عہد فاروقی ؓ : تعلیم و تدریس میں مساجد کا کردار

آپ ﷺ کے عہد سے مسلمان معاشرے میں دوطرح کے مدارس کا نظام رائج تھا۔ پہلی قسم کے مدارس مکاتیب کہلاتے تھے جن میں چھوٹے بچے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے جب کہ دوسری قسم کو حلقہ درس کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا جن میں بزرگ حضرات اپنے سامعین کو قرآن ، حدیث اور فقہ کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ یہ دونوں طرح کے مدارس رضا کارانہ طور پر کام کرتے اور ساری تعلیم زبانی ہوا کرتی تھی کیوں کہ اُس وقت محفوظ کرنے کا کوئی نظام موجود نہ تھا۔مدارس کا یہی نظام حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد خلافت میں بھی رائج رہا۔ جب حضرت عمر فاروق ؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے کچھ قواعد و ضوابط وضع کرکے ان دونوں مدارس کے نظاموں کو نہ صرف یکجا کیا بلکہ ان کو سرکاری حیثیت کا درجہ بھی دیا۔ آپ ؓ کی انتہائی خواہش تھی کہ کوئی شخص ناخواندہ نہ رہے ۔ اس کے لئے انہوں نے شہروں میں مدارس کا جال پھیلایا۔

حضرت عمر فاروق ؓ نے مسجد الحرام میں حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ کومدرس مقرر فرمایا جو وہاں تعلیم و تدریس کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ محدثین کے مطابق آپ ؓ ہر روز ایک نئے علم کا درس دیا کرتے تھے ، یعنی تفسیرالقران ، حدیث ، اسلامی تاریخ ، ادب و شاعری اور عربوں کے ماضی کے واقعات وغیرہ مختلف دنوں میں پڑھایا کرتے تھے۔ آپ ؓ کا درس مختصر ہوا کرتا تھا تا کہ سامعین طویل درس سے تنگ اور بوریت محسوس نہکریں ۔ مسجد نبوی ؐ میں درس کے لئے حضرت زید بن ثابت ؓ کو صدر مدرس مقرر کیا۔ اس کے علاوہ تین مدرسین مزید تعینات فرمائے۔ تمام مدرسین کو تنخواہ بیت المال سے ادا کی جاتی تھی۔

جب عہد فاروقی ؓ میں فتوحات کا سلسلہ عراق ، شام اور مصر تک وسیع ہوگیا اور بکثرت لوگ مسلمان ہوئے تو آپ ؓ نے تعلیم و تدریس کے لئے وہاں کے والیوں کو ہدایات ارسال کیں کہ تمام مرکزی شہروں میں جامع مساجد تعمیر کروائیں جائیں۔ امیر بصرہ حضرت عتبہ ؓ بن غزوان نے 14 ہجری میں جامع مسجد بصرہ بنوائی۔ تعمیر کے ساتھ ہی یہاں تدریس کا حلقہ جاری ہوگیا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو صدر مدرس مقرر فرمایا جو نہایت قرینے سے پڑھاتے تھے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے تمام شاگردوں کو مختلف حلقوں میں تقسیم کیا تھا جن پر ایک ایک نگران مقرر ہوتا تھا۔ یوں انہوں نے اپنی ذمہ داری کو قدرے آسان بنا لیا تھا۔ موجودہ دور میں یہی طریقہ تدریس مدارس میں رائج ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ نے جب ایرانی تاج و تخت سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا تو لشکر کا سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو نامزد کیا۔ آپ ؓ نے بیس ہزار جانثاران اسلام کے ساتھ قادسیہ کے مقام پر ڈیرہ ڈالا۔ جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا،تو آپ ؓ نے ڈیڑھ لاکھ مسلح ایرانی لشکر سے مجاہدین اسلام کو بڑی جوانمردی سے لڑایا۔یہاں تک کہ ایرانیوں کو شکست فاش ہوئی اور یوں فاتح ایران حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں ایرانی شہنشانیت کا خاتمہ ہوا۔آپ ؓبہادر ، دلیر ، پرہیز گار اور عبادت گزار تھے۔ اس کے علاوہ علم و فضل کے اعتبار سے بھی صحابہ کرام ؓ میں نمایاں مقام کے حامل تھے۔17 ہجری میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے خلیفہ وقت کی ہدایات کے مطابق جامع مسجد کوفہ تعمیر کروائی۔ حضرت براء بن عازب ؓ پہلے صحابی تھے جنہوں نے وہاں درس و تدریس کا سلسلہ جاری فرمایا۔ بعد میں حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کو جامع مسجد کوفہ کا مدرس مقرر فرمایا۔ کوفہ روانگی کے وقت آپ ؓ نے حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کو چند نصیحتیں فرمائیں۔ اول، دونوں وقت لوگوں کو تعلیم دو، یعنی نماز فجر کے بعد سے دن چڑھے تک اور نماز ظہر سے نماز عصر تک۔ دوم، لوگوں کو قرآن پڑھاؤ ، سنت اور احادیث بیان کرو۔ سوم ، اگر تجھ سے ایسا سوال کیا جائے جس کے متعلق تم نہیں جانتے تو بلا جھجک یہ کہہ دیا کریں کہ میں نہیں جانتا۔ چہارم ، اگر سوال کا جواب جانتے ہو تو جواب دو، ورنہ خاموشی اختیار کرو اور فتوے کم دو۔ پنجم ، دعوت قبول کرسکتے ہو لیکن تحفہ قبول مت کرو۔ اگرچہ یہ حرام کام نہیں ہے لیکن میں تمہارے خلاف چہ میگوئیاں پھیلنے سے ڈرتا ہوں۔

آپ ﷺ کے نہایت قریب ہوجانے کی وجہ سے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نبی اکرم ﷺ سے بہت زیادہ فیض حاصل کیا۔ آپؓ کو قرأت و تجوید میں غیر معمولی کمال کے ساتھ قرآن پاک کی تفسیر میں بھی خصوصی مہارت حاصل تھی۔ آپ ﷺ نے جن چار صحابہ کرام ؓسے قرآن سیکھنے کی ہدایت فرمائی تھی اُن میں ایک حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ آپ ؓ صرف ایک عالم و قاری اور عابد و زاہد ہی نہیں تھے بلکہ ایک باہمت ، دور اندیش اور زبردست مجاہد بھی تھے۔آپؓ نے تمام مشہور اور اہم غزوات میں بڑھ چڑھ کر شرکت فرمائی۔ جنگ ِ یرموک میں بھی شریک ہوئے اور دشمنوں کا جرأت و شجاعت سے مقابلہ کر کے اپنی جنگی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دور ِ خلافت میں آپ ؓ کوکوفہ کا قاضی اور بیت المال کا متوالی بھی بنایا تھا۔

جامع مسجد بیت المقدس کو فاتح شام حضرت ابو عبیدہ ؓ نے بنوایا تھا۔ یہ دراصل ایک کلیسا تھا جس کے آدھے حصے کو آپ ؓ نے فتح کیا تھا ۔ آپ ؓ نے وہاں مسجد تعمیر کروائی اور حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو مدرس قرآن مقرر فرمایا جن کی عظمت کا اندازہ حضرت عمر فاروق ؓ کے اس قول سے ہوتا ہے ۔ ’’ عورتیں معاذ بن جبل ؓ جیسا انسان پیدا کرنے سے عاجز ہیں ‘‘۔ جامع مسجد دمشق 17 ہجری میں تعمیر ہوئی۔ صدر مدرس حضرت ابو دردا رضی اﷲ عنہ نماز فجر کے وہاں درس دیا کرتے تھے۔ جب ایک شاگرد پورا قرآن حفظ کرلیتا تو آپ ؓ اس کو اپنا شاگرد مقرر کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے شمار کیا تو معلوم ہوا کہ اَب تک ایسے سولہ سو شاگرد بن چکے ہیں۔ جامع مسجد حمص 17 ہجری میں تعمیر ہوئی تھی اور اس وقت سے یہاں تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہوگیا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے مشہور صحابی رسول ﷺ اور معلم درس گاہ صفہ حضرت عبادہ ابن صامت ؓ کو صدر مدرس مقرر کیا۔فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ نے قاہرہ کے قریب چھاؤنی کی بنیاد رکھی۔ اگرچہ آپ ؓ نے 20 ہجری میں وہاں جامع مسجد عمرو بن العاص ؓ تعمیر کی لیکن تعلیم و تدریس کا باقاعدہ آغاز 16 ہجری میں مٖصر کی فتح کے ساتھ ہوچکا تھا۔ خود حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ اور ان کے صاحب زادے عبداﷲ اور قیس بن عبادہ ؓ درس دیتے تھے۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے فقہ کی تعلیم کے لئے حبان ابی حبلہ کو بھیجا تھا۔ پس عہد فاروقی ؓ میں جتنی فتوحات ہوئیں وہاں تعلیم عام کرنے کے لئے مساجد کا جال پھیلا گیا اور علم و عرفان کی روشنی سے شہر و دیہات منور ہوئے۔ مسلمانوں میں خواندگی کا معیار زیادہ بڑھ گیا اور لوگوں کی علم دین سے واقفیت عام ہو گئی۔

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.