دنیائے اسلام کے علمی و ادبی اور روحانی اُفق پر بے شمار
مہ و نجوم طلوع ہوئے. جن کے تعلیمات، علمی فتوحات اور روحانی کمالات کی
کرنوں سے عالم اسلام مستفیض و مستفید اور مستنیر ہو رہا ہے. ان پاک باز،
تقوی شعار اور باکمال رجالِ اسلام میں ایک نام اعلی حضرت امام اہل سنت امام
احمد رضا خاں محدث و محقق بریلوی علیہ الرحمۃ کا بھی ہے؛ جن کی علمی و فکری
شہرت و عظمت کا آفتاب ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی منور و تاب ناک ہے. اور
ملت اسلامیہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہا ہے.
انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی عالم اسلام بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کے
لیے تحریکوں اور تنظیموں کا دور تھا. ایک طرف سلطنت عثمانیہ کا سورج غروب
ہورہا تھا؛ تو دوسری طرف مغلیہ سلطنت بھی زوال پذیر تھی. یہود و نصاری کی
پشت پناہی میں خلاف اسلام عقائد و نظریات کی تبلیغ کی جارہی تھی. اولین
جہاد آزادی 1857- کے بعد ایک طرف مسلمان قائدین و مجاہدین کی املاک ضبط کی
جارہی تھیں. اسلامی دانش گاہیں، خانقاہیں جہاں سے جہادِ آزادی کا عَلَم
بلند ہوا تھا؛ انہیں اصطبل میں تبدیل کردیا گیا تھا. اسلامی لائبریریز اور
علمی اثاثے انگریزی حکومت کی تحویل میں لیے جارہے تھے، علما کو انڈومان کی
زہریلی فضا میں کالا پانی کی سزا دی گئی، کئی علما، قائدین اور مجاہدین کو
تختہء دار پر لٹکایا گیا؛ اسی ماحول میں انگریز کے سایہ تلے "اسلامی درس
گاہ" اور دارالعلوم کی بنیاد بھی رکھی جارہی تھی. بنام مسلم لیڈروں کو شمس
العلماء اور دیگر اعزاز و القاب سے بھی سرکاری طور پر نوازا جارہا تھا.
مرزائے قادیان کی ولایت و علمیت کا اعتراف کیا جارہا تھا. اسلام میں نئے
نئے فتنے اور افکار و نظریات گھڑ کے مسلمانوں کے ایمان و عقیدے پر شب خون
مارا جارہا تھا. ایک طرف عیسائی مشنریز ارتداد کی تحریک چلارہے تھے تو
دوسری طرف صاحبانِ جبہ و دستار اپنی کتابوں میں سرور دو عالم صلی اللہ
تعالٰی علیہ والہ وسلم کی شان میں توہین و تنقیص کو توحید کا نام دے رہے
تھے. قدرتِ باری تعالٰی کا نام لے کر اللہ سبحانہ و تعالٰی کو معاذ اللہ
جھوٹا اور مکار لکھا گیا؛اور یہ سب اسلام کا لبادہ اوڑھ کر کیا گیا. امام
احمد رضا نے ان سب کا رد کیا. "سبحان السبوح "، " الدولۃ المکیۃ"، "المبین
ختم النبیین "،" جزاء ﷲ عدو بآباہ ختم النبوۃ "،" الامن و العلی"، "حسام
الحرمین" ، "فتاوی الحرمین" ، "المعتمد المستند"،"السوء والعقاب علی المسیح
الکذاب"، " قہرالدیان علی مرتد القادیان"، "الجراز الدیان علی المرتد
القادیان" جیسی معرکۃ الآراء کتابیں تصنیف فرماکر قلمی جہاد کیا اور فتنوں
کی سرکوبی فرمائی.
انگریزوں کے مظالم سے ہزاروں چراغِ ہدایت بجھ گئے تھے. اسلامی دانش گاہیں
اُجڑ چکی تھیں. ایسے ماحول میں امام احمد رضا محدث بریلوی 14- سال سے کچھ
کم عمر میں مسند افتا و ارشاد پر متمکن ہوئے. اور اسلامی عقائد و نظریات
اور افکار کے تحفظ و تبلیغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی. والد ماجد علامہ
نقی علی خان برکاتی بریلوی کی علمی و فقہی حیثیت مسلم تھی تو جد امجد علامہ
رضا علی خان نقشبندی بریلوی کا انگریزوں کے خلاف سرگرم کردارِ شجاعت بھی
تاریخ کا روشن باب ہے.
امام احمد رضا نے ہر محاذ پر اسلام کی حفاظت و صیانت کی. درجنوں علوم عقلیہ
و نقلیہ میں ایک ہزار کے قریب کتب و حواشی، تصنیف و تالیف فرمائیں. عالَم
یہ تھا کہ جب عقائد اسلام پر جدید سائنس کے نام پر شب خون مارنے کی کوشش کی
گئی تو عقلی و نقلی ہر دو دلائل سے مزین کتابیں ترتیب دے کر عقائد اسلام کا
تحفظ کیا. اس ضمن میں آپ کی کتابیں "فوز مبین در رد حرکت زمین"،" الکشف
الشافیہ فی حکم فونوجرافیہ "،" الصمصام علی مشکک فی آیۃ علوم الارحام" اور
" معین مبین" کافی مشہور اور لاجواب ہے. کرنسی نوٹ کی حیثیت اور اسلامی
احکام بیان کرنے کے لیے "کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم" تحریر
کرکے اس وقت کے لاینحل مسئلہ کو واضح کیا؛ اور یہ امام احمد رضا ہی کا
فیضان ہے کہ پورا عالم اسلام بشمول عرب و عجم کرنسی نوٹ استعمال کر رہا
ہے؛نیز اسی کتاب میں امام احمد رضا ہی نے سب سے پہلے ’’غیر سودی اسلامی
بینک کاری‘‘ کا نظریہ پیش کیا تھا۔مسلمانوں کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے
لیے مختصر ترین مگر فوائد جلیلہ سے مزین رسالہ "تدبیر فلاح و نجات و اصلاح"
تحریر کرکے مسلمانوں کے معاشی استحکام کے لیے درج ذیل چار نکات پیش کیے :
’’اولاً: باستثناان معدود باتوں کے جن میں حکومت کی دست اندازی ہو اپنے
تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے اپنے سب مقدمات اپنے آپ فیصل کرتے یہ
کروروں روپے جو اسٹامپ و وکالت میں گھسے جاتے ہیں گھر کے گھر تباہ ہو گئے
اور ہوئے جاتے ہیں محفوظ رہتے۔
ثانیاً: اپنی قوم کے سوا کسی سے کچھ نہ خریدتے کہ گھر کا نفع گھر ہی میں
رہتا۔ اپنی حرفت و تجارت کو ترقی دیتے کہ کسی چیز میں کسی دوسری قوم کے
محتاج نہ رہتے یہ نہ ہوتا کہ یورپ و امریکا والے چھٹانک بھر تانبا کچھ
صناعی کی گڑھت کر کے گھڑی وغیرہ نام رکھ کر آپ کو دے جائیں اور اس کے بدلے
پاؤ بھر چاندی آپ سے لے جائیں۔
ثالثاً: بمبئی، کلکتہ، رنگون، مدراس، حیدر آباد وغیرہ کے تونگر مسلمان اپنے
بھائی مسلمانوں کے لیے بنک کھولتے سود شرع نے حرام قطعی فرمایا ہے مگر اور
سو طریقے نفع لینے کے حلال فرمائے ہیں جن کا بیان کتب فقہ میں مفصل ہے اور
اس کا ایک نہایت آسان طریقہ کتاب کفل الفقیہ الفاہم میں چھپ چکا ہے ان جائز
طریقوں پر نفع بھی لیتے کہ انھیں بھی فائدہ پہنچتا اور ان کے بھائیوں کی
بھی حاجت بر آتی اور آئے دن جو مسلمانوں کی جائدادیں بنیوں کی نذر ہوئی چلی
جاتی ہیں ان سے بھی محفوظ رہتے اگر مدیون (مقروض) کی جائداد ہی لی جاتی
مسلمان ہی کے پاس رہتی، یہ تو نہ ہوتا کہ مسلمان ننگے اور بنیے چنگے۔
رابعاً: سب سے زیادہ اہم سب کی جان سب کی اصل اعظم وہ دین متین تھا جس کی
رسّی مضبوط تھامنے نے اگلوں کو ان مدارج عالیہ پر پہنچایا چاردانگ عالم میں
ان کی ہیبت کا سکہ بٹھایا نان شبینہ کے محتاجوں کو بلند تاجوں کا مالک
بنایا اور اسی کے چھوڑنے نے پچھلوں کو یوں چاہِ ذلت میں گرایا فانّا للّٰہ
وانّاالیہ راجعون، ولا حول ولا قوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم۔
(تدبیر فلاح و نجات و اصلاح، ص 13-14، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں)
ماہرین معاشیات کے نزدیک امام احمد رضا کے یہ چار نکات بالخصوص اسلامیانِ
ہند کے لیے بہت کار آمد اور نتیجہ خیز ہیں۔ ان پر عمل آوری سے مسلمان
معاشی اور سیاسی طور پر اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیابی کر سکتے ہیں۔اسی طرح
سیاسی طور پر آپ نے ’’کھوکھلے بائیکاٹ‘‘ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ’’مستحکم
بائیکاٹ‘‘ کا نظریہ پیش کیا اور فرمایا کہ خلافت کی حمایت میں اگرچہ
مسلمانانِ ہند انگریز ی اور بدیسی اشیا کا بائیکاٹ کر رہے ہیں لیکن اس کے
متبادل کےطور پر مشرکینِ ہند کی اشیا کے استعمال سے مشرکین ہند معاشی طور
پر مضبوط ہوں گے ؛ جو یقیناً ہمارے دشمن ہی ہیں۔ تواس طرح کے کھوکھلے
بائیکاٹ سے ہم اپنی ہی قبر اپنےہاتھوں کھود رہے ہوتے ہیں کہ اپنے سے میلوں
دور کافر کی معیشت کو تو کم زور کر رہے ہوتے ہیں مگر اپنے ارد گرد بلکہ
اپنے سر پر منڈلانے والے مشرکین کو طاقت فراہم کررہے ہوتے ہیں۔ اس لیے
بائیکاٹ اس وقت پائیدار ہوگا جب ہم غیروں کی اشیا کے بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ
اس کے متبادل کے طور پر اپنا پروڈکٹ رکھتے ہوں۔اس سلسلہ میں آپ کی کتب
’’المحجۃ المؤتمنۃ فی آیۃ الممتحنۃ‘‘ اور’’رسالہ گاؤ کُشی‘‘ اور ’’فتاویٰ
رضویہ‘‘ میں متعدد مقامات پر سیر حاصل گفتگو اور رہنمائی کی ہے۔ اربابِ فکر
و نظر اس جانب توجہ دیں اور امام الہند کی سیاسی و قائدانہ بصیرت سے
رہنمائی حاصل کریں۔ |