امام اہلِسنت،مولاناشاہ احمدرضاخان علیہ الرحمہ کی ذات
کسی تعارف کی محتاج نہیں۔وہ عشق وعرفان اور فضل وکمال کے ایسے ماہتاب تھے
جس کی روشنی عالمِ اسلام کومنورکرتی رہی اور عرب وعجم کے عظیم علماء وفضلاء
نے اُن کے علمی کمال اورعارفانہ شعورکاکھُلے دل سے نہ صرف اعتراف کیا بلکہ
اُن کی شاگردی اختیار کرنے کوباعثِ افتخارجانا۔ حقیقت یہ ہے کہ اعلٰی حضرت
ایک ایسی شخصیت کانام ہے جن کی عظمت ہرصاحبِ علم کے دل میں تھی،ہے اوررہے
گی زیرِنظرمضمون میں امامِ اہلسنت کے بارے میں عرب وعجم کے چند اربابِ علم
وفن علماءکے تاثرات کوشامل کیا جارہاہے جنہیں پڑھ کران شاء اللہ عزوجل آپ
اپنے دل میں فرحت محسوس فرمائیں گے۔
علمائے مکہ مکرمہ: شیخ محمدمختاربن عطاردالجاوی (مسجدِحرام):اس زمانے میں
علماء محققین کا بادشاہ ہے اوران کی ساری باتیں سچی ہیں گویایہ ہمارے نبی
پاکﷺ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہیں۔(علمائے حجاز کی نظرمیں۔ص28)
شیخ اسماعیل بن سیدخلیل(حافظ کتب الحرام):یکتائے روزگار،وحیدِعصرشیخ
احمدرضاخان وہ ہیں کہ مکہ معظمہ کے علماء جن کے فضل کی گواہی دے رہے ہیں
اگر وہ اس مقامِ رفیع پر فائز نہ ہوتے توعلماء مکہ معظمہ اُن کیلئے یہ
گواہی نہ دیتے۔۔ہاں ہاں میں کہتاہوں کہ اگراُس کے حق میں یہ کہاجائے،،وہ اس
صدی کے مجدد ہیں تو حق اور صحیح ہے۔(حسام الحرمین ص140،142)
شیخ العلماء مفتی شافعیہ محمدسعیدبن محمدبابصیل:فاضل،کامل شیخ احمدرضاخان
شریعت کے اصول وفروع میں نہایت محقق ومدقق ہیں اور جس سمت کا رخ کریں
اُدھرکے سردار ہیں۔(ملخص الدولۃ المکیہ ص17)
سیداسماعیل خلیل مکی :میں اللہ کی قسم کھاکرکہتاہوں کہ اگر امام اعظم
ابوحنیفہ ان فتاوٰی کو دیکھتے تو اُن کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اوران فتاوٰی
کے مولف یعنی احمدرضاکواپنے تلامذہ میں شامل کرلیتے۔(خیابان رضاص216/الاجازاۃ
المتینہ لعلماء بکۃ والمدینہ،ص22)
علمائے مدینہ:سیداحمدبن اسماعیل الحسینی البرزنجی(مفتی شافعیہ مدینہ
طیبہ):اے علامہ کامل،صاحبِ تحقیق و تنقیح،عالمِ اہلسنت شیخ احمدرضا میں نے
آپ کی کتاب ،المعتمد المستند،،کے خلاصہ کا مطالعہ کی تومیں نے اس کو قوت
ونقد کی انتہائی بلندیوں پر پایا۔(حسام الحرمین۔ص199)
موسٰی علی الشامی الازھری (مدینہ منورہ):مصنفِ کتاب(الدولۃ المکیہ) اماموں
کے امام،اس امت کے دین کے مجددہیں،یقین کے نور اورقلوب کے انوارکی تائیدسے
آراستہ ہیں۔کون؟۔شیخ احمدرضاخان۔اللہ تعالٰی دونوں جہاں میں انہیں قبول
ورضوان عطا فرمائے۔آمین
علمائے شام:علامہ سیدمحمدتاج الدین حسنی دمشقی (سابق صدر۔شام):کتاب(الدولۃ
المکیہ)کے مصنف شیخ احمدرضاخان بڑے صاحبِ فضل ہیں جواپنے ہم مثلوں میں
بہترین اوربڑی قدرومنزلت والے ہیں اللہ تعالٰی انہیں بہترین جزاء عطافرمائے
اورہم سب کو قیامت کے دن حضورﷺ کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین۔سالنامہ/
تجلیاتِ رضا۔1427ھ 2006۔۔۔ص108(امام احمدرضااورعالمِ اسلام۔۔۔ص184)
شیخ محمدبن علی آفندی الحکیم (دمشق۔شام):کتاب(الدولۃ المکیہ)اپنے مصنف
علامہ (احمدرضا)کے معارفِ عقلیہ ونقلیہ اورشریعتِ محمدیہ کیلئے ان کی غیرت
پر گواہ ہے۔اللہ تعالٰی اسلام میں ان جیسے علماء بکثرت پیدا فرمائے جوہدایت
وارشاد کے آفتاب بن کر چمکیں۔(امام احمدرضااورعالمِ اسلام۔۔۔ص180
علمائے مصر:ڈاکٹرحسین مجیب (قاہرہ۔مصر):امام احمدرضاایک راسخ العقیدہ سنی
عالمِ دین تھے۔انہوں نے دینِ حنیف پر ہونے والے حملوں کا بھرپورانداز میں
دفاع کیااور علم سے نابلدمخالفین کے مکروفریب کا پردہ فاش کردیا۔(مقدمہ
صفوۃ المدیح،ص15)
استاذحازم احمدعبدالرحیم المحفوظ(جامعہ ازھر):شیخ احمدرضاصحیح معنوں میں
فقیہ اورامام ہیں آپ نے مسلمانانِ عالم کو پوری استقامت کیساتھ صحیح و درست
دینی شاہراہ پرچلانے کافریضہ سرانجام دیاہے۔(مقدمہ المنظومۃ السلامیہ،ص34)
علمائے بغداد:ڈاکٹرمحمدمجیدالسعید (مدرس جامعہ اسلامیہ بغداد):امام
احمدرضابریلوی ایسے علامہ فہامہ ہیں کہ زمانہ کم ہی ایسے لوگوں کے
وجودِمسعود سے سرفرازہوتاہے۔یہ ایک ایسے جلتے ہوئے چراغ اورایسی روشنی
بکھیرتی شعاع پُرنورہیں کہ جس کا اُجالاکم ہونےاورجس کی روشنی بجھنے کاکبھی
نام نہیں لیتی۔(مقدمہ شاعرمن الھند۔ص10)
شیخ عبدالرحمٰن العبیدی :امام احمدرضاایک ماہرعالمِ دین تھےاوراُن کی ذات
ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے وہ اپنے دور کے مروجہ علوم وفنون میں
درجہ کمال کوپہنچے ہوئے تھے۔(مقدمہ قصیدتان رائعتان۔ص17)
علمائے ہندوستان
حضرت مخدوم شاہ آلِ رسول مارہروی(پیرومرشد اعلٰی حضرت):آپ کے پیرومرشدایک
مرتبہ فرمانے لگے کہ اگرقیامت کے دن اللہ رب العزت نے سوال کیاکہ اے آلِ
رسول تو میرے لئے دُنیا سے کیا لایاہےتومیں عرض کردوں گا خدایا
!تیراعاجزبندہ دنیاسے احمدرضاکو لایاہے۔
تاج العلماءحضرت محمدمیاں مارہروی (ہندوستان):اعلٰی حضرت کو میں علامہ ابنِ
عابدین شامی پر فوقیت دیتاہوں کیونکہ جو جامعیت اعلٰی حضرت کے ہاں ہے وہ
ابنِ عابدین شامی کے ہاں نہیں۔ (سرتاج الفقہاء۔ص19)
امام المحدثین علامہ وصی احمدمحدث سورتی: جب سے اعلیٰ حضرت سے ملنے لگا ہوں
تو مجھ کو ایمان کی حلاوت مل گئی ہے۔ اب میرا ایمان رسمی نہیں بلکہ بعونہٖ
تعالیٰ حقیقی ہے جس نے حقیقی ایمان بخشا اس کی یاد سے اپنےدل کو تسکین دیتا
رہتا ہوں۔اعلیٰ حضرت اس فنِ(حدیث) میں امیرالمؤمنین فی الحدیث ہیں کہ
سالہا سال تک صرف اس میں تلمذ (شاگردی اختیار)کروں تو بھی ان کا پاسنگ نہ
ٹھہروں(یعنی ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔(ماہ نامہ المیزان ، بمبئی،
امام احمد رضا نمبر ، اپریل، مئی ، جون 1976ء ص247)
علمائے پاکستان: سیدالفقہاء علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری (لاہور):اعلٰی
حضرت اپنے دور کے جلیل القدر عالمِ دین اور شیخِ طریقت تھےاگرچہ وہ جملہ
علومِ عقلیہ و نقلیہ میں امامت کے درجہ پر فائز تھے مگرفقہ ان کا خاص موضوع
تھا۔اور اس فن میں برصغیرپاک و ہند میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔(مقالات
یومِ رضا۔حصہ دوم۔دائرۃ المصنفین لاہور۔ص57)
مجاہدختمِ نبوت علامہ عبدالستارخان نیازی(میانوالی):اعلٰی حضرت ایک نہات ہی
بالغ النظر ،متوازن الفکرو معتدل مزاج مفکرِ اسلام تھے جنھوں نے علم و
کمالاتِ نبوت کو توحیدِ ربانی کاعکس قرار دیا۔علمِ غیب پر ایسے محتاط انداز
میں لب کشائی کی کہ مخالفین ایک دفعہ تودم بخود رہ گئے اور خود ساختہ
الزامات کی بیہودگی اور نامعقولیت ان کے سامنے الم نشرح ہوگئی۔۔(فاضلِ
بریلوی علمائے حجاز کی نظر میں۔ص259تا260)
ماہرِرضویات ،پروفیسرڈاکٹرمسعودصاحب(کراچی): فاضلِ بریلوی متبحرعالم ہونے
کیساتھ ساتھ سُخن فہمی،سُخن سنجی اور سخن گوئی میں اپنی نظیر آپ تھے۔آپ کی
نعتیں جذباتِ قلبیہ کا بے سروپااظہار نہیں بلکہ آدابِ عشق و محبت کی آئینہ
دار ہیں۔اس حیثیت سےاردو ادب میں آپ نعت گو شعراء کے سرتاج
ہیں۔(ایضاص85۔86)
محسنِ پاکستان معروف سائنسدان ڈاکٹرعبدالقدیرخان (لاہور):حقیقت یہ ہے کہ
مولانااحمدرضاخان بریلوی اپنے دور کےفقیہ،مفتی،محدث، معلم اوراعلٰی مُنصف
تھے ۔جب آپ اُن کی تحریروں اورمقالہ جات کامطالعہ کریں تواحساس ہوگاکہ آپ
اپنے وقت سے بہت پہلے تشریف لے آئے تھے اورجن علوم پرتفصیلی مقالے لکھے ہیں
وہ بہت عرصے بعدعوام کی سمجھ میں آئے ہیں۔اللہ پاک ان کوجنت الفردوس میں
اعلٰی مقام عطافرمائے۔آمین (کالم،روزنامہ جنگ،فقیدالمثال
مولانااحمدرضاخان۔۔5دسمبر2016)
شاعرِمشرق ڈاکٹرمحمداقبال (لاہور):ہندوستان کے دورِآخرمیں اعلٰی حضرت علیہ
الرحمہ جیساذہین فقیہ پیدانہیں ہوا۔میں نے ان کے فتاوٰی کے مطالعے سے یہ
رائے قائم کی ہے کہ مولاناایک دفعہ جو رائے قائم کرلیتے ہیں اس پر مضبوطی
سے قائم رہتے ہیں۔یقیناوہ اپنی رائے کااظہار بہت غورو فکرکے بعدکرتے
ہیں۔انہیں اپنے شرعی فیصلوں اورفتاوٰی میں کبھی کسی تبدیلی یارجوع کی ضرورت
نہیں پڑتی۔(انوارِرضا۔ص684)
|