ربیع الاول کی آمد کی ساتھ ہی دنیا بھر کے مسلمانوں کے
دلوں میں میں مسرت کی لہر اٹھتی ہے جس کا نقطہ عروج اس ماہ مبارک کی 12
تاریخ ہوتا ہے ۔ یہ وہ دن ہے جس روز
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعا ئے خلیل و نوید مسیحا
رحمت عالم کی دنیا میں تشریف آوری انسانی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے ۔ آپ
کی بعث نے ایک ایسا انقلاب پیدا کیا جس سے انسانوں کے دلوں اور فکر ونظر
میں تبدیلی واقع ہوئی۔ انسانوں کو انسانوں کی غلامی کی آزاد کیا اور خدا کا
آخری پیغام قرآن حکیم کی صورت میں اولاد آدام کو ملا جس میں انسان کو خود
اس کے مقام سے آگاہ کیا گیا ہے۔ یہ ماہ مبارک، وہ دن اور وہ لمحات کتنے
عظیم تھے جب آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل آفروز ساعت پہ لاکھوں سلام
{علامہ اقبال پیامبرقرآن اور عاشق رسول ؐ تھے ۔ بنی اکرم ﷺ سے ان کی محبت
سے سب آگاہ ہیں۔ علامہ ہر سال عید میلادالبنی ﷺ کی تقریب سعید میں نہ صرف
شرکت کیا کرتے تھے بلکہ اس میں خطاب کرنا بھی ان کا معمول تھا اور مختلف
شہروں میں اس سلسلہ میں ہونے والی تقریبات میں انہیں دعوت دی جاتی تھی۔
اشعار کی صورت میں انہوں نے بارگاہ رسالت ؐ میں جو عرضداشت پیش کیں ، وہ تو
سب محفوظ ہیں لیکن ان کی تمام تقاریرہمارے پاس موجود نہیں لیکن خوش قسمتی
سے ان کی ایک اہم تقریر جو انہوں نے 1926ء میں لاہور میں عید میلاد النبیؐ
کے جلسہ میں اپنے صدارتی خطاب میں ارشاد فرمائی تھی وہ آج بھی دستیاب
ہے۔علامہ کے اس خطاب کو پنڈی بہاؤالدین ضلع گجرات سے ملک محمد دین اعوان
مرحوم کی زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ صوفی نے اکتوبر 1926 کے شمارہ
میں شائع کیا تھا۔ علامہ نے اپنے اس خطاب میں فرمایا کہ دنیا میں نبوت کا
سب سے بڑا کام تکمیل اخلاق ہے۔ چنانچہ حضورﷺنے فرمایا کہ میں نہایت اعلیٰ
اخلاق کے اتمام کے لئے بھیجا گیا ہوں اس لئے علماء کا فرض ہے کہ وہ رسول اﷲ
صلعم کے اخلاق ہمارے سامنے پیش کیا کریں تاکہ ہماری زندگی حضورؐ کے اسوۂ
حسنہ کی تقلید سے خوشگوار ہوجائے اور اتباع سُنت زندگی کی چھوٹی چھوٹی
چیزوں تک جاری و ساری ہوجائے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک شور برپا ہے کہ
مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے لیکن جہاں تک میں نے غور کیا ہے تعلیم
سے زیادہ اِس قوم کو تربیت کی ضرورت ہے اور ملّی اعتبار سے یہ تربیت علماء
کے ہاتھ میں ہے۔ اسلام ایک خالص تعلیم تحریک ہے۔ صدر اسلام میں اسکول نہ
تھے کالج نہ تھے یونیورسٹیاں نہ تھیں لیکن تعلیم و تربیت اس کی ہر چیز ہے۔
خطبہ جمعہ، خطبہ عید، حج وعظ غرض تعلیم و تربیت ِ عوام کے بیشمار مواقع
اسلام نے بہم پہچائے ہیں لیکن افسوس کہ علماء کی تعلیم کا کوئی صحیح نظام
قائم نہ تھا اور اگر کوئی رہا بھی تو اس کا طریق عمل ایسا رہا کہ دین کی
حقیقی روح نکل گئی۔ جھگڑے پیدا ہوگئے اور علماء کے درمیان جنہیں پیغمبر
علیہ السلام کی جانشینی کا فرض ادا کرنا تھا سر پھٹول ہونے لگی۔ جس کی
تکمیل کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ السلام مبعوث ہوئے تھے اور ہم ابھی اس
معیار سے بہت دُور ہیں۔
حصول تربیت کا جو لائحہ عمل انہوں نے دیا اس کے مطابق انسانی جذبات کو قائم
رکھنے کے تین طریقے ہیں۔ پہلا طریق درو وسلام ہے جو مسلمانوں کی زندگی کا
جزو لاینفک ہے۔ وہ ہر وقت درود پڑھنے کے طریقے نکالتے ہیں۔عرب میں کہیں دو
آدمی بازار میں لڑ پڑتے ہیں تو تیسرا بلند آواز میں اللھم صلی علی سیدنا
محمد و بارک و سلم پڑھ دیتا ہے تو لڑائی فوراََ رُک جاتی ہے۔ یہ درود کا
اثر ہے اور لازم ہے کہ جس پر درود پڑھا جائے اس کی یاد قلوب کے اندر اپنا
اثر پیدا کرے۔ پہلا طریق انفرادی جبکہ دوسرا اجتماعی ہے یعنی مسلمان کثیر
تعداد میں جمع ہوں اور ایک شخص جو حضورؐ آقائے دو جہاںﷺ کے سوانح زندگی
بیان کرے تاکہ اُن کی تقلید کا ذوق و شوق مسلمانوں کے قلوب میں پیدا ہو۔ اس
طریق پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہم سب آج جمع ہیں۔ تیسرا طریق اگرچہ مشکل ہے
لیکن بہر حال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے وہ یہ کہ یاد رسول ؐ اس کثرت
سے اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب نبوت کے مختلف پہلوؤں کا
مظہر ہوجائے یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے جو کیفیت حضورسرور کائنات ؐ کے
وجود مقدس سے ہویدا تھی وہ آج تمہارے قلوب کے اندر پیدا ہوجائے۔ علامہ
اقبال اپنے خطاب میں مزید فرماتے ہیں کہ افسوس کہ ہم میں بعض چھوٹی چھوٹی
باتیں بھی نہیں ہیں جن سے ہماری زندگی خوشگوار ہواور ہم اخلاق کی فضا میں
زندگی بسر کرکے ایک دوسرے کے لئے باعث رحمت ہوجائیں۔ اگلے زمانہ کے
مسلمانوں میں تقلید رسولؐ اور اتباع ِ سُنت سے ایک اخلاقی ذوق اور ملکہ
پیدا ہوجاتا تھا اور وہ ہر چیز کے متعلق خود ہی اندازہ کرلیا کرتے تھے کہ
رسول اﷲ ﷺ کا رویہ اس چیز کے متعلق کیا ہوگا۔قرآن و حدیث کے غَوامِض بتانا
بھی ضروری ہے لیکن عوام کے دماغ ابھی ان مطالب عالیہ کے متحمل نہیں۔ انہیں
فی الحال اخلاق نبویؐ کی تعلیم دینی چاہیے۔
علامہ کا یہ خطاب ہماری زندگی کا لائحہ عمل ہونا چاہیے۔اُسوہ حسنہ سے ہمیں
یہ درس ملتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں وہی اخلاق و اطوار اپنائیں جو ہادی
برحق کے تھے۔دوسروں کے بارے میں انتقامی جذبات نہ رکھنا، دوسروں کو معاف
کرنا، سچائی، ایفائے عہد، صلہ رحمی، انسانیت سے محبت ، حلم، نرمی اور اچھے
اخلاق کی جو تعلیم ہمارے پیارے نبی رحمتﷺ نے دی ہے اُسے اپنائیں اور دنیا
کو بھی اس کی روشنی سے منور کردیں بقول حکیم الامت
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد ؐ سے اُجالا کردے |