ملک کی تعمیر و ترقی میں سرسید اور علی گڑھ کا رول

ہندوستان میں جس شخص نے تعلیم کو نئی شکل دی اس کا نام سر سید احمد خاں ہے۔ جدید تعلیم کے محرک اور جدید اردو نثر کے بانی سر سید احمد خاں نے صرف طرز تحریر ہی نہیں بلکہ ہندوستانیوں کے طرز احساس کو بھی بدلا۔ انہوں نے سائنس، ریاضی اور منطقی طرز فکر کو فروغ دیا، عقلیت کی بنیادیں مضبوط کیں۔ اسی وجہ سے سرسید کا شمار ہندوستان کے عظیم مصلح اور معمار قوم میں ہوتا ہے۔

ملک میں انگریزوں کے خلاف چل رہی بغاوت اور شورش نے بھی سر سیداحمد خاں کے ذہن کو بہت حد تک متاثر کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ قوم کی فلاح کے لیے وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے۔ اس اندھیرے میں انہیں نئی تعلیم کی روشنی ہی واحد سہارا نظر آئی جس کے ذریعہ وہ پوری قوم کو جمود سے نکال سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے یہ تہیہ کیا کہ اس قوم کے ذہن سے انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کو ختم کرنا ہوگا۔ تبھی ان پر بند کئے گئے سارے دروازے کھل سکتے ہیں ورنہ یہ پوری قوم خانساماں اور خدمت گار بن کر ہی رہ جائے گی۔ اسی جذبے اور مقصد کے تحت انہوں نے 1864 میں غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔ 1870 میں’ تہذیب الاخلاق‘ جاری کیا۔ سائنٹفک سوسائٹی کا مقصد مغربی زبانوں میں لکھی گئی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا اور’ تہذیب الاخلاق‘ کی اشاعت کامقصد عام مسلمانوں کی ذہن سازی تھا۔ 1875 میں علی گڑھ میں مدرس العلوم پھر محمڈن اورینٹل کالج کے قیام کے پیچھے بھی یہی جذبہ اور مقصد کارفرما تھا۔ سرسید کو اپنے اس مقصد میں کامیابی ملی اور آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں سرسید کے خوابوں کا پرچم پوری دنیا میں لہرا رہا ہے۔

سرسید نے علی گڑھ تحریک کو جو شکل عطا کی تھی اس نے ہندوستانی قوم اور معاشرہ کو بہت سی سطحوں پر متاثر کیا ہے۔1857 کے بعد مسلمان اندھیرے غار میں غرق ہو گیا۔اب اس کے سامنے سوال تھا کہ وہ فکری اعتبار سے کیا کرے اور کہاں جائے ؟ کیونکہ بقول غالب ’کعبہ اور کلیسا‘کی چکی کے دو پاٹ میں وہ پس رہا تھا۔ ایک جانب اس کا شاہی ماضی تھا اور دوسری جانب انگریز اپنی صنعتی تہذیب کے ساتھ اس کے لئے ایک نیا حال و مستقبل لئے کھڑا تھا !

1860 کی دہائی میں مغلوں کے زوال کے بعد پہلی بارمسلمانوں میں اس سوال کے جواب کی تلاش شروع ہو ئی اور اس کے جواب میں دو مکاتب فکر پیدا ہوئے۔ ایک مکتب فکر کا نام تھا دارالعلوم دیو بند اور دوسرے مکتب فکر کا نام تھا سر سید تحریک۔ دیو بند تحریک کا مرکزی خیال یہ تھا کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب یہ ہے کہ وہ بنیادی اسلام سے ہٹ گیا ہے اس لئے وہ زوال پذیر ہے۔ اس کی بقا کا راستہ واپس بنیادی اسلام میں ہے جو اس کو مدارس سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی لئے دیو بند تحریک کی شروعات مدرسہ دارالعلوم سے ہو ئی جو آج بھی قائم اور آباد ہے۔

اس کے بر خلاف سر سید ایک بالکل مختلف مکتب فکر لے کر آئے۔ سر سید کا خیال تھا کہ 1857 تک مسلمان جس زمیندارانہ نظام میں جی رہا تھا وہ پورا نظام ہی بے سود اور بے معنیٰ ہو چکا تھا۔ اس نظام کے ساتھ اس نظام کی قدریں بھی تقریباًبے معنیٰ ہو چکی تھیں۔ اس لئے مسلمان کو فکری ، سماجی ، تعلیمی اور معاشی یعنی پوری تہذیبی سطح پر ایک نئی سمت کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اب سوال یہ تھا کہ وہ سمت کیسی ہو گی۔ سر سید کی رائے میں صنعتی انقلاب پر مبنی وہ ایک جدید دنیا تھی جس کی داغ بیل مغرب میں رکھی جا چکی تھی اور یہی سبب تھاکہ مغرب مشرق سے بہت آگے نکل چکا تھا۔مغرب کی دنیا کیسی دنیا تھی! مغرب میں جابر شہنشاہی نظام کی جگہ ایک نیا جمہوری نظام پنپ رہا تھا۔ 1857 کے بعد شاہی سیاسی نظام بے سود ہو چکا تھا۔دیکھئے اس سلسلے میں سر سید کیا کہتے ہیں: ’’ اگر ہمارے ہم وطن اطمینان سے غور کریں اور اگر وہ سابق حکمرانوں کے اعمال کو انصاف اور اخلاق کی کسوٹی پر پرکھیں تو وہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ان حکومتوں نے ہمارے ملک کو بے حد نقصانات صرف اس لئے پہنچائے کہ اس سے ایک تھوڑے سے افراد کو فائدہ ہوا۔ پچھلے بادشاہوں اور راجاؤں کی حکومت نہ تو ہندو مذہب کے مطابق تھی نہ اسلامی مذہب کے ، وہ صرف ظلم و تشدد پر مبنی تھی‘۔ یعنی سر سید شاہی آمرانہ سیاسی نظام کو بے معنیٰ سمجھ رہے تھے اور ساتھ ہی سیاسی نظام میں ان کے لئے ہندو۔ مسلم سوال بے معنی تھا۔ با الفاظ دیگر ان کے ذہن میں ایک سیکولر سیاسی نظام کا خاکہ تھا جو مغرب میں جنم لے چکا تھا۔یعنی سر سید کی سیاسی دنیا زمیندارانہ دنیا کے بجائے ایک جمہوری دنیا تھی جو ایک جدید تصور تھا۔ سر سید مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے لئے اس دنیاکے طرف دار اور حامی تھے۔

سر سید مسلم معاشرے میں جدید فکر کی داغ بیل ڈالنے کے لیے مضطرب تھے کیو نکہ کوئی جدید معاشرہ بغیر سائنسی مزاج کے ممکن ہی نہیں ہے۔ سر سید کی یہ کاوش بھی مسلم معاشرے کوجدیدیت سے جوڑنے کی ایک اہم کاوش تھی۔فکری اعتبار سے سر سید کو جب یہ یقین ہو گیا کہ مسلمانوں کی ترقی کا واحد راستہ زمیندارانہ نظام اور قدروں سے نکل کر ایک جدیدصنعتی دنیا اور جدید فکر کا ہی راستہ ہو سکتا ہے تو ان کے سامنے یہ سوال تھا کہ مسلمان اس جدید دنیا میں پہنچیں کیسے اور اس کا حصول جدید تعلیم کیحصول کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا اور آج علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کسی حد تک مسلمانوں کو جدید طرز تعلیم سے آراستہ کرنے کا کام کر رہی ہے اور اس ادارے سے فیضیاب ہوکر مسلم نوجوانوں کی فوج نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں اپنے انفرادی رکھ رکھاؤ اور علمی صلاحیتوں سے اپنی الگ پہچان رکھتی ہے۔

سر سید کا بنیادی مقصدجہاں تعلیم کا فروغ تھا تو وہیں نئی نسل کی ذہنی تربیت بھی مقصود تھی۔ چنانچہ ان کی زندگی کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو وہ بنیادی طور پر ہمیں ایک بے مثال مربی و معلم نظر آتے ہیں، تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ اخلاقی قدروں کی حفاظت بھی ان کے پیش نظر تھی۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے لندن سے واپسی پر 1870میں تہذیب الاخلاق نامی رسالہ نکالا، اس رسالے کا مقصد مسلمانوں کے اندر سیاسی، سماجی، تعلیمی، تہذیبی، اخلاقی اور معاشرتی اصلاح تھا، اسی وجہ سے اصلاح کے باب میں سر سید کے اقدامات کی تحسین کی جاتی ہے اور آج کے اس دور میں جبکہ مادیت کا جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے، اخلاقی اقدار کی پامالی سر عام ہورہی ہے، ایسی معاشرتی انحطاط کی صورت حال میں اخلاقیات کے باب میں ان کے صحتمند نظریے کو اپنا کر اس کو معاشرے میں نافذ کرنا بے حد ضروری ہے جو سر سید کے تعلیمی مشن کو آگے بڑھا کر ان کے وقار و عظمت کا حق ادا کررہے ہیں کہ وہ ان کے اس مشن اور اس پیغام کو بھی عام کریں تاکہ نئی نسل اخلاقی اقدار سے روشناس ہوسکے اور سر سید احمد خاں کی یہ تحریک بھی سماج کو فائدہ پہنچا سکے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صالح اقدار و روایات کو چھوڑ کر ہم حقیقی ترقی کے نشانے کو پاسکیں۔

سر سید کے شاندار کارناموں کی بناء پر انہیں ہر سال نہ صرف بر صغیر میں بلکہ پوری دنیا میں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، جس کے ہر لحاظ سے وہ مستحق اور حق دار ہیں اور ممنون قدم کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ محسن قوم کو فراموش نہ کرے، اس کے ساتھ ہی موجودہ اہل علم طبقے کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ آج ملت کی موجودہ تعلیمی صورت حال کو پیش نظر رکھ کر خواندگی اور فروغ تعلیم کی مہم چلائے، اپنی تعلیمی تحریک کو پسماندہ طبقوں تک لے جائے اور پوری ملت کو تعلیم یافتہ بنانے میں سر گرم عمل ہو تبھی ہم سر سید کے خوابوں کو عملی جامہ پہناسکتے ہیں اور ملت سر سید علیہ الرحمہ کی جدو جہد اور کوششوں کا حق اس وقت تک ادا نہیں کرسکتی جب تک اس قوم کیہر فرد تک سرسید کے تعلیمی مشن اور اس کی افادیت کاپیغام نہ پہو نچے اور مسلم نو جوان اعلی تعلیم کے حصو ل کے لیے بے چین نہ ہوں۔

Jan e Alam IAS
About the Author: Jan e Alam IAS Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.