میرا نصیب

سفید سنگ مرمر کی قبر کے نیچے محو استراحت اس عظیم حکمران کی کامرانیاں تاریخ کی کتابون میں رقم ہیں مگر یہ منفرد واقعہ اہل ایمان کے دلوں پر رقم ہے

نور الدین زنگی کی حمص میں قبر

ان کی وجہ شہرت تو ان کی فتوحات، بہادری، عدل ، غریب پروری اور خاندانی وجاہت ہے۔ ان کے بارے میں مشہور مورخ ابن اثیر نے لکھا ہے ْ میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام حکمرانوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے مگر خلفائے راشدین اور عمر بن عبد العزیزکے بعد نورالدین سے بہترکوئی حکمران میری نظر سے نہیں گذرا ْ
نور الدین زنگی کا زیر نظر واقعہ اسلامی تاریخ میں محبان رسول اللہ ﷺ کے قلوب کو حرارت حب النبی سے گرماتا ہے۔ اس واقعہ کو مشہور عالم حضرت شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب ْ تاریخ مدینہْ میں نقل فرمایا ہے۔
ہجری 557 میں عیسائیوں نے مراکش میں یہ سازش کی کہ مدینہ المنورہ کی مسجد نبوی میں موجود قبر رسول اللہ ﷺ سے جسد مبارک کو چوری کیا جائے۔ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دو آدمیوں نے خود کو مختص کیا اور سازش کی تکمیل کے لیے حجاج کے ساتھ مراکش سے مکہ آئے۔ رسوم حج کی مکہ میں تکمیل کے بعد وہ دونوں مدینہ المنورہ آئے اور مسجد نبوی کے جنوب مغرب میں مسجد کی دیوار سے متصل ایک مکان لے کر رہائش رکھ لی۔مکان کے فرش سے انھوں نے قبر مبارک تک سرنگ کھودکر جسد انور ﷺ تک پہنچنا تھا۔ وہ حب النبی کا لبادہ اوڑھ کر اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔ سرنگ کی کھدائی سے جو مٹی نکلتی اسے تھیلوں میں ڈال کر شام کے وقت جنت البقیع میں موجود قبور پر بکھیر دیتے۔ وہ اپنے منصوبے پر عمل پیرا تھے۔ مدینے میں کسی کو ان پر شک تک نہ ہوا ۔ مدینہ المنورہ اس وقت دمشق میں موجود سلطان نورالدین زنگی کی سلطنت میں شامل تھا۔ 558 ہجری میں سلطان اپنے گھر میں سو رہا تھا کہ اسے خواب میں دو اشخاص دکھا کر حکم دیا گیا
ْ ہمیں ان کے شر سے بچاو ْ
سلطان نے بیدار ہو کر وضو کیا ۔ دو رکعت ادا کی اور اپنے مشیر خاص جمال الدین اصفہانی کو بلایا ۔ اصفہانی سے مشورے کے بعد اس نے اسی وقت بیس آدمی منتخب کیے اور مدینہ المنورہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس نے اس تیز رفتاری سے سفر کیا کہ 25 دنوں کا سفر 16 دنوں میں طے کر کے شام سے پہلے مدینہ المنورہ پہنچ کر مسجد البنوی میں نماز ادا کی اور زیارت قبر مبارک سے فارغ ہو کر حاکم مدینہ کے ذریعے اعلان کرایا کہ مدینے میں موجود تمام بیرونی زائرین آ کر وقت کے سلطان کی طرف سے اپنا اپنا تحفہ وصول کر یں۔ لوگ آتے گئے اور تحائف وصول کرتے رہے حتیٰ کہ سب لوگ تحفہ وصول کر چکے۔ مگر سلطان کو وہ دو شخص نظر نہ آئے جو خواب میں دکھاٗے گئے تھے، سلطان نے پوچھا
ْ کیا مدینہ کا ہر شخص مجھ سے مل چکا ْ
جواب ہاں مین پا کر سلطان نے دوبارہ پوچھا
ْ کیا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے ْ حاکم مدینہ نے کہا ْ سوائے دو آدمیوں کےْ
دو آدمی ۔۔۔ ْ وہ کون ہیں اور تحفہ لینے کیوں نہیں آئے ْ
مراکش کے دو متقی ہیں، درود پڑہتے ہیں اور ہر ہفتے مسجد قبا جاتے ہیں ، فیاض اور مہمان نواز ہیں ، کسی کا دیا نہیں لیتے ْ
سلطان نے کہا ْ سبحان اللہ ْ اور تحفہ لینے انھیں بلا بھیجا
ْ الحمداللہ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی سے تحفہ یا خیر خیرات لینے کی ضرورت نہیں ْ
جب سلطان تک یہ جواب پہنچا تو بردبار سلطان اپنے ادمیوں کے ساتھ ان کے مکان پر جا پہنچا۔ان کو دیکھتے ہی سلطان نے انھیں پہچان لیا
تم کون ہو اور کیوں آئے ہوْ
ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے، اب روضہ رسول کے سائے میں زندگی گذارنا چاہتے ہیںْ
سلطان نے کہا ْ تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہےْ
سلطان کی عقابی نگاہ فرش پر بچھی جائے نماز کے نیچے بچھی چٹائی پر جم کر رہ گئی۔ چٹائی ہٹانے کا حکم ہوا۔ چٹائی کے نیچے بڑا پتھر ظاہر ہوا ۔ پتھر کو ہٹایا گیا تو وہ سرنگ ظاہر ہو گئی جو فرش میں کھودی گئی تھی اور اس کا رخ قبر مبارک کی طرف تھا۔ سلطان کے آدمی نے سرنگ میں اتر کودیکھا اورحقیقت حا ل سے سلطان کو آگاہ کیا۔سلطان غصے مین لرز رہا تھا۔ مگر اس کی زبان سے صرف اتنا نکلا
ْ کیا اب بھی سچ نہ بولو گے ْ
سچ بولنے کے سوا چارہ ہی نہیں تھا۔ سازش بے نقاب ہو چکی تھی۔ وہ فرمانروا جس کا نام سن کر حکمرانوں کے دل دہل جاتے تھے ۔ دونوں کے مکان میں طیش بھرے جذبات کے ساتھ موجود تھا۔ اپنے جرم کی سنگینی کا بھی انھیں ادراک تھا، انھوں نے اقرار کیا کہ وہ مسیحی ہیں، اور مراکش میں تیار کی گئی اس سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد رسول اللہ ﷺ کے جسد مبارک کو سرنگ لگا کر چرانا تھا۔سلطان جس سرعت سے دمشق سے مدینہ پہنچا تھا ۔ اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ اس مقدمہ کا فیصلہ ہوا۔ دونوں مجرمین کے سر تن سے جدا کر دیے گئے۔ اس موقع پر سلطان نورالدین زنگی نے بلند آواز میں کہا ْ میرا نصیب ! پوری دنیا میں اس خدمت کے لیے اس غلام کو چنا گیا ْ
سلطان نورالدین زنگی نے 15 مئی 1174 کو 58 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس نے 1146 سے 1174 تک 28 سال حکمرانی کی۔ 1977 میں شام کے شہر حمص میں مجھے اس نامور اور معزز حکمران سلطان نورالدین زنگی کی قبر پر حاضری اور فا تحہ خوانی کا شرف حاصل ہوا۔سفید سنگ مرمر کی قبر کے نیچے محو استراحت اس عظیم حکمران کی کامرانیاں تاریخ کی کتابون میں رقم ہیں مگر یہ منفرد واقعہ اہل ایمان کے دلوں پر رقم ہے۔
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 149549 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.