علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں قادر الکلامی کی وجہ سے
شاعرِ مشرق کا لقب پایا۔ آپ مفکر پاکستان بھی تھے۔ آپ کی شخصیت بہترین
قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین سیاستدان کی حیثیت سے بھی نمایاں
تھی۔ بحیثیت سیاستدان آپ کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل
ہے۔ آپ ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔ جن لوگوں نے آ پ کے اشعار میں قرآن عظیم
کی آیات کی تفسیر پائی تو آپ کو شاعرِ قرآن کے عظیم خطاب سے نوازا۔ جن
لوگوں کو آپ کے خطبات میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ ریاست کا تصور نظر آیا
تو انہوں نے آپ کو مفکر پاکستان کہا۔ الغرض آپ کی شاعری میں اصلاحِ فکر و
اعمال کا عنصر غالب ہے۔ شاعری کی طرح آپ نے خطبات اور مکتوبات کے ذریعے
مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوششیں کیں۔ آپ نے اپنی سحر انگیز
شاعری کی بدولت اہل مشرق کے دلوں میں وہ مقام حاصل کیا جو آپ کے معاصرین
حاصل نہ کرسکے۔ آ پ کی شاعری کسی ایک خاص موضوع پر نہیں ہے بلکہ آپ نے اپنے
زمانے کے مختلف حالات و واقعات اورحقائق کو اپنی شاعری میں بیان کرکے ان سے
سبق حاصل کرنے کا پیغام دیا۔ آپ کی شاعری میں عشقِ قرآن اور عشقِ رسول
جابجا نمایاں نظر آتا ہے۔ علامہ اقبال کو قرآن مجید سے غایت درجہ محبت تھی
۔ قرآن مجید ہی نے علامہ اقبال کے افکار کو جلا دی۔ علامہ اقبال روزانہ
قرآن مجید کی تلاوت اور اس میں غور وفکر کرتے تھے۔ آپ کے شاگر د سید نذیر
نیازی آپ کی قرآن مجید سے محبت کے متعلق لکھتے ہیں: علامہ اقبال کی تعلیم
کا آغاز قرآن مجید سے ہوا اور قرآن مجید پر ہی اس کا خاتمہ ہوا۔ بچپن ہی سے
نماز فجر کے بعد علی الصبح قرآن مجید کی تلاوت کرتے۔ با ادب بیٹھ جاتے۔ خوش
الحان تھے۔ ایک ایک لفظ اور ایک ایک آیت پر غور کرتے۔ ٹھہر ٹھہر کر آگے
بڑھتے تاکہ ہر لفظ اور ہر آیت کے معنی ذہن نشین ہوجائیں۔ قرآن مجید کی
تلاوت اور مطالعہ ہی ان کا محبوب ترین مشغلہ اور دل و دماغ کا سرمایہ تھا۔
قرآن مجید سے ان کی شیفتگی اور والہانہ شغف کا عالم یہ تھا کہ کوئی بھی
مصروفیت ہو، جیسا بھی انہماک ، گھر بار کے معاملات، دنیا کے دھندے ہوں، ان
کا دل ہمیشہ قرآن مجید میں رہتا۔ دورانِ مطالعہ اکثر رقت طاری ہوجاتی۔ کوئی
بھی گفتگو کرتے ، تحریر ہوتی یا تقریر ، جہاں کوئی بات کہنے کی ہوتی ان کا
ذہن بے اختیار ارشادات قرآنی کی طرف منتقل ہوجاتا۔ جب بھی ان کے ذہن میں
کوئی بات آتی، کوئی حقیقت سامنے آتی، یا کوئی فکر ذہن میں ابھرتی تو قرآن
مجید سے اس کی وضاحت ہوجاتی۔ رہا تدبر سو اس باب میں کیا عرض کی جائے ۔
محمد اقبال نے جو کچھ کہا ، کچھ سوچا، جو کچھ لکھا، شعر ہو یا فلسفہ قرآن
مجید ہی میں تدبر و تفکر کی بدولت ۔ مختصراً یہ کہ اقبال کے سرمایہ فکر میں
قرآن مجید ہی کی روح کارفرماہے ۔ علامہ اقبال ایک روز کہنے لگے فلسفہ ہویا
سائنس ، زندگی او راس کے مسائل ۔ کوئی عقدہ حل ہوتا نظر نہ آئے تو قرآن
مجید سے رجوع کرتاہوں۔ سید نذیر نیازی لکھتے ہیں کہ ایک روز میں علامہ
اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں کاغذ اور قلم لے کر بیٹھ گیا تو فرمایا
یہ سامنے کی الماری میں قرآن مجید رکھاہے۔ قرآن مجید اٹھالاؤ۔ میں اپنے دل
میں سمجھ رہاتھا کہ مجھ سے شاید فلسفہ کی بعض کتابوں کی ورق گردانی کے لیے
کہاجائے گا۔ میں قرآن مجید لے آیا تو ارشاد ہوا۔ سورۂ حشر کا آخری رکوع نقل
کرو ۔ رکوع نقل کرچکا تو پھر چند ایک عنوانات کے ماتحت یکے بعد دیگرے
مختصراً شذرات لکھواتے گئے۔ سید نذیر نیازی علامہ اقبال کی ایک گفتگو کے
متعلق لکھتے ہیں: ایک روز گفتگو ہورہی تجھی کہ اس عہد نے جسے سائنس کا عہد
کہا جاتا ہے۔ مذہب کے بارے میں بڑی بد گمانیاں پیدا کردیں ہیں بلکہ اس کے
خلاف ایک معاندانہ روش اختیار کر رکھی ہے۔ فرمایا : یہ اس لیے کہ لوگ علم و
حکمت کی صحیح روح سے واقف ہیں اور نہ قرآن مجید سے کہ اس کی تعلیمات کیا
ہیں؟ ارشاد ہوا : اسلام خلاصۂ کائنات ہے اور یہی رائے ہمارے علماء کی تھی
مگر حقیقت یہ جب ہی منکشف ہوگی جب ہم قرآ ن مجید میں تدبر او ر تفکر سے کام
لیں گے ۔ (اقبالیات، نذیر نیازی)
علامہ اقبال اپنی زندگی میں کلامِ الٰہی سے جس قدر اثر انداز ہوئے ،ا تنا
وہ کسی شخصیت سے متاثر نہیں ہوئے۔ علامہ اقبال جس طرح خود قرآن سے محبت
کرتے تھے اور اس میں غور وفکر کرتے تھے، آ پ مسلمانوں سے بھی یہی خواہش
رکھتے تھے کہ مسلمانانِ ہند قرآن کی تلاوت اور اس کی تفہیم کو اپنے اوپر
لازمی کریں۔ آپ کی خواہش بھی یہی تھی کہ مسلمان بھی قرآ ن سے اپنا حقیقی
تعلق قائم کرلیں۔ علامہ اقبال کا پیغام ہی یہی تھا کہ مسلمان سمجھ لیں کہ
ان کی زندگی قرآن مجید سے ہے۔ قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر سے کام لیں۔
اس کی تعلیمات پر عمل کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن سے رشتہ
قائم رکھا اور اس میں تدبر وتفکر کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنایا ، اس وقت
تک ان کا علمی و اخلاقی عروج قائم رہا۔ ان کازمانہ گذشتہ زمانوں سے اعلیٰ و
نمایاں رہا۔ ان کے زمانہ میں علمی و تحقیقی سرگرمیاں عروج پر رہیں۔ حال یہ
تھا کہ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی دوردراز علاقوں سے سفر کرکے
مسلمانوں کے علاقوں اور بستیوں میں آکر زانوئے تلمذ تہہ کیا کرتے تھے۔ لیکن
جب مسلمانوں نے قرآن سے تعلق ختم کرلیا اس سے دوری حاصل کی تو وہ دنیا میں
ذلیل و خوارہو کر دربدر پھرتے رہے۔ اقبال نے کہا تھا:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
ایک اور جگہ اقبال امت مسلمہ کے قرآن سے تعلق کی دوری کو بیان کرتے ہوئے
افسر دہ انداز میں کہتے ہیں:
جانتاہوں میں یہ امت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
اسی طرح بعد میں آنے والوں نے قرآن کو کما حقہ اہمیت نہیں دی ۔ انہوں نے
قرآن کو پڑھا ضرور لیکن اس کی تعلیمات اور احکامات کو ماننے کے بجائے ان کو
اپنی خواہشات کے تابع کرنا شروع کردیا۔ اقبال نے ان الفاظ میں ان کی حقیقت
کو بیان کیاکہ:
خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس در جہ فقیہان حرم بے توفیق!
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
یعنی لوگوں نے اپنی عقل سے یہ فیصلہ کرلیا کہ قرآن کی تعلیمات ناقص ہیں ،
اس کی ہدایات اور تعلیمات رہتی دنیا تک کے لیے نہیں ہیں۔ دورِ جدید میں اس
کی تعلیمات کا اطلاق نہیں ہوسکتا ۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں اس کا
بھر پور رد کیا۔ بدقسمتی سے آج بھی بعض نام نہاد لوگ دین کالبادا اوڑھ کر
یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن مجید کے احکامات اس دور تک کے لیے
تھے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن قیامت تک کے لیے ہے اور رہتی دنیا تک ہر دور
میں اس کے تقاضوں کے مطابق قرآن سے رہنمائی حاصل کی جاتی رہے گی۔ اقبال
کہتے ہیں :
اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
قرآ ن ہی میں وہ راز پوشیدہ ہے جو مومن کو حقیقی اور سچا مومن بناتا ہے۔ یہ
مومن کی ہی شان ہے کہ جب وہ اپنی ذا ت کو قرآن میں فنا کردیتا ہے اور اپنے
شب و روز قرآن کے مطابق بسر کرنے لگتا ہے تو بقول اقبال :
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن
علامہ اقبال نے نوجوانوں کو بالخصوص قرآن سے حقیقی تعلق قائم کرنے کی ترغیب
دی ہے کیونکہ تمام علوم کا سرچشمہ اور منبع ہدایت قرآن ہی ہے۔ جب کوئی شخص
قرآن سے تعلق قائم کرے گا تو یقینی طور پر اسے قرآن پر عمل کرنے کے لیے
رسول اﷲ ﷺ کی سیرت طیبہ کو اپنی زندگی کے لیے نمونہ بنانا ہوگا۔ یہی وہ
انسان کی معراج اور کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے جو وصول الی اﷲ کا ذریعہ بنتی
ہے۔ آخر میں اقبال دعا دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے مسلمانو! قرآن میں غوطہ زن
ہوجاو ٔ ، اﷲ تمہیں عمل کی توفیق دے۔
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اﷲ کرے کہ تجھ کو عطا جدّتِ کردار |