گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
کسی بھی معاشرے کے افراد میں جب فکر پیدا ہو جاتی ہے تو معاشرہ ترقی کی
جانب گامزن ہو جاتا ہے۔ ایسی سوچ رکھنے والے افراد معاشرے کی ضرورت ہیں،
مگر خال خال ہوا کرتے ہیں، علامہ محمد اقبال کا شمار بھی ایسے لوگوں میں
ہوتا ہے جنہوں نے معاشرے کی صرف فکر ہی نہیں کی بلکہ معاشرے میں ایک ایسی
سوچ اور فکر پیدا کر دی کہ جس کے ذریعے آج ایک آزاد ملک پاکستان دنیا کے
نقشے پر موجود ہے۔ اقبال اپنی شاعری میں ویسے تو پوری انسانیت سے مخاطب ہیں
مگر خصوصی طور پر انہوں نے نوجوانان ملت اسلامیہ کو اپنے خطاب کا مرکز
بنایا۔ مسلم نوجوانوں کو باور کروایا کہ ہمارے اسلاف نے دنیا پر کس طرح
حکمرانی کی۔ بڑے بڑے سردار بھی مسلم حکمرانوں کے قدموں میں آکر بیٹھتے تھے۔
اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے ماضی میں مسلمانوں کی شان و شوکت اور دور
حاضر کی زبوں حالی اور کسمپرسی حالت کو یوں بیان کیا:
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے تو اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت وہ سیارہ
دور حاضر میں مسلمان مظلوم و مقہور نظر آتے ہیں۔ ہر جگہ مسلمانوں پر یورپ
کا رنگ نظر آتا ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں اگر کسی جانور پر بھی ظلم ہو تو
اس کے قوانین موجود ہیں، حکومتیں جانوروں پر بھی مظالم کرنے والوں کو سزا
دلواتی ہیں لیکن مسلمان دنیا کی واحد قوم ہے جس پر مظالم توڈھائے جاتے ہیں
مگر مجرم کو سزا دلوانے والا کوئی نہیں اور نہ ہی اس ظلم پر کوئی آواز
اٹھاتا ہے۔ علامہ محمد اقبال کے نزدیک اس ذلت اور پستی کی اصل وجہ اسلامی
اصولوں سے روگردانی اور مغرب کی اندھا دھند تقلید اور محنت و جفاکشی سے
گریز کے نتائج ہیں۔
علامہ محمد اقبال اپنے دل کا درد یوں بیان کرتے ہیں
تیرے صوفے ہیں افرنگی، تیرے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زور حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلیمانی
اس صورت حال پر علامہ محمد اقبال افسوس کرتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں
مغرب کے رسم و رواج پائے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے مسلمان پستی کی جانب
گامزن ہیں۔ علامہ محمد اقبال کے نزدیک فکر اور خودی ایسے دو مضبوط ہتھیار
ہیں جن کے ذریعے باطل قوتوں کا مقابلہ کیا جا سکتاہے۔
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
1911ء میں علامہ اقبال نے یورپ سے واپس آ کر علی گڑھ یونیورسٹی میں
نوجوانوں سے خطاب کیا۔ جس میں انہوں نے نوجوانوں کی سیرت و کردار کا جائزہ
لیتے ہوئے فرمایا:
’’موجودہ نسل کا نوجوان مسلمان قومی سیرت کے اسالیب کے لحاظ سے ایک بالکل
نئے اسلوب کا ماحصل ہے۔ جس کی عقلی زندگی کی تصویر کا پردہ اسلامی تہذیب کا
پردہ نہیں ہے۔ حالانکہ اسلامی تہذیب کے بغیر میری رائے میں وہ صرف نیم
مسلمان نہیں بلکہ اس سے بھی کم ترہیں اور وہ بھی اس صورت میں کہ اس کی خالص
دنیوی تعلیم نے اس کے مذہبی عقائد کو متزلزل نہ کیا ہو۔ اس کا دماغ مغربی
خیالات کی آمابگاہ بنا ہوا ہے اور اپنی قومی روایات کے پیرایہ سے عاری ہو
کر اور مغربی لٹریچر کے نشہ میں ہر وقت سرشار رہ کر اس نے اپنی قومی زندگی
کے ستون کو اسلامی مرکز ثقل سے بہت پرے ہٹا دیا ہے۔‘‘
علامہ محمد اقبال نے معاشرے کو مثبت رخ اور سوچنے کی فکر دی ہے اور
نوجوانوں کو انقلابی پیغام کی طرف ابھارا ہے اور اس کو یہ باور کروایا ہے
کہ دنیا میں اسلام غالب ہو گا لیکن تجھے مثبت سوچ کر اس پر عمل پیرا ہونے
کی ضرورت ہے۔ اقبال نوجوانوں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اقبال جہاں یہ بات کہتا ہے کہ مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے، وہیں
نوجوان کو حوصلہ بھی دیتا ہے کہ یہ رستہ مشکل ضرورہے مگر گھبرانا نہیں،
پریشانیاں، مصیبتیں ضرور آئیں گی لیکن اگر ڈٹ گئے، ثابت قدمی دکھائی تو اس
سے بہترین نتائج ملیں گے۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
اقبال نے شاعری میں جن تصورات کو اختیار کیا ہے، ان میں شاہین کا تصور ایک
امتیازی حیثیت رکھتا ہے اور نوجونواں کو بار ہا شاہین کی سی صلاحیتیں
اپنانے کا درس دیتا ہے۔ اقبال کو شاہین کی علامت کیوں پسند تھی، اس سلسلے
میں خود ہی ظفر احمد صدقی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ ہی نہیں ہے، اس جانور میں اسلامی فقر
کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں، خود دار اور غیرت مند ہے کسی اور کے ہاتھ
کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا، بے تعلق ہے کہ آستیانہ نہیں بناتا، بلند
پرواز ہے، خلوت نشین ہے اور تیز نگاہ ہے۔‘‘
یہی وہ صفات ہیں کہ جن کو اقبال مرد مومن میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ شاہین کے
علاوہ اور کوئی ایسا پرندہ نہیں جس میں یہ صفات پائی جاتی ہوں۔
بال جبریل کی نظم ’’شاہین‘‘ میں اقبال نے شاہین کی صفات کو یوں بیان کیا
ہے۔
خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب، یہ پچھم، چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
پروندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
غیرت و خودداری مومن کی سب سے پہلی پہچان ہونی چاہیے، جس کو اقبال نے اپنے
اشعار میں بار بار ذکر کیا ہے کہ جس مومن میں غیرت ہی نہ رہے وہ کاہے کا
مومن ہے؟ جب مسلمانوں کی غیرت مر جائے تو ذلت و پستی مسلمانوں کا مقدر بن
جایا کرتی ہے اور اگر غیرت و حمیت موجود ہو تو پھر بڑے بڑے پہاڑ بھی راہ کی
رکاوٹ نہیں بنا کرتے۔ نوجوانوں کو حوصلہ دیتے ہوئے اقبال کہتا ہے
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرہ افتاد
اقبال نے تو خودی، غیرت و حمیت اور شجاعت و بہادری کا سبق دے دیا۔ اب
دیکھنا یہ ہے کہ آج کے نوجوان پر اقبال کی محنتوں کے کچھ اثرات بھی مرتب
ہوئے ہیں یا نہیں۔
مادیت پرستی کے اس دور میں آج کے نوجوان کو صرف اس بات کی فکر ہے کہ میری
ڈگری، نوکری، بزنس، مکان اور مال و دولت مل جائے۔ ڈگری صرف اس لیے حاصل کی
جاتی ہے کہ اچھا سٹیٹس بن جائے، جبکہ اقبال کا یہ خواب تھا کہ نوجوان کو
تعلیم صرف اس لیے حاصل نہیں کرنی چاہیے کہ انہیں دولت مل جائے یا نوکری مل
جائے بلکہ اقبال نے نوجوانوں کو ان کا ماضی یاد دلاتے ہوئے کہا ہے کہ
تمہارے اسلاف نے اس دنیا کی راہنمائی کی ہے۔نوجوان کو اقبال اس کی زندگی کے
مقصد کی طرف لے کر آتے ہیں۔
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
نوجوانوں کو چاہیے کہ اقبال کی شاعری کو مشعل راہ سمجھتے ہوئے اپنے وطن کے
لیے کچھ کرنے کا عزم کریں۔ جب نیت خالص ہو گی تب رستے خود ہی بنتے جائیں
گے۔ علامہ محمد اقبال اپنے بیٹے جاوید اقبال کو جو نصیحت کرتے ہیں وہ آج
ہمارے لیے بھی مشعل راہ ہے۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر!
اﷲ ہمیں فکر اقبال سے راہنمائی لینے کی توفیق دے۔
|