نفاذ اردو کیوں ناگزیر ہے؟

جب ہم اردو کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں تو کچھ لوگ اسے انگریزی دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں۔ انگریزی کی بین الاقوامیت اور افادیت سے انکار نہیں ۔ پاکستانیوں کو انگریزی پڑھنی اور سیکھنی چاہیے۔یقینا انگریزی علوم کا خزانہ ہے اس سے اہل پاکستان اور امت مسلمہ کو مستفید ہونا چاہیے۔ خیر جہاں سے ملے اسے قبول کرنا چاہیے۔یاد رہے کہ اردو بھی بین الاقوامی زبان ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اردو دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اسلام کا علمی خزانہ بھی سب سے زیادہ اردو میں ہی میسر ہے۔ اس لیے اردو ہمارے لیے بہت اہم ہے۔

اردو پاکستان میں رابطے کی واحد زبان ہے۔ سندھی، بلوچء، سرائیکی، بروہی، پنجابی، پوٹھوہاری، ہندکو، گوجری، پشتو، شینا اور بلتی زبانیں بولنے آپس میں قومی زبان اردو میں تبادلہ خیال، کاروبار اور معاشرتی امور انجام دیتے ہیں۔جبکہ انگریزی پاکستان میں بمشکل ایک فیصد لوگ سمجھتے ہیں لیکن عام زندگی میں بولتے نہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ نے اردو کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان قرار دیا بلکہ اس شدت سے قرار یا اور کہا کہ جو اردو کے بارے میں آپ کو گمراہ کرے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔

اردو پاکستان کی پہچان اور تشخص کی علامت ہے۔ اس لیے اہل پاکستان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی قومی زبان میں پڑھیں، لکھیں اور اسی زبان میں ان سے ریاست معاملات کرے۔ یہ حق دستور پاکستان کی شق ۱۵۲ میں تسلیم کیا گیا ہے اور ریاست کو حکم دیا گیا ہے کہ اسے بطور سرکاری، دفتری اور تدریسی زبان نافذ کیا جائے۔ انگریزی سے اردو کی طرف منتقلی کے لیے دستور میں پندرہ سال کی جو مہلت دی گئی تھی وہ بھی ۸۹۹۱ ءمیں ختم ہو چکی ہے۔ نوکرشاہی ۸۹۹۱ءسے مختلف حیلوں اور بہانوں سے سپریم کورٹ سے مزید مہلت لیتی رہی ہے۔ الحمدللہ ۵۱۰۲ءکے عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے مزید مہلت کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا ۔ یوں نوکر شاہی اب عدالتی مہلت سے بھی محروم ہوچکی ہے اور دستور شکنی کے ساتھ ساتھ توہین عدالت کی بھی مرتکب ہو رہی ہے۔

جنرل ضیاءالحق مرحوم کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے مقتدرہ قومی زبان نے ۸۹۹۱ءتک پورے نظام حکومت اور نظام تعلیم کو قومی زبان میں منتقلی اہتمام کردیا تھا۔ تمام دفتری مراسلت، قوانین، قواعد اور ضروری دستاویزات اردو میں منتقل کردی گئیں تھیں۔ دفتری زبان میں استعمال ہونے والی تمام اصطلاحات کو بھی اردو میں منتقل کیا گیا۔ سیکرٹریٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام تمام سرکاری محکموں کے افسران اور عملہ اراکین کو بھی دفتری اردو کی تربیت کا اہتمام بھی مکمل کردیا گیا تھا۔ آج تک اردو دفتری مراسلت کورس کرنے کا خصوصی الاوئنس بھی لے رہے ہیں۔

آج انگریز سامراج کی زبان کو پاکستان میں مسلط رکھنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔ یہ صرف حکمرانوں کی نااہلیت، قومی زبان کی اہمیت سے لاعلمی اور استعماریت کے مرعوبی اور نوکرشاہی کی ہٹ دھرمی سے جابرانہ طور پر قائم ہے۔ انگریزی محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب ہے۔ جو ہماری سوچ اور فکر پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ نئی نسل انگریزی میڈیم کی وجہ سے آج اردو لکھنے سے محروم ہو رہی ہے اور انگریزی رسم الخظ میں رومن اردو لکھی جارہی ہے۔ کچھ ملٹی نیشنل کمپنیاں رومن اردو کو فروغ دے کر ہمیں اپنی میراث سے محروم کرنے کی سازش میں ملوث ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہی ہماری زبان کی توہین کی جارہی ہے۔ سوائے چند ایک کے، ہمارے حکمران جاہل ہی تھے۔ نوکر شاہی ان کے ساتھ کام کرنے میں آسانی محسوس کرتی تھی۔ وزراءکی اکثریت وہ زبان جانتی ہی نہیں تھی ، جس میں نوکرشاہی حکومت کررہی تھی۔ یہ وزراءبس انگریزی میں دستخط کرنا ہی جانتے تھے۔ یوں نوکر شاہی جاہل حکمرانوں کے ذریعے اپنی نسلوں کو پاکستان پر مسلط رکھنے کے منصوبے پر کام کرتی رہی۔ انگلش میڈیم اداروں پرقومی خزانے سے بھاری اخراجات کیے گئے، جن میں نوکرشاہی، حکمرانوں اور مراعات یافتہ طبقے کے بچے تعلیم حاصل کرتے رہے اور غریب کے بچے کھلے آسمان تلے ٹاٹ پر بیٹھنے پر مجبور کیے گئے۔

آسیہ بی بی کے کیس کا فیصلہ چیف جسٹس صاحب نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی جاری کیا اور اپنے ریمارکس میں کیا خوب کہا کہ اردو میں اس لیے جاری کیا جارہا ہے تاکہ قوم کو سمجھ آجائے کہ فیصلہ کیا ہوا ہے۔ جناب چیف جسٹس کے ریمارکس سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ وہ باقی سارے فیصلے انگریزی میں اس لیے کرتے ہیں کہ قوم کچھ بھی نہ سمجھ سکے۔ چیف جسٹس صاحب کی طرح ہمارے حکمران، بیوروکریٹ بھی معاملات حکومت انگریزی میں اس لیے چلا رہے ہیں کہ جس قوم کے پیسوں پر وہ پل رہے ہیں، اسے کچھ سمجھ نہ آئے کہ ان کے ساتھ کیا کیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ میں دئیے گئے ریمارکس کسی وضاحت کے محتاج نہیں بلکہ بہت واضح اور صاف ہیں۔

مراعات یافتہ طبقے نے سارے قومی وسائل اپنے بچوں کو انگریزی پڑھانے پر صرف کیے اور عوام کو جاہل رکھنے کی پوری کوشش کی۔ جہاں کہیںمجبورا سکول بنانے پڑے ان میں نہ عملہ ہے اور نہ تدریسی وسائل اور ماحول ہے۔عوام کو کمیوں کی طرح دال پر ٹرخانے والے کب تک قومی دولت کو لوٹتے رہیں گے۔عوام کے لیے جو تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ان کو چلانے والے یہی نوکر شاہی تھی ، جس نے ان میں کبھی بھی معیار قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آج کتنے سرکاری افسروں اور حکمران طبقے کے بچے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اگر نہیں تو کیوں؟یہ ظلم اور دادا گیری کب تک جاری رہے گی۔ قومی وسائل پر پانچ فیصد مراعات یافتہ لوگوں کو کب تک پالا جاتا رہے گا۔

عمران خان گزشتہ بائیس سالوں سے کالے انگریزوں کی مذمت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے عنان حکومت سنبھالتے ہیں قومی وقار کو ملحوظ رکھا۔ قومی لباس کو عزت دی اور قومی زبان میں حلف لیا۔ صدر مملکت نے بھی قومی زبان میں ہی حلف لیا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ عمران خان ماضی کے حکمرانوں کی طرح مغرب سے مرعوب نہیں۔ وہ بیرونی دوروں کے دوران بھی قومی لباس ہی پہنتے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ قبلہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ جیسے موقر پلیٹ فارم پر قومی زبان اردو میں خطاب کرکے تاریخ رقم کی۔ یہ توفیق نوازشریف، زرداری سمیت کسی کو حاصل نہیں رہی۔

عمران خان یکساں نظام تعلیم کے علمبردار ہیں اور انہوں نے اس کے لیے عملی کام بھی شروع کردیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق موجودہ حکومت نے یکساں نظام تعلیم کے لیے جو ٹاسک فورس بنائی تھی، اس نے یکساں نظام تعلیم کو قومی زبان اردو میں رائج کرنے کی سفارش کردی ہے۔ گزشتہ ہفتے پنجاب کے وزیر تعلیم جناب ڈاکٹر مراد راس نے طباعتی اداروں کے ساتھ نشست میں بہت واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پنجاب کے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں یکسان نصاب رائج کیا جارہا ہے اور پرائمری سطح پر قومی زبان میں تعلیم دی جائے گی۔ ہم اس اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت جلد ثانوی اور اعلیٰ تعلیم بھی قومی زبان میں دینے کا تاریخ ساز فیصلہ کرے گی۔

تعلیمی نظام کو قومی زبان میں منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ سی ایس ایس ،وفاقی اور صوبائی ملازمتوں کے لیے مقابلے کے دیگر امتحانات بھی قومی زبان میں لینے کی ضرورت ہے۔ ہماری اسی فیصد آبادی دیہی علاقوں میں مقیم ہے جہاں اب تک اردو ہی ذریعہ تعلیم ہے۔ دیہی تعلیمی اداروں سے پڑھ کر آنے والے نوجوان کسی بھی طور انگریزی میں امتحان دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے سی ایس ایس کے امتحانات میں اسی (۰۸) فیصد امیدوار ناکام ہوجاتے ہیں۔ صرف بیس فیصد امیدوار کامیاب ہوتے ہیں، جو ان سول اور ملٹر ی بیوروکریٹ کے بچے ہیں۔

دنیا میں ترقی کرنے والی قوموں کا جائزہ لیا جائے تو اسرائیل جیسا ملک جس کی سرکاری اور تدریسی زبان عبرانی زبان ہے، جو اسرائیل کے علاوہ کہیں بولی اور سمجھی نہیں جاتی۔ اس کے باوجود سب سے زیادہ نوبل انعام یافتہ سائنسدان اسرائیل نے پیدا کیے ہیں۔ جاپان والے جاپانی میں، جرمنی، فرانس، اٹلی، روسی، ایرانی اور عرب اپنی قومی زبانوں میں پڑھ کی عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ معاملہ علم کی تفہیم کا ہے۔ جسے انگریزی میں انڈرسٹینڈنگ کہتے ہیں۔ ہمارے بچے رٹہ لگا کر ڈگریاں لے لیتے ہیںلیکن تفہیم حاصل نہیں کرپاتے۔

اردو کا نفاذ تحریک آزادی کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ ا ±ردو ہماری قومی اور دینی زبان ہے۔ اپنے ملک، اپنی قوم، اپنے تشخص، اپنی پہچان اور اپنی نسلوں کی ترقی کے لیے ہمیں اردو کو نافذ کرنا ہے۔ اس مسئلے میں نہ تاخیر قبول کی جاسکتی ہے اور نہ ظالم و سفا ک انگریز کی زبان کا غلبہ برداشت کیا جاسکتا ہے۔

ہمیں اب فیصلہ کن جدوجھد کرنی ہے۔ یہ جدوجھد مطالبات اور درخواستوں کی نہیں بلکہ عوام کی بات عوام کی ضرورت اور عوام کی خواہش کو عوام کی قوت کے ذریعے نافذ کروانا ہے۔انگریزی زبان کا جابرانہ قبضہ ہمارے لیے زہر قاتل ہے۔ انگریزی کا تسلط ہماری نسلوں کی تباہی کی ذمہ دار ہے۔ ہم آئندہ نسلوں کو انگریزی کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے۔

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117099 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More