اکثر جوش میں آکر ہمارے ملک میں کچھ اقدامات کر لیے جاتے
ہیں۔ مگر رفتہ رفتہ وہی اقدامات شکست و ریخت کا شکار ہونے لگتے ہیں۔تاحال
اپنی تحصیل کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ گردونواح پہ نظر پڑتے ہی دل میں
عجیب سے اُبال شروع ہو گئے۔ کچھ عرصہ پہلے بہت سلیقے سے کچھ تبدیلیاں لائی
گئیں۔ سڑکوں کی تعمیرِ نو کی گئی۔ جگہ جگہ پہ کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے
بِن رکھے گئے۔ سڑک کے کنارے پہ پھیلی گندگی کو اُٹھا لیا گیا اور سڑکوں کے
کناروں سے ریڑھیوں پہ سجی بے ترتیب منڈیوں کو ہٹا دیا گیا۔ تب ایسا لگا
جیسے ایک دم یہ بڑی تبدیلی کوئی معجزہ ثابت ہوئی۔مگر جیسے جیسے وقت گزرا یہ
سب وقت کی دھول ثابت ہوا۔ بات صرف میری تحصیل یا علاقے تک محدود نہیں رہتی
،ٹی وی رپوٹیں اور اخبار و میگزین پورے ملک میں ایسی تبدیلیوں اور پھر ان
کی خستہ حالی پہ چیخ چیخ کر بولتے رہتے ہیں۔ حال میں ہمارے ملک میں موجود
بہت سے مسائل جن میں صحت سے متعلق پانی کے مسائل،کھانے پینے کی ناقص اشیاء
اور لوگوں کے رجحانات پہ میڈیا چیخ و پکار کر رہا ہے۔ کوئی بھی ملک ہو اُس
کی ترجیحات میں یہ شامل ہو کہ اُ س ملک کی عوام کو صحت سے متعلق بہترین
سہولیات فراہم کی جائیں۔کچھ عرصہ سے عام لوگوں کے کھانے پینے کی عادات میں
بڑی تبدیلی آئی ہے۔ گھروں میں کھانا پکانے اور کھانے کی نسبت باہر ہوٹلوں
سے کھانے پینے کے شوق میں بتدریج اضافہ ہو ا ہے۔بلکہ یہ ایک فیشن کی صورت
اختیار کر چکا ہے۔جس کی وجہ سے سڑک کے کنارے بیٹھے برگر اور نان چنے بیچنے
والوں کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ یہاں تک تو بات ٹھیک مگر انتہائی افسوس کے
ساتھ اس حقیقت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ریڑھیوں ،ڈھابوں، دکانوں حتی
کہ ہوٹلوں میں بھی ان کھانے پینے کی اشیاء کی تیاری میں ناقص میڑیل استعمال
کرنے کے ساتھ ساتھ صفائی اور حفظان صحت کے اصولوں کو یکسر نظر انداز کر دیا
جاتا ہے۔ وقتی بھوک اور لذت و شوق کے مٹ جانے کے بعد یہی کھانا صحت کے
سنگین مسائل لے کر رونما ہوتا ہے۔ان مصنوعات کی تیاری میں مصالحوں میں سستی
اور ملاوٹی اشیاء استعمال ہوتی ہیں،پینے کا پانی گندے برتنوں میں رکھا جاتا
ہے۔ایک ہی گلاس میں سب پی رہے ہوتے ہیں۔سڑکوں اور فٹ پاتھوں پہ کھڑی
ریڑھیوں پر مکھیاں بھنبھا رہی ہوتی ہیں اور ساتھ ماحول کی گردوغبار اور
دھول بھی اس کی غذائیت کا حصہ بن چکی ہوتی ہے۔افسوس یہ ہے کہ حفظان صحت کے
اصولوں کی اعلانیہ خلاف ورزی کو چیک کرنے والا کوئی نہیں۔ ایسی جگہوں سے
کھانے کا نتیجہ بیماریوں کی صورت ہی نکلتا ہے۔ویسے تو محتاط لوگو ں کے
نزدیک بڑے بڑے نامی گرامی ریستوران اہمیت رکھتے ہیں مگر صحت و صفائی کے
لحاظ سے انھیں بھی معیاری قرار دینا مشکل ہے۔لیکن چھوٹی چھوٹی ہوٹلوں اور
ڈھابو ں کی حالت انتہا ئی ابتر ہے۔بہر حال یہ محکمہ صحت خوراک کی ذمہ داری
ہے کہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ عام لوگ جو کچھ کھا رہے ہیں وہ صاف ستھرا
اور ملاوٹ سے پاک ہو۔کھانے پینے کی اشیاء کی ناقص صورتحال کا وبال ایک طرف
،ہمارے ملک میں پینے والے پانی کی صورتحال بھی انتہائی خستہ حالی کا شکار
ہے۔ملک میں پھیلنے والے وبائی امراض کے ساتھ اب عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ
میں یہ بھی انکشاف ہو ا کہ پاکستان میں پینے کے صاف پانی میں خطرناک اور
زہریلے مادے آرسینک کی بہت زیادا مقدار موجود ہے جس سے 6کڑوڑ شہریوں کی
زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔پانی میں سنکھیا کی سب سے زیادہ مقدار لاہور اور
حیدرآباد میں دیکھی گئی ہے جس کی وجہ سے وہاں کی آبادی کو اس سے خطرہ سنگین
ترین ہے۔سنکھیا یا آرسینک قدرتی طور پر پائی جانے والی معدنیات میں شامل
ہے۔جو بے ذائقہ ہوتا ہے اور گرم پانی میں حل ہو جاتا ہے اور جس کے مسلسل
استعمال سے انسان کو سنگین بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔صحت کے عالمی اداروں
کی جانب سے اتنے واضح الرٹ کے بعد بھی وفاقی وصوبائی سطح پر کوئی ہلچل
دیکھنے میں نہیں آئی۔اقدامات سے یوں لگتا ہے کہ صحت کا میدان کسی بھی حکومت
کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ہاں کبھی کبھی جوش میں آکر وقتی اقدامات ضرور
کر لیے جاتے ہیں مگر یہ جذبہ جلد ہی مفقود ہو جاتا ہے اور نتیجہ شکست وریخت
کی صورت نکلتا ہے۔جہاں تک صاف پانی کا تعلق ہے تو یہ واسا کی ذمہ داری ہے
کہ شہریوں کو آلودگی سے پاک پانی فراہم کرے۔ دوتین برس پہلے لاہور میں
مختلف مقامات پر کارپوریشن اور واسا نے شہریوں کو بلا قیمت پینے کا صاف
پانی فراہم کرنے کے لیے کئی ایک فلٹر پلانٹ لگائے تھے جو مناسب دیکھ بھال
نہ ہونے کے باعث ناکارہ ہو چکے ہیں یا بوتلوں میں پینے کا پانی فراہم کرنے
والوں نے بند کرا دیئے ہیں۔ بہر حال لاہور سمیت باقی تمام شہروں میں بھی
واٹر اینڈ سیوریج اتھاریٹیز کو اپنے اپنے حلقوں میں کژیت سے مصفا پانی کے
فلٹر لگانے چاہیں۔آلودہ پانی کی وجہ سے گیسٹرو کے مریضوں میں اضافہ ہو ا ہے
۔ پاکستان میں صحت کے مسائل تیز ی سے جنم لے رہے ہیں۔بارش کے موسم میں
مچھروں کی افزائش نسل بڑھ جاتی ہے جس سے ڈینگی ،چکن گنیا اور ملیریا پھیلنے
کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ماہرین نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اگر گندگی اور
مچھروں کی افزائش کو ختم نہ کیا گیا تو آئندہ برسوں میں مچھروں سے پیدا
ہونے والی دیگر بیماریاں بھی پاکستان میں منتقل ہو سکتی ہیں۔اس بات کی
انتہائی شدت سے ضرورت ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر وبائی امراض اور پانی
کی آلودگی ختم کرنے کے لیے فوری اور راست اقدامات کیے جائیں۔اکیلے پانی کی
صورتحال انتہائی ناقص ہے پینے کے پانی کی فراہمی ناقص اکثر پینے کے پانی
میں گٹر کا پانی مل جاتا ہے۔ اس ملک کی عوام ویسے بھی ملاوٹی اشیاء تیار
کرنے میں ماہرہیں۔ پانی بھرے گوشت کی شکایت تو پہلے بھی عام تھی اب اکثر
خبروں میں مردہ جانوروں کے گوشت بکنے کی خبریں بھی سر گرم رہتی ہیں۔صحت اور
اس سے متعلقہ اداروں کی کارکردگی جس قدر مایوس کن ہے اسی قدر حکومت کی
ترجیحات کا بھی تخمینہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ تسلی بخش نہیں رہا ہے۔ زیرِ
زمین پانی کی سطح روز بروز نیچی ہوتی چلی جا رہی ہے جس کی وجہ ہمارے ہاں
میٹھے پانی کا بے دریغ استعمال بھی ہے۔ اسی پانی سے پینے سے لے کر گھر کی
تمام ٖضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ اگر یہی صورتحا ل رہی تو ہو سکتا ہے
کچھ عرصہ تک زیرِ زمین پانی بھی جواب ہی دے جائے اور ہم پانی کے ایک قطرے
کے لیے ترستے رہ جائیں جبکہ بارشوں ،سیلابوں اور دریاؤں کا پانی مناسب
تدابیر نہ ہونے کی صورت میں سمندروں میں بہہ جاتا ہے اور اس پانی کو ڈیموں
میں محفوظ کر کہ بچایا جا سکتا ہے جس کی طرف ابھی پیش قدمی مختلف مسائل کا
شکار ہے۔ ہمارا وقت تو جیسے تیسے ہے گزر رہا مگر آئندہ چند سالوں میں ہماری
آنے والی نسلو ں کو بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عام انسانوں سے
لے کر اعلی عہدیداروں تک سب کو مل بیٹھ کر سوچنے اور انتہائی سنجیدہ
اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ لوگو ں کے رویو ں کوبھی بدلنے کی اشد ضرورت ہے
اور اس کے لیے شعورو آگہی انتہائی ضروری ہے تاکہ لوگو ں کو صحت کے اصولوں
کے بارے میں آگاہی دی جا سکے ۔ اور پیسے کمانے کے چکر ناقص اشیاء کی فراہمی
کر کے عوام الناس کی زندگیوں کو اکھاڑے کا میدان نہ بنایا جائے۔میری ہر
پاکستانی سے اپیل ہے خدارا ! جاگ جاؤ۔ اپنے گرد خستہ حالی کو دیکھ کر،
نظرانداز کر کہ گزرنے سے بہتر ہے کہ کچھ کر لیا جائے۔ اور اعلی حکام بھی
اپنی تمام ذمہ داریاں ایمانداری سے پوری کریں۔ ہمیں ایک خوشحال پاکستا ن کی
ضرورت ہے اپنے لیے اور اپنی بقاء کے لیے۔اور صحت وصفائی اور کھانے پینے کی
معیاری اشیاء تمام حکومتوں کی ترجیحا ت میں شامل ہونی چاہئیں۔ |