غازی علم دین کا یوم شہادت اکتیس اکتوبر ہے اس دن
میانوالی جیل میں کوچہ چابک سواراں لاہورکے ترکھان خاندان کے چشم و چراغ
علم دین اپنے والد سے مل کر محنت مزدوری کرتے تھے آخری ایام میں وہ کوہاٹ
میں تھے وہاں سے لاہور آئے پورے شہر میں دھوم مچی تھی مسلمان سراپہ ء
احتجاج تھے شاہ بطحاء پر آنچ آئی تھی ایک بد بخت راج پال نے نبی اکرمﷺ کی
شان اقدس میں بے حرمتی پر مشتمل ایک کتاب رنگیلا رسول کے نام سے لکھی تھی۔
آج جب ریاست مدینہ کی بات کی جاتی ہے تو ناموس رسالت کے تحفظ کے بغیر
اسلامی ریاست کا وجود بے معنی ہے۔بات آپ اسلام کی کریں اور نبی پاکﷺ کی
توہین کو آزادی رائے کی نظر کر دیں۔
مجھے کہنے دیجئے کہ کہنے کی آزادی کی بات کرنے والوں کو برا بھلا کہیں تو
سب سے پہلے اپنی توہین پر آپ کو عدالتوں میں گھسیٹیں گے اور جن کا ایمان ہی
یہ ہو کہ وہ اپنے ماں باپ اور اور اپنی اولاد سے زیادہ اپنے نبی کو چاہتے
ہیں تو وہ کیسے توہین رسالت پر خاموش رہیں گے ۔رسول پاک کے احترام کے بغیر
یہ ریاست کسی صورت کھڑی نہیں رہ سکتی۔
بر صغیر پاک و ہند میں متعدد بار آقائے نامدار کی شان میں گستاخی کی
گئی۔لیکن فدایان رسولﷺ پیچھے نہیں ہٹے اور ان میں سے کئیوں نے قربانی دے کر
ناموس رسالت کا دفاع کیا۔نبی پاکﷺ کے عاشق اول روز سے اپنے پیارے نبی کے
لئے جانیں دیتے اور لیتے رہے ہیں۔رنگیلا رسول آریہ سماجی تحریک کا ایک وار
تھا جو وقفے وقفے سے ہمارے پیارے نبی پر کرتے تھے۔
اکیس سالہ نوجوان لاہور آ کر اس تاڑ میں رہا کہ کب اس بد بخت سے پالا پڑے
اور میں کامیاب ہو جاؤں۔اس سے پہلے دو جوان اس پر حملہ آوار ہو چکے تھے مگر
اس کی جان بچ گئی۔غازی علم دین کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ دوستوں کے ساتھ
تاش کی بازی لگا رہے تھے انہی دنوں ان کی عم زاد سے منگنی بھی ہوئی تھی اسی
لئے وہ کوہاٹ سے لاہور آئے تھے۔یاد رہے جوانی کے وہ دن ہر نوجوان اپنی آنے
والی زندگی کے خوشگوار دنوں کے خواب بنتا ہے لیکن جن کی منزلیں بڑی ہوں ان
کے خواب بھی مختلف ہوتے ہیں۔تاش کی بازی کے دوران راج پال کا ذکر ہوتا
ہے۔نوجوان علم دین وہاں سے اٹھتا ہے بازار سے ایک روپے کا خنجر خریدتا ہے
اور اردو بازار میں راج پال کی دکان پر پہنچ کر موقع پا کر چاقو کے پے در
پے وار کر کے اسے جہنم واصل کر دیتا ہے۔پولیس کے حفاظتی افراد کھانے کے لئے
نکلے ہوئے تھے دیگر دو افراد نے چوں چراں نہیں کی۔نوجوان علم دین وہاں سے
نکل کر تھوڑی دور جا کر واپس آتا ہے وہ دیکھنا چاہتا ہے پہلے دو حملہ آوروں
کی طرح کہیں راج پال بچ تو نہیں گیا لیکن وہ ٹھنڈہ ہو چکا تھا۔غازی علم دین
نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے گرفتاری دیتا ہے۔اسے لاہور کوٹ لکھ پت جیل سے اندیشہ
ء نقص امن کو سامنے رکھتے ہوئے پہلے گجرانوالہ جیل اور بعد میں میانوالی
جیل پہنچایا جاتا ہے مولانا دیدار علامہ اقبال مولانا ظفر علی خان پیر
ضیائالدین سیالوی،پیر مہر علی شاہ ان کی زیارت کرتے ہیں بے شمار لوگ اسے
دیکھ کر اپنا مقدر سنوارتے ہیں۔غازی علم دین کو اکتس اکتوبر کو پھانسی دی
جاتی ہے ۔اس سے پہلے عدالتوں میں کیس چلتا ہے۔لاہور ہائی کورٹ کی پھرتیاں
دیکھیں صرف بائیس روز میں انہیں سزائے موت سنا دی جاتی ہے۔ایک کمیٹی بنتی
ہے جس کے سربراہ علامہ اقبال تھے انہوں نے اپیل کے لئے قائد اعظم کو بلایا
قائد نے بڑے زبردست نکات اٹھائے انہوں نے تعزیرات ہند کی دفعہ ۱۵۳ کا حوالہ
دیا ان کا کہنا تھا پہلے اسے مجرم تو قرار دیں دوسری بات ہے یہ ۳۰۲ کا تو
کیس ہی نہیں ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ انیس بیس سال کے جوان کو موت کی سزا
کیوں دی جا رہی ہے سچ تو یہ ہے کہ یہ پورا کیس ہی متعصبانہ طور پر چلایا
گیا۔راج پال کا معاملہ دیکھئے اسے پہلے تو چھ ماہ کی سزا دی گئی اور بعد
میں وہ لاہور ہائی کورٹ نے معطل کر دی جج براؤن وے اور جان سٹون نے اسے
تعصب کی آنکھ سے دیکھا چیف جسٹس شادی لال نے بھی کسر نہ چھوڑی۔اگر یہ منصف
مسلمانوں کے جذبات کو دیکھتے تو علم دین کو پھانسی نہیں ہو سکتی تھی۔ہم لوگ
گورے کے انصاف کی دہائیاں دیتے تھکتے نہیں صرف ایک کیس کو ہی دیکھیں تو آپ
کو پتہ چل جائے گا کہ مسلمانوں کے ساتھ کتنی زیادتیاں ہوئیں۔موضوع سے سے
کہیں ہٹ نہ جاؤں صرف جنرل ڈائر کا جلیانوالہ کیس انگریز حکومت کے ماتھے پر
کلنک کا ٹیکہ ہے۔
اور سچ پوچھیں آج کا دور ہوتا تو علامہ اقبال کو ہم لوگ بنیاد پرست قرار
دیتے نہ صرف انہیں وہ چار رکنی کمیٹی جس میں مولانا ظفر علی خان،مولانا
دیدار،علامہ اقبال اور سر شفیع یہ سارے ہی آج کی فرزانہ باری،ماروی سرمد
اور ہود بھائی کے سامنے فاشسٹ قرار پاتے ۔ذرا دیکھئے تو سہی ایک نوجوان کو
لاہور سے میانوالی لا کر پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے اور پھر لاش نا معلوم
مقام پر دفن کر دی جاتی ہے۔اقبال ضامن ہوتے ہیں اور پھر ان کی لاش کو لاہور
لایا جاتا ہے کہتے ہیں جنازے میں کوئی چھ لاکھ کے قریب لوگ شریک ہوئے۔یہ
تاریخ کا ایک بڑا جنازہ تھا۔در اصل جرم اور اس قسم کے واقعات تب ہی رونما
ہوتے ہیں جب حکومتیں انصاف نہیں کرتیں۔اگر حکومت ہند انصاف کرتی جس طرح
ہولوکاسٹ کے خلاف بولنا لکھنا جرم ہے اسی طرح کے قوانین آقائے نامدارﷺ کی
ناموس پر بنائے جائیں تو کبھی علم دین،غازی ممتاز قادری،عامر چیمہ نہ پیدا
ہوں۔عمران خان نے یہ ہی کہا جو آگے چل کر شاہ محمود قریشی جنرل اسمبلی میں
کہہ گئے۔ کیا انگریز حکومت کے معاملات کا تسلسل اب بھی جاری ہے؟یہاں میں
سلمان تاثیر کے قتل پر بات کرنا چاہوں گا۔آسیہ ملعونہ نے جب سر عام نبی پاک
کے بارے میں بے ہودہ گفتگو کی تو انہیں کیا ضرورت پڑی تھی جیل میں جا کر
توہین رسالت بل کو سیاہ قانون کہنے کی۔قانون کو ہاتھ میں لینا اسے کہتے ہیں
اگر ایک پڑھا لکھا ایسا کرتا ہے تو لوگوں کا عقیدہ تو نہیں کمزور ہوا۔میں
یہاں ان صفحات پر مطالبہ کروں گا کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھا م کے لئے
پاکستان کے قوانین کو حرکت میں لایا جائے اور ملعونہ آسیہ کو پھانسی دی
جائے۔غازی علم دین نے جب اس جہنمی کو جہنم واصل کیا تو علامہ نے ایک جملہ
کہا ترکھاناں دا منڈا نمبر لئے گیا۔اگر اقبال کا پاکستان بنانا ہے تو اسی
طرح کا جذبہ بھی دکھانا ہو گا۔کہتے ہیں فتح مکہ کے وقت عام معافی دی گئی
لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ نبی پاکﷺ نے ان دو عورتوں کو جو ان کی شان میں
تواتر سے گستاخانہ اشعار پڑھتی تھیں کہا کہ انہیں قتل کرو چاہے وہ کعبہ کے
غلاف سے چمٹی ہی کیوں نہ ہو۔گستاخ رسولﷺ کے لئے ریاست مدینہ میں بھی جاں
بخشی نہیں تھی اور اب بھی نہیں ہونی چاہئے۔سلام غازی علم دین۔
|