تحریر عائشہ یاسین
خودی کیا ہے راز دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیداری کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حداس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کی دھارے میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک ِ آدم میں صورت پزیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
ڈاکٹر علامہ اقبال ایک ایسا نام جو اپنی پہچان آپ ہے۔ آپ کی زندگی اور کلام
کا اگر احاطہ کیا جائے تو وہ ہم کو ایک فرد واحد سے لے کر پوری ملت کی بابت
نظر آتے ہیں۔ان کا انداز تکلم اور افکار جداگانہ اور انمول ہے۔ علامہ اقبال
ایک سوچ، فکر اور ایک نظریہ خودی کا نام ہے۔ خودی وہ واحد عنصر ہے جو اقبال
کے کلام کا خاصہ ہے۔ اگر ہم اقبال کی شاعری کو ایک لفظ میں بیان کریں تو
میرے نزدیک خودی وہ لفظ سے جو سارے رموز کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ کیوں کہ
خودی ہی وہ نقطہ ہے جہاں سے کائنات وجود میں آئی۔
خودی کیا ہے؟ محض ایک لفظ،ایک فکریا فقط ہماری ذات؟ خودی وہ مرکزی نقطہ ہے
جہاں سے حیات پھوٹتی ہے اور کہکشاں کی قوض و قضا سے کائنات روشن ہوجاتی ہے۔
بالکل اسی طرح جس طرح ایک نیوٹرون کی حیثیت ہے اسی طرح انسان خودی کا مظہر
ہے۔ خود کو جاننا، پہچاننا اور اپنے وجود کے ہونے اور نہ ہونے کی اہمیت کا
ادراک کرنا خودی ہے۔ فرد واحد ہونے کی حیثیت سے اپنی ذات کا ادراک اور اس
میں چھپے رموز کو جاننا اور اپنے تخلیق کیے جانے کا مقصد جاننا خودی ہے۔
اپنی اصل سے روشناس ہونا خودی ہے۔ خودی وہ امر ہے جو رب تعالی نے انسانوں
کو عطا کیا تاکہ وہ سوچیں اور غور و فکر کرے اور اپنی اصل کو تلاش کرے۔
اقبال جس دور میں پیدا ہوئے وہ مسلمانوں کے لیے آزمائش کا دور تھا۔ مغل
سلطنت غلامی میں جکڑی جا چکی تھی اور مسلمان شرمندگی اور کشمکش میں مبتلا
تھے۔ یہ وہ دور تھا جب بر صغیر کا مسلمان ذہنی ایذا کا شکار تھا۔اپنی رفعت
و مرتبے کے چھن جانے کے بعد وہ بھلا بیٹھا تھا کہ بحیثیت مسلمان اس کی عظمت
کیا ہے اور اس کا دین اس کو کیسا دیکھنا چاہتی ہے۔ نتیجتا مسلمانوں میں
انتشار اور تفریق نے ان کو کئی طبقوں میں بانٹ دیا۔ ایک طبقہ دین کے نام پر
مولوزم کی شکل اختیار کر گیا اور ایک طبقہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی وجہ
سے لبرل کہلایا۔ ایسے میں جو چیز متفقہ طور پر ایک تھی وہ مذہب اسلام تھا۔
اقبال نے مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کی سوچ کو ایک جگہ مرکوز کرنے کے
لیے خودی کا فلسفہ عیاں کیا اور مسلمانوں کو یاد کرایا کہ وہ ایسے دین کے
ماننے والے ہیں جہاں غلامی ان کی اصل اور خود داری پر ضرب ہے۔ یہ مسلمان کی
غیرت پر وار ہے کہ وہ غیر اﷲ کے سامنے جھکے یا اپنی غیرت کا سودا کرے۔
اقبال نے خودی کو موضوع بنا کر مسلمان کو جھنجوڑا اور اپنے دین کی طرف لوٹ
جانے کو ترغیب دی۔ اپنی انا اور شناخت کی حفاظت کا درس دیا اور اپنی
صلاحیتوں کو بر لانے کی تلقین کی۔
اقبال نے خودی کو بطور نظریہ پیش کیا۔ زندگی کے ہر پہلو میں اس کی اہمیت کو
اجاگر کیا۔ ہر عمر کے فرد کے لیے اس کو لازمی قرار دیا۔ خاص کر کہ نوجوان
طبقہ جس کو آنے والے نسل کی ڈور سنبھالنی تھی۔اقبال نے بار ہا اپنے کلام سے
یاد دہانی کرائی کہ مسلمانوں سے چھن جانے والی طاقت اور حرمت اس کی ذات سے
منسلک ہے اور ضرورت صرف اس کی پہچان کرنے کی ہے۔اس کو صحیح سمت میں استعمال
کرنے کی ہے۔
اقبال نے مسلمانوں کی ہمت کو جلا دینے کے لیے ہر دفعہ ان کو ان کے انسان
اور اشرف المخلوقات ہونے کی یاد دہانی کرائی اور قرآن مجید کو ان کا حقیقی
رہنما گردانا۔ انہوں نے صرف اس بات پر زور دیا کہ انسان کو حکمرانی کے لیے
پیدا کیا گیا۔یہ زمین تو کچھ بھی نہیں۔خودی سے روشناس ہونے پر اس نے کائنات
میں راج کرنا ہے۔نظام خداوندی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اقبال نے ہر اس
چیز کو اپنے خیال ا افکار و نظریات میں شامل کیا جس سے آج کا مسلمان بیدار
ہوسکے اور اﷲ کے دین کو اور اپنی شناخت کو جان سکے۔
مگر افسوس ہم آج تک اقبال کی خودی کو نہ جان سکے نہ چانچ سکے۔ ہم نے آزادی
تو حاصل کرلی مگر اپنی شناخت کا پتہ نہیں پا سکے۔ ہم آج بھی ذہنی و نظریاتی
پہلو سے بہت دور جا چکے ہیں۔ اقبال نے کھول کھول قرآن میں موجود مومن کی
پہچان بتائی۔ کامیاب قوموں کے خد و خال کو سمجھایا۔ دین کیا ہے اور کیوں ہے
اس کی تشریح کی تاکہ جو غلامی ان کے حصے میں آئی وہ ان کے آنے والی نسل نہ
جھیلے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اقبال نے جو خواب دیکھا تھا وہ
اب بھی ادھورا ہے۔ صرف خطے کی آزادی کا خواب اقبال کا خواب نہ تھا بلکہ
اقبال مسلمانوں کی روم روم میں قرآن بہتا دیکھنا چاہتے تھے۔
اقبال ایک ایسی قوم کی تعبیر چاہتے تھے جہاں کلمہ حق کی تکمیل ہو ، اپنے رب
کی پہچان ہو اور اسلام کے دیے ہوئے تعلیم کا راج ہو۔ جہاں سب ایک دین اور
ایک جھنڈے تلے ایک قوم کی حیثیت سے متحد ہوں۔ جہاں بندہ بندے کے کام آئے
اور بندگی کا راج ہو۔ جہاں مومنوں کا بسیرا ہو اور قرآن ان کے سینے میں
دہکتاہو۔جہاں انسان تو انسان ایک چیونٹی کا حق بھی نہ مارا جاتاہو۔ مگر یہ
ایک محض خواب ہی ہے۔ ابھی جستجو اور علم کے کئی مراحل سے گزر کر ہی یہ ممکن
ہے کہ ہم انسان بن سکیں اور فلسفہ خودی کو جان سکیں۔
خودی کی یہ ہے منزل اولیں
مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے تو جہاں سے نہیں
|