اقبال کا مرد مومن

تحریر: مریم صدیقی
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
صدیوں بعد اس دنیا میں ایسے لوگ جنم لیتے ہیں جن کا نام ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتا ہے۔ جو خود تو دار فانی سے کوچ کرجاتے ہیں لیکن آنے والی نسلوں کے لیے علم و آگہی کی شمعیں فروزاں کر جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک نام بیسویں صدی کے شاعر، مصنف، قانون دان، مفکر، مصلح، سیاست دان اور تحریک پاکستان کی ایک اہم شخصیت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا ہے جوتاریخ میں سنہری حروف سے رقم ہے۔ علامہ اقبال سیالکوٹ میں 9 نومبر 1877ء شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ اقبال نے اردو اور فارسی میں شاعری کی۔ اپنی شاعری کو انہوں نے امت مسلمہ کی اصلاح کا ذریعہ بنایا۔

اقبالیات کو سمجھنے سے قبل ضروری ہے کہ ان کی ذات کو سمجھا جائے، ان کی شخصیت کو جانا جائے۔ اقبال بنیادی طور پر ایک سچے مسلمان تھے۔ ان کے سینے میں اسلام کی روح موجزن تھی لہذا انہوں نے اپنے فلسفیانہ تصورات کی بنیاد بھی اسلامی تصورات و تعلیمات پر رکھی اور کوئی ایسا نظریہ پیش نہیں کیا جو اسلام کی تعلیمات کے منافی ہو۔ آپ کے پیش کردہ فلسفیانہ نظریات امتیازی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان میں نظریہ خودی کو مرکزی و بنیادی مقام حاصل ہے۔ آپ کی ہر بات کسی نہ کسی طور’’ تصور خودی‘‘ سے ہی وابستہ معلوم ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں آپ خود کہتے ہیں، ’’کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں‘‘۔
اقبالیات میں تصور خودی اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اس کے کسی بھی پہلو کا جائزہ لیتے وقت اس کا ذکر ناگزیر ہوجاتا ہے اور فلسفہ اقبال اس کے بغیر نامکمل معلوم ہوتا ہے۔ اگر اقبال کے فلسفہ خودی کو سمجھ لیا جائے تو ان کی شاعری سمجھنا آسان ہوجائے گی۔ اقبالیات کے ہر نقاد نے کسی نہ کسی طور خودی پر اظہار خیال کیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں،
خودی کیا ہے رازدردن حیات
خودی کیا ہے بیداری کائنات

اقبال کی نظر میں خودی غرور و تکبر،خود پرستی اور شان بے نیازی نہیں جیسا کہ خودی کا مطلب فارسی میں عام ہے بلکہ اقبال کے نزدیک خودی خود شناسی، خود آگاہی اور اپنی ہستی کے عرفان کا نام ہے۔ اقبال نے خودی کو غرور کے بجائے عز و شان کا درجہ دیا۔ جب انسان خود شناسی کے مقام سے گزرتا ہے تو اس کے سینے میں علم و آگہی کی شمعیں روشن ہوجاتی ہیں، وہ تزکیہ نفس کرتا ہے، اپنے مقصد حیات پر غورو خوض کرتا ہے اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔ جب وہ ان جملہ مراحل سے آگاہی حاصل کرلیتا ہے تو حقیقتاً نیابت الہی کا حق ادا کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور ایسے ہی شخص کو اقبال نے اپنے کلام میں جابجا مرد خدا، مرد کامل،مرد مسلماں، مرد حر، مرد قلندر اور مرد مومن کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ جو دراصل خودی کو اپنا کر اور اس کی تکمیل کرکے یہ درجہ پاتا ہے جس کا ذکر اقبال نے یوں کیا،
نقطہ ہرکار حق مرد خدا کا یقین
اور عالم تم، وہم و طلسم و مجاز
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب ادراک نہیں
ہاتھ ہے اﷲ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا، کارساز
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

اپنے اسی مرد مومن کے اوصاف وہ امت مسلمہ کے ہر نوجوان میں دیکھنے کے خواہاں تھے۔ انہی اوصاف کے ذریعے محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا اور صلاح الدین ایوبی نے فلسطین پر حکومت کی۔ یہی اوصاف اقبال اپنے شاہینوں میں دیکھنے کے خواہش مند تھے کہ وہ ایک بار پھر متحد ہوکر اٹھیں اور کفر کے ایوانوں پر قہر بن کر اتریں۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

یہی پیغام اقبال ہے جو انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کو دیا اور بتلایا کہ ہمارا وجود تب تک قائم ہے جب تک ہم اپنے مذہب سے جڑے ہیں جب تک ہم تعلیمات اسلامی پر کاربند ہیں۔ جب تک ہم متحد ہیں۔

آج ایک بار پھر ہم اسی دہانے پر کھڑے ہیں جہاں ہم ایک قوم نہیں بلکہ رنگ، نسل، زبان اور فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔ آج پھر اس امر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہماری صفوں میں سے کوئی اقبال آگے آئے اور ہمیں جھنجھوڑ کر خواب غفلت سے بیدار کرے۔ ہمیں پھر سے اتحاد کا درس دے اور ہماری عظمت رفتہ ہمیں لوٹادے۔
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1143578 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.