اﷲ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کویہ شرف بخشاکہ انہیں اپنے
پیارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی زوجیت میں آنانصیب
فرمایا۔اورانہیں وہ مقام عطافرمایاجودنیاکی دیگرعورتوں کونصیب نہ ہوا۔انہیں
تمام مسلمانوں کی ماں قراردیا۔
ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا اصل نام’’ رملہ‘‘ تھا یہ
سردارمکہ حضرت ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف کی بیٹی اور
حضرت معاویہ کی بہن تھی۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی والدہ کانام صفیہ بنت
ابوالعاص بن امیہ بن عبدشمس ہے۔جوامیرالمومنین سیدناحضرت عثمان بن عفان بن
العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پھوپھی تھیں۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہارسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی بعثت سے 17سال پہلے پیداہوئیں۔سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہااوائل اسلام میں ایمان لے آئیں تھیں۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی
پہلی شادی عبیداﷲ بن جحش کے ساتھ ہوئی تھی۔عبیداﷲ بن حجش حضرت عبداﷲ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ بن حجش الہندی کابھائی تھا۔عبیداﷲ بن حجش آپ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہاکے ساتھ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے ۔وہاں پران کی ایک
بیٹی پیداہوئی ۔جسکانام’’حبیبہ تھا‘‘اسی سے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی کنیت
’’ام حبیبہ‘‘ہوئی ۔
سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکاخواب
ابن سعدنے سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے یہ روایت کی ہے کہ انہوں نے
حبشہ میں ایک رات میں خواب دیکھاکہ ان کے شوہرعبیداﷲ بن حجش کی صورت اچانک
بہت ہی بدنمااوربدشکل ہوگئی وہ اس خواب سے زیادہ گھبرائیں ۔جب صبح ہوئی
توانہوں نے اچانک یہ دیکھاکہ ان کے شوہرعبیداﷲ بن حجش نے اسلام سے
مرتدہوکرنصرانی دین قبول کرلیاہے۔سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے اپنے
شوہرکواپناخواب سناکرڈرایااوراسلام کی طرف بلایامگراس بدنصیب نے اس پرکان
نہیں دھرااورمرتدہونے کی حالت میں مرگیا۔ مگرسیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہا اسلام پر ثابت قدم رہیں۔ (طبقات ابن سعد،مدارج النبوۃ،مشکوٰۃ
شریف،ازواج الرسول امہات المومنین)
سرکارِدوعالم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے نکاح
جب سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کوان کی حالت معلوم ہوئی توقلب نازک
پربے حدصدمہ گزرااورآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے ان کی دلجوئی کے لئے حضرت
عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حبشہ کے بادشاہ اصحمہ جن کا لقب
نجاشی تھا کے پاس یہ حکم دے کر بھیجا کہ وہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو
آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے نکاح کا پیغام دیں۔ چنانچہ نجاشی نے نبی کریم
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کا یہ حکم آپ کی اپنی ایک لونڈی ’’ابرہہ‘‘ کے ذریعہ
سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں بھیجا’’ ابرہہ‘‘ نے ان سے
کہا کہ مجھے بادشاہ نے ’’آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ‘‘کے پاس بھیجا ہے اور کہا
ہے کہ مجھے رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کا یہ حکم ملا ہے کہ آپ سے
رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کا نکاح کر دوں ۔سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا نے یہ پیغام بطیب خاطر قبول کیا اور فوراً ایک آدمی کو حضرت
خالد بن سعید بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج کر ان کو اپنا وکیل
مقرر کیا جو ان کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ اور ساتھ ہی ابرہہ کو یہ
خوشخبری سنانے کے عوض دو کپڑے اور چاندی کی ایک انگوٹھی عطا کی پھر جب شام
ہوئی تو نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اور ان تمام
مسلمانوں کو جو اس وقت حبشہ میں موجود تھے جمع ہونے کا حکم دیا جب سب لوگ
جمع ہو گئے تو نجاشی نے یہ خطبہ پڑھا۔
اَلْحَمْدُللّٰہِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ السَّلَامِ الْمُئْومن
الْمُھَیْمِن الْعَزِیْزالَْجَبَّار اَشْھُدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ
وَاَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہ‘وَرَسُوْلُہ‘اَرْسَلَہ‘ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ
الْحَقِ لِیُظْہِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ
الْمُشْرِکُوْنَ اَمَّابَعْدفَقَدْاَجَبْتَ اِلٰی مَادَعٰی اِلَیْہِ
رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
وَقَدْاَصْدَقْتُھَااَرْبَعِمَائَۃِ دِیْنَارًاذَھَبًا۔۔۔۔۔پھر یہ الفاظ
کہے بعد ازاں میں نے اس چیز کو قبول کیا جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم نے فرمایا ہے اور میں نے چار سو دینا رمہر مقرر کیا اس کے بعد انہوں
نے وہ چار سو دینار لوگوں کے سامنے پیش کر دیئے اس کے بعد حضرت خالد بن
سعیدبن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ خطبہ پڑھا’’اَلْحَمْدُلِلّٰہِ
اَحْمَدُہ‘ وَاَسْتَعِیْنُہ‘ وَاََسْتَغْفِرُاللّٰہَ وَاَشْھَدُاَنْ
لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہ‘ لَآ شَرِیْکَ لَہ‘ اَنَّ
مُحَمَّدًاعَبْدہ‘ وَرَسُوْلُہ‘ اَرْسَلَہ‘بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِ
لِیُظْہِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ
اَمَّابَعْدُفَقَدْاَجَبْتَ اِلٰی مَادَعٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَزَوَّجْتُہ‘ اُمِّ حَبِیْبَہ بِنْتِ اَبِیْ
سُفْیَانَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ لِرَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ
عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔۔۔۔۔۔۔پھر یہ الفاظ کہے بعد ازاں میں نے اس چیز کو قبول
کیا جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا ہے اور میں نے ابوسفیان
کی بیٹی ام حبیبہ سے سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ وسلم کا نکاح کر دیا اﷲ
تعالیٰ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ نکاح مبارک کرے۔ اس ایجاب وقبول
کے بعد مہر کے وہ چار سو دینار حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کو دے دیئے گئے جنہیں انہوں نے رکھ لیا پھر جب لوگوں نے اٹھنے کا ارادہ
کیا تو نجاشی نے کہا کہ ابھی آپ لوگ بیٹھے رہیں کیونکہ نکاح کے وقت کھانا
کھلانا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے چنانچہ انہوں نے کھانا منگوایا اور
سب لوگ کھانا کھا کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔(کذافی المواہب،مدارج
النبوۃ،جلددوم)
نجاشی نے نکاح کے بعدسیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکوشرحبیل ابن حسنہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مدینہ منورہ میں سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم کی خدمت میں بھیج دیا۔اسطرح آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے حرم نبوی میں
داخل ہوکر’’ام المومنین‘‘کامعززلقب پایا۔یہ سن ۶ھجری کا واقعہ ہے ۔اس وقت
ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی عمر36سال اوررسول اکرم صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی عمرمبارک59سال تھی۔(مدارج النبوۃ ،جلددوم،باب
دوم،درذکرامہات المومنین ازوازج مطہرات،مشکوٰۃ شریف)
ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ وہ
پہلے عبیداﷲ بن جحش کے نکاح میں تھیں پھر جب ملک حبشہ میں عبیداﷲ کا انتقال
ہو گیا تو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ان کا نکاح نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم کے ساتھ کر دیا اور نجاشی نے سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی
طرف سے سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکا مہر چار ہار مقرر کیا ایک اور
روایت میں چار ہزار درہم کے الفاظ ہیں ۔امام زہری بیان کرتے ہیں کہ نجاشی
نے ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی شادی حضور نبی اکرم صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ چار ہزار درہم حق مہر پر کی اور اس کی خبر
بذریعہ خط حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کو دی تو آپ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم نے اسے قبول فرما لیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا
ہے۔(سنن ابوداؤد،کتاب النکاح، نسائی شریف،مشکوۃ شریف، جلد سوم،باب مہر کا
بیان، حدیث 410)
اس وقت ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے والد ابوسفیان مشرک
تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سخت دشمن تھے پھر بعد میں انہوں نے بھی
اسلام قبول کر لیا تھا۔ہجرت کے آٹھویں سال مکہ فتح ہوا جس پر سورہ ’’انا
فتحنا لک فتحا مبینا‘‘ ناطق ہے۔ لشکر اسلام مدینہ منورہ سے روانہ ہوا اس
لشکر کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اس سے قبل اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ عظیم
الشان لشکر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح بڑھا چلا جارہا تھا جس جگہ
پڑاؤ ڈالتا تھا تمام سطح زمین روپوش ہوجاتی تھی۔حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ دل سے چاہتے تھے کہ ابوسفیان دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے ۔لہذاانہوں
نے بارگاہ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم میں عرض کی ۔یارسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم !ابوسفیان ایساشخص ہے جوسرداری اورسربلندی پسندکرتاہے اس
لئے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم اس کی کمزوری کالحاظ فرمائیں۔چچاکی بات سن
کرحضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا’’جوشخص ابوسفیان کے
گھرمیں داخل ہوگیا۔اسے امان دی جائے گی اورجوشخص اپنے گھرمیں داخل
ہوکردروازہ بندکرلے گااس کے لئے بھی امان ہے ۔جوکعبہ میں داخل ہوگاوہ بھی
مامون ہے‘‘۔
ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو جب باپ کے قبول اسلام کا
علم ہوا تو بڑی مسرت ہوئی کیونکہ وہ جانتی تھیں ابوسفیان مخالفت اسلام میں
کس قدر شدید تھے۔ حضرت ابو سفیان صخر بن حرب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب ایمان
لائے اور عفو نبوی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے مناظر کا مشاہدہ کیا تو حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی عظمت کے دل سے قائل ہوگئے اور اپنے قلبی
تاثرات کا ان الفاظ میں اظہار فرمایا’’یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم!
آج سے پہلے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ذات مبارک اور آپ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم کا دین میری نگاہ میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھا لیکن آج آپ صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی شخصیت اور آپ کی تعلیمات میرے نزدیک سب سے زیادہ
محترم اور محبوب ہیں‘‘۔حضرت ابو سفیان بن حرب جو مولفۃ القلوب میں سے تھے
آگئے اور عرض کی’’یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم! آج آپ تمام قریش سے
زیادہ تونگر ہیں۔ حضور پاک صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے سنا تو تبسم فرمایا
تو حضرت ابوسفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بولے’’اس میں سے کچھ مجھے عطا
فرمایئے‘‘۔حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کو حکم فرمایا کہ چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ ان کو انعام میں دو اس
پر حضرت ابوسفیان رضی اﷲ عنہ نے عرض کی’’میرے بیٹے یزید کو بھی حصہ عنایت
فرمایئے‘‘۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
سے فرمایا: ’’چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ اور دے دو‘‘۔حضرت ابو سفیان
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پھر عرض گزار ہوئے’’حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم!
میرے دوسرے بیٹے معاویہ رضی اﷲ عنہ کا بھی حصہ دیجئے‘‘۔ رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا ’’چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ دے دو‘‘۔اس پر
حضرت ابو سفیان رضی اﷲ عنہ نے کہا’’میرے ماں باپ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم
پر قربان ہوں، اﷲ کی قسم! آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم زمانہ جنگ میں بھی
کریم ہیں اور زمانہ امن میں بھی بہت کریم ہیں‘‘۔(یہ واقعہ نوازرومانی کی
تصنیف ازواج الرسول امہات المومنین سے لیاگیاہے)
ابوسفیان کااعتراف شکست
ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاجب حریم نبوت میں داخل ہوئیں
تواس زمانہ میں ان کے والدابوسفیان حالت شرک میں تھے اوررحمت عالم صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم سے برسرپیکارتھے انکوبیٹی کے نکاح کی خبرپہنچی تواپنے
جذبات اوراحساسات کااظہاران الفاظ میں کیا۔’’وہ جوان مردہیں ،ان کی ناک
نہیں کاٹی جاسکتی‘‘۔یعنی محمدصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم بلندنام والے عزت
دارہیں ہم ان کوذلیل نہیں کرسکتے ۔ادھرہم ان سے لڑرہے ہیں اورہماری بیٹی ان
کے نکاح میں چلی گئی ہے۔گویااپنی شکست کوتسلیم کرلیا۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکاادب،بستررسول صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی حرمت
ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہابہت پاکیزہ ذات حمیدہ صفات کی
جامع اورنہایت ہی بلندہمت اورسخی طبیعت کی مالک تھیں سخاوت وشجاعت دین داری
اورامانت ودیانت کے ساتھ بہت ہی قوی الایمان تھیں۔سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم کے نکاح میں آنے کے بعدآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاحضورنبی کریم صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت کواپنی سعادت سمجھتی تھیں۔فتح مکہ سے قبل ام
المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے والدابوسفیان جوابھی ایمان سے
مشرف نہ ہوئے تھے صلح حدیبیہ کی تجدیدکے لئے مدینہ منورہ آئے توانہوں نے سب
سے پہلے اپنی بیٹی کے گھرجانے کاقصدکیا۔چنانچہ ابوسفیان آپ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہاکہ حجرہ اقدس میں آتے ہیں ۔جہاں پرسرکارِدوعالم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم
کابسترلگاہواہے ۔ابوسفیان اس بسترپربیٹھناچاہتے ہیں توان ہی کی بیٹی سیدہ
ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے اپنے باپ کی ذرابھی پرواہ نہیں کی اورجلدی
سے بسترکوکھینچ کرکہاکہ یہ بسترنبوت ہے میں کبھی یہ گوارانہیں کرسکتی کہ
ایک ناپاک مشرک اس پاک بسترپربیٹھے۔ ۔ابوسفیان باپ ہوکرحیران وپریشان
ہوگیاکہ عرب کامہمان نوازمعاشرہ جس میں مہمان کے لئے جانیں تک قربان کردی
جاتی ہیں یہاں بیٹی اپنے باپ کے ساتھ ایسی انہونی حرکت کیسے کرنے
لگی؟ابوسفیان نے وجہ پوچھی توام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہانے جواب میں فرمایاکہ بے شک آپ میرے والدماجدہونے کے ناطے قابل احترام
ہیں ۔لیکن یہ بسترکوئی عام بسترنہیں ۔بلکہ اس پاک ہستی کاہے جس کے صدقے
زمین کوبھی پاکی نصیب ہوئی ہے۔اے اباجان !آپ نے اسلام قبول نہیں کیاہے اس
لئے تم ایک نجس اورمشرک انسان ہو۔میں سرکارِدوعالم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم
کے بسترکوآپ کے بیٹھنے کی وجہ سے ناپاک نہیں کرسکتی اس لئے آپ کوزمین پرہی
بیٹھناہوگا۔علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کیاخوب ہی کہا۔
کی محمدﷺسے وفاتونے توہم تیرے ہیں یہ جہاں چیزہے کیالوح وقلم تیرے ہیں۔
ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے قیامت تک آنیوالی نسل
انسانی کویہ پیغام دے دیاکہ!اگراس حجرہ اقدس میں آنیوالامہمان رسول اکرم
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کاوفادارنہیں توگھرمیں آیاہواباپ بھی قابل احترام
نہیں ۔کسی شاعرنے کیاخوب کہا،
دنیامیں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ میں سب کومانتاہوں،مگرمصطفیﷺکے بعد
امام زہری بیان کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان بن حرب مدینہ آیا تو وہ حضور نبی
اکرم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں بھی حاضر ہوا جبکہ آپ صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم مکہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ ابوسفیان نے حضور نبی اکرم
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں توسیع کے لئے گزارش کی
لیکن حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انکار فرما دیا، پس وہ کھڑا
ہوا اور اپنی بیٹی کے پاس چلا گیا لیکن جب وہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم کے بستر پر بیٹھنے کے لئے بڑھا تو ام المومنین سیدہ امّ حبیبہ
رضی اﷲ عنہا نے اس کے بیٹھنے سے پہلے ہی وہ بستر لپیٹ دیا۔ اس نے کہا ، اے
میری بیٹی! کیا تو اس بستر کی وجہ سے مجھ سے نفرت کرتی ہے یا میری وجہ سے
اس بستر سے؟ انہوں نے کہا یہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کا بستر
ہے اور تم ایک نجس اور مشرک انسان ہو (یہ سن کر) اس نے کہا، اے میری بیٹی!
البتہ میرے بعد تم شر میں مبتلا ہو گئی ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن سعد نے
روایت کیا ہے۔(طبقات ابن سعد،جلد 8ص 100)
ذوق عبادت
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاعبادت گزارخاتون تھیں ۔ہروقت ذکرالٰہی میں مشغول
رہتیں۔فرائض وواجبات کی ادائیگی کے توکیاکہنے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانفلی
عبادات بھی بہت زیادہ کرتیں۔ایک بارآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے
فرمایا’’جوشخص 12رکعات نفل روزانہ پڑھے گااس کے لئے جنت میں گھربنایاجائے
گا۔جب آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے یہ سناتواس وقت سے لیکرآخرعمرتک کبھی بھی ان
کاناغہ نہیں کیا۔ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ
میں نے حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جو مسلمان
بندہ ہر روز اﷲ تعالیٰ (کی رضا)کے لئے بارہ رکعات نفل پڑھے گا اس کے لئے ان
کے بدلہ میں جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ
عنہا فرماتی ہیں میں نے اس دن کے بعد کبھی بھی یہ بارہ رکعات ترک نہیں
کیں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے کتب
معتبرہ میں پینسٹھ65احادیث مبارکہ مروی ہیں ۔ان میں سے دومتفق علیہ ہیں
۔ایک تنہامسلم میں ہے باقی دیگرکتابوں میں مروی ہیں۔(مدارج النبوۃ ،جلددوم)
فکرآخرت
سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاپاکیزہ ذات،حمیدہ صفات ،جواداورعالی ہمت
تھیں۔اہل سیرکہتے ہیں کہ جب ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہاکی وفات کاوقت قریب آیاتوانہوں نے ام المومنین سیدہ عائشۃ الصدیقہ
اورام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہماسے کہاکہ مجھے ان امورمیں
معاف کردوجوایک شوہرکی بیویوں کے درمیان ہوجاتے ہیں اوراس نوع سے جوکچھ
میری جانب سے تمہارے متعلق واقع ہواہواسے معاف کردو۔انہوں نے کہاکہ حق
تعالیٰ آپ کوبخشے اورمعاف کرے ہم بھی معاف کرتے ہیں۔ام المومنین سیدہ ام
حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے کہااﷲ تعالیٰ تمہیں خوش رکھے تم نے مجھے خوش
کردیا۔(مدارج النبوۃ،جلددوم)
وصال
ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکاوصال مدینہ طیبہ میں 40ھجری
یا44ھجری میں ہوا۔اورجنت البقیع میں ازاوج مطہرات کے خطیرہ میں مدفون
ہیں۔(زرقانی،جلد۳،ص242تا245،مدارج النبوۃ،جلد2صفحہ481,482)ایک قول کے مطابق
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکاوصال شام میں ہوا۔(مدارج النبوۃ ،جلددوم)
ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاایک باوقارسردارمکہ کی لخت
جگرتھیں۔شہزادی تھیں حسن وجمال میں اپنی مثال آپ تھیں ۔سردارمکہ کی شہزادی
ہوکر اپنے آرام وسکون،عزت واقتدار،شوکت وحشمت سمیت سب کچھ اسلام پرقربان
کرڈالا۔ایمان کومضبوطی سے تھامے رکھ کرتاریخ اسلام کاایک لازوال کرداربن
گئیں۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے صبرواستقلال کی ایک روشن مثال سے تاریخ کے
ورق جگمگااُٹھے ہیں۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتاہے
کہ انسان کودنیامیں جتنی بھی نعمتیں ملی ہیں ان میں سب سے مقدم اورقیمتی
نعمت ایمان ہے کیونکہ جسے ایمان کی نعمت مل جائے گویااُسے ساری کائنات کی
نعمتیں مل گئیں ۔سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی عزت وناموس اوردین
اسلام کی سربلندی کی خاطراپناتن من دھن سب کچھ قربان کردیناچاہیے۔کیونکہ
دنیاکی نعمتیں ،عزتیں اورجوکچھ بھی ہمیں ملاہے صدقہ سرکاردوعالم صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم کاہے ۔اس لئے
عشق ِ سرکارصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی اک شمع جلالودل میں بعدمرنے کی
لحدمیں بھی اُجالاہوگا۔
معززقارئین کرام ! آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ذات مبارکہ ہمارے ایمان
کامرکزمحوراورحقیقی اساس ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ذات گرامیِ وجہ
تخلیق کائنات اوردین کی اساس ہے ۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سمیت تمام
انبیاء کرام علہیم السّلام کی تعظیم وتوقیربجالاناہرمسلمان پرفرض ہے ۔ دین
اسلام میں منصب رسالت کومرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ منصب رسالت کی یہی مرکزیت اس
امرکی متقاضی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ذات گرامی ہر مسلمان کے
لئے تمام محبتوں اورالفتوں کامرکزومحورقرارپائے ۔ کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم کی محبت کے بغیرہماراایمان نامکمل ہے۔امتِ مسلمہ کی بقاء
وسلامتی اورترقی کارازہی اسی امرپرمنحصر ہے۔شاعرمشرق ڈاکٹرعلامہ محمداقبالؒ
نے کیاخوب کہا،
مغزقرآن ،رُوح ایمان، جان دین ہست حُبِّ رحمۃ للعالمین
آج کے پُرفتن دورمیں ایک بہت بڑی سازش کے تحت یہودونصاری جوازل سے دین ِ
اسلام اورمسلمانوں کے دشمن آرہے ہیں ۔مسلمانوں کے جذبات ایمانی کوڈھیرکرنے
اورامت مسلمہ کے دلوں سے روح ِ محمدصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کونکالنے کی
کوششیں کررہے ہیں ۔کیونکہ دشمنانِ اسلام پریہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے
کہ اگرمسلمانوں کوشکست دینی ہے توان کے دلوں سے روحِ محمدصلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم (العیاذباﷲ)کونکالناہوگا۔کیونکہ مسلمانوں کویہی نسبت رسالت مآب صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم سے محبت کی قوت ان کوکسی میدان میں گرنے اورمرنے نہیں
دیتی۔ڈاکٹرعلامہ اقبال ؒ نے کیاخوب کہا۔
یہ فاقہ کش جوموت سے ڈرتانہیں ذرا روحِ محمدصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم اس کے
بدن سے نکال دو
اب امت مسلمہ کومتحد ہوکریہودونصاری کے ناپاک عزائم کوخاک میں
ملاناہوگااورعزت وناموس مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کاہرصورت دفاع کرنے
کے لئے اپناتن من دھن قربان کرناہوگا۔ اﷲ تعالیٰ کی ان پررحمت ہواورا ن کے
صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم
|