عدالت و سیاست کے چوراہے پر رام مندر

اقتدار میں رہنے کی خواہش اور کرسی کے چلے جانے کا خوف انسان کو کیسے بدل دیتا ہے اس کا ایک نمونہ یوگی ادیتیہ ناتھ کے بابری مسجد ،رام مندر قضیہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دئیے جانے والے انٹرویو میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس گفتگو کا جائزہ لینے سے قبل بی جے پی کے سابق رکن پارلیمان اور رام جنم بھومی نیاس ورکنگ کمیٹی کے سربراہ رام ولاس ویدانتی کا بیان دیکھنا چاہیے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ اگر یوگی وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان نہ ہوتے تو کیا کہتے۔ ویدانتی نے کہا ’’عدالت کا فیصلہ آنے میں لاکھوں سال لگ سکتا ہے اور ہم اتنا انتظار نہیں کر سکتے۔‘‘ یہ وہی رام ولاس ویدانتی ہیں جنھوں نے رام مندر کی خاطر مرن برت رکھنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جب دیکھا دال نہیں گل رہی ہے تو سرکار بھروسے بھوک ہڑتال چھوڑ کر وزیر اعلیٰ کے گھر ملاقات کے لیے پہنچ گئے۔ ان سے ملنے کی خاطر یوگی جی کا خود نہیں آنا یہ ظاہر کر دیتا ہے کہ کس کا مقام کیا ہے؟گنگاکی صفائی کے لیے مرن برت رکھنے والے پروفیسر جی ڈی اگروال عر ف سوامی گیان سروپ سانند ۱۱۱دنوں تک مرن برت رکھنے کے بعد کیلاش واسی ہوگئے۔ بی جے پی نے اس دوران ان کو پوری طرح نظر انداز کردیا اورموت کے بعد ٹوئیٹر پر گھڑیالی آنسو بہانے لگے۔ اس پاکھنڈ کو دیکھ کر ویدانتی کی عقل ٹھکانے آگئی ہوگی۔

وزیراعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ سے ملاقات کے بعد۱۲ اکتوبر کو رام ولاس ویدانتی نے ریاستی وزیر مملکت انوپما جیسوال کے گھر پر میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’۶ دسمبر سے ایودھیا میں شری رام کی جنم بھومی پر مندر کی تعمیر شروع ہو جائےگی۔عدالت کا فیصلہ آنے میں لاکھوں سال لگ سکتا ہے۔ کسی بھی فریق کو کوئی پریشانی ہوتی ہے تو وہ درخواست دے دیتا ہے اور تاریخ ملتوی ہو جاتی ہے۔ ہمیں عدالت سے کوئی امید نہیں ہے۔عدالت سے آج تک کوئی کام نہیں ہوا ہے، اسی لیے بغیر عدالت کے فیصلے کا انتظار کیے اب ایودھیا میں آپسی اتفاق اور فرقہ وارانہ خیرسگالی کے ساتھ مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوگا۔‘‘

عدلیہ کے تئیں ویدانتی کے عدم اعتماد سے علی الرغم رام ولاس ویدانتی کے نزدیک آپسی اتفاق سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت بھی دلچسپ ہے، فرمایا ’’مسجدکی تعمیر کے لیے مسلمانوں کی خواہش کے مطابق ایودھیا سے باہر لکھنؤ میں یا پھر جہاں وہ چاہیں، زمین مہیا کرا دی جائے گی‘‘۔ یعنی بقول ویدانتی مسجد ایودھیا کے اندر ہر گز نہیں ہوگی۔یہ فیصلہ انہوں نے مسلمانوں کو اعتماد میں لیے بغیر ازخود کردیا۔ کیا اس کو آپسی اتفاق اور فرقہ وارانہ خیر سگالی کہتے ہیں؟ویدانتی نے مسجد کی تعمیر میں مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ وہ نہیں جانتے کہ ہندوستان کا مسلمان اپنی مسجد بنانے کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے۔وہ اس معاملے میں خود کفیل ہے۔سرکاری مدد کے بغیر فرزاندانِ توحید نے ملک بھر میں لاکھوں مساجد کھڑی کردی ہیں۔

اپنے اشتعال انگیز بیان میں ویدانتی نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ مسجد کو بابر کے نام سے منسوب نہ کیا جائے کیونکہ وہ لٹیرا تھا اور ہندوستان کو لوٹنے آیا تھا۔ مسجد اسلام کے نام پر، قرآن کی آیتوں کے نام پر یا پھر کسی عظیم اسلامی ہستی کے نام پر رکھا جا سکتا ہے۔ گویا اب مسلمان اپنی مساجد کا نام بھی ویدانتی جیسے لوگوں سے پوچھ کر رکھیں گے۔ بابر کون تھا؟ یہ جاننے کے لیے ویدانتی اگرتزک بابری پڑھ لیتے تو ایسی احمقانہ بات نہ کرتے۔ بابر اگر لٹیرا ہوتا تو نیرو مودی، للت مودی اور وزیراعظم مودی کے چہیتے دوست میہول پٹیل کی مانند بھارت چھوڑ کر فرار ہوجاتا۔ اس کا تو اپنا آبائی وطن بھی تھا۔ وہاں کی شہریت حاصل کرنے کے لیےبابر کومیہول کی طرح حکومت ہند سے اجازت لینے کی محتاجی بھی نہیں تھی۔ یہ اور بات ہے حکومت ہند نے برضا و رغبت پٹیل کو اس کے لیے سفارشی خط فراہم کردیا۔ للت مودی کے یہ کام راجستھان کی وزیراعلیٰ سندھیا نے کیا تھا۔

سنگھ پریوار اپنی لوٹ مار کو چھپانے کے لیے تاریخ کے ایسے کرداروں کی آڑ لیتا ہے جو اپنا دفاع نہیں کرسکتے لیکن زمانہ گواہ ہے کہ بابر نے جس مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی اس میں ہندوستان سونے کی چڑیا کہلایا ۔ مودی سرکار نے پانچ سال کے اندر اس چڑیا کو بیف کے ساتھ برآمد کرکے نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ویدانتی کو بابر نظر آتا ہے لیکن استھانہ نظر نہیں آتا جس نے گوشت برآمد کرنے والےمعین قریشی سے پانچ کروڈ روپئے رشوت طلب کی اور اس میں سے دو کروڈ ڈکار گئے۔ سنگھ پریوار کے اس سپوت نے ایسے نہ جانے کتنے لوگوں سے کتنے روپئے وصول کیے اور اس میں سے کتنا بی جے پی کے خزانے میں جمع کیا ۔ راکیش استھانہ پر پولس فنڈ میں سے ۲۰ کروڈ روپئے چرا کر بی جے پی کی تجوری میں جمع کرانے کا سنگین الزام بھی لگ چکا ہے ۔

ہندوستانی بنکوں کا ۱۰ لاکھ کروڈ روپیہ ہمارے دیش بھکت سرمایہ دار لوٹ چکے ہیں جن کا بابر سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ وہ لوگ قرض کے نام پر لیےہوئے اس خطیر سرمایہ اور واپس کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ اس میں سے ڈیڑھ لاکھ کروڈ تو سرکار کی اجازت سے معاف کردیا گیا ہے۔ دیش کےچوکیدار پر رافیل کے سودے میں میں ۳۵ ہزار کروڈ کی چوری کا الزام ہے ۔ بابر تو ویسے بھی ویدانتی کی رسائی سے پرے ہے اس لیے اگر وہ واقعی ملک کئ خیرخواہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ عصرِ حاضرکےلٹیروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی فکر کریں تاکہ عوام کا لوٹا ہوا یہ مال واپس آسکے لیکن اگران جدید لٹیروں پر ہاتھ ڈالا گیا تو پارٹی کیسے چلے گی اور مندر کیسے بنے گا؟

رام ولاس ویدانتی نے اسی طرح کا بیان جون میں بھی دیا تھا ۔ اس بابت مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور معروف وکیل ظفر یاب جیلانی سےجب دریافت کیا گیا تو انہوں نےکہا تھا ’’رام ولاس ویدانتی میں ہمت ہے تو ایک اینٹ بھی رکھ کر بتائیں ۔ ۱۹۸۹؁ سے بی جے پی ہر الیکشن کے قریب اس مسئلہ کو گرماتی ہے ۔ ان کا مقصد رائے دہندگان کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ ا س معاملہ میں بہت سنجیدہ ہیں ۔جب کہ (ویدانتی) خوب جانتے ہیں کہ ایودھیا میں سپریم کورٹ کے حکم کے بغیر ایک اینٹ بھی نہیں رکھ سکتے ‘‘۔ ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے رام ولاس ویدانتی کے سلسلے میں یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ ’’ یہ وہی شخص ہے جس نے سال بھر پہلے بیان دیا تھا کہ میں نے مسجد گرائی ہےاور اس کا لال کرشن اڈوانی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
طفر یاب جیلانی نےایک ٹی وی مباحثے میں ویدانتی پوچھ لیا کہ کیا آپ یہ بات کورٹ میں کہیں گے؟ تو انہوں نے کیمرے کے سامنے بڑے طمطراق ۵۶ انچ کا سینہ پھلا کر کہا کہ ہا ں کہوں گا ۔ لیکن جب کورٹ میں ان سے پوچھا گیا تو وہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئے اور کہہ دیا کہ اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔خدا کا شکر ہے کہ اب تک اس حوالے سے سپریم کورٹ کا موقف بہت صاف اور واضح ہے ۔ وہاں بار بار یہ بات دوہرائی جاچکی ہے کہ وہ با ہر کے بیانات سے متاثر نہیں ہوگا بلکہ اپنے طریقہ سے اس مسئلہ کو حل کرے گا ۔ عدالت کے نزدیک یہ عقیدے کا نہیں بلکہ حق اراضی کا مسئلہ ہے۔ اس کو قانون کے تحت حل کیا جائے گا‘‘۔

یوگی ادیتیہ ناتھ اگر سابق وزیراعلیٰ ہوتے تو ان کا بیان ویدانتی سے زیادہ زہریلا ہوتا ۔ اے بی پی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے یوگی جی نے ایودھیا تنازع پر سادھو سنتوں اور آر ایس ایس کے آرڈیننس والے کو مطالبہ ٹھکرا دیا اور انہیں صبر و ضبط کا پاٹھ پڑھا نے لگے ۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ’’ حکومت کا منشا رام مندر کی تعمیر سے متعلق آرڈیننس لانے کا نہیں ہے۔‘‘ ایک ایسے وقت میں جبکہ سارا سنگھ پریوار عدلیہ سے مایوس ہو کر دباو بنا رہا ہو یوگی جی کا انکار ظاہر کرتا ہے وہ خود کرسی کے دباو میں ہیں۔ انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ وہ دباو بنانے کے لیے اقتدار میں آتا ہے اور پھر اسے باقی رکھنے کے لیے دباو میں آجاتا ہے۔ ویسے اشارے کنائے میں انھوں نے یہ ضرور کہا کہ ’’ملک میں امن اور خیر سگالی کے لیے اور عقیدہ کااحترام قائم رکھنے کی غرض سے جو بھی متبادل ہو سکتے ہیں ان پر غور ہونا چاہیے‘‘۔ اس موقع پر یوگی جی کو یاد رکھنا چاہیے کہ عقیدہ اکثریتی طبقہ کا ہو یا اقلیت کا دونوں یکساں احترام کے مستحق ہیں ۔ امیت شاہ نے سبری مالا کے معاملے میں مذہب پر چلنے آزادی کے بنیادی حقوق میں شامل کیا ہے۔

وزیر اعلیٰ کے منصب کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے دیگر سادھو سنتوں کی طرح غیر ذمہ دارانہ اشتعال انگیز گل افشانی سے گریز کرتے ہوئے یوگی جی نے کہا ’’ملک کی عدلیہ کے تئیں سب کا احترام ہے، ہم بھی ان آئینی رکاوٹوں کے پابند ہیں کہ معزز عدالت اس مسئلہ کا حل نکالے۔ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکلے گا۔ اچھا ہوتا کہ عدالت اس معاملے کی جلد سماعت کر کے امن اور خیر سگالی کے لیے فیصلہ سناتی۔‘‘ یہ بار بار دوہرائی جانے والی امن و خیر سگالی کی دہائی کے اندر ایک دھمکی پوشیدہ ہے کہ اگر فیصلہ اکثریتی طبقہ کے خلاف ہوگا تو امن و امان بحال نہیں رہےگا۔ اس بار ہندو احیاء پرستوں کے سامنے عدالت عظمیٰ ہے ایسے میں اگر فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف ہو جائے تو کیا وہ بابری مسجد کی طرح سپریم کورٹ کی عمارت کو زمین دوزکردیں گے۔ عدلیہ کا عزت و وقار پرتو ویدانتی جیسے لوگ آئے دن کیچڑ اچھال ہی رہے ہیں جن میں وی ایچ پی کے ساتھ شیوسینا بھی پیش پیش ہے،

یوگی جی نے سادھو سنتوں کو صبر و تحمل کی تلقین کرنے کے بعد کہا ’’اعتقاد رکھنے والے امن اور خیر سگالی کے پاسدار لوگ اس کا حل جلد سے جلد چاہتے ہیں۔ سَنتوں کا ہم احترام کرتے ہیں، وہ لوگ ہمیشہ اس مہم کے ساتھ رہے ہیں۔ مشکل وقت میں انسان کو صبر کا دامن تھامے رہنا چاہیے، یہ بہت مشکل دور ہے۔‘‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے اس جلدبازی کی آخر وجہ کیا ہے؟ اور اس دور میں سب سے زیادہ مشکلات کس کے لیے ہے؟دراصل ساڑھے چار سال تک خاموش رہنے والے سادھو سماج کے بے چینی کے دو بڑے اسباب ہیں۔ اول تو مرکزی حکومت کی ناکامیوں کی جانب سے توجہ ہٹا کر اس کو انتخابی فائدہ پہنچانا اور دوسرے اس بات کا یقین کہ اب یہ دوبارہ منتخب نہیں ہوں گے اس لیے ان کے جانے سے قبل جو بھی ممکن ہوحاصل کرلیا جائے۔

بی جے پی اگر اقتدار میں نہیں ہوتی تو وہ خوب شور شرابہ کرتی لیکن اس کی مشکل یہ ہے کہ وہ ہندو احیا پرستوں کی توقعات پر پوری نہیں اتررہی ہے۔ یوگی جی کی ان مشکلات کا اندازہ لگا کر مذکورہ نیوز چینل نےایک تیکھا سوال کردیا کہ اگر رام مندر تعمیر کے خواہش مند لوگ کوئی جارحانہ قدم اٹھائیں تو کیا ہوگا؟ یہ وزیر اعلیٰ کو دھرم سنکٹ میں ڈالنے والا سوال تھا جس کے جواب میں یوگی جی کو وہی کہنا پڑھا کہ جو ملائم سنگھ یادو بھی اگر اقتدار میں ہوتے تو کہتے ۔ وہ بولے ’’امن و امان قائم رکھنا ان کی یعنی حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری نبھائی جائے گی۔ یوگی جی نے کہا شری رام جنم بھومی ایودھیا، اتر پردیش میں ہے۔ نظامِ قانون ہماری ذمہ داری ہے، ہم اسے نبھائیں گے‘‘۔

فیک انکاونٹر کے لیے معروف یوگی جی نے اپنی کون سی ذمہ داری کماحقہُ نبھائی ہے جو یہ نبھائیں گے؟ لیکن کرسی کے موہ نے ان سے وہ جملہ کہلوا دیا جسے سننا بھی ان کے لیے گوارہ نہیں تھا۔سادھوسماج بار بار مودی اور یوگی کو دھمکی دے رہاہے مثلاً مہنت پرم ہنس جو ویدانتی کی طرح سنگھ پریوار کا حصہ نہیں ہے نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد واضح الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم جنوری تک انتظار نہیں کر سکتے بی جے پی فوراً رام مندر تعمیر کا کام شروع کرائے ۔ رام مندر تعمیر کا وعدہ کر کے مودی اور یوگی بر سر اقتدار آئے تھے اور اگر اب بھی مندر تعمیر نہیں ہوتا تو آر ایس ایس ، وی ایچ پی اور بی جے پی حکومت کو نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیے ‘‘۔

بی جے پی کے لیے ۲۰۱۹؁ کے قومی انتخاب میں اس ناراضگی کے سنگین نتائج سے اپنے آپ کو بچانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ اسی لیےبی جے پی رکن پارلیمان راکیش کمار نے رام مندر پر پرائیویٹ ممبر بل لانے تجویز پیش کی ہے لیکن رام بھکت سرکار کے ہوتے نجی بل کیا معنیٰ؟ اس دباو کے چلتے بعید نہیں کہ وزیراعظم عجلت میں نوٹ بندی یا سی آئی اے کی طرح کوئی فرمان نکال دیں لیکن یہ معاملہ بہت آسان نہیں ہے ۔ اول تو بی جے پی کے پاس وقت بہت کم ہے۔ اس لیے ایوان زیریں اور بالاں میں اس پر بحث کا مکمل ہونا بہت مشکل ہے۔ نیز اگر آرڈیننس نکل بھی جائے تو عدالت میں اس کو الزم چیلنج کردیا جائے گا اور پھر نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش ہوکررہ جائے گا۔

آر ایس ایس کے سہ روزہ اجتماع کے اختتام پرتنظیم کے جنرل سکریٹری بھیا جی جوشی نے حسب ضرورت رام مندر کو لے کر ۱۹۹۲؁ جیسا آندولن کرنے کا ارادہ طاہر کیا ہے۔ بھیاجی نہیں بھولنا کہ اس وقت بابری مسجد موجود تھی اور اس بار نہیں ہےنیز رام بھکتوں کو تعمیر سے زیادہ دلچسپی تخریب میں ہے۔ آر ایس ایس ر ہنما بھیا جی کو سپریم کورٹ کایہ تبصرہ کہ’ ہماری ترجیحات الگ ہیں‘ پسند نہیں آیا۔ ترجیحات کا تعلق اہداف و مقاصد سے ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کو نہ تو انتخاب لڑنا اور اقتدار پر قابض ہونا ہے اس لیے اس کی ترجیحات سنگھ پریوار سے مطابقت نہیں رکھ سکتیں۔ بھیا جی کے مطابق ’اس سے ہندو سماج اپنے آپ کوبے عزت محسوس کر رہا ہے‘۔ اپنے یا سنگھ پریوارکی بابت ان کا احساس درست ہے لیکن اپنی ندامت ہندو سماج پر تھوپ دینا مناسب نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کی جس بنچ نے یہ فیصلہ کیا اس میں جسٹس گوگوئی اور اور جسٹس کول بھی تو ہندو ہیں ۔ اس مقدمہ میں سنگھ کی مخالفت کرنے والے وکلاء کی بڑی تعداد بھی ہندو مذہب کی پیروکار ہے۔ اس پر اطمینان کا اظہار کرنے والوں کو کیا ہندو سماج کا حصہ نہیں سمجھتے ہے ۔

جوشی جی نے مزید کہا کہ ’’ ہم امید کرتے ہیں کہ کورٹ ہندوؤں کے جذبات کو سمجھ کر فیصلہ کرے گی‘‘ ۔ بھیا جوشی سنگھ کے سلجھے ہوئے دانشور ہیں اس لیے ایسے مشورے کی توقع ان سے نہیں تھی۔ عدالت کا کام مبنی برانصاف فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ جذبات سے مغلوب ہوجانے والامنصف عدل کو پامال کرسکتا ہے ۔ اس لیے عدالت کو جذبات سے اوپر اٹھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔اس مطالبے نے جوشی جی نے کو بھی ویدانتی اور یوگی کی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ وہ بولے’ہم چاہتے تھے دیوالی سے پہلے کوئی اچھی خبر مل جائے‘۔ رام جنم بھومی کا معاملہ ۱۸۸۵؁ میں پہلی بار فیض آباد عدالت میں گیا تھا ۔اس وقت مہنت رگھوبیر داس نے ایک چھتر لگانے کی درخواست کی تھی۔ عدالت نے اسے رد کردیا۔ ۲۰۱۰؁ سے یہ سپریم کورٹ میں ہے لیکن کسی دیوالی پر بھیا جی کے من میں اچھی خبر کی خواہش پیدا نہیں ہوئی توآخر اس بار ایسی کون سی خاص بات ہوگئی؟ دراصل یہ دیوالی ۲۰۱۹؁ کے انتخاب سے ۵ ماہ قبل ہے نیز اس بار’ سب کا ساتھ سب کا وکاس والا نعرہ ‘ گھس پٹ گیا ہے اس لیے کسی نئے شوشے کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ کوئی نئی پڑیا چھوڑنے کے بجائے سنگھ پریوار ایک ایسا پرانا راگ الاپ رہا ہے جو انتخابی میدان میں ہمیشہ ناکام رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بار بی جے پی رام مندر کے ذریعہ ہندوستانی عوام کو ورغلانے میں کامیاب ہوجائیگی یا پھر سے اس کے ہاتھ پھر سے ناکامی آئے گی؟

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1453334 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.