اِنسان کِسی حالت میں خُوش نہیں رہتا

کہتے ہیں کِسی زمانے میں ایک نیک دِل بادشاہ تھا جُو اپنی رعایا کا بُہت زیادہ خیال رکھا کرتا تھا ایک مرتبہ اُس کے دِل میں ایک انوکھی عمارت کی خُواہش ایسی سمائی کہ اُس نے اپنے مِحل کیساتھ ایک نہایت حِسین مِحل بنانے کا اِرادہ ظاہِر کیا جِس میں وہ دوسرے ممالک سے آنے ولے بادشاہوں، شہزادوں، اور سفیروں کو ٹہرانے کا اِرادہ رکھتا تھا۔

بادشاہ کا خُواہش ظاہر کرنا تھا کہ ہر ایک حکومتی کارندہ بادشاہ کی اِس خُواہش کی تکمیل میں مصروف ہوگیا سب سے پہلے جگہ کا اِنتخاب کیا گیا اور پھر جب اُس حِصہ کی صفائی کا مُعاملہ پیش آیا تو حَکومتی کارندوں کو ایک ایسی مشکل پیش آئی کہ جسکا کوئی حَل اُنہیں سمجھ نہیں آرہا تھا اور بَظاہر ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے یہ مِحل تعمیر نہ ہُوسکے گا۔

واقعہ کُچھ یُوں پیش آیا کہ جس جگہ کا انتخاب کیا گیا وِہاں ایک بوڑھی عورت کی جھونپڑی نِکل آئی حَکومتی کارندوں نے اُسے بادشاہ کی خُواہش سے آگاہ کیا اور اُسے یقین دِہانی کرائی گئی کہ اُسے مُتبادل کے طور پر دوسرا مکان فراہم کردِیا جائے گا بس وہ اپنی جھونپڑی سے دستبردار ہُوجائے لیکن وہ بُڑھیا اس پیشکش پر آمادہ نہیں ہُوئی اور چُونکہ بادشاہ کی جانب سے عوام پر سختی کی مُمانعت تھی اسلئے حَکومتی کارندے پریشان تھے کہ آخر اِس مسئلے کا کیا حَل نِکالا جائے۔

بہرحَال قِصہ مُختصر جب کسی طرح بھی یہ مسئلہ باہمی اِتفاق سے حَل نہ ہُوسکا تو بادشاہ کی خِدمت میں پیش کردِیا گیا بادشاہ کے ایما پر اُس بُڑھیا کو نِہایت احترام سے مِحل میں لایا گیا اور اُسکی رائے جاننی چاہی۔
بُڑھیا نے بادشاہ کی خِدمت میں اپنے خَدشات کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا بادشاہ سلامت میں عمر کے اس حصہ میں ہُوں جہاں مُجھ میں کام کی بالکل بھی سکت نہیں اور گُستاخی مُعاف بادشاہ اکثر وعدے کر کے بھول جاتے ہیں جہاں پناہ ۔اگر میرا مکان ہتھیانے کے بعد آپ کے کارندوں کی نیت بدل گئی تو میں بے سہارا عورت کہاں جاؤنگی۔ لِہٰذا مجھے میرے مکان میں رہنے دِیا جائے اور جب میرا دانا پانی اِس دُنیا سے اُٹھ جائے تُو بیشک آپ میری جھونپڑی گِرانے کا حُکم صادر فرما دیجئے گا۔

بادشاہ نے بَڑے تحمل سے بُڑھیا کی گُفتگو سُنی اور پھر ایک تجویز بُڑھیا کو پیش کی کہ اگر وہ اپنی جھونپڑی ہمیں ہَدیہ کردے تُو تا عُمر وہ بادشاہ کے مِحل سِرا میں ایک مہمان کے طُور پر رِہ سکتی ہے اور اُسے ماہانہ 400 اشرفیاں بھی کھانے کے عِلاوہ دی جائیں گی اَس کے علاوہ تا حَیات اُسے سالانہ 6 کپڑوں کے جُوڑے بھی دئے جائیں گے اور وہ شہر میں جانے کیلئے شاہی سواری کا استعمال بھی کرسکے گی اور ایک خادمہ چوبیس گھنٹے اُسکی خدمت کیلئے حَاضر رَہے گی۔

بُڑھیا نے بادشاہ کی پیشکش کو فوراً قبول کرلیا اور یُوں ایک بُڑھیا جھونپڑی سے شاہی مِحل کے حَرم سرا میں مُنتقل ہوگئی۔

وقت پَر لگائے گُزرتا رہا اور یُوں آہستہ آہستہ وہ بُڑھیا محل کے ماحول سے مانوس ہوتی چلی گئی اور اُسے تعلقات بھی مِحل کے سبھی لوگوں سے استوار ہُوتے چَلے گئے بادشاہ نے اپنے وعدہ کے مِطابق وہ تمام سہولتیں بُڑھیا کو فراہم کروا دیں جسکا وعدہ اُس نے اِس بُڑھیا سے کیا تھا وہ بُوڑھی عورت بھی اتنی پُر تعیش زندگی پاکر ہر وقت بادشاہ کیلئے دُعا گو رہنے لگی اور اپنا ذیادہ تر وقت عبادت میں گُزارنے لَگی۔

اگرچہ بادشاہ بادشاہ بُہت نرم خُو تھا لیکن کُچھ سازشی عناصر کو یہ نیک دِل بادشاہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اور بُڑھیا کا رات دِن بادشاہ کو دُعائیں دینا بھی اُن پر کوہِ گراں کی طرح گُزرتا چُنانچہ اُن لوگوں نے آہستہ آہستہ اُس بُڑھیا کو بادشاہ سے بدگُمان کرنا شروع کردِیا اُسے سمجھایا گیا کہ جو قربانی اُس نے بادشاہ کی خاطر اپنا مکان دیکر کی ہے جِس کے سبب بادشاہ کا مِحل تعمیر ہُوا ہے بادشاہ نے اُسکو اِسکا صحیح اور جائز حق نہیں دِیا ۔ اگر کوئی دوسرا بادشاہ ہوتا تُو ضرور اُسے اِن تمام نعمتوں کیساتھ ساتھ ایک خُوبصورت گھر بھی بَنا کر دِیتا یہ بات دھیرے دھیرے بُڑھیا کے ذِہن میں بیٹھتی چلی گئی اور بلاآخر اُس نے بادشاہ کو دُعائیں دینے کے بجائے رات دِن کوسنا شروع کردِیا اور گھنٹوں اِس بادشاہ کی موت کی دُعائیں کرنے لَگی تاکہ کوئی دوسرا بادشاہ آکر اُسے اِسکا جائز حق دے سَکے۔

چَند دِنوں کے بعد اُس بادشاہ کا انتقال ہُوگیا اور ایک دوسرا بادشاہ براجمان ہُوگیا نئے بادشاہ نے تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد ایک دِن حَرم سِرا کے دُورے پر آیا جب اُس بادشاہ کی نِگاہ اِس بُڑھیا پر پڑی تُو نئے بادشاہ نے اُس بُڑھیا کا احوال جاننے کی خُواہش کا اظہار کیا بادشاہ کو بُڑھیا کی قُربانی کا بتایا گیا جِسے سُننے کے بعد بادشاہ نے اعلان کیا کہ پِچھلا بادشاہ بے وقوف تھا جو صرف ایک جھونپڑی کے عوض بُڑھیا کو مِحل اُٹھا لایا اور بُڑھاپے میں آخر بُڑھیا کو چار سُو اشرفیاں ماہانہ دینے کی کیا تُک ہے لِہٰذا یہ 400 اشرفیاں آج سے بند کی جاتی ہیں۔

بُڑھیا اِس نئے بادشاہ کے اِقدام پر حیرت زدہ رِہ گئی کہ جس کے لئے اِتنی دُعائیں کی وہ اِتنا ظالم نِکلا کہ آتے ہی میرا ماہوار خَرچہ ہی بند کردِیا اس سے بھلا تو پہلا بادشاہ ہی تھا چُنانچہ اُس بُڑھیا نے اِس بادشاہ کیلئے بھی موت کی دُعائیں مانگنی شروع کردیں خُدا کا کرنا ایسا ہُوا کہ ایک سال بعد اِس بادشاہ کی بھی مُوت واقع ہُوگئی اور ایک نیا بادشاہ اِن پر حکومت کرنے لگا اور جب وہ بادشاہ حَرم سرا پُہنچا اور اسکے معاملات سے آگاہ ہُوا تُو کہنے لگا کہ بُڑھاپے میں 6 جُوڑوں کی بھلا اس بوڑھی عورت کو کیا ضرورت ہے اور خادِمہ بھی اُس بوڑھی عورت سے واپس لے لی یُوں وہ بوڑھی عورت اِس بادشاہ کے اِقدامات سے بھی متنفر ہُوگئی اور کہنے لگی اِس سے بِہتر تو وہ دونوں بادشاہ تھے لِہٰذا وہ اِس بادشاہ کے مرنے کی دُعائیں کرنے لگی اور بلاآخر یہ بادشاہ بھی ایک جنگ میں کام آگیا اور ایک نئے بادشاہ کو حُکمرانی مِل گئی۔

اِس طرح ہر نئے بادشاہ کی آمد کے بعد اُس بُڑھیا کو اِحساس ہُوتا کہ اِس بادشاہ سے اچھے تو سابقہ حُکمران تھے مگر یہ بُڑھیا اِس اُمید پر کہ نیا حُکمران شائد رَحم دِل ہُو وہ ہَر نئے دِن اِک نئی خُواہش اپنے دِل میں پالتی رَہی اور آخر ایک دِن قید کردی گئی اور مشقت کے ذریعہ سے روزی کمانے لگی۔

محترم قارئین ِکرام اگر غور کریں تُو ہم سب کی حالت بھی اِس بُڑھیا سے ذرا مُختلف نہیں ہے ہَم میں سے اکثر لوگ اِسی اُمید پر اپنی زندگی گُزار رہے ہیں کہ کبھی تُو کوئی تُو نیک دِل حُکمران ہَم پر حَکومت کرنے آئے گا لیکن جب ہمارے ہی ووٹوں سے منتخب حُکمران ہم ہی پر مہنگائی ، بیروزگاری ، اور ٹیکسوں کا نیا نظام لادتے ہیں تُو ہم بھی چِلا کر یہی واویلا کرتے نظر آتے ہیں کہ اِس سے بِہتر تُو سابقہ حُکمران تھا۔

ویسے دِیکھا جائے تُو قُصوروار تُو ہَم بھی ہیں کہ اِنہیں ہَم ہی چُن کر لاتے ہیں اور ہماری بے حِسی کا حال یہ ہے کہ کہا ں تُو چینی پر صرف 25 پیسہ بڑھانے پر ایک مطلق العنان آمر کو ۔۔ کُتا کُتا ۔۔اور۔۔ہائے ہائے۔۔ کے نعروں کی گونج میں گھر بھیج کر دَم لیا اور کہاں 52 روپیہ فی کلو اضافہ پر بھی ہماری زُبان گنگ ہو کر رِہ گئی ہے ۔ شائد ہم نِڈھال ہُوچُکے ہیں یا ہم بے حِس ہوچُکے ہیں یا شائد ہماری ایکتا تعصب ، قومیت اور لِسانیت کے بدبودار لِحاف تلے دَب کر رِہ گئی ہے شائد اِسی لئے ہماری آواز بھی ہمارے حَلقوں میں پھنس کے رِہ گئی ہے اور شائد ہمارے حُکمران بھی ہماری اِس کیفیت سے آگاہ ہُوچُکے ہیں اور اِسکا خُوب فائدہ بھی اُٹھا رہے ہیں۔

شائد ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اِس لئے بھی مفقود ہوگئی ہے کہ ہم کل تک اپنے خُدا سے اور اُسکے پسندیدہ دین سے مضبوط تعلق رکھتے تھے جبکہ آج ہم اپنے دِین ہی سے نہیں بلکہ اپنے مالک اپنے پروردگار کو بھی بھولے بیٹھے ہیں شائد اِسی لئے ہم پر یہ عذاب مسلط ہے۔

اور جِس دِن ہم نے حُکمرانوں سے اُمید یں رکھنے کے بَجائے اپنے خُدا سے لو لگانی شروع کردی تو وہ ضرور ہمارے حال پر رَحم فرماتے ہُوئے ہمیں بہتر سوچ کی دُولت عطا فرما دے گا کہ جسکے سبب ہم علاقائی ،گروہی اور لِسانیت کا یہ جوا اپنی گردنوں سے اُتار پھینکیں گے تب وہ ہمیں ایسا عادل اور انصاف پسند حُکمران عطا فرما دے گا جو اِس مُلک سے اقربا پروری ، کرپشن ، اور رشوت ستانی کے بدبودار ماحول سے ہمیں باہر نِکال لے گا ۔انشاءَاللہ۔ عزوجل

کہتے ہیں کہ رات کی سیاہی جب بُہت زیادہ بڑھ جائے تو وہ نوید سحر کا اعلان ہُوتی ہے اور ہمیں بھی اُسی صُبح کا انتظار ہے کیونکہ اب چہار سُو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آرھا ہے اور اِسکا مطلب صاف ہے کہ صبح نزدیک ہے۔
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1095717 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More