| کراچی سالانہ اجتماع تھا- صبح کا بیان شروع ہوا-
 ایک ضعیف العمر بزرگ مائک پہ تشریف فرما ہوئے-
 الفاظ کان کے پردے سے ٹکراتے مگر سمجھ ندارد-
 میں نے اپنے ساتھی اکرم سے کہا یار یہ تبلیغ والے بھی کمال کرتے ہیں-
 سویرے سویرے اسّی سالہ بزرگ کو بٹھا دیتے ہیں-
 اب کون سمجھے انہیں ؟؟
 وہ بولا آہستہ بولو- حاجی صاحب ہیں- حاجی عبدالوہاب صاحب -
 
 میں اپنے گزشتہ خیالات سے رجوع کرتا اٹھا اور صفوں میں رستہ بناتا آگے ، 
		بہت آگے ، جہاں تک جا سکتا تھا جا کر بیٹھ گیا- یہاں سے ان کا پرنور چہرہ 
		بھی صاف دکھائ دیتا تھا اور کوئ ایک آدھ بات بھی پلے پڑ رہی تھی-
 
 میں اور اکرم اجتماع میں روٹی مانگنے آئے تھے-
 ہم دونوں کا گزارا ان دنوں مشکل تھا-
 کبھی میں اکرم کا مقروض ہوتا کبھی وہ میرا- کبھی ہم دونوں کسی تیسرے کے 
		مقروض ہوتے-
 
 کراچی اجتماع آیا تو میں نے تجویز پیش کی کہ رات وہاں گزارتے ہیں اور رب سے 
		ڈھیر سارا رزق مانگتے ہیں- فرشتے جب ارادے لکھنے آئیں گے تو ھم روٹی کا 
		مسئلہ پکڑا دیں گے- رب تعالی بے شمار خزانوں کا مالک ہے-
 شاید کوئ لاٹری کھول دے-
 
 حاجی صاحب کی تقریر کے بعد جب ارادے لکھے جانے لگے تو اکرم نے مجھے اشارہ 
		کیا-
 ہم دونوں کا عقیدہ تھا کہ ارادے لکھے جانے کے دوران جو بھی دعا مانگی جائے 
		ضرور قبول ہوتی ہے-
 حاجی صاحب ارادے لکھواتے رہے اور ہم رب تعالی سے اس آسمانی رزق کا سوال 
		کرتے رہے جسے عیسی علیہ السلام نے " تکونو لنا عیدا" کہا تھا-
 
 کچھ سالوں بعد رب تعالی نے ہم دونوں کی تنگی دور کر دی-
 ہم خوشحال ہو گئے-
 بچوں کی ننھی منی فرمائشیں یکم تاریخ کے کھونٹے سے اتر کر ہماری جیبوں میں 
		آ گئیں-
 مرغ حلوے کےلئے عید کا انتظار ختم ہو گیا- ہم مچھر کالونی سے نکل کر 
		سوسائٹی میں آ گئے- پھر نہ حاجی صاحب یاد رہے نہ اجتماع-
 ویسے بھی ہم نے کون سا تبلیغ کا ارادہ کیا تھا کہ یاد آتے-
 
 آج حاجی صاحب رخصت ہو گئے-
 پوری زندگی بندے کا تعلق رب سے جوڑنے والا رب کی ملاقات کو چلا گیا- میرا 
		خیال ہے بلکہ یقین ہے کہ ہلکی سی ایمان کی آنچ ان کی محفل میں شعلہ فشاں بن 
		جاتی تھی- ذرا سی سوکھی لکڑی ایمان کی حرارت سے آگ پکڑ لیتی تھی- بے شمار 
		کھنڈر ذھنوں کو نور ایمان سے جگمگانے والے حاجی صاحب رب تعالی کی جنتوں میں 
		چلے گئے اور ہم روٹی پکڑے رہ گئے --- صرف روٹی --!!!
 
 ویسے کمال کے بندے ہیں ہم-
 اللہ والوں کے پاس جاتے ہیں دنیا مانگنے کےلئے-
 یہ بھول کر کہ دنیا بقدرِ قسمت ہے اور دین بقدرِ محنت- اب کی بار انشاءاللہ 
		ہاتھ اٹھا کے ارادہ کریں گے-
 لیکن حاجی صاحب تو نہیں ہونگے ناں- رحمة اللہ علیہ و مغفرة-
 
 |