سرکار دو جہاں ۖ کا میلاد کلام الٰہی قرآن مجید میں جا
بجا موجود ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب مصطفےٰ جان رحمت ۖ کے محاسن و
کمالات و خلق عظیم کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ اسی سنت الٰہیہ کو صحا بۂ کرام
تابعین اور تبع تابعین سلف صالحین وغیرہ نے آج تک بلکہ آنے والی صبح قیامت
تک عاشقان مصطفےٰ اس مبارک سلسلے کو جاری و ساری رکھیں گے۔ میلاد مصطفےٰ
اور نعت مصطفےٰ لازم و ملزوم ہے ۔ سرکار دو جہاں ۖ کا حسین و جمیل سراپا ،
ان کی حق گوئی ، ان کے اخلاق کریمانہ ، انکی سادگی ، سخاوت ، داد و دہش ،
دشمنوں پر رحم و کرم ،د ستگیری ، ان کے روضے کے دیدار کی تمنا ، روز حشر
شفاعت کی آرزو ، طلب و استعانت ، معجزات ، تصرفات ،معمولات شب و روز اور ان
جیسے بہت سے مضامین سے اردو کی ”نعت ” مالا مال ہے ۔بہت سے شعرا نے نعت پر
توجہ دی اگر چہ انہوں نے اسی طرح کے موضوعات کا سہارا لیا مگر بات کہنے کے
ڈھنگ نے مضمون کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا او ر قاری کو یاسننے والے کو ایسا
لگا جیسے وہ پڑھ رہا ہے یا سن رہا ہے وہ نیا مضمون ہے ۔ شاعری کے اسی فن
میں مضمون آفرینی کا راز پنہا ںہے۔لذت بیان ، نادرہ کاری ، جدت آداب اور
لطافت معنیٰ بھی اسی کی مختلف شکلیں ہیں ۔ یا تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ بدلے
ہوئے نام ہیں ۔
چودہویں صدی ہجری میں برصغیر کے چند نامور نعت گو شعرا اتر پردیس میں ہی
ہوئے ۔ مولانا احمد رضا بریلوی ، استاذ زمن حسن رضا خاں صاحب حسن بریلوی ۔مصطفےٰ
رضا خان المشہور حضور مفتی اعظم ہند نوری ۔ مولانا محسن کا کوروی ، مولانا
ضیاء القادری بدایونی ، حافظ پیلی بھیتی کے نام خاص طور سے ذکر کے قابل ہیں
ان نعت گو شعرا میں مولانا احمد رضابریلوی کا مقام سب پر فائق ہے ۔
آپ کی ولادت شہر بریلی کے محلہ سوداگران میں 10 شوال ا لمکرم 1272 ھ بمطابق
14جون 1856ء کو ہوئی ۔ پیدائشی نام محمد اور تاریخی نام المختار رکھا گیا ۔
آپ کے دادا رضا علی خان پیار سے رضا کے نام سے پکار تے تھے ۔ جب آپ فتویٰ
نویسی فرمانے لگے تو احمد رضا کے ساتھ عبد المصطفیٰ کا اضافہ فرمایا ۔ ”
تفقہ فی الدین ” جیسی دولت اور حبیب کبریا ۖکی محبت مولانا احمد رضا بریلوی
کی رگ رگ میں بھری تھی یہ دونوں دولت ہر دل کی تجوری میں نہیں ڈالی جاتی
اور نہ ہی یہ دولت کسب و حصول سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔ قرآن کریم کا بہ نظر
غائر مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ” تفقہ فی الدین” مشیت ا یزدی
اور ارادئہ الٰہی سے وابستہ ہے سرکار دو عالم ۖ ار شاد فرماتے ہیں:
” مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہ خَیْراً یُّفَقِّہ فِیْ الدِّیْنِ” اللہ اپنے جس
بندے پراحسان اور بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے” تفقہہ فی الدین” کے گوہر
سے مالا مال کردیتا ہے۔
معلوم ہو اجو قدسی صفات (نیک صالح )اس اعلیٰ مرتبہ پر فائز کئے جاتے ہیں ان
پر انعامات الٰہی اور توجہا ت خصوصی کی موسلا دھار بارش ہوتی رہتی ہے ۔ اگر
چہ وہ معصوم نہیں ہوتے مگر بہت دور دور تک فکری لغزشوں سے من جانب اللہ
محفوظ رکھے جاتے ہیں ۔ امام احمد رضا خان بریلوی بمشہور اعلیٰ حضرت فاضل
بریلوی کا تعلق بھی اللہ تعالیٰ کے اسی انعام یافتہ بندوں کے طبقے سے ہے۔
ان کی سیرت اور انکے علمی شہپاروں کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ
وہ علمِ فن بھی جانتے تھے اور اسکی تیکنک و باریکیوں پر بھی گہری نظر تھی
ان کا قلم اسقدر محتاط تھا گویا ہر قدم پھونک کے رکھا گیا ہو ۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد رضاخان بریلوی اپنے وقت کے مجدد تھے ۔ مولانا
ابو الحسن علی ندوی ،مئولف ” نزہت الخواطر ” باوجود اختلاف مسلک کے اعتراف
کرتے ہیں کہ جز ئیات فقہ پر جو عبور ان کو حاصل تھا ان کی نظیر ان کے زمانے
میں نہیں ملتی آقائے کائنات ۖ سے ان کی والہانہ محبت ضرب المثل بن چکی ہے ۔
خود انکے مخالف معاصر علما مثلا اشرف علی تھانوی نے اعتراف کیا ہے کہ وہ
جذبہ عشق رسول اللہ ۖ سے سر شار ہو کر ان کی عبارت کی گرفت کرتے ہیں ۔
*عظمت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ایمانی عقیدہ ہے*
عظمت مصطفےٰ کو تسلیم کئے بغیر کوئی مومن نہیں ہو سکتا چاہے وہ دن رات سجدے
کرتا رہے یہ عقیدہ عاشقان نبی ۖ کے لئے جان ایمان ہے ۔ اس عقیدے کی تبلیغ
مولانا احمد رضا خان بریلوی کے لئے مشن کا درجہ رکھتی تھی وہ آئین شریعت کے
پاسدار تھے ان کی نثر اور شاعری میں ہر جگہ اس عقیدے کی جھلک نمایاں نظر
آتی ہے نعت پاک کے درج ذیل اشعار میں عظمت مصطفےٰ ۖ کے اظہار کیلئے جس طرح
مضمون آفرینی کی گئی ہے وہ دیکھتے ہی بنتی ہے ۔
*خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم خدا چاہتا ہے رضائے محمد* ۖ
*عصائے کلیم ،اژدہائے غضب تھا گِروں کا سہارا عطائے محمد* ۖ
قرآن مجید میں رئو ف و رحیم باری تعالیٰ جل سبحانہ کے لئے آیا ہے اور مصطفی
جان رحمت ۖ کے لئے بھی لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلُ مِنْ ۔۔۔الخ ( القرآن ،
سورہ توبہ ، آیت نمبر 127) ترجمہ : بے شک تمہارے پاس تشریف لائے وہ رسول جن
پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے ۔ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے
مسلمانوں پر کمال مہربان ۔( کنز الایمان )
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور کا میلاد شریف ارشاد فرمایا ان کی تشریف
آوری اور انکے فضائل بیان فرمائے حضور کا میلاد پڑھنا سنت الٰہیہ ہے گذشتہ
نبیوں نے بھی آپ کا میلاد پڑھا میلاد سنت انبیاء بھی ہے ۔
رئوف مبالغہ کا صیغہ ہے رئوف کا معنیٰ ہے بے حد مہربانی اور شفقت فرما نے
والا ۔
حسین بن فضل نے کہا:
اللہ تعالیٰ نے اپنے دو ناموں کو محمد ۖ کے سوا کسی نبی میں جمع نہیں
فرمایا۔ ( تفسیر نور العرفان ص ۔ 329 ، تفسیر ضیاء القرآن ، ج 2 ۔ ص 269 )
اس کا فائدہ اٹھا کر مولانا احمد رضا خان بریلوی نے نعت مصطفی کے ذریعہ
کیسے میلاد مصطفی پڑھا، کیا مضمون پیدا کیا اور کتنے پیار ے انداز میں ادا
کیا ہے ، داد دیتے ہی بنتی ہے ۔
وہ نامی کے نام خدا نام تیرا رئوف و رحیم و علیم وعلی ہے
نبی سرور ہر رسول و ولی ہے نبی راز دار مع اللہ لی ہے
حدیث قدسی کے مضمون ”لَوْ لَاْکَ لَمَا خَلَقْتُ اْلَافْلَاکَ ” کی ترجمانی
بڑے پیارے انداز میں نعت پاک سے میلاد مصطفےٰ پڑھا ہے ۔
ہوتے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منیٰ لو لاک والے صا حبی سب تیرے گھر کی ہے
مجرم بلائے آئے ہیںجائوک ہے گواہ پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
قرآن عظیم میں ہے : وَ لَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ جَآئُ
وْ کَ(القرآن ، سورہ النساء آیت64)اوراگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں
تواے نبی تیری بارگاہ میں حاضر ہوکر معافی چائیں اور آپ انکی شفاعت چاہیں
تو ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔
قرآن عظیم خود گنہ گاروں کو اپنے حبیب کے دربار میں بلا رہا ہے اور کریموں
کی شان یہ نہیں کہ اپنے دربار میں بلاکر خالی واپس کریں ۔
رومی غلام دن ، حبشی باندیاں شبیں گنتی کنیز زادوں میں شام و سحرکی ہے
ایسے بندھے نصیب کھلے مشکلیں کھلیں دونوں جہاں میں دھوم تمہاری کمر کی ہے
وہ خلد جس میں اترے گی ابرار کی برات ادنیٰ نچھاور اس مرے دولہا کے سرکی ہے
ابرار کا مرتبہ مقربین سے بہت کم ہے یہاں تک کی حسنات الابرار سیئات
المقربین پھر مقربین میں بھی درجات بے شمارہیں اور انھیں بھی اعلیٰ اور
اعلیٰ سے اعلیٰ جو درجے ملیں گے وہ بھی سب حضور کا تصدق ہے اسی لئے اسے
ادنیٰ نچھاور کہا ورنہ جنت میںکچھ ادنیٰ نہیں ۔
عبد المصطفیٰ بنام مشہور اعلیٰ حضرت بریلوی کے نزدیک میلاد مصطفیٰ ۖ ایسا
پیارا موضوع ہے کہ جس میں کیف سامانیاں اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہیں ۔
بلبلیں مست نغمہ سرا ہونے لگتی ہیں ۔ عشق و سر مستی کی آ بشاریں رحمت ایزدی
کے نغمے گانے لگتی ہیں ” الصلاة و السلام علیک یا رسول اللہ ”کی خوشبو
لٹانے لگتی ہیں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی شاعری حصول سعادت دارین کا ذریعہ
ہے اس لئے کہ آپ ذکر میلاد مصطفیٰ میں بے خود و سرشار رہتے ہیں آپ نے اپنی
شاعری میں بار بار میلاد مصطفیٰ ۖ کا ذکر کیا ہے اس وابستگی رسول ۖ کے بارے
میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی خود کہتے ہیں ۔
کروں مدح اہل دول رضاپڑ ے اس بلا میں میری بلا میں گداہو ں اپنے کریم کا
میرا دین پارئہ ناں نہیں
حضور نبی کریم ۖ کی توصیف و ثنا کو وظیفئہ حیات بنا نے والے اعلیٰ حضرت
فاضل بریلوی جب ولادت مصطفیٰ کا ذکر کرتے ہیں تو اس دن کی عظمت، ہیبت اور
جلالت آپ کے دل پر منقش ہو جاتی ہے اور بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں ۔
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھر تھر ا
کر گر گیا
تیری رحمت سے صفی اللہ کا بیڑا پار تھا تیرے صدقے میں نجی اللہ کا بجرا تر
گیا
بڑھ چلی تیری ضیاء اندھیر عالم سے گھٹا کھل گیا گیسو تیرارحمت کا بادل گھر
گیا
اعلیٰ حضرت بریلوی نے شر یعت کے تقاضوں کی پاسداری کرتے ہوئے جب نعت کہی تو
اسے قبولیت اور شہرت دوام کا وہ مرتبہ ملا جو آج تک نعتیہ شاعری کے حوالے
سے کسی کا مقدر نہ بن سکا ۔
مشہور نقاد نیاز فتح پوری کے لفظوں میں:
”شعرو ادب میرا خاص موضوع ہے میںنے مولانا احمد رضا خان بریلوی کا کلام
بالا ستیعاب پڑھا ہے انکے کلام کا پہلا تأثرجو پڑھنے والوں پر قائم ہوتا
ہے وہ مولانا احمد رضاخان کی بے پناہ وابستگی رسول عربی ہے انکے کلام سے ان
کے بے کراںعلم کے اظہار کے ساتھ افکار کی بلندی کا بھی اندازہ ہوتاہے ”
*میلاد مصطفےٰ عقیدت کے آئینے میں*
عبد المصطفیٰ بنام مشہور اعلیٰ حضرت نے میلاد مصطفےٰ ۖ کو عشق و محبت کے
آئینے میں سو سو طرح سے جلوہ گردیکھا ہے ۔ آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ نے
نعت گوئی کو نئے نئے اسلوب عطاکئے اور شاعری کو غزل کی دنیا سے نکال کر نعت
کے گلستان میں سدابہار کی زینت بناد یا۔ بلا شبہ نبی کریم ۖ کی بعثت ایسے
غیرمعمولی واقعہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ جس کی مثال گزشتہ صدیوں میں
ملناناممکن ہے ہر نبی اور پیغمبر اپنے اپنے دور نبوت میں حضرت محمد ۖ کیلئے
سراپا انتظار رہے اور پھر جوں جوں آپ کے ظہور کی صدیاں قریب آتی گئیں تو آپ
کے وجود اقدس کے بارے میں بشارت کا سلسلہ دراز ہونے لگا ۔
زیادہ تر متعصب یہودی نصرانی علمانے ظہور محمدی ۖ کے سلسلہ میں بشارت کو
چھپانے کی ناکام کوشش کی تھی ( انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ) مگر سچائی سر
چڑھ کر بولتی ہے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بعض حق گو یہودی اور نصرانی علما نے
تعصبات کی گرد کا پردہ چاک کرکے اس بات کا اعلان ضروری سمجھا کہ مکے میں
خاتم النبین کے ظہور کی ساعتیں قریب آرہی ہیں اور آپ ہی وہ نبی ہوں گے جن
کا ذکر آسمانی کتابوں میں ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک یہودی عالم کی حق گوئی کا
انداز دیکھئے ۔
ابو نعیم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں ۔
میں سات برس کا تھا ایک دن پچھلی رات کو وہ سخت آواز آئی کہ ایسی جلد
پہنچتی آواز میں نے کبھی نہیں سنی تھی ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مدینے کے ایک
بلند ٹیلے پر ایک یہودی ہاتھ میں آگ کا شعلہ لئے چیخ مار رہا ہے ۔ لوگ اسکی
آواز پر جمع ہو گئے وہ بولا ۔
*ھٰذا کوکب احمد قد طلع ھٰذا کوکب لا یطلع الابالنبوہ و لم یبقی من
الانبیاء الا احمد* ۔ یہ احمد کے ستارے نے طلوع کیا ۔ یہ ستارا کسی نبی کی
پیدائش پر طلوع ہوتا ہے اور اب انبیاء میںسوائے احمد کے کوئی باقی نہیں (ۖ)
۔ ( ختم النبوة ۔از مولانا احمد رضا خان بریلوی ص ٢٠)
ان مبارک سعاتوں کے حوالے سے اعلیٰ حضرت یوں نعت مصطفیٰ میںمدحت سرا ہیں ۔
بزم آخر کا شمع فروزاں ہو نور اول کا جلوہ ہمارا نبی
جس کو شایاں ہے عرش خدا پر جلوس ہے وہ سلطان والا ہمارا نبی
قرنوں بدلی رسولوں کی ہوتی رہی چاند بدلی سے نکلاہمارا نبی
کیا خبر کتنے تارے کھلے چھپ گئے پر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبی
لا مکا ں تک اجالا ہے جس کا وہ ہے ہر مکاں کا اجالا ہمارا نبی
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہئے دینے والا ہے سچا ہمارا نبی
زمانہ جس بشارت قدسیہ کے ظہور کا منتظر تھا وہ وجود محمدی ۖ کی جانب اشارہ
کر رہی تھیں ۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی کی کتاب ”ختم النبوة ” میں بشارت
کا تذکرہ اہل ایمان کیلئے روحانی غذا کا باعث بنے گا ۔
ابو نعیم بطریق شہربن کوشب اور ابن عساکر بطریق مسیب بن رازع وغیرہ حضرت
کعب احبار سے راوی ہیں انہوں نے فرمایا :
”میرے باپ اعلم علمائے تورات تھے ۔ اللہ عز وجل نے جو کچھ موسیٰ علیہ
السلام پر اتار ا ا س کا علم ان کے برابر کسی کو نہ تھا ۔ وہ اپنے علم سے
کوئی شئے مجھ سے نہ چھپاتے جب مرنے لگے مجھے بلا کر کہا اے میرے بیٹے تجھے
معلوم ہے کہ میں نے اپنے علم سے کوئی شئے تجھ سے نہ چھپائی مگر ہاں دو ورق
روک رکھے ہیں ۔ ان میں ایک نبی کا بیان ہے جس کی بعثت کا زمانہ قریب آپہنچا
ہے میں نے اس اندیشے سے تجھے ان دو ورقوں کی خبر نہ دی کہ شاید کوئی جھوٹا
مدعی نکل کھڑا ہو اور تو اس کی پیروی کرے ۔ یہ طاق تیرے سامنے ہے میں نے اس
میں دو ورق رکھ چھوڑے ہیں اوپر سے مٹی لگا دی ہے ابھی ان سے تعرض نہ کرنا
نہ انھیں دیکھنا ۔جب وہ نبی جلوہ فرما ہو اگر اللہ تیرا بھلا چاہے گا تو تو
آپ ہی اس کا پیرو ہو جائے گا ۔ یہ کہہ کر وہ مر گئے ۔ ہم ان کے دفن سے فارغ
ہوئے مجھے ان دو ورقوں کے دیکھنے کا شوق ہر چیز سے زیادہ تھا ۔ میں نے طاق
کھولا ورق نکالے تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان میں لکھا ہے ۔
”محمد رسول اللہ خاتم النبین لا نبی بعدہ مولدہ بمکة و مہاجرة بطیبة ” (
ختم النبوة ۔ص ۔ ١٦)
اور پھر وہ مبارک ساعت آپہنچی جو دعائوں کی قبولیت اور تمنائوں کے بار یاب
ہونے کی ساعت تھی جب رحمت خداوندی پوری شدت کے ساتھ برسنے کو تھی وہ کیسا
منظر تھا کیسا سماں تھا ، کیا سہانی صبح تھی ، کیا کیف آور منظر جس کو
اعلیٰ حضرت بریلوی نے اپنی خدا داد فنی مہارت سے قلمبند کرتے ہیں اسکی جھلک
ملاحظہ ہو ۔
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا صدقہ لینے نور کا آیاہے تارا نور کا
باغ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ
نور کا
آئی بدعت چھائی ظلمت رنگ بدلا نور کا ماہ سنت مہر طلعت لے لے بدلا نور کا
بارہویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا بارہ بر جوں سے جھکا اک اک ستارا
نور کا
ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور کا تم کو دیکھا ہو گیا ٹھنڈا کلیجہ
نور کا
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عین نور تیرا سب گھرانا نور کا
اس طویل نعت مصطفیٰ میں جسے ”قصیدئہ نور ” بھی کہا جاتا ہے ، مولانا احمد
رضا خان نے اپنے آقا و مولیٰ ۖ کے میلاد شریف کا جشن مناتے ہوئے آپ کے حسن
و خوبصورتی کا بھی دل کھول کر تذکرہ کیا ہے ۔ حضور نبی کریم ۖ نور علیٰ نور
ہیں اور اس نعتیہ قصیدہ کی ردیف ہی اس مظہر خدا وند ی کے انوار ظاہر کررہی
ہے جسکی پذیرائی کی خاطر یہ بزم دوعالم تخلیق ہوئی ۔ یہ نعت مصطفی یعنی
قصیدہ نور ایک لحاظ سے قد جآء کم من اللہ نور و کتاب مبین ( القرآن ، سورہ
، المائدہ ،آیت ١٥) کی نورانی تفسیر ہے سراپائے مصطفوی کے حوالے سے چند
اشعار پڑھیں اور اندازہ کریں کہ جس ہستی والا صفات کے میلاد کا جشن منایا
جارہاہے وہ کس قدر حسین ، اجمل ، اکمل اور پاکیزہ ہے ۔
پشت پر ڈھلکا سرانور سے شملہ نور کا دیکھیں موسیٰ طور سے اتر ا صحیفہ نور
کا
مصحف عارض پہ ہے خط شفیعہ نور کا لوسیہ کا رو مبارک ہو قبالہ نور کا
شمع دل،مشکوٰة تن،سینہ زجا جہ نورکا تیری صورت کے لئے آیاہے سورہ نور کا
وضع واضع میں تری صور ت ہے معنیٰ نور کا یوں مجازاً چاہیں جس کو کہہ دیں
کلمہ نور کا
یہ جو مہر و ماہ پہ ہے اطلاق آتا نور کا بھیک تیرے نام کی ہے استعارہ نور
کا
ک گیسو ھٰ دہن یٰ ابرو آنکھیں ع ص کہٰیٰعص ان کا ہے چہرا نور کا
اے رضایہ احمد نوری کا فیض نور ہے ہوگئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا
مولائے رحیم نے اپنے محبوب ۖ کو اپنے دست قدرت سے وہ حسن عطافرمایا کہ
دونوں جہان کی عظمتیں آپ پر تصدق کی جائیں تو بھی کم ہے۔ آللہ رب العزت نے
آپ کو بے مثل اور بے عیب بنایا ، ہر قسم کے نقائص و عیوب سے مبراحسن و کمال
کا نمونہ بنایا ۔ آپ کو صورت و سیرت ایسی عطا فرمائی، کہ جو بھی آپ کے
دامان رحمت سے وابستہ ہو گیا پھر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آپ ہی کا ہو کر رہ گیا
حضور نبی کریم ۖ اس قدر حسین و جمیل اور اسقدر جامع الخصائل تھے کہ جس نے
آپ کی ایک جھلک دیکھ لی اس نے دنیا بھر سے منھ پھیر کر آپ کے حلقہ تربیت
میں جگہ پانے کو ہی سب سے بڑی سعادت خیال کیا ۔ حضور نبی کریم ۖ کا چہرہ
مبارک اس قدر حسین و جمیل تھا کہ آپ کے بدترین دشمن بھی جب آپ سے ملتے تو
بے اختیار پکار اٹھتے کہ اسقدر حسین و جمیل چہرے کا مالک جھوٹ نہیں بول
سکتا ۔ لھٰذا آپ کو اہل مکہ ( ظاہری اعلان نبوت ) سے پہلے ہی الصادق،
الامین کے لقب سے پکارتے تھے ۔ آپ کا چہرہ، انوار الہٰی کا مظہر اور نور
صداقت سے عبارت تھا ۔ آپ کے جمال جہاں آرا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کہتے ہیں ۔
خامئہ قدرت کا حسن دست کاری واہ واہ کیا ہی تصویر اپنے پیارے کی سنواری واہ
واہ
صدقے اس انعام کے قربان اس اکرام کے ہو رہی ہے دونوں عالم میں تمہاری واہ
واہ
نور کی خیرات لینے دوڑتے ہیں مہر و ماہ اٹھتی ہے کس شان سے گر د سواری واہ
واہ
انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر ندیاں پنجاب رحمت کی ہیں جاری
واہ واہ
*حضوریٔ مدینہ طیبہ*
ہر سچے نعت گو بلکہ ہر عاشق رسول کے نزدیک شہر رسول ۖ کی الفت اور چاہت جزو
ایمان اور باعث راحت جان ہے ۔ مولانا احمد رضا بریلوی بھی کو ئے حبیب کی
الفت میں شرابور ہیں ۔ ان کے منظوم جذبات کی ایک جھلک ملا حظہ ہو ۔ صرف وہی
اشعار درج کئے جارہے ہیں جن میں شہر رسول سے الفت ہے ۔
نام مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیم خلد ! سوزش غم کو ہم نے بھی ایسی ہوا بتائی
کیوں ؟
حور جناں ستم کیا طیبہ نظر میں پھر گیا چھیڑکے پردئہ حجاز دیس کی چیز گائی
کیوں ؟
چمن طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغ سدرہ برسوں چہکے ہے جہاں بلبل شیداہو کر
ان کی حرم کے خار کشیدہ ہیں کس لئے آنکھوں میں آئیں سر پہ رہیں دل میں گھر
کریں
چمن طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو حور بڑھ کر شکن ناز پہ وارے گیسو
جو تیرے در سے یار پھر تے ہیں در بدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں
پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں دشت طیبہ کے خار پھرتے ہیں
کاش آویزئہ قندیل مدینہ ہو وہ دل جس کے سوزش نے کیا رشک چراغاں ہم کو
خوف ہے سمع خراشئی سگ طیبہ کا ورنہ کیا یاد نہیں نالئہ افغاںہم کو
خار صحرائے مدینہ نہ نکل جائے کہیں وحشت دل نہ پھرا بے سروساماں ہم کو
اے خاک طیبہ دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے یوں دل میں آکہ دیدئہ تر کو خبر نہ
ہو
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا ارے سر کا موقع ہے او جانے والے
مدینے کے خطے خدا تجھ کو رکھے غریبوں فقیروں کے ٹھہرانے والے
جیتے کیا دیکھ کے ہیں اے حورو طیبہ سے خلد میں آنے والے
پارئہ دل بھی نہ نکلا دل سے تحفے میں رضا ان سگان کوسے اتنی جان پیاری واہ
واہ
میلاد مصطفیٰ ۖ کا ذکر چھڑے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے رسول کریم ۖ کے اوصاف
حسنہ کا ذکر نہ چھڑے حضور نبی کریم ۖ سارے جہاں کے لئے رحمت و نعمت کی
حیثیت رکھتے ہیں ارشاد باری ہے ” و امابنعمة ربک فحدث ” اپنے رب کی نعمتوں
کا دل کھول کر چرچا کرنا رب العزت کے انعامات کا اعلان کرنا ہے چرچا چھپ کر
نہیں ہوتا اعلانیہ ہوتا ہے اکیلے اکیلے نہیں ہوتا بلکہ مجلس میں ہوتا ہے
چونکہ حضور کی ذات والا صفات تمام انعامات الٰہی میں سر فہرست ہے جو رب نے
اپنے بندوں پر فرمائی ۔ اس لئے میلاد مصطفیٰ و لادت مصطفیٰ ۖ کا ذکر محافل
میں ،مجالس میں ، منبر و محراب ، ہر جگہ کرنا حقیقت میں حکم الٰہی کی تعمیل
ہے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اپنی عقیدت کا اظہار کسی مصلحت کوشی کے بغیر کسی
باطل سے دبنے کے بجائے اس قدر دھوم مچاتے ہیں کہ فرش سے لیکر عرش تک غلغلے
بلند ہو جائیں ۔
حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائش مولا کی دھوم مثل فارس نجد کے قلعے گراتے جائیں
گے
خاک ہوجائیں عدو جل کر مگر ہم تو رضا دم میںجب تک دم ہے ذکر ان کا سناتے
جائیں گے
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ میر ی چشم عالم سے چھپ جانے والے
رہے گایوں ہی ان کا چرچا رہے گا پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے
مثل فارس زلزلے ہوں نجد میں ذکر آیات و لادت کیجئے
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل یا رسول اللہ کی کثرت کیجئے
حضور نبی کریم ۖ کی توصیف و نعت صحابئہ کرام جی بھر کر کرتے ہیں نعت گوئی
کے سالار ،سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے یہ نعتیہ اشعار ہیں جو انہوں
نے حضور ۖ کی موجودگی میں پڑھے اور داد پانے کے علاوہ چادر مصطفیٰ سے بھی
نوازے گئے آپ نے بار گاہ مصطفیٰ ۖ میں یوں نذر انہ عقیدت پیش فرما یا۔
*و احسن منک لم تر قط عینی و اجمل منک لم تلد النساء*
*خلقت مبرا عن کل عیب کانک قدخلقت کما تشائ*
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی بھی کاروان نعت کے معزز رکن ہیں آپ یوں مدح سرائی
فرماتے ہیں ۔
لم یات نظیر ک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے
تجھ کو شہ دوسراجانا
لک بدر فی الوجہ الاجمل ،خط ہا لئہ مہ زلف ابر اجل تورے چندن چندرپرو کنڈل
رحمت کی بھرن برسا جانا
وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع
ہے کہ دھواں نہیں
لہٰذا ”بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ” کے مصداق حضور ۖ کی ذات گرامی خدا
کے بعد کائنات بھر میں سب سے افضل و اعلیٰ ہے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی یوں
فرماتے ہیں ۔
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کر دیا خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے
حضرت مولانا احمد رضا کی نعتیہ شاعری کا ذکر ہو اور سلام ”مصطفیٰ جان رحمت
پہ لاکھوں سلام ”کا ذکرنہ ہو ممکن ہی نہیں ۔ یہ سلام بعثت نبی کریم ۖ آپ کے
محاسن و خصائص کے پس منظر میں نہایت ہی ایمان افروز ہے ۔ مقبولیت کے لحاظ
سے اس سلام کا کوئی جواب نہیں پاک ،ہند و بنگلہ دیس بلکہ جہاں جہاں عاشقان
مصطفی ۖرہتے ہیں یہاں تک کہ حرم نبوی اور منیٰ میں بھی میلاد کی محفلوں میں
عاشقان مصطفیٰ خوب خوب پڑھتے جھومتے ہیں ناچیز حج کی سعادت سے سرفراز ہو
چکا ہے وہاں بھی جابجا حضو ر ۖ کی بارگاہ میں سلام شوق پیش کرتے ہیں ۔
مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
شہریار ارم تاجدار حرم نوبہار شفاعت پہ لاکھوں سلام
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرارہا اس جبین سعادت پہ لاکھوں سلام
رب اعلیٰ کی نعمت پہ اعلیٰ درود حق تعالیٰ کی منت پہ لاکھوں سلام
جس سے تاریک دل جگمگانے لگے اس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام
مجھ سے خدمت کہ قدسی کہیں ہا ں رضا مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
اور
کعبے کے بدرالدجیٰ تم پہ کروڑوںدرود طیبہ کے شمش الضحیٰ تم پہ کروڑوںدرود
شافع روزجزا تم پہ کروڑوںدرود دافع جملہ بلا تم پہ کروڑوںدرود
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا جب نہ خداہی چھپا تم پہ کروڑوںدرود
تم ہو جواد و کریم تم ہو رئوف ورحیم بھیک ہو داتاعطا تم پہ کروڑوںدرود
کام وہ لے لیجئے تم کو جو راضی کرے ٹھیک ہو نام رضا تم پہ کروڑوںدرود
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے اپنی نعتوں میں قرآن اور احادیث مبارکہ کو بطور
خاص ملحوظ نظر رکھا آپ کی شاعری قرآن و احادیث کے حوالے سے عظمت و شان
مصطفیٰ کے تقا ضوں کو پوراکرتی ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں ایک لاکھ 24 ہزار کم
و بیش انبیاء کرام مختلف انسانی طبقات کی رہنمائی کیلئے آئے ان میں آقائے
دوعالم ۖ پر جتنی شرح و بسط کے ساتھ لکھا گیا، اتنا کسی اور کیلئے نہیں
لکھا گیا سیرت النبی میں ہمیں اتنی تفصیل ملتی ہے کہ پیدائش سے لیکر وصال
تک آپ کی حیات طیبہ کا کوئی ایسا پہلو نہیں ، جو عالم انسانیت کیلئے موجود
نہ ہو قرآن کریم کلام الٰہی خود نعت مصطفیٰ ہے ۔ اسکی مقدس سورتیں اور
مبارک آیتیں حضور ۖ کے کمالات و فضائل کا منھ بولتا ثبوت ہیں انسانوں سے آپ
کی کیا مدحت سرائی ہوگی ” بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر” اللہ ہم سب کو
میلاد مصطفیٰ منانے سمجھنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین ثم آمین: |