نو نومبر کا دن ہے اور یہی وہ دن ہے جب پاکستان کا خواب
دیکھنے والا اور امت مسلمہ کو ایک الگ ہی نظر اور زاویے سے دیکھنے والا
انسان پیدا ہوا۔
علامہ محمد اقبال, جو ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک فکر اور حرف و نظر
اور داستان الم کناں کے مصور و راوی اور نوحہ کناں کا نام ہے۔
شاعری میں فلسفے, دین, نظریے اور تاریخ کی ایسی آمیزش کی ہے کہ ست رنگ
جلترنگ بن کر قوس قزاح اور مربوط موسیقی بکھیرتے ہیں۔
پاکستان کا خواب دیکھا اور امت مسلمہ کا زوال دیکھا, بیک وقت رنج و الم اور
خوشی کی خبر کو صفحہ قرطاس پر اتارنے کی ذمہ داری نبھائی اور خوب نبھائی۔
شاعری نہیں ایک گہرے نیلے سیاہی مائل سمندر کی تخلیق کی قلم اور کاغذ کے بل
بوتے پر جو منتظر رہتا ہے کہ شوقین غوطہ خور آئیں اور غوطہ زن ہوکر گہرائی
میں اتریں اور نگینے و آبگینے اور چھپے خزانے تلاش کرکے واپس آسودہ ہوکر
جائیں۔
خودی کی آگہی ہو یا اللہ سے شکوہ اور جواب شکوہ کی منظوم گپ شپ, لب پہ آتی
دعا کا اظہار ہو یا جگنو کی روشنی کو انمول بتانا غرض اقبال نے دریا کو
کوزے میں سمیٹ کر اس وقت کی اور آنے والی نسلوں کے لیئے مشعل راہ گاڑ دی سر
راہ دنیائے علم و ادب, فلسفہ و دین اور سیاست و نظامت میں۔
میرا "نور بصیرت" عام کردے, یہ دعا ہر کوئی نہیں مانگ سکتا اور نہ ہی ہر
کسی کو مانگنی آئے گی کہ نور بصیرت عام انہی کا ہوتا ہے جن کے پاس حکمت
وبصیرت اور دور اندیشی کا نور ہو اور وہ نور خلق کی رہنمائی اور دلجوئی میں
استعمال ہو۔
سر علامہ محمد اقبال حکیم الامت شاعر مشرق مصور پاکستان رہبر تحریک اور
غازی زماں تھے, ہیں اور ان شاء ﷲ رہیں گے۔
جس نے خود کی آگاہی کو پاکر خودی پالی سمجھو وہ "نور بصیرت" بھی پا گیا اور
جس نے "نور بصیرت" پا لیا سمجھو اس نے دین و دنیا کو کما لیا۔
اقبال ہمارے دلوں میں دھڑکتے ہوئے دل کی ہر دھک دھک میں زندہ و جاوید ہیں
اور ان کی شاعری کی صورت ان کا "نور بصیرت" ہمارے اذہان و بطلان میں ہے۔
اللہ اقبال کو کروٹ کروٹ جنت کے نظارے کروائے۔ |