علامہ اقبال ؒ اور نوجوانان ملت

آج نو نومبر یوم اقبال ؒ ڈے پورے پاکستان میں عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔ تمام سکولوں، کالجز اور یونیورسیٹیز میں یو م اقبال ؒ کے حوالے سے تقریبات کا اہتمام کیا ہو ا ہے۔ اور یوں ہم اقبالؒ سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کر رہا ہے کیوں نہ کرتا آخر جن کی خواب کی بدولت ہم سکھ کی زندگی گزار رہا ہے۔ آج کی دن کی منا سبت سے میں اپنی موضوع کو اقبال اور نوجوانان ملت کے ما بین پائے جانے والی محبت جو اقبال ؒ نے اپنے اشعار میں برملا اظہار کیا اور ملت کے نوجوانوں کو اپنے ملت کا مقدر کا ستارہ کہہ کر جو پکارا اس کے احوال خودی کو بیان کیا ان سب کا ذکر کروں گا۔ میں یہاں ایک بات واضح کرتا جاؤں کہ ہمیں اقبالؒ کو سمجھنے کے لئے اس دور کی تاریخ کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ آپ ؒ جس دور میں تھے اس دور کا احوال کچھ اس طرح آپؒ بیان کرتے ہیں۔
اقبال کو اس دیس میں پیدا کیا تو نے جس دور کے بندے ہیں غلامی پہ راضا مند

اس شعر سے واضح ہوتا ہے کی بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی کیا حالت ذر تھی۔ لیکن پھر بھی آپ ؒ کے اشعار ان لوگوں کے دلوں کو بدلنے کے لئے کافی تھا اور یہی وجہ تھی کہ مسلمانان بر صغیر ایک ابھرتی ہو ئی طاقت بن گئی یوں پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے پر آویزاں ہو گئی۔ لکن اقبال ؒ اپنے نوجوانوں کو نوجوانان اسلام کے نام سے پکارتے ہیں انہوں نے ان نوجوانوں کو کہیں شاہین، کہیں شہباز اور کہیں عقاب کہہ کر مخاطب کیا۔انہیں ان کے زندگی کا مقصد بتاتے ہو ئے تاروں پر کمند اور پہاڑوں کی بلندی کی تشبیہ دیتے ہیں۔کہیں بے تکان پرواز کو کامیابی کا زینہ قرار دیتے ہیں کہیں ان کی خودی کو صورت فولاد بنانے کی خواہش کا اظہار کرتے تو کہیں بے داغ جوانیوں کا نسخہ کیمیاء بتاتے نظر آتے ہیں۔

علامہ قبالؒ کی اس عرق ریزی کو دیکھتی ہوں کہ کہاں کھو گیا اقبال کا وہ شاہین جس کا بسیرا پہاڑوں کی چٹانوں میں تھا اور قصر سلطانی کے گنبد نے کیسا اس کی آنکھوں کو خیرہ کیا کہ وہ اپنا نشیمن ہی بلا بیٹھا۔۔۔لیکن آج کے نوجوان کیوں اقبال سے آشنا نہیں ہے۔ہمیں اپنی ملت میں قیاس رہنے کے لئے اپنی خودی کو آج جگانہ ہو گا۔ آج ہم صرف تہذیب فرہنگ کو ہی موارد الزام نہیں ٹھہرا سکتا ہے ۔ تہذیب فراہنگ جس جس کو قلب نظر کا فساد ٹھہرایا کب اور کیسے ان کے سخت کوش شباب کا لہو کرکے اسکو تن آساں اور داغ دار کر گئی۔ اقبالؒ نے جس جواں کی خودی کو صورت فولاد بنانے کا خواب دیکھا اس کو کب اور کیسے زہر ناب پلا کر سلا دیا گیا۔ اقبالؒ کا وہ شاہین جس کی ادا جھپٹنا پلٹنا اور جس کی درویشی ضرب المثل ٹھہری تھی وہ کب خیابانوں اور آب و دانہ کے چکر میں پڑ کر اپنے با ل و پر گنواں بیٹھااور ضرب غازیانہ اور فقر حیدری سے محروم ہو کر رہ گیا۔آج واقعی ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اقبالؒ کی ـکشت ویراں کیوں ہو گئی ہے،،،،،،

لیکن اقبالؒ اس ویرانی سے بھی نہ امید نہیں وہ تو اس نا امیدی کو زوال علم و عرفان سے تعبیر کرتے ہیں۔۔۔۔ اس مٹی میں دوبارہ زرخیزی لانے کے لئے ذرا سی نمی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔۔۔امید بہا ر کے لئے اپنے ملت کے ساتھ رابط استوار کرنے کو کہتا ہے جس کی ترکیب قوم رسول ہا شمی سے منسوب ہے۔۔ بیشک نوجوان راکھ میں دبی چنگاری کی مانند ہے بس ذرا جھونکے کی ذرا ہوا دینے کی دیر ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگر آج کا ہمارا نوجوان اپنی لازوال قابلیت کا ادراک معا شرے کی فلاح و بہبود کے لئے کرنا چا ہیں تو سب کچھ ممکن ہے۔ جس سے نہ صرف ہم معا شرتی اصلا ح میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے بلکہ ایک خوبصورت معاشر ے کی تشکیل نو میں اپنا اہم رول ادا کر سکتے ہیں انشااﷲ

Ashraf Ahmed
About the Author: Ashraf Ahmed Read More Articles by Ashraf Ahmed: 6 Articles with 9483 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.