پولیس کا یہ رویہّ بھی آزادی اظہار پر حملہ تصور ہوگا

اس وقت مجموعی طور پر پاکستان بالخصوص بلو چستان اور کے کی کے اور پنجاب راجن پور اور ڈیرہ غازیخان کے اضلاع میں ’’صحافی‘‘ /کالم نگار شدید ترین مسائل کا شکار ہوتے ہوئے غیر محفوظ ہیں ۔ ’’نوگو ایریا ز‘‘ میں بھی ’’صحافی‘‘ فوری رسائی حاصل کر لیتا ہے کیونکہ وہ سب سے پہلے اطلاعات کو عوام اور پوری دنیا تک پہنچانے کا باعث بنتا ہے ۔’’اخباری رپورٹرز‘‘ کی اہمیت جہاں یقینی طور پر سلیم شدہ ہے ۔ وہاں پرنٹ میڈیا کے ’’ کالم نگا ر ‘‘ اور آن لائن میڈیا کے ’’بلاگر ز‘‘ کا وجود بھی مسلّمہ ہے ۔ ’’کالم نویس ‘‘ ایک طرح سے ’’تجزیہ نویس ‘‘ ہوتا ہے جو مسائل ، سماجی مسائل اور جرائم کے واقعات کے ساتھ ساتھ سیاسی اتار چڑھاؤ پر فیصلہ کن انداز میں تجزیاتی بحث کرتے ہوئے نتائج پیش کرتا ہے اور آئندہ کے ’’لائحہ عمل‘‘ بارے مثبت رائے زنی کرتا ہے ۔ جس کو فالو کرتے ہوئے اہل سیاست ، بیورو کریسی ، عدلیہ ، مقننہ اور ملٹری، قانون کے نفاذ اور مستقبل قریب و بعید کیلئے اپنی راہیں متعین کرتی ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ’’ کالم نویس‘‘ریاست بلکہ پوری دنیا کا سسٹم سیدھا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ کیونکہ عوام اور شہریوں کی سمت کے تعین میں بھی ’’ کالم نویس ‘‘ کی اہمیت سے انکار نا ممکن ہے ۔ یہاں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ بندہ پرنٹ اور آن لائن میڈیا میں کالم اور بلاگز لکھتا ہے اور وقتاً فوقتاً عالمی نشریاتی اداروں ’’ وائس آف امریکہ ‘‘ وغیرہ میں بھی عالمی موضوعات پر براہ راست تجزیات بھی پیش کرچکا ہے ۔

گزشتہ دنوں راقم الحروف جب اپنے گھر کے کچھ ارکان کے ہمراہ جام پور ہسپتال جارہا تھا تو حدود تھانہ سٹی جام پور بمقام مانکہ ڈرین چار مسلح غنڈوں نے ’’ راقم ‘‘ کو ٹارچر اور تھریٹ کیا۔ مزاحمت پر اور راہگیروں کو آتے دیکھ کر مسلح حملہ آور فرار ہو جانے میں کامیاب ہو گئے ۔ جب حملہ آوروں کیخلاف تھانہ سٹی جامپور میں درخواست دی گئی تو سٹی پولیس نے بااثر ملزمان کیخلاف کارروائی سے واضح انکار کر دیا ۔ بعد ازاں دو مرتبہ ڈی ایس پی جام پور کو درخواست گزاری تا کہ ملزمان کیخلاف مقدمہ کا اندراج ممکن ہو سکے تو تھانہ سٹی جام پور کی فرض شناس پولیس نے ڈی ایس پی کی طرف سے فاروڈ کی گئی درخواست بارے اظہار لا علمی کیا ۔ ساتھ ہی با اثر ملزمان کی فیور بھی کی اور درخواست سے دستبردار ہونے کیلئے راقم پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔حتیٰ کہ جب مذکورہ نا خوشگوار واقعہ کے ذمہ داران کے خلاف آر ۔ پی ۔ او ڈی جی خان کو درخواست بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک ارسال کی گئی تو سٹی پولیس نے وہ درخواست بھی ردی کی ٹوکری کی نذر کر دی ۔ اس تمام تر معاملہ بارے راقم نے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو بھی مطلع کر دیا ہے ۔ تا کہ با ضابطہ طور پر ذمہ داروں کیخلاف ایف آئی آر درج ہو سکے ۔

صحافتی حلقوں میں مصطفےٰ تالپور ، سلیم بزدار، اے دی سمینوی، اﷲ ورایو بزدارسینئر صحافی ( گھوٹکی) ، اسلم خان اچکزائی سینئر صحافی ( کوئٹہ ) ، اکرام عوان سینئر صحافی ( لاہور)، مجاہد بھٹی سینئر صحافی ( اسلام آباد )، سعید مزاری سینئر صحافی ( روجھان )و دیگران نے فون کالز کے ذریعے راقم کا دکھ بانٹا اور واقعہ کی مذمت کی ۔ اس طرح عابد بزدار ایڈووکیٹ ( ڈیرہ غازیخان)، حقنواز لغاری ایڈ ووکیٹ ( ڈیرہ غازیخان ) جیسے قانونی ماہرین کے علاوہ کا مریڈ عبدالکریم ڈمرہ ، خواجہ غلام فرید کوریجہ، مصطفےٰ لاشاری ( کشمور سندھ )سمیت متعدد سیاسی و سماجی شخصیات نے راقم پر حملہ کو آزادی اظہار پر قدغن قرار دیا اور جام پور پرلیس کے غیر ذمہ دارانہ اور ظالمانہ رویے پر بھی کھل کر تنقید کی۔ مذکورہ بالا ممتاز شخصیات نے کہا کہ عمران خان کے نئے پاکستان میں اگر فکر ،قلم اور شعور پر حملے ہوتے رہے تو یقینا پاکستان تحریک انصاف اپنی بنیادی اہمیت کھو دے گی۔ سیاسی و سماجی مبصرین اور کالم نگاروں نے بے لاگ تبصروں اور حکومتوں کی کرپشن پر مثبت اور زبر دست تنقید کر کے آج پاکستان کو دو جماعتی ریاست کی بجائے ’’ سہ جماعتی ریاست ‘‘ کے درجے پر لاکھڑا کیا۔ اس سے روشن مسقبل کے امکانات ہیں ۔ قبل ازیں پاکستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کا ہی بر سراقتدار رہنا حق مانا جاتا تھا۔ تمام تر پاپندیوں کے باوجود پاکستانی میڈیا اور دانشوروں نے اپنی تحاریرو تقاریر میں ملک میں تبدیلی کا پیغام عام آدمی تک پہنچایا ۔ عوام کی اس خواہش نے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ’ن‘ کو مسترد کر کے پی ٹی آئی کو حکمران جماعت کا مرتبہ عطا ء کر دیا ۔ یہ سب میڈیا ، میڈیا پرسنز ، لکھاری اور دانشور کا کمال ہے کہ خوف کے ماحول میں رہنے کے باوجود بھی اپنا فرض بطریق احسن ادا کیا ۔ اب ایسے میں اگر پاکستان تحریک انصاف کی بر سراقتدار پارٹی اداروں میں اصلاحات نہ لے آئی تو نتیجتاً مسقبل میں پاکستان تحریک انصاف نا م کا سیاسی جماعت ثابت ہوگی ۔ اس سے پہلے کالم اختتام پذیر ہو عرض ہے کہ اداروں میں اصلاحات کو ہمارے یہاں کس کسوٹی پر پر کھا جائے یا اس کو کیسے ڈیفائن کیا جائے ؟ ۔ اس ضمن میں آج کل یہ بحث زوروں پر ہے کہ پولیس میں سیاسی مداخلت بند ہونی چاہیے ۔ اس بارے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار خاصے سنجیدہ نظر آرہے ہیں ۔ یہ ایک اچھا قدم ہے کہ پولیس سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہو ۔ لیکن کیا کبھی اس جانب بھی توجہ دی گئی ہے کہ عوام اپنے سیاسی نمائندے کا کس لیے انتخاب کرتے ہیں ۔ ۔۔؟ وہ اس لیے کہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں ۔ جب تک ہمارا پولیس سسٹم پرانی ڈگر پر چلتا رہا تو پرلیس کا تشدد بھی جائز مانا جاتا رہے گا۔ جب پولیس کے ہر کارے شہریوں کی فریاد نہ سنیں گے تو عوام بے چارے ان سیاسی نمائندگان کے پاس جائیں گے ۔ بطور سیاسی نمائندہ ہمارا سیاستدان اس ناانصافی پر پولیس افسر کے خلاف ایکشن لے گا۔ جو راقم کے نزدیک درست عمل ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ جب یہ کیا جائے یا اس طرح کے اصول بنا دیئے جائیں کہ سیاستدان پولیس کے جبر پربھی بات نہ کریں تو یہ پرلے درجے کی بے وقوفانہ سوچ ہوگی ۔ اگر پولیس کے نظام میں اصلاحات لانے کا واقعی ہمارے حکمرانوں کا کوئی ارادہ ہے تو پلیز ایک مرتبہ پولیس کا پورا نظام تحلیل کرکے از سر نواس محکمے کا ڈھانچہ ترتیب دیا جائے ۔ جس کی تعلیم و تربیت میں موجود پولیس کا کوئی عنصر شامل ہی نہ ہو۔ ورنہ گھسی پٹی اور تعفن زدہ پولیس مقدمات کے اندراج میں لیت و لعل سے کام لیتی رہے گہ۔ ’’راقم ‘‘ کی درخواست پر کار روائی بھی محض اس وجہ سے تعطل کا شکار ہے ۔ آخر میں وزیر اعظم پاکستان عزت ماب عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب جو کہ’’ میرے قبیلے کے سردار بھی ہیں‘‘ کی خدمت میں عرض ہے کہ صحافی ، دانشور اور کالم نگار معاشرے کی آنکھ کا درجہ رکھتے ہیں ۔ جن سے آپ برے اور بھلے کو دیکھ اور پرکھ سکتے ہیں ۔
 

Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 51868 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.