کوئی دَیکھے تُو کَس طرح

شہلا حِیران و پریشان ایک شاہراہ پر کھڑی سوچ رہی تھی،کہ نجانے آج تمام شہر کے نوجوانوں کو کیا ہُوگیا ہے لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی شہر ہے جہاں شریر نوجوان آئے دِن کِسی دوشیزہ کی آبرو کو تار تار کر دِیا کرتے تھے جہاں تنہا عورت گھر سے نِکلتے ڈرتی تھی جہاں سَر شام خواتین اپنے گھروں میں دُبک کر بیٹھ جایا کرتی تھیں اور جہاں کِسی عورت کو ضرورت کے تِحت گھر سے نِکلنا بھی ہوتا تُو اسقدر چادروں کو خُود پر لپیٹ لیا کرتی کہ کوئی شناخت ہی نہیں کرپاتا کہ کِس عُمر کی اور کِس گھر کی خَاتون بازار سے گُزری ہے۔

مگر شہلا نے تو کوئی لِبادہ خُود پر طاری نہیں کیا تھا اور اُسے بازار میں گُھومتے پھرتے پَل دو پَل کا عرصہ نہیں گُزرا تھا بلکہ وہ تُو سہ پہر سے بازار میں کبھی یہاں سے وَہاں اور کبھی وَہاں سے یہاں گُھوم رَہی تھی شہلا حیران اسلئے بھی تھی کہ اُس نے جان بوجھ کر چہرے پہ نِقاب نہیں لگایا تھا تاکہ منچلے نوجوان اُس کے حُسن سے لُطف اندوز ہوسکیں اور اُسکے قریب بِلا جھجک آسکیں۔

اور وہ ایسی گئی گُزری بھی نہیں تھی کہ اُسے نظر بھر کے دِیکھا نہ جائے اُسکی سہلیاں اُسے اکثر کہا کرتی تھیں کہ شہلا تُمہارے حُسن کے آگے تو مہتاب کی چَمک بھی مدہم پَڑجاتی ہے ہَم لڑکیوں کی نِگاہیں تُمہارے چہرے سے نہیں ہَٹتیں اگر شہر کے مَنچلے نوجوان تُمہیں دیکھ لیں تُو شہر میں قیامت برپا ہُوجائے تُم انسانی رَنگ و رُوپ میں کوئی اَپسرا مِحسوس ہُوتی ہُو یہی وَجہ تھی کہ خُود شِہلا بھی اکثر اپنے حُسن سے خُوفزدہ رَہا کرتی۔

وہ ہَمیشہ سے خُود کو صرف گھر تک مِحدود رکھا کرتی تھی کَبھی گھر میں بھی دوپٹہ سر سے گِرنے نہیں دِیتی اُسے زیادہ ہَنسی مذاق بھی پسند نہیں تھا ہمیشہ لئے دِیئے انداز میں سب سے پیش آتی اگرچہ بُہت ملنسار تھی لیکن سنجیدگی اور متانت ہمیشہ اُسکی شخصیت کا اِحاطہ کئے رِہتی تھی۔ لیکن آج وہ گھر سے بن سنور کر نِکلی تھی اور خُود چاہتی تھی کہ کوئی اُسے دَعوت گُناہ دے۔

کیونکہ آج بھوک سے لَڑتے ہُوئے تیسرا دِن تھا گھر کی تمام تر ذِمہ داری ماں کے انتقال کے بعد سے شہلا کے ناتواں کاندھوں پر آپڑی تھیں بابا زندہ تھے لیکن اپنی آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھے تھے غُربت کی وجہ سے بابا کا جِسم کافی لاغر ہُوچُکا تھا جوڑوں کے شدید درد کی وجہ سے مسجد بھی نہ جاسکتے تھے تمام دِن چارپائی پر پَڑے کھانستے رِہتے شہلا سے چھوٹے دو بہن بھائی بھی اپنی ضرورت کیلئے شہلا کی کڑھائی سِلائی پر انحصار کرتے تھے لیکن کئی دِن ہُوئے شہلا کو کوئی کام نہیں مِلا تھا۔

اگر گھر میں صِرف بابا ہی ہوتے تُو شائد وہ یہ انتہائی قدم نہ اُٹھاتی لیکن چھوٹے بِہن بھائیوں کی بھوک نے اُسے جھنجوڑ کر رکھ دِیا تھا اُسکی اُمید کیساتھ ساتھ اب اُسکی ہمت بھی دَم تُوڑ چُکی تھی اُس نے یہ سُوچ کر آج اپنے گھر سے پِہلی مَرتبہ قدم نِکالا تھا کہ چَاہے اُسے آج اپنی عِصمت کا سودا کرنا پڑجائے لیکن وہ آج خالی ہاتھ گھر نہیں لُوٹے گی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اسُکے چُھوٹے بِہن بھائی اِس اُمید پر دروازے پہ نِگاہیں جَمائے بیٹھے ہوُنگے کہ ابھی آپی دروازے سے کھانا لئے دَاخل ہُوگی۔

لیکن شام ہُونے کو آئی تھی اور اُسے کِسی نے نظر بھر کے دِیکھنا تُو درکِنار نِگاہ اُٹھا کر بھی نہیں دِیکھا شام ہوتے ہی دُکانداروں نے اپنی دُکانوں کو سمیٹنا شروع کردِیا تھا اور اب بازار میں اندھیرا پھیلنے لگا تھا یکایک ایک جانب سے ایک سنتری نِکل آیا اور اُسے ڈانٹتے ہُوئے گھر جانے کی تلقین کی اب اُسکے پاس اسکے سِوا کوئی چَارہ نہیں تھا کہ وہ گھر لُوٹ جائے اور اپنے چُھوٹے بِہن بھائیوں کو دِلاسہ دیکر مزید ایک دِن اِس کرب کیساتھ گُزارے کہ اسکے بہن بھائی رات بھر بھوک سے سسکتے ہُوئے گُزاریں۔

گھر کی دِہلیز سے گُزر کر جونہی وہ بابا کی چارپائی کے سامنے سے گُزرنے لگی بابا کی آواز نے اُسکے قدموں کو جَکڑ لیا۔ کہاں گئی تھیں شہلا بیٹی؟ آج دوپہر سے تُمہارے قدموں کی چاپ نہیں سُنی۔

شہلا کیا بتاتی کہ وہ کِس خاردار راہ کی تلاش میں گھر سے نِکلی تھی مگر شائد کانٹوں نے بھی اُسکے دامن میں سَمانا پسند نہیں کیا تھا۔

کہاں ہُو بِٹیا جواب کیوں نہیں دیتیں تُم؟ شائد شِہلا کی خاموشی سے بابا گھبرا گئے تھے

بابا کی پریشانی شِہلا سے کب برداشت ہُوسکتی تھی ، بھری دُنیا میں اِک وہی تُو تھے جنکے دَم قدم سے شِہلا کا حُوصلہ بُلند تھا شہلا آگے بَڑھی اور بابا کے قدموں سے لِپٹ گئی اُس نے بُہت چاہا کہ اپنے اِحساسات پر کنٹرول رکھ سکے لیکن قدموں سے لِپٹے ہی شہلا کی ہچکیاں بُلند ہُونے لگیں تھیں بابا مسلسل شِہلا کے سَر پر ہاتھ پھیرے جارہے تھے اور اُسکی تکلیف جاننا چاہتے تھے اُس نے اپنے باپ سے کبھی جُھوٹ نہیں بُولا تھا اب وہ روتے ہُوئے سُوچ رہی تھی کہ آخر یہ کڑوا سچ کِسطرح اپنے باپ کیسامنے بیان کرپائے گی۔

بٹیا جُو بھی دِل میں ہے کہدو دِل کا غُبار ہلکا ہُوجائے گا ورنہ دِل کا بوجھ کبھی کبھی ضمیر کا بُوجھ بن جاتا ہے اور ضمیر کا بوجھ سہنے کی طاقت انسانوں میں نہیں ہُوتی۔

شِہلا نے چند لَمحے سُوچا اور اِس نتیجے پر پُہنچی کہ بابا نے ہمشہ سچائی کا درس دِیا ہے اور وہ آج بھی اپنے بابا سے سچ ہی کہے گی اور اُس نے سِسکیوں اور آہوں کے درمیان کسی مُجرم کی طرح اپنی آج کی کہانی بابا کے گُوش گُزار کردی اُسے یقین تھا کہ اُسکی کہانی سن کر بابا بھی رُو پڑیں گے لیکن یہ کیا شِہلا کی بات سُن کر بابا کے قہقہے بُلند ہورہے تھے اور شہلا سوچ رہی تھی کہیں بابا پر رنج کی وجہ سے دورہ تُو نہیں پَڑ گیا۔

کُچھ دِیر میں اِن قہقہوں نے کھانسی کے دُورے کی شِکل اِختیار کرلی شِہلا نے بھاگ کر صراحی سے پانی گلاس میں اُنڈیلا اور بابا کے مُنہ سے لگا دِیا کُچھ دِیر میں بابا کی کھانسی سنبھلی تو بابا نے شِہلا کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا۔
۔
۔
تُمہیں اِس بات کا رَنج ہے نا کہ کِسی نے تُمہاری جانب نِگاہ اُٹھا کر کیوں نہیں دِیکھا۔

تُو میری پیاری بِٹیا تُمہیں تو کوئی جب نِگاہ اُٹھا کر دیکھتا نا جب تُمہارے بابا نے اپنی جوانی میں کِسی کو نِگاہ اُٹھا کر دیکھا ہوتا۔
۔
۔
اور جہاں تک بات ہے تُمہارے چھوٹے بہن بھائیوں کے بھوک کی تُو ایک اللہ کا بندہ آیا تھا اور مہینے بھر کا راشن اور آج کیلئے سالن روٹی دے گیا تھا جِسے کھا کر تُمہارے بِہن بھائی کب کے سُو چُکے ہیں۔
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1095825 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More