قدرت نے جب کسی شخص سے کوئی کام لینا ہوتا ہے تو ان
راستوں کا تعین بھی خود بخود ہوجاتا ہے جن پر چلتے ہوئے کامیابی و کامرانی
سے ہمکنار ہوا جاسکتا ہے ۔ تاریخ عالم میں جن شخصیات نے علم و فن اور ہنر
میں دنیا سے اپنا لوہا منوایا ۔قدرت نے ان کو مسائل ٗ پریشانیوں اور مشکلات
کی بھٹیوں سے گزار کر اس مقام پر لاکھڑ ا کیا کہ اب دنیا ان کے ذکر کے بغیر
نامکمل دکھائی دیتی ہے ۔اگر مصوری ٗ خطاطی اور گرافک ڈائزیننگ کی تاریخ پر
نظر ڈالی جائے تو کانسٹیبل ٗ ٹرنر ٗ مانے ٗ مونے ٗ کار بے ٗ رینوار ٗ پساور
ٗ ڈیگاس ٗ لیونا رڈو ڈاونشی ٗمائیکل اینجلو ٗ ریمبران ٗ پیبلو پکاسو ٗ
سیزان اور وین گاگ کے اسمائے گرامی تاریخ کے اوراق پر سنہری لفظوں میں لکھے
دکھائی دیتے ہیں ان میں سے بیشتر ناموں سے تو عام آدمی آگاہ نہیں ہے لیکن
جب ان کی بنائی ہوئی پینٹنگ یا تصویریں نظر آتی ہیں تو ہر شخص بغیر دیکھے
اور بلا جانے ان کے فن اور شخصیت کی پراسراریت میں کھو جاتا ہے کہ وہ لوگ
کیسے ہوں گے اور انہیں اس مقام تک پہنچنے کے لئے کن کن پر آشوب اور پر خار
راستوں سے گزر نا پڑا ہوگا ۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ علم ٗ فن اور مہارت کسی
کی میراث نہیں اور نہ ہی انہیں سرحدوں میں قید کیا جاسکتا ہے یہ اﷲ تعالی
کا خاص وصف ہے جسے وہ چاہتا ہے نواز دیتا ہے بلکہ نوازتا ہی چلا جاتا ہے ۔
صادقین ٗ اسلم کمال ٗ گل جی ٗ محمد حنیف رامے ٗ شاکر علی ٗ احمد حسین سہیل
رقم ٗ عبدالمجید پروین رقم ٗ سید انور حسین نفیس رقم ٗ یوسف سدیدی ٗ امام
ویروی ٗ تاج الدین زریں رقم ٗ الماس رقم ٗ عبدالواحد نادر القلم ٗمنور نادر
القلم ٗ ریحان منور ٗ اسما ء نیر ٗ صوفی خورشید عالم گوہر قلم ٗ نثار احمد
ٗ خالد یوسفی ٗ رشید بٹ ٗ شفیق الزماں ٗ محمد علی زاہد ٗ محمد یوسف نگینہ ٗ
ثریا حسن ٗ شبانہ سلیم ٗ عالیہ امتیاز ٗ طارق جاوید ٗ محمد حسین شاہ ٗ
سردار محمد ٗ ظہور ناظم ٗ رانا ریاض ٗ ذوالفقار تابش ٗ شفیق فاروقی ٗ سلیم
الزماں صدیقی ٗ ظل ہما ٗ ایم نسیم شہزا د ٗ غلام فرید بھٹی ٗ زرینہ خورشید
ٗ کاشر ٗ انور جلال شمزہ ٗ زوارحسین ٗ شبنم انور دل ٗ بشیر موجدٗ پروفیسر
عسکری میاں ایرانی ٗ پروفیسر احمد خاں ٗ آفتاب احمد ٗ غضنفر علی رانا ٗ نور
محمد جرال ٗ ذاکر حسین ٗ اسلم شیخ ٗ عظیم اقبال ٗ محمد منیر مانی ٗ ندیم
خاں ٗ محبوب علی ٗ شاہد عالم ٗ جمیل نقش ٗ محمد ارشد کمال ٗ وجیہ لحﷲ ٗ
عمران ٗ ظہیر الدین ظہیر ٗ شاہنواز ٗعبدالحمید ٗ جاوید اقبال پوتا پروین
رقم ٗ ظفر اقبال خاں ٗ ڈاکٹر سمانا ڈی شان ٗ سہیلہ بخاری ٗ ڈاکٹر احمدمصطفے
ٗ گلزار احمد ٗ بھولا جاوید ٗ اصغر علی ٗ کرنل قاسم ٗ اظہر قلمکار ٗ
عبدالرؤف ٗ نصیر احمد ٗ ایم جلال ٗ ایم جمیل ٗ عبدالطیف سہو ٗ پروفیسر سعید
اختر ٗ پروفیسر حسن شاہنواز زیدی ٗ پروفیسر اقبال احمد ٗ پروفیسر میاں
اعجاز الحسن ٗ ناصر حق اور سعید احمد بودلہ ان تمام شخصیات نے مصوری ٗ
خطاطی ٗ خوشنویسی ٗ جیسے فنی مہارت سے آراستہ شعبوں میں اپنی اپنی صوابدید
اور دائرہ کار میں رہتے ہوئے بہت نام کمایا اور نہ صرف پاکستان بلکہ
پاکستان سے باہر بھی اپنے فن کا لوہا منوایا ۔ آج اگر فن خطاطی ٗمصوری اور
خوشنویسی بام عروج پر پہنچ چکی ہے اور فنی باریکیوں اور مہارتوں سے آراستہ
پینٹنگز جابجا آویزاں دکھائی دیتی ہیں تو آزادی کے بعد 63 سالوں میں طے
ہونے والا عظیم سفر کا یہ تسلسل ہے جو پوری رعنائی اور خوبصورتی سے آج
ہمارے سامنے ہے ۔
ان پاکستانی عظیم مصوروں میں ایک معتبرنام جناب سعید احمد بودلہ کاہے ۔جو
متحرک اور پاکیزہ قدروں کے ترجمان مصور ٗ ماہر خطاط اور گرافک ڈائزئینر بھی
ہیں۔بظاہر تو یہ نام زیادہ معروف دکھائی نہیں دیتا لیکن بطور خاص اسلامی ٗ
قرآنک خطاطی اور گرافک ڈائزیننگ میں ان کا کام دیکھ کر یہ بات وثوق سے کہی
جا سکتی ہے کہ ان کے ذکر کے بغیر مصوری ٗ خطاطی اور گرافک ڈائزیننگ کی
تاریخ مکمل نہیں قرار دی جا سکتی ۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ اس شعبے میں دنیا کے بے شمار ماہر فن نے طبع
آزمائی کی۔ کسی نے بت پرستی میں نام کمایا ٗکسی نے لکیروں کو انسانی صورت
اور تخیل دے کر کارٹون بنا ڈالے تو کوئی خوبصورت خواتین کی تصویریں بنانے
میں ایسا مگن ہوا کہ زندگی اسی پر نچھاور کردی ۔ لیکن جناب سعید احمد بودلہ
کو جو بات ان تمام شخصیات سے بالاتر اور ممتاز کرتی ہے وہ اسلامی اور قرآنی
خطاطی ہے اس کے باوجود کہ وہ اپنی تخلیقات کے اعتبار سے مصوری ٗ خطاطی اور
ڈائزیننگ کے ہر شعبے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں لیکن والدگرامی سے کئے گئے
وعدے کو نبھانے کے لئے آپ نے خود کو صرف قرآنک گیلی گرافی اور مصوری کے لئے
ہی وقف کررکھا ہے ۔ جناب سعید احمد بودلہ نے چھٹی جماعت میں جب ڈرائنگ کے
مضمون کا انتخاب کیا تو ان کے والد جناب میاں غلام احمد بودلہ( جو خالصتا
مذہبی شخصیت کے حامل انسان تھے) انہوں نے اپنے بیٹے کو ڈرائنگ پڑھنے اور
سیکھنے سے یہ کہتے ہوئے سختی سے منع کردیا کہ روز قیامت ان طوطے ٗ چڑیوں
اور انسانی اشکال میں جان ڈال کون ڈالے گا ؟ ۔
والدگرامی نے نصیحت آمیز لہجے میں بیٹے سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اس فضول
مضمون( ڈرائینگ) سے کنارہ کشی اختیارکرلو اور اس کی جگہ وزیر وں ٗ امیروں
اور روسا ء کا علم فارسی پڑھو جو تمہارے اخلاق ٗ ذہن اور شخصیت کی تعمیر
میں معاونت کرے گا ۔
اس حوالے سے مزید داستان خود جناب سعید احمد بودلہ سناتے ہیں ۔ "والد گرامی
کے حکم پرمیں نے فارسی کا مضمون تو اختیار کرلیا لیکن میرے اندر کا
مصورسکول کے ڈرائنگ روم ہی اٹکا رہا دیگر ساتھیوں کو رنگوں سے کھیلتے ہوئے
دیکھتا تو اور بے قابو ہو جاتا ۔نوماہی امتحان تک فارسی کا مضمون ہی زیر
مطالعہ رہا اور کسی حد پاس مارکس حاصل کرلئے ۔ والدگرامی نے پراگریس رپورٹ
پر دستخط کرتے ہوئے مزید دل لگا کر پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ ایک دن ابا جان
اچھے موڈ میں تھے موقع غنیمت جانتے ہوئے میں نے ان کی خدمت میں گزارش کی
۔کہ اگر آپ مجھے اجازت دے دیں تو میں وعدہ کرتا چلوں کہ زندگی بھر جاندار
اشیاکی شکلیں اور تصویریں نہیں بناؤں گا۔ چنانچہ میرے اس وعدے پر وہ رضا
مندہوگئے۔ پھر جب میں ڈرائینگ پڑھنے کے لئے متعلقہ کلاس روم میں جا بیٹھا
تو ڈرائینگ ماسٹر محمد اشرف ( جو میو اسکول آف آرٹس ٗ موجودہ نیشنل کالج آف
آرٹس سے کوالیفائیڈ مصور اور ماہر خطاط تھے )بیت کا ڈنڈا تھامے اتنی عجلت
میں میری طرف لپکے کہ اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے گرنے سے بال بال بچے ۔میرے
پاس پہنچتے ہی یوں گویا ہوئے ۔ اوئے جانور ;
( جو ان کا تکیہ کلام تھا ) توکہاں سے آن وارد ہوا ؟ یہ سنتے ہی میں مودب
کھڑا ہوگیا اور کہا جی میں بھی ڈرائینگ پڑھوں گا ;
بس انہوں نے یہ سننا تھا کہ سیخ پا ہوگئے اور بیت کا ڈنڈا لہر اکر کہنے لگے
میں بھی ڈرائینگ پڑھوں گا کبھی اپنا چھ چار کا تھوبڑا دیکھا ہے ؟ مصور بننا
کوئی نتھو پھتوؤں کا کام نہیں ۔ تین ماہ بعد سالانہ امتحان ہے تم کیا خاک
پڑھو اور گھٹا سیکھو گے ۔
میں نے قدرے دھیمے لہجے مگر جرا ت سے کہا جی آپ میرا ٹیسٹ لے لیں اور یہ
ماڈل ڈرائینگ جو یہاں سیٹ کی ہوئی پڑی ہے اسے میں اپنے گھر میں بیسیوؤں
مرتبہ بنا چکا ہوں ۔ آپ کہیں تو کل لیتا آؤں ۔ اس پر وہ بولے بس بس زیادہ
بحث کی ضرورت نہیں ۔ کیا نام ہے تیرے اباکا ۔ اس سے تو میں خود بات کروں گا
۔ اس پر میں نے کہا میرے والد کا نام میاں غلام احمد بودلہ ہے ۔والد کا نام
سنتے ہی ان کے چہرے پر شگفتگی عود کر آئی ۔ اوے جانور کیا تم میاں صاحب کے
بیٹے ہو وہ تو نہایت شریف النفس ٗ دیندار پرہیزگار اور شہر کی مشہور اور
مخیر شخصیت ہیں ۔ والد کا نام سنتے ہی ان کا لہجہ مشفقانہ ہوگیا۔ فرمانے
لگے باتیں بعد میں ہوں گی چلو تم اس ماڈل کی ڈرائینگ تو ذرا بناؤ ۔ یہ کہتے
ہی وہ دوسرے بچوں کی ڈرائینگز چیک کرنے لگے ۔ میں نے بسم اﷲ پڑھ کر آغاز
کردیا اور سکیچ بک کھولتے ہی اس پر ایک افقی لائن ڈرا کرتے ہی بائیں آنکھ
موند کر دائیاں پنسل زدہ ہاتھ بڑھا کر کئی دفعہ تناسب چیک کرکے اسٹل لائف
بنانا شروع کی ۔ میرے ساتھ دائیں بائیں بیٹھے ہوئے بچے مجھے دیکھ کر مسکر ا
رہے تھے۔ماسٹر صاحب خود بھی ایک دو مرتبہ مجھے کام کرتا ہوا دیکھنے کے لئے
آئے مگر کوئی تاثر دیئے بغیر لوٹ گئے جس پر میں بہت سہم گیا کہ شاید
ڈرائینگ غلط بن رہی ہے۔میں نے اپنی تمام تر صلاحتیں اور توجہ مرکوز کرتے
ہوئے تما م اینگلز ٗ فروٹس ٗ چینک اور پرچ پیالی حتی کہ اسٹول اور اس کے
ساتھ لٹکتا ہوا موٹا کپڑا بھی بنا ڈالا ۔ پھر تمام زاویے اور فگرز کو ایک
شے کی مقرر کی ہوئی اکائی کے ساتھ موازنہ کیا۔ رنگین پنسلوں سے لائٹ اینڈ
شیڈ کا خیال رکھتے ہوئے آہستگی اور کبھی ہاتھ پر ذرا دباؤ ڈالتے ہوئے رنگ
بھرنا شروع کیا۔
ماسٹر محمد اشرف آدھ گھنٹہ بعد میرے پاس آئے میری اسٹل لائف ڈرائینگ مکمل
ہوتی دیکھ کر واہ واہ ٗ بہت خوب ۔ انہوں نے میری ڈرائینگ کی کاپی اٹھا کر
کلاس کے دوسرے بچوں کو دکھائی اور کہا اسے کہتے ہیں ڈرائینگ..... اور یہ
ہوتی ہے اسٹل لائف ....... جو ہر لحاظ سے بالکل ایکوریٹ ہے ۔اس کے زاویے ٗ
ریشو ٗ فگرز ٗ ڈریپری اور لائٹ اینڈ شیڈ سب ہی تو درست ہیں۔ او جانورو تم
بھی کچھ شرم کرو ۔ تمہاری پچیس تیس لڑکوں کی کلاس میں جو پانچ چھ بچے قابل
ہیں یہ ان سے بھی دو قدم آگے ہے ۔ "
ڈرائینگ ماسٹر محمد اشرف کے یہ الفاظ ہی سعید احمد بودلہ کو فن مصوری اور
خطاطی میں ممتاز اور بلند مقام حاصل کرنے میں نہ صرف مدد گار ثابت ہوئے
بلکہ ان کٹھن راہوں پر چلنے کے لئے ثابت قدم بھی رکھا۔یہاں یہ بھی عرض کرتا
چلوں کہ سعید احمد بودلہ قریشی النسب اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی اولاد میں
سے ہیں بہ عہد جلال الدین اکبر ٗ ان کے جد امجد حضرت شیخ شہاب الملک ؒ کو
اس وقت کے ایک ولی کامل حضرت محمد عراق عمجی ؒ کی خدمت و تربیت میں رہتے
ہوئے ایک خطاب " بوئے دل" ملا جو علاقہ کی مناسبت اور وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ " بودلہ" کے القاب میں تبدیل ہوگیا - سعید احمد بودلہ 5 جنوری 1944 کو
ہندوستان کے ضلع فیروز پور کی تحصیل فاضلکا کے ایک گاؤں " ہستہ کلاں " میں
پیدا ہوئے ۔آپ کے والد میاں غلام احمد بودلہ نیک سیرت اور باوقار انسان تھے
۔ قیام پاکستان کے بعد آپ اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کرکے ضلع ساہیوال کی سب
تحصیل "عارف والا " میں آباد ہوگئے ۔آپ نے ابتدائی تعلیم ٹاؤن کمیٹی ہائی
سکول عارف والا سے حاصل کی۔بعد ازاں ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج ساہیوال
سے پاس کیا ۔1980 میں آپ کا خاندان عارف والا کو خیر باد کہہ کر ضلع
شیخوپورہ کے نواحی گاؤں " ملیاں کلاں "میں آ بسا۔ بعد ازاں آپ نے مصورانہ
تعلیم حاصل کرنے کے لئے پنجاب یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف فائن آرٹس میں
داخلہ لے لیا ۔جہاں آپ کو نامور اور نابغہ عصر اساتذہ فن مصوری جن میں مادر
پاکستانی مصوراں پروفیسر مسز اینا مولکا احمد ( پرائیڈ آف پرفارمنس )
پروفیسر مسز انور افضل ٗ پروفیسر ذوالقرنین حیدر ٗ پروفیسر ڈاکٹر خالد
محمود مکی ٗ پروفیسر سید حسن شاہنواز زیدی ٗ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز انور ننھا
ٗ پروفیسر سہیل ولی ٗ پروفیسر ولی اﷲ خاں ٗ پروفیسر آف انگلش سید محمد
یامین ٗ پروفیسر ڈاکٹر غلام رسول ٗ پروفیسر میڈم ذکیہ مالک شیخ ٗ پروفیسر
مسز زبیدہ جاوید ٗ پروفیسر مسز قدسیہ نثار ٗ پروفیسر آف فوٹو گرافی اختر
ظہیر الدین ٗ پروفیسر آف پرنٹنگ منیر ٗ استاد منی ایچر پینٹنگ حاجی محمد
شریف ( پرائیڈ آف پرفارمنس ) اور استاد کیلی گرافی احمد حسین سہیل رقم سے
فنی باریکیاں اور فنی مہارتیں سیکھنے کا موقع میسر آیا ۔
یہ بات جناب سعید احمد بودلہ کے حق میں جاتی ہے کہ انہوں نے فن مصوری اور
فن خطاطی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اپنے عظیم والد کے ساتھ کئے گئے وعدے
کا نہ صرف بھرم قائم رکھا بلکہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اسلامی منی ایچر
اور قرآنی خطاطی کی ترویج و تدوین کے لئے وقف کردیا ۔
جناب سعید احمد بودلہ نے اسماء ربانی کو 63 اورینٹل خطوط میں 22 میڈیا کے
ساتھ ایسے مصورانہ حسن و رنگ سے نوازا کہ رب کریم کے اسما ء مبارک ناظر سے
ہم کلام ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو ناظر کو نیک راہوں کی نشاندہی اور ان
پر نیک نیتی سے عمل پیرا ہونے کا درس دیتے ہیں ۔سورہ المزمل اور سورہ القلم
کی عربی عبارت ٗ پس منظر ٗ ترجمہ اور طرزخطاطی پر ہونے والا کام بھی کسی
اعزاز سے کم نہیں ہے ۔
جناب سعید احمد بودلہ نے قرآنی خطاطیوں میں جن 63 خطوط و شاخ الخطوط کا
استعمال کیا ۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے -:
خط جزم ( ترمیم شدہ ) خط مغربی قیروانی ٗ خط حیری ٗ خط مشق ٗ خط کوفی ٗ خط
طغرا ٗ خط کوفی مرصع ٗ خط دیوانی ٗ خط اقیلدسی کوفی ٗ خط غبار ٗ خط بولڈ
ویسٹرن کوفی ٗ خط گلزار ( شکستہ )خط ثلث ( ابن مقلہ ) ٗ خط طومار ٗ خط نسخ
( ابن مقلہ) ٗ خط بہار ٗخط محقق ( ابن مقلہ) ٗ خط سنی ٗ خط ریحانی ( ابن
مقلہ) خط مائیل ( ترمیم شدہ) خط توقعی جدید ( ابن مقلہ) ٗ خط معکوس ٗ خط
رقعا جدید ( ابن مقلہ ) ٗ خط سنبلی و حرف النار ٗ خط نستعلیق ٗ خط زلف عروس
ٗ خط شکستہ ٗ خط جلیل ٗ خط مغربی بولڈ ٗ خط نصف ٗ خط ماڈرن مغربی فاسی ٗ خط
ناخن ٗ خط مغربی سوڈانی ٗ خط بابری ٗ خط مغربی اندلیسین ٗ خط ماہی ٗ خط ثلث
مملوک ترمیم شدہ ٗ خط شفیعہ ٗ خط نسخی قدیم ترمیم شدہ ٗ خط سکیئر کوفی مرصع
(جالی کوفی) ٗ خط نسخی ترمیم شدہ ٗ خط حبل ( شکستہ ) ٗ خط مرصع انڈین نسخی
قدیم ٗ خط بودلہ مشترکہ ٗ خط محقق قدیم ٗ خط دیوانی ترمیم شدہ ٗ خط لارج
محقق جدید ٗ خط کوفی جدید ٗ خط محقق لارج ٗ خط کوفی ترمیم شدہ ٗ خط شکستہ
جدید ٗ خط نیم کوفی جدید ٗ خط شکستہ ترمیم شدہ ٗ خط کوفی مرصع جدید ٗ خط
شکستہ ماڈرن ٗ خط کوفی مرصع ترمیم شدہ ٗ خط شکستہ موڈی فائی ٗ خط ثلث جدید
ٗ خط ریحانی ترمیم شدہ ٗ خط ثلث ترمیم شدہ ٗ خط توقعی ترمیم شدہ ٗ خط لارج
ثلث ترمیم شدہ ٗ خط ثلث مملوک ۔
اسی طرح جناب سعید احمد بودلہ نے کیلی گرافک قرآنک بطور خاص اسما الحسنی کی
پینٹنگ میں 22 عدد آرٹسٹک ٹیکنیکس استعمال کیں ۔تفصیل درج ذیل ہے ۔
Poster Colour+ water Colour, Oil Colour on paper, Powder ( Tempra)
colours,Wax Crayons, Pen and ink( croockle Holder),Petrol markers, Fiber
tipped markers, Staedtler liner( various Nos.), Lead and coloured
pencils, Spray paints, Spray Brushing, Ball point pencils, Blow and
marbling, Lino cutting, Mughald miniature,Scraper Art, Stenciling,
Engraving, Nail Scratching, Spreading, Palette knives( technique) and
Finger using in oil colours.
جہاں تک اسلامی خطاطی کی ابتدا اور پس منظر کا تعلق ہے ۔ رسول اﷲ ﷺ کا
فرمان ہے کہ " سب سے پہلے رب جلیل نے قلم کو پیدا کیا پھر اسے لکھنے کاحکم
دیا -"قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے " پڑھ کہ تیرا رب بڑا کریم ہے جس
نے قلم کے ذریعے تجھے سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جس کا اسے علم نہ
تھا ۔" گویا خود خالق کائنات نے اشاعت علم کی وضاحت فرمائی ۔ تاریخ کے
ابتدائی ادوار میں تحریر کی مختلف اشکال تھیں ابتدا میں طرز تحریر تصوراتی
ہوا کرتا تھا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالی کا عطا کردہ جمالیاتی
ذوق تحریروں میں ڈھلتا اور خوبصورتی پیدا کرتا چلا گیا ۔نبی کریم ﷺ کی
مختلف حدیثیں بھی خطاطی کی اہمیت اور وقعت کو اجاگر کرتی ہیں۔ تحریروں کی
خوبصورتی کو رسول کریم ﷺ نے بہت اہمیت دی ۔ ایک حدیث نبوی ﷺ ہے کہ خدا حسین
ہے اور حسین چیزوں کو پسند فرماتا ہے ۔سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام
کو خطاطی کا فن عطا ہوا وہ دنیا کے پہلے خطاط تھے جنہوں نے سب سے پہلے قلم
سے لکھا بعض مورخیں حضرت اسمعیل علیہ السلام کا نام لیتے ہیں اس سے یہ
بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فن خوشنویسی انبیاء اور رسولوں سے ہمیں
ورثہ میں ملا اور یہ فن خطاطی ازل سے وجود میں آیا ۔فن تحریر بلاشبہ تاریخ
کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس نے صرف معلوم شدہ تہذیبوں کے نقوش معاملات ٗ
فنون لطیفہ اور تاریخ تمدن کو ہی محفوظ نہیں کیابلکہ کھوئی ہوئی تہذیبوں کی
دریافت میں بھی مرکزی کردار ادا کرکے انسانی تحریر کے شعور کو تمام علوم و
فنون میں افضلیت کا درجہ دلایا ۔
فن تحریر ایک ایسا فن ہے جس نے مردہ زبانوں اور تہذیبوں وقوموں کو از سر نو
زندہ کرکے اپنی حیثیت منوائی ۔ سب علوم اسی فن کے مرہون منت ہیں ۔مصوری اور
خطاطی کو متعارف کروانے والے جن خطوط میں جناب سعید احمد بودلہ اپنی اسلامی
اور قرآنک خطاطی اور مصوری میں کرچکے ہیں ۔یہ خط کیسے متعارف ہوئے کن قوموں
اور تہذیبوں نے انہیں تحریر اور مصوری کا ذریعہ بنایا یہ داستان بھی عام
قاری کے لئے دلچسپی سے کم نہیں ہے بلکہ بودلہ صاحب کے ہاتھ سے بنی ہوئی
تصویروں اور پینٹنگ کو دیکھ کر قاری اور ناظر کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کس
قدر جان جوکھوں کا کام ہے۔ تصویروں اور پینٹنگ کو چند ہزار روپے میں خرید
لینا کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی یہ رقم ہاتھ کی بنائی ہوئی کسی پینٹنگ
کی قیمت قرار پا سکتی ہے۔ان رسم لخطوط میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا
جارہا ہے ۔
سب سے پہلے تصویری رسم الخط رواج پایا یہ رسم الخط کسی ایک تہذیبی خطے تک
محدود نہیں رہا مثلا مصر کا ہیرو غلیفی اور ہرا طیقی ۔ وادی دجلہ و فرات کا
خط سومیری بابلیوں کا خط اکادی اور ایشیائے کوچک میں خط حطی یہ سب تصویری
خطوط تھے ۔ مصریوں نے تاریخ میں پہلی بار ایک خاص درخت (Papyrus)سے کاغذ یا
کاغذ نما اشیا ایجاد کرکے اپنے رسم الخط میں تجربات اور ارتقا کی منازل طے
کیں اور آخر میں دیموطیقی خط نے جنم لیا یہ بھی مصری اور تصویری خط تھا ۔
حروف تہجی کی ایجاد کا سہرا قدیم قینقیوں کے سر ہے جو سامی النسل ہونے کے
ناطے سامی زبان کے موجد تھے۔سومیری تہذیب کا رسم الخط وادی دجلہ و فرات سے
تعلق رکھتا ہے بعد ازاں سومیریوں نے اپنا رسم الخط ایجاد کرلیا جسے خط میخی
کہا جاتا ہے ۔خط نبطی ایجاد کرنے والوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قوم شامل تھی جب نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت
فرمایا تو اس وقت علاقہ حجاز میں فن تحریر کا آغاز ہوچکا تھا جسے آج ہم خط
کوفی قدیم خط حیرہ یا حمیری اور انباری کہتے ہیں خط نبطی ہی کی ترقی پسند
قسمیں ہیں اسے شمالی عربی رسم الخط بھی کہاجاتاتھا ۔نبی کریم ﷺ کے دور میں
آپ ﷺ کے نامہ ہائے مبارک جو سلاطین کو خطوط لکھوائے گئے وہ خط حیری یا
حمیری میں ہی لکھے گئے تھے ۔حضرت علی ؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓ خط کوفی میں
مہارت رکھتے تھے ۔قرآن پاک کو خوبصورت سے خوبصورت ترین لکھنے کے شوق نے اس
خط میں مزید نکھار اور جدت پیدا کردی خط کوفی صدیوں کے ارتقائی عمل کا
نتیجہ ہے ۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ اﷲ تبارک و تعالی کے اسما مبارکہ میں ایک نام
المصور بھی ہے جس نے کائنات کو بہت حسین و جمیل اور رنگین تخلیق کیا ۔زمین
و آسمان کے درمیان ہر چیز میں اپنا نور بھر دیا اور روشنی پھیلائی اپنی
تخلیق میں خوبصورتی و رنگینی پیدا کرنے کے لئے خوبصورت و رنگدار چیزوں سے
خوب سجایا۔ رنگوں کی بھی ایک خاموش زبان ہوتی ہے ایک حساس ذہن کامالک انسان
ان کی زبان کو سمجھتا ہے ۔رنگوں کا اثر انسانی زندگی کو بہت متاثر کرتا ہے
بنی نوع انسان کے علاوہ چرند و پرند اور حیوانات بھی ان میں سے مانوس و
محظوظ ہوتے ہیں۔مریضوں پر رنگوں کے اثرکے تجربات بھی کئے گئے جو اپنے جذبات
و احساسات کا اظہار کرتے ہوئے تندرست ہوگئے ۔رنگوں پر تحقیق کرنے والے
سائنس دان بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ ماحول
کی پراسراریت اور رنگوں کا حسن و جمال خواب کی حالت میں بھی انسان پر اثر
انداز ہوتا ہے اچھے خواب دیکھنے کے لئے بیڈ روم میں معیاری اور دیدہ زیب
رنگوں کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ سرخ اور سیاہ رنگ ڈارؤنے خواب کا محرک
بنتے ہیں ۔چنانچہ سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ رنگوں کے انتخاب سے نہ صرف
انسانی ذہن کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ رنگ ہمیں ذہنی سکون ٗ تمازت ٗ بھوک ٗ
ٹھنڈک ٗ تھرتھراہٹ ٗ مسرت و شادمانی ٗ تسکین و تازگی ٗ طاقت و توانائی ٗ
سکون و سنجیدگی اور احتیاط برتنے کا احساس دلاتے ہیں ۔رنگوں کے مشاہدے سے
جذباتی ردعمل کم یا زیادہ بھی ہوجاتا ہے اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ
انہی رنگوں کی زبان سے فنکار ٗ مصور اور خطاط اپنے اپنے جذبات و احساسات
اور پیغامات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔مثلا سرخ رنگ شیطانی وسوسے ٗ جہنم و
عذاب ٗ آسیبی کیفیت ٗ گناہ و نفسانی خواہشات اور انسانی کمزوریوں کو واضح
کرتا ہے سرخ رنگ کے لباس میں کبھی فرشتوں کو پینٹ نہیں کیاجاتابلکہ سفید
لباس میں دکھایاجاتا ہے ۔سرخ رنگ دماغ کی تیزی ٗ نبض کی حرکت ٗ بھوک کو
تحریک بھی پہنچاتا ہے اس کے برعکس سبز رنگ سکون و آرام ٗ تسکین و تازگی ٗ
حوصلہ طمانیت کا احساس دلاتا ہے ۔اسی طرح نیلا رنگ مذہب کے اعتبار سے
الوہیت یعنی ربانیت ٗ رحمت خداوندی اور شفقت کا سائبان کا اظہار بنتا ہے ۔
عظیم مصور ٗ خطاط ٗ دانشور ٗادیب و شاعر اسلم کمال( پرائیڈ آف پرفارمنس ) ٗ
جناب سعید احمد بودلہ کی فنکارانہ کاوشوں کا تجزیاتی جائزہ لیتے ہوئے کہتے
ہیں کہ " میں سعید احمد بودلہ کو جانتا ہوں یہ احساس اتنا خوش کن ہے کہ
مجھے فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک نایاب انسان کو جانتا ہوں ایک سچے اور
مخلص انسان کا واقف کار ہوں ۔ یقینا خود غرضی اور نفسانفسی کے اس زمانے میں
وہ ایک نایاب شخص ہیں جو بے غرض اور بے لوث انسان ہیں میری نگاہ میں وہ ایک
استثنا کے مرتبے پر فائز ہیں ۔وہ جس محویت اور انہماک سے نماز پڑھتے ہیں
اسی محویت اور انہماک سے تخلیق فن میں بھی مستغرق دکھائی دیتے ہیں قیام و
سجود میں ہوں تو یوں لگتا ہے کہ حضوری کا یہی ایک لمحہ ان کی ساری زندگی پر
محیط ہے اسی طرح رنگ و خط کے تخلیقی مراحل میں بھی کسی عجلت میں دکھائی
نہیں دیتے ۔وہ اپنے نگار خانے میں ایزل پر کینوس کے سامنے منتظر مشتاق
دکھائی دیتے ہیں۔ جناب سعید احمد بودلہ نے جو مصورانہ خطاطی کے کینوس پینٹ
کئے ہیں ان کا فنکارانہ گنجان پن حیرت انگیز ہے آیات قرآنیہ کی طوالت کا
کینوس پر دراز ہوتا چلا جانا ہر ایک مرحلہ اور ہر ایک نیا رقبہ یوں لگتا ہے
جیسے بودلہ صاحب بحر تخلیق کو اپنے ساتھ ساتھ متموج اور متلاطم کرتا
چلاجاتا ہے۔ تخلیق فن کی ہر ایک منزل اور ہر ایک وادی میں فنکار کا یہی بے
پایاں ذوق و شوق اور غیر مختتم نشاط عمل وہ اصلی کلید ہے جو اس پر بالاخر
شہرت عام اور بقائے دوام کے دروازے کھول سکتی ہے۔قرآن حکیم کے رمز آشناؤں
کے بقول قرآنی حرف و صوت میں ایک حیرت انگیز الوہی وجود کا ارتعاش ہمہ وقت
سرسراتا ہے جسے قرآن کے حفاظ اور خطاط بہت واضح محسوس کرتے ہیں۔جناب اسلم
کمال مزید لکھتے ہیں کہ جناب سعید احمد بودلہ کا فن خطاطی قابل ستائش ہے
انہوں نے رنگوں سے وضو کرکے اپنے بے ساختہ خطوں سے کلام اﷲ کی تلاوت کی ہے
ایک ایسی تلاوت جس کے الفاظ کانوں میں نور انڈیلتے ہیں اور آنکھوں میں
سموات کی بیکرانیوں کا تقدس نقش کردیتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی
فرماتے ہیں کہ جناب سعید احمد بودلہ کی اسلامی خطاطی و مصوری کو دیکھ کر یہ
احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے حصول فن پر محنت کرنے کے علاوہ اس امر پر بھی
پوری توجہ دی ہے کہ فن کو بہترین مصرف میں مہیا کیاجائے ۔ ان کے نتائج
موقلم و قلم ان کے بطون میں کروٹیں لیتی ہوئی اسلامی امنگوں کی روشن
نشانیاں ہیں۔وہ ایک خاموش طبع منکسر المزاج اور درویش صفت انسان کی حیثیت
سے تو پہلے بھی نظر میں تھے ان کا فن دیکھ کر احساس ہوا کہ باطن ظاہر سے
بھی بڑھ کر عمیق سچا اور کھرا ہے ۔ ممتاز کارٹونسٹ جاوید اقبال ( پرائیڈ آف
پرفارمنس )کہتے ہیں کہ جناب سعید احمد بودلہ نے اسلامی خطاطی میں عام آدمی
کی دلچسپی کے لئے مصورانہ آمیزش ایک نئی راہ متعین کرے گی ۔پنجاب یونیورسٹی
کے سابق وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ارشد محمود جناب سعید احمد بودلہ کے
بارے میں کہتے ہیں ۔
I was impressed by the presentation of Quranic message in colour for
better understanding of Quran by the common people.This will be help in
understanding of true message of "Allah" and improve the character
individually by following the principles of Islam. I congratulate Mr.
Bodla for his excellent works.
بہرکیف جناب سعید احمد بودلہ کا شمار ان عظیم آرٹسٹوں میں ہوتا ہے جو اپنے
فن کو ایک خدمت تصور کرکے نہ صرف ہر سطح پر پھیلا رہے ہیں اس حوالے سے ملک
بھر میں ان کی خطاطی ٗ پینٹنگ اور کیلی گرافی کی نمائش ہوچکی ہیں پہلی
نمائش 1976 میں لاہور عجائب گھر ٗ دوسری اسلامی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اسلام
آباد ٗ تیسری نمائش فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی ٗ چوتھی الحمرا
آرٹ گیلری لاہور ٗ پانچویں اباسین آرٹ گیلری پشاور ٗ پانچویں الحمرا آرٹ
گیلری لاہور ٗچھٹی نمائش شیخ زید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی ٗ ساتویں
نمائش بھی شیخ زید اسلامک سنٹر ( بطور خاص خواتین کے لئے ) ٗ آٹھویں نمائش
اے این ایف راولپنڈی ٗ نویں نمائش خانہ فرہنگ ایران لاہور ٗ دسویں نمائش
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور ٗ گیارہویں نمائش مین لائبریری پنجاب
یونیورسٹی لاہور ٗبارہویں نمائش دربار پیر وارث شاہ جنڈیالہ شیر خاں ضلع
شیخوپورہ ٗ تیرہویں نمائش پاکستان ائیر فورس اکیڈیمی رسال پور ٗ میں منعقد
ہوئیں ۔ان کے علاوہ کئی گروپ ایگزبیشنز میں بھی حصہ لیا ۔
یہ اعزاز بھی آپ کو دیگر مصوروں ٗ خطاط اور کیلی گرافکس سے ممتاز کرتا ہے
کہ آپ بے شمار تعلیمی اداروں یونیورسٹیوں اور دیگر سرکاری و نجی اداروں کو
بلامعاوضہ اپنی خوبصورت پینٹنگز بطور تحفہ دے چکے ہیں ۔ان میں ایوان صدر ٗ
چیف آف دی آرمی سٹاف ٗ شامل ہیں ۔ مین لائبریری پنجاب یونیورسٹی میں ایک
وسیع ہال اسلامک کیلی گرافک آرٹ گیلری آف سعید احمد بودلہ کے نام سے منسوب
کیا گیا ہے جہاں جناب سعید احمد بودلہ کے ہاتھ کی بنائی ہوئیں ایک سو پچاس
خوبصورت پینٹنگز آویزاں ہیں ۔ ان پینٹنگ میں اﷲ تبارک و تعالی کے99 اسمائے
حسنہ کے علاوہ قرآنی آیات کے سکیچ اور فن پارے بھی شامل ہیں ۔اسی طرح بودلہ
اسلامک کیلی گرافک آرٹ گیلری شیخ زید اسلامک سنٹر پشاور یونیورسٹی کا قیام
بھی عمل میں آیا ۔اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی کے جاوید اقبال شہید
آڈیٹوریم میں بھی ایک وسیع ہال جناب سعید احمد بودلہ کی قرآنی پینٹنگز کے
لئے مخصوص کیاگیا ہے ۔ان تینوں آرٹ گیلریزمیں کم و بیش ساڑھے تین سو
تخلیقات بطور تحفہ(donate) دی گئیں ۔
قصہ مختصر جناب سعید احمد بودلہ نے 1972 سے قرآنک کیلی گرافی کو تعلیمات
اسلامی پھیلانے کے لئے بے لوث اختیارکیا اور تاحال اصلاح نوجواناں و طلبا و
طالبات میں نور قرآن کی کرنیں نچھاور کررہے ہیں ۔ان کی قرآنی آیات پر مبنی
مختلف اسلوب و میڈیاز میں سینکڑوں خوبصورت خطاطیاں جن کی نمائش گاہے بگاہے
مختلف کالجز ٗ یونیورسٹیوں میں ہوتی رہتی ہیں بطور خاص نوجوان نسل میں
احکامات و فکرقرآن کانور پھیلاتی نظر آتی ہیں یہ بات نہایت فخر سے کہنی
پڑتی ہے کہ انہوں نے کبھی کسی قرآنک پینل اور پینٹنگ کو فروخت نہیں کیا ۔
جناب سعید احمد بودلہ فنون لطیفہ کے بہت سے شعبوں سے منسلک رہے بلکہ اب بھی
منسلک ہیں جو اردو اور پنجابی میں نثر اور شاعری کی صورت میں سامنے آرہی ہے
۔ پنجابی میں ان کی کتاب "اوکھے پینڈے" بے حد مقبول ہوئی جبکہ اردو میں ان
کی کتاب " سجدۃ القلم "نے ہرمکتبہ فکر کے لوگوں سے داد وصول کی ۔اردو
غزلیات ٗ انشائیہ اور دیگر مضامین ملک کے بیشتر اور قابل ذکر میگزین اور
رسائل میں وقتا فوقتا شائع ہوتے رہتے ہیں ۔اس لئے یہ کہاجاسکتا ہے کہ جناب
سعید احمد بودلہ شاعر ٗ مصنف ٗ مصور ٗ ڈائزئینرٗاور خطاط ہی نہیں بہت ہی
نیک اور صالح انسان بھی ہیں جو اپنے کام کو ایمان کا حصہ تصور کرکے کچھ اس
انداز سے کرتے ہیں کہ جو فن پارہ بھی ان کے موئے قلم سے معرض وجود میں آتا
ہے وہ شاہکار بن جاتا ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جہاں پکاسو ٗ ڈیگاس ٗ
مائیکل اینجلو کا ذکر دنیا بھر کے درسی اور دیگر اعلی تعلیم کے نصابوں میں
ملتا ہے وہاں جناب سعید احمد بودلہ جیسے عظیم المرتبت مصور خطاط کا ذکر نہ
ہونا ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں جناب سعیداحمد بودلہ فن
مصوری ٗ فن خطاطی اور فن کیلی گرافکس حتی کہ کسی بھی شعبے اورکسی بھی
اعتبار سے پکاسو ٗ ڈیگاس ٗ مائیکل اینجلو سے کم تر نہیں ہیں بلکہ انہوں نے
جس طرح اپنی فنی صلاحیتوں کوکلام الہی کی تشہیر اور ترویج کا ذریعہ بنایا
ہے یہ کام اﷲ تعالی بطور خاص اپنے ایسے بندوں سے لیا کرتا ہے جو اسے بے حد
پسند ہوتے ہیں دنیااور آخرت میں نوازنا انہیں مقصود ہوتا ہے ۔ ایک وقت آئے
گا کہ دنیا کے عظیم ترین مصوروں کا فن تو اسی دنیا میں مٹ جائے گا لیکن
قرآنی آیات میں کی جانے والی مصوری ٗ خطاطی اور کیلی گرافی کلام الہی کی
صورت میں ہونے کی وجہ سے آخرت میں بھی نہ صرف وجہ نجات ثابت ہوگی بلکہ جناب
سعید احمد بودلہ کو مصوروں ٗ خطاطوں کا سردار بنا دے گی ۔یہی اعزاز انہیں
سب سے اعلی اور ممتاز بنا دے گا ۔میرے لئے یہ اعزاز سے کم نہیں ہے کہ میں
جناب سعید احمد بودلہ کے دور میں زندہ ہوں ۔ ان سے ملنے ٗ بیٹھنے اور ان کی
رہنمائی میں پینٹنگز کو دیکھنے کا شرف مجھے حاصل ہوا ۔ بے شک ایسے ہی لوگ
قوموں اور ملکوں کا سرمایہ قرار پاتے ہیں لیکن ایسے کمیاب اور فنی صلاحیتوں
سے آراستہ لوگوں کو اس وقت بام عروج حاصل ہوتا ہے جب وہ اس دنیا میں نہیں
ہوتے ۔ ناقدین ٗ تجزیہ نگار آرٹسٹ کی فنی اور تخلیقی کاوشوں کا کیا مول
لگاتے ہیں یہ ان پر منحصر ہوتا ہے میری نظر میں جناب سعید احمد بودلہ ایک
عظیم مصور ٗ ماہر خطاط اور ممتاز مصورانہ کیلی گرافسٹ ہیں جنہوں نے اپنی
زندگی کو قرآنی آیات اور تعلیمات قرآنی کو اپنی پینٹنگز کے ذریعے عام کرنے
کا پختہ عزم کررکھا ہے اﷲ تعالی ان کے اس جذبے کو مزید استقامت فرمائے ۔
آمین
( یہ مضمون جناب سعید احمد بودلہ کی کتاب " سجدۃ القلم " جناب شاہد بخاری
کے آرٹیکل اور جناب اسلم کمال کی تقریظ سے اخذ کیاگیا ہے ) |