ردالمختار شرح درمختار پر عربی حواشی ہیں۔
• الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ: دوسری بار جب حج کے لیے مکہ میں تھے، اس وقت کچھ ہندوستانی حضرات نے مسئلہ علم غیب سے متعلق ایک استفتاء پیش کیا۔ قرآن و حدیث کے علاوہ اس کتاب میں منطق، فلسفہ اور ریاضیاتی دلائل پیش کیے گئے اس کتاب پر اس وقت 50 علما حرمین اور 15 دیکر بلاد اسلامیہ کے علما نے تقاریط لکھیں
• کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم: (1906ء) کاغذی کرنسی، سے متعلق علمائے حرمین کے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔ اس دور میں یہ مسئلہ متنازع تھا اور مگر آپ کے جوابات دیکھ کر علمائے حرمین نے دل کھول کر تعریف کی۔1911ء میں ایک ضمیمہ کا اضافہ کیا اور اس کا اردو ترجمہ کیا۔ سید ابو الحسن ندوی نے کفل الفقیہ کا بطور خاص ذکر کیا ہے اور فقاہت میں احمد رضا خان کی مہارت کا شاہد و گواہ قرار دیا

آپ کے شعری مجموعہ ”حدائق بخشش” کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ آپ کی ذات عشق مصطفی سے عبارت تھی۔ آپ کی نظموں اور غزلوں کا ایک ایک حرف عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوبا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نعت گو شعراء میں کوئی بھی شاعر علم وفضل اور زُہد وتقویٰ میں مولانا امام احمدرضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کا ہم پلہ نہیں ہے۔
اعلی حضرت امام احمدرضا خان نے اپنی جملہ تصانیف میں کئی جگہ جن اسلامی سیاسی افکار اور تنظیماتِ عامہ کو بھی بیان کیا ہے عصر جدید کے تقاضوں کے مطابق ان افکار اور نظریات کو مربوط کیا جائے اور فروغ دیاجائے تاکہ امت اسلامیہ اپنے اس ورثہ علمیہ کو نہ صرف سمجھ سکے بلکہ اپنے روشن مستقبل کے لئے ایک مستحکم ومضبوط لائحہ عمل بھی تیار کرسکے
آپ جیسی شخصیات کے بارے میں لب کشائی کرنے کےلئے اگر دن رات بھی ایک کر دیا جائے تو جو انہوں نے خدمات اسلام کی کی ہیں عالم اسلام کی کی ہیں ان کو بیان کرنا مشکل ہے
صفر 1340ھ مطابق 1921ء کو جمعہ کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق 2 بج کر 38 منٹ پر عین اذان کے وقت ادھر موذن نے حی الفلاح کہا اور ادھراعلی حضرت امام احمد رضا خان نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کا مزار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام بنا ہوا ہے۔
آپ کا مزار پرانا بریلی شہر سے تین چار فرلانگ کے فاصلہ پر محلہ سوداگران میں واقع ہے۔ اور ایک خانقاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مزار میں آپ کے بیٹے حامد رضا خان کی بھی قبر ہے۔ درگاہ پر ہر سال 25 صفر کو عرس رضوی کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس میں دنیا بھر سے معتقدین و علما و مشائخ شرکت کرتے ہیں۔اس سال 2018ء میں سواں عرس رضوی منعقد کیا جا رہا ہے۔
اللہ ہم سب کو ان عظیم شخصیات کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے عالم اسلام کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنائے آمین
اگر اس تحریر میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو معذرت کا طلب گار ہوں

MUHAMMAD BURHAN UL HAQ
About the Author: MUHAMMAD BURHAN UL HAQ Read More Articles by MUHAMMAD BURHAN UL HAQ: 164 Articles with 275283 views اعتراف ادب ایوارڈ 2022
گولڈ میڈل
فروغ ادب ایوارڈ 2021
اکادمی ادبیات للاطفال کے زیر اہتمام ایٹرنیشنل کانفرنس میں
2020 ادب اطفال ایوارڈ
2021ادب ا
.. View More