پاکستان کے ٹو پارٹی سسٹم میں عمران خان ایک تیسری طاقت
بن کر ابھرےجس سے پاکستانی سیاست ہلچل سی پیدا ہوئی۔عمران خان کا تبدیلی کا
نعرہ نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہواجس کے نتیجے میں2013 کے عام انتخابات
میں پی ٹی آئی خیبر پختون خواہ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گٸی۔ن لیگ کے
دور حکومت میں عمران خان صاحب نے مسلسل احتجاجی سیاست کو اپناٸے رکھا جس سے
اس وقت کی حکمرن جماعت کو خاطر خواہ نقصان پہنچا جسکا نتیجہ ٢٠١٨ کے عام
انتخابات میں ن لیگ کی شکست کی صورت میں نکلا اور پی ٹی آٸی ملک میں واضح
اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گٸی۔
یہ پاکستان کی تاریخ میں دوسری مرتبہ تھا کہ ایک جمہوری حکومت سے دوسری
جمہوری حکومت کو انتقال اقتدار عمل میں آیا اور خان صاحب اپنی ٢٢ سالہ طویل
سیاسی جدوجہد کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہو
گٸے۔وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد عمران خان نے غیر روایتی انداز میں
قوم سے خطاب کیا۔یہ گویا کوٸی خطاب نہیں بلکہ قوم کے ساتھ ایک مکالمہ تھا
جس میں عمران خان صاحب نے ملک کے داخلی معاملات ٗخارجہ پاليسی ٗبےروزگاریٗ
کرپشن اور ملکی قرضے سمیت تمام ہی امور پر عوام کو اعتماد میں لیا۔خان صاحب
کے اس خطاب کو عوامی اور صحافتی حلقوں میں کافی پذیرائی ملی گو کہ بعض
سیاسی مخالفين نے خان صاحب کو اس بات پر تنقيد کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے
اس موقع پر کشمير کے موضوع پر کیوں بات نہیں کی مگر اسکے باوجود یہ خطاب
عوامی امنگوں کا ترجمان ثابت ہوا۔بعض حلقوں کی جانب سے نو منتخب حکومت پر
یہ تنقيد کی جارہی ہے کہ حکومت نے اپنے سو دن کے پلان میں جن اہداف کے حصول
کا دعویٰ کیا تھا اس کے لیٸے کوٸی جامع حکمت عملی نظر نہیں آرہی ہے۔حکومت
پر تنقيد کرنا اپوزیشن جماعتوں کا حق ہے مگر اس معاملے میں حکومت کے پانچ
سالہ پروگرام اور سو دن کے پلان کو آپس میں خلط ملط نہیں کرنا چاہیٸے۔
٥٠ لاکھ گھروں کی تعمير ٗایک کروڑ نوکریاں اور ایک کروڑ نوکریاں اور ایک
ارب درخت لگانے جیسے اہداف نہ سو دن میں حاصل کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی
تحریک انصاف نے ایسا کوٸی دعویٰ کیا تھا۔سو دن کے پلان کے حوالے سے خان
صاحب کا یہ موقف ہے کہ حکومت کی سو دن کی کارکردگی سے ملک کی صحیح سمت
متعين ہو جاٸے گی اور پھر انہی خطوط پر آگے بڑھ کر پانچ سالہ پروگرام کا
حصول ممکن بنایا جاٸے گا۔حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا جاٸزہ لیا جاٸے تو
جو چیز انتہاٸی واضح ہے وہ حکومت کی جانب سے اپناٸی گٸی سادگی ہے جسکی سب
سے بڑی مثال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے چار کمروں کے سرکاری گھر میں
رہائش اختیار کی اور وزیراعظم ہاوس کو تحقيقی اور تدریسی ادارے میں بدلنے
کا اعلان کیا۔اسی طرح پی ایم ہاوس میں کثیر تعداد میں موجود گاڑیوں کی
نیلامی اور گورنر ہاوسز کو عوام کیلیے کھولنے جیسے اقدامات لاٸق تحسين
ہیں۔ان اقدامات سے پاکستان میں دہاٸیوں سے جاری محلات کی سیاست دفن ہو جاٸے
گی۔ان اقدامات کا ملکی خزانے پر بہت غیر معمولی اثر تو نہیں پڑےگا بلکہ یہ
اقدامات دراصل حکومت کی جانب سے علامتی اظہار ہے تاکہ عوام کا حکومت پر
اعتماد بحال کیا جاٸے۔
ایک طرف تو یہ اقدامات لاٸق تحسین ہیں مگر دوسری طرف یہ بات بھی قابل غور
ہے کہ حکومت کی ساری توجہ ان علامتی اقدامات پر ہی رہی ہے اور ملک کو بحران
سے نکالنے کیلیے اور آٸینی ضرورتوں کو پورا کرنے کے حوالے سے نو منتخب
حکومت کے خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آٸے۔اب دیکهنا یہ ہے کہ حکومت ریاستی
معاملات پر کب توجہ دیتی ہے اور ملک کو ریاستی سطح پر درپيش چیلنجز سے
نمٹنے کیلیے کیا حکمت عملی اپناتی ہے۔ |