عالم ارواح میں سب سے پہلے اللہ جل جلالہ نے تمام بنی آدم
علیہ السلام کی روحوں کو پشت آدم سے نکال کر ان سے وعدہ توحید لیا تھا۔
مسئلہ الہ کا سبق یاد کروانے کے لیے (رب السماوات والارض) نے اپنے تمام
انبیاء علیہم السلام اور رسولوں کو اس دنیائے فانی میں بھیجا اور یہی انکی
اصلی دعوت تھی۔ تمام اعمال صالحہ اور کسبات حسنہ کی قبولیت کا مدار و
انحصار صحیح عقیدہ توحید پر ھے ۔جس کا عقیدہ صحیح ھوگا اسکی نجات یقینی
ھوگی اور جس شخص نے اپنا عقیدہ بگاڑ لیا اس نے اپنے اچھے اور نیک کاموں کو
بھی بگاڑ لیا۔ انبیاء کی اول دعوت ہی عقیدہ توحید تھی۔ انبیاء و رسل کے
جانشین اور وارث علماء توحید ھیں انہوں نے بھی اپنی اس وراثت کو سنبھالتے
ھوئے اسی نہج کو اختیار کیا۔ اور دنیا کے طول و عرض، قریہ قریہ، بستی بستی
جا کر لوگوں کو اللہ کی وحدانیت کا پیغام دیا ۔ تمام علماء نے تقریری اور
تحریری طور پر اس میں اپنا حصہ ڈالا ان میں سے ایک شاندار شخصیت ڈاکٹر
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی ھے۔ آپ ایک دینی گھرانے میں پیدا ھوئے۔
ابتدامیں دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور
حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت انکے دل میں بس چکی تھی ۔ جب وہ
یورپ میں تعلیم حاصل کرنے گئے تو مغربی تہذیب انکو بدلنے میں ناکام رہی
کیونکہ انکا دل نور ایمانی سے اچھی طرح لبریز تھا۔ اس بات کی وضاحت وہ کچھ
اس اندز میں کر گئے
خیرہ نا کر سکا مجھے جلواۓ دانش فرنگ
سرمہ تھا میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
زمستانی ہوا میں گرچہ تیزی تھی شمشیر کی
لندن میں بھی نا مجھ سے چھوٹے آداب سحر خیر
وطن واپس آکے آپ نے تمام مسلمانوں کو ملت کو وحدت کے لڑی میں پرونا چاھا
اور وہ اس کام میں کامیاب بھی ہوۓ۔
جب قوم شرک و بدعت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبی ھو ، کوئی اعلائے کلمۃ
اللہ کو بلند کرنے والا نہ ھوں، علماء بھی دولت پرست ھو جائیں ، خواہ
سیاستدان وطن فروش ھو جائیں حالات کتنے ہی خراب ھوجائیں لیکن اللہ رب العزت
کے دین کا کام نہیں رکتا۔ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی بندے کو توفیق بخشتا ھےجس
میں ذرا سی بھی صلاحیت موجود ھو ۔جو مسلم عوام میں شعور آگاہی عام کرسکے۔جو
حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے لگتا ھے۔مشکل حالات اور آنے والے دور میں
ملکی مشکلات سے آگاہ کرنے لگتا ھے۔یہ وہ دور تھا جب بڑے بڑے عالم بھی
انگریز کی ذہانت و فطانت کے گن گا رہے تھےلیکن علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ
نے شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کو جگانے کی بھرپور کوشش کی اور اس میں انکو
اللہ کے ساتھ جڑے رہنے کی بھی تلقین کی آپ قرآن کا بغور مطالعہ کرتے تھے
اور قرآن میں حدیث رسول میں بیان ھوئے احکامات کو شاعری کی زبان میں پیش
کیا کرتے تھے
تا کہ انکو دعوت الیٰ اللہ کا پیغام دے سکیں۔ ایک فکر اور ایک سوچ دیں سکیں۔
انہوں نے مسلمانوں کے نظریے اور فکر کو اپنی شاعری سے پالش کیا جو چودہ سو
سال پہلے محمد عربی ﷺ پر اتری تھی۔
بدر و حنین اور دیگر غزوات کا مطالعہ کرتے تو اکثر واقعات پہ رو دیا کرتے
اور پھر انہی واقعات کو اپنے شاعری میں پرو دیا کرتے۔ چونکہ نوجوان نسل
تقریری بات سے زیادہ شاعری سے متاثر ھوتی ھے اس لیے آپ نے شاعری کے ذریعے
نوجوانوں کی اصلاحی دعوت کرنا شروع کی۔ آپ کے والد کہا کرتے تھے کہ قرآن کا
مطالعہ ایسے کرو جیسے یہ تم پر ہی نازل ھوا ھے۔ آپ قرآن کا بغور مطالعہ
کرکے ان میں پنہاں الفاظ کے معانی و مفہوم پر غوروفکر کرتے۔
اقبال امت کو اس قرآن کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
چیست قرآن خواجہ را پیغام مرگ
دستگیر بندہ بے ساز و برگ
آپ قرآن کو پڑھتے پڑھتےاکثر راتوں کو رویا کرتے حتی کہ قرآن کے اوراق بھیگ
جاتے کبھی ایسے نئی ہو تھا اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ قرآن کو لے کے بیٹھتے
اور ان کی آنکھوں نے آنسوں کا خراج نا کیا ہو آپ قرآن غنا سے ہڑھتے تھے اور
ان کا معمول سحری کا وقت ہوتا تھا جب آخری عمر آئی 1938 میں آپ کے گلے کا
مسئلہ بن گیا تو قرآن کی تلاوت غنا سے پڑھنی مشکل ہو گئی قرآن سے انسیت اور
لگاؤ کا اندازہ کریں کہ اقبال سے کسی نے پوچھ لیا کہ اقبال کیا حال ہیں
اقبال نے کہا
لطف قرآن سحر باقی ناماند
اپنی بیماری کا ذکر نئی کیا یہ ارمان واضح کیا کہ سحری کہ وقت وہ لطف نئی
آتا۔ اور قرآن کے اس لطف کہ بارے میں کہا کرتے تھے کہ۔
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود
یہ چیز (قرآن حکیم ) جب تمھارے دل اور تمھاری روح پر اثر اندازہوتی ہے تو
دل اور روح کچھ اور ہی ہو جاتے ہیں ۔جب دل اور روح میں تغیرپیدا ہو جاتا ہے
تو گویا اس ساری کائنات کامفہوم ہی بدل جاتا ہے۔
اقبال کا فلسفہ شہادت قرآن کریم سے ماخوذ ھے۔اقبال جہاد کی اہمیت پر زور
دیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کافر دنیا کی دولت اور دنیا پر اپنا رعب
قائم کرنے کے لیے لڑتا ھے لیکن ایک بندۂ مومن دین اسلام کی سربلندی اور
خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے لڑتا ھے۔ اس کو صرف شہادت کی طلب ھوتی ھے۔مال
وملال کی ہوس اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ ان کا یہ شعر اس بات کی
عکاسی کرتا ھے
شہادت ھے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت، نہ کشور کشائی
تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سربکف پھرتے تھے کیا دولت کے لیے
اقبال کا کلام افسردہ دلوں میں عزیمت کی روح پھونکتا ھے۔
آپ کہا کرتے تھے کہ اچھے سیاستدانوں کے دور میں نوجوان نسل ترقی کی طرف
گامزن ھوتی ھے جبکہ برے سیاستدانوں کے دور میں تباہی کی طرف بڑھی چلی جاتی
ھے۔جس زندگی میں انقلاب نہ ھو وہ زندگی موت ھے:
جس میں نہ ھو انقلاب موت ھے وہ زندگی
روح جی حیات کش مکش انقلاب
سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔آپ سیرۃ الرسول
کے مصنف ھیں ۔اقبال کی وفات پر انہوں نے لکھا: "وہ ہندوستان کی آپرو، مشرق
کی عزت اوراسلام کا فخر تھا۔آج دنیا ان ساری عزتوں سے محروم گئی۔ایسا
فلسفی،عاشق رسول شاعر،فلسفۂ اسلام کا ترجمان اور کاروان ملت کا حدی خواں
صدیوں کے بعد پیدا ھوا تھااور شاید صدیوں کے بعد پیدا ھو۔"
اس سے ظاہر ھوتا ھے کہ آپ کی دوستی بھی دین اسلام والے لوگوں سے تھی اور وہ
امت کی فکر میں ان سے مختلف مسائل پر بات کرتے۔ واقعی ایسے لیڈر صدیوں بعد
پیدا ھوا کرتے ھیں۔
اللہ کے ان کے حال پر اپنی رحمت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے ۔آمین |