حضرت مولانا محمد اسرار الحق صاحب قاسمیؒ (1942-2018)
اچانک اور غمناک موت:
معروف اسلامک اسکالر، بے لوث ملی ومذہبی رہنما، مشہور اردو کالم نگار اور
مقبول خطیب حضرت مولانا محمد اسرار الحق قاسمیؒ 7/دسمبر 2018 کوتقربیا
ساڑھے تین بجے رات میں، اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اس رات آپ "ٹپو" میں تھے،
جہاں انھوں نے اپنے قائم کردہ "دار العلوم صفہ" کے اساتذہ وطلبہ سے دیر رات
تک خطاب کیا۔ پروگرام کے بعد، گشن گنج سرکٹ ہاؤس میں آرام کے لیے فروکش
ہوئے۔ تقریبا تین بجے رات میں بیدار ہوئے اور تہجد کی تیاری کررہے تھے کہ
ہارٹ اٹیک ہوا اور آپؒ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپؒ کے سماجی، تعلیمی، مذہبی،
صحافتی اور سیاسی خدمات کی وجہ سے ، آپؒ کی وفات خاص طور پر اقلیتی سماج کے
لیے ایک عظیم حادثہ ہے۔نرم گفتاری، شرافت وسادگی، نرم مزاجی اور خوش اخلاقی
کی وجہ آپ کو عوام وخواص میں غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی۔
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے - زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
پیدائش اور تعلیم:
آپؒؒ کی پیدائش تاراباری، کشن گنج، بہارمیں، جناب منشی عمید اور محترمہ
آمنہ خاتون کے گھر ، پندرہ فروری 1942 کو ہوئی۔ علاقائی مدارس میں ابتدائی
تعلیم کےحصول کے بعد، افکارِ اسلامی کی عظیم درس گاہ: دار العلوم، دیوبند
میں داخل ہوئے اور 1964 میں دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی۔ آپؒ کی شادی 16/مئی
1965 کو ہوئی۔ آپؒ کی اہلیہ محترمہ 9/جولائی 2012 کوانتقال کرگئیں۔ اللہ
تعالی نے آپؒ کو تین لڑکے: جناب سہیل اسرار، مولانا سعود اسرار ندوی ازہری
اور جناب فہد اسرار صاحبان اور دو لڑکیوں سے نوازا۔
تدریسی خدمات:
فراغت کے بعد، آپؒ نے خدمت کے لیے تدریسی میدان کا انتخاب کیا۔ اوّلا آپؒ
نے "مدرسہ رحیمہ، مدھے پورہ" میں تدریسی خدمات انجام دی۔ پھر سن 1968 میں "مدرسہ
بدر الاسلام، بیگو سرائے" سے منسلک ہوگئے۔ آپؒ نے اس ادارہ میں 1973 تک
خدمات انجام دی پھر مستعقی ہوگئے۔ گو آپؒ ایک دینی ادارہ میں تدریسی خدمات
سے منسلک تھے، مگر خود کوادارہ کی چہار دیواری میں قید وبند کرکے نہیں رکھا؛
بلکہ مولانا سماجی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے اور جہاں کوئی سماجی
مسئلہ کھڑا ہوتا؛ تو اس کو حل کرنے یا کرانے میں پیش پیش رہتے۔
جمعیت علماء ہند:
بہت ہی مختصر مدت میں آپؒ کی سماجی خدمات کے جذبے اور ذکاوت وذہانت کے طفیل
، اکابرِ جمعیت علماء ہند نے آپؒ کو جمعیت کے پلیٹ فارم سے خدمات انجام
دینے کے لیے 1974 میں منتخب کیا۔ جمعیت ہندوستان کی پرانی اور قابل
قدرتنظیم ہے جو پورے ہندوستان میں اپنی خدمات پیش کرتی ہے؛ چناں چہ اس پلیٹ
فارم سے آپؒ کو قومی سطح پر سماج کے ہرفرد اور طبقے تک پہنچنے کا موقع ملا۔
یہاں آپؒ نے اپنی مفوضہ ذمہ داری کو اس طرح حسن وخوبی سے انجام دیا کہ آپؒ
جمعیت کے ایک اہم اور قابل اعتماد رکن بن گئے۔ پھر اکابرِ جمعیت نے 1980
میں آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے جمعیت کے جنرل سکریٹری کے اہم عہدہ سے نواز
کر، مزید خدمات انجام دینے کا موقع فراہم کیا۔آپؒ 1991تک جمعیت کے جنرل
سکریٹری رہے۔ آپؒ نے جمعیت کے منبر سے "ملک وملت بچاؤ تحریک"، "تحفّظِ
علیگڑھ مسلم یونی ورسیٹی"، "تحریکِ تحفّظِ مسلم پرسنل لا" وغیرہ کے موقعے
سے نہایت ہی نمایاں کارکردگی پیش کی۔ آپؒ نے جمعیت میں رہ کر جو سماجی،
رفاہی اور علمی خدمات انجام دی، اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے۔
آپؒ جمعیت میں رہتے ہوئے، ہندوستان کےہزاروں گاؤں، قصبے اور شہروں کا سفر
کرکے، متعدد مواقع سے، مختلف محاذوں پر، بغیر کسی ڈر اور خوف کے اپنی
فعالیت کا ثبوت پیش کیا۔ آپؒ نے جمعیت میں بحیثیت ایک رکن کام کیا ہو یا
بحیثیت جنرل سیکریٹری، آپؒ اپنی جانفشانی، جہد مسلسل اور اعلی خدمات کی وجہ
سے جمعیت میں بڑے محبوب رہے۔ گویا آپ کا نظریہ تھا کہ
زندگی نام ہے اک جہد مسلسل کا فنا – راہرو اور بھی تھک جاتا ہے آرام کے بعد
آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن:
جمعیت سے مستعفی ہونے کے بعد، آپؒ نے قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمیؒ
(1936-2002) کی زیر نگرانی قائم ہونے والی تنظیم: "آل انڈیا ملی کونسل" کے
پلیٹ فارم سےقوم وملت کی خدمات انجام دینا شروع کیا۔ شروع میں آپؒ کونسل کے
اسسٹنٹ جنرل سکریٹری رہے،پھر نائب صدر بنائے گئے اور تادم واپسیں اس منصب
پر فائزرہے۔ آپؒ کونسل کے جانباز سپاہی اور بے لوث خادم ثابت ہوئے۔ آپؒ نے
کونسل کو پروان چڑھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
جمعیت اور کونسل کے پلیٹ فارم سےسماجی ورفاہی خدمات انجام دیتے ہوئے آپؒ نے
یہ محسوس کیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی پستی وتنزلی کی بڑی وجہ ان کا
تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانا ہے۔ لہذا آپؒ نے تعلیمی میدان میں کام
کرنےکے لیے سن 2000ء میں "آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن" قائم کیا۔
فاؤنڈیشن کا اہم مقصد تعلیمی میدان میں کام کرنا طے پایا۔ پھر آپؒ
نےفاؤنڈیشن کے تحت دینی وعصری علوم کے متعدد ادارے قائم کیے۔ آپؒ نے ایسی
ایسی جگہوں پر تعلیمی کام کیا، جہاں کے لوگ علم کے حوالے سے بالکل ناآشنا
تھے۔ نہ ان لوگوں کو علم کی اہمیت کا پتہ تھا اور نہ خود کو جہل کی تاریکی
میں ہونے کا احساس۔ آپؒ نے خاص کر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے "ملی گرلز اسکول"
ٹپو، کشن گنج میں قائم کیا۔ اس ادارے میں سیکڑوں لڑکیاں، اسلامی ماحول میں
عمدہ تعلیم وتربیت سے حاصل کر رہی ہیں۔ اس اسکول میں دار الاقامہ کے ساتھ
ساتھ ہر طرح کی عصری تعلیمی سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ یہ اسکول اس علاقے میں
اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے۔یہ ادارہ لڑکیوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے
میں، ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔
"آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن" کے تحت، آپؒ نے ریلیف کا کام بھی انجام
دیا۔ سونامی اور سیلاب متاثرین کو بروقت راحت رسانی کا سامان مہیا کرایا۔
گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب کے موقع سے؛ جب کہ کشن گنج کا علاقہ بری طرح سے
متاثر ہوا تھا، آپؒ نے متاثرین کو بروقت امداد پہونچا کر ان کی داد رسی کی۔
پھر آپؒ نے علاقے کا دورہ کرکے، لوگوں سے ملاقات کی اور ان کو تسلی دی۔ آپؒ
نے جو ملی اور تعلیمی ورفاہی خدمات انجام دی ہے، مستفیدین اسے ہرگز فراموش
نہیں کرپائیں گے اور ان خدمات کا اجر عند اللہ آپؒ کو ضرور ملے گا، ان شاء
اللہ۔
تحریری وصحافتی خدمات:
آپؒ ایک دینی واسلامی فکر کے حامل قلم کار اور کالم نگار تھے۔ آپؒ کے
مضامین اسلامی افکار پر مشتمل ہوتے تھے۔ آپؒ کے مضامین کی زبان بہت سہل اور
صاف ستھری ہوتی تھی۔ آپؒ کے مضامین قارئین کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپؒ نے
اپنے مضامین کے ذریعے ایک طویل مدت تک اسلامی احکامات وتعلیمات کی نشر
واشاعت کا فریضہ انجام دیا۔ آپؒ نے اپنی تحریر میں جہاں بہت سے قومی وملی
مسائل کو اٹھائے وہیں اسلامی موضوعات پر لکھ کر، بطریق احسن اصلاحی ذمےداری
بھی نبھاتے رہے۔ آپؒ جب جمعیت میں تھے؛ تو دوسری خدمات انجام دینے کے ساتھ
ساتھ جمعیت کا ترجمان: "الجمعیت" کے ایڈیٹر بھی رہے۔ "الجمعیت" کا ایڈیٹر
رہتے ہوئے آپؒ نے بہت کچھ لکھا۔
آل انڈیا ملی کونسل نے جب اپنا ترجمان ماہ نامہ"ملی اتحاد" شروع کیا؛ تو آپؒ
اس کے چیف ایڈیٹر منتخب ہوئے۔ بحسن وخوبی آپؒ نے یہ ذمہ داری نبھائی۔ آپؒ
نےبہت سی مشغولیات کے باوجود بھی لکھنے کا سلسلہ بند نہیں کیا، بلکہ تادم
واپسیں جاری رکھا۔ آپ ایک بہترین قلم کار ثابت ہوئے۔ اہل فکر ونظر بھی آپؒ
کی تحریر کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ ہندوستان کے تقریبا سارے اردو اخبارات اور
ماہ نامے آپؒ کے مضامین چھاپتے تھے۔ آپؒ کے افکار وخیالات کی اہمیت کے پیش
نظر ،کبھی کبھی عربی وانگریزی جرائد ورسائل بھی آپؒ کے مضامین کا ترجمہ
شائع کرتے تھے۔
آپؒ کے گہربار قلم سے جو تصانیف منظر عام پر آئیں، وہ حالات حاضرہ کے
مشکلات کا حل پیش کرتی ہیں۔ آپؒ کی تصنیفات میں "مسلم پرسنل لا اور
ہندوستانی مسلمان"، "معاشرہ اور اسلام"، "اسلام اور مسلمانوں کی ذمے
داریاں"، "سلگتے مسائل"، "ہندوستانی مسلمان: مسائل اور مزاحمتیں"اور "عورت
اور مسلم معاشرہ" جیسی کتابیں شامل ہیں۔ اول الذکر کتاب اس وقت منظر عام پر
آئی؛ جب آپؒ "مدرسہ بدر الاسلام، بیگوسرائے" کے ناظم تعلیمات تھے۔ آپؒ نے
ہزاروں کالمز لکھا۔ اگر ان کالمز کو جمع کیا جائے؛ تو کئی ضخیم جلدیں تیار
ہوسکتی ہیں۔اسلامی افکار وخیالات پر مشتمل آپؒ کے دینی وسماجی کالمز کو
ضرور ترتیب دیا جانا چاہیے۔ان سے عوام وخواص ہر کوئی مستفید ہوں گے۔
میدانِ خطابت کے شہشوار:
آپؒ نے جس طرح ہزاروں کالمز لکھے، اسی طرح آپؒ نے عوام وخواص کے سیکڑوں
مجمع کو خطاب کیا۔ آپؒ ایک بہترین عوامی خطیب تھے۔ آپؒ بہت سے مدارس
وجامعات کے اجلاس اور عوامی اصلاحی پروگراموں میں بحیثیت خطیب مدعو کیے
جاتے تھے۔ سامعین آپ کی تقریر بہت غور سے سنتے تھے۔ ان دنوں جب کہ آپؒ ایم
پی تھے، پھر بھی لوگ آپؒ کو دعوت دینے کے لیے پہنچ جاتے۔ وقت اگر اجازت
دیتا؛ تو آپؒ دعوت قبول کرتے اور پروگرام میں ضرور شریک ہوتے۔ آپؒ کی خوش
اخلاقی، سادگی اور نرم گفتاری کی وجہ سے کسی بھی پروگرام کی انتظامیہ آپؒ
کو مدعو کرنے میں خوشی محسوس کرتی تھی۔ آپؒ بغیر کسی تفریق کےیکساں طور پر
گاؤں، قصبے اور شہروں کے پروگراموں کی دعوت قبول کرتے اور ہر جگہ تشریف لے
جاتے۔کسی پروگرام میں آپؒ کی شرکت، عام طور پراس پروگرام کے کام یابی کی
ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ آپؒ کے دل میں اصلاح امت کے حوالے سے جو درد اور
کڑہن تھی، اس وجہ سے اللہ نے آپؒ کے خطاب میں بہت اثر رکھا تھا۔ آپؒ چاہے
پارلیامنٹ میں اپنی بات پیش کرتے یا کسی عوامی مجمع سے خطاب کرتے، آپؒ پورے
اعتماد کے ساتھ بولتے۔ لوگ ایک قصبہ سے دوسرے قبصہ اور ایک شہر سے دوسرے
شہر، آپؒ کی تقریر سماعت کرنے کے لیے جاتے تھے۔ آپ میدان خطابت کے شہشوار
تھے۔ بندہ نے آپؒ کو پہلی بار، سن 2001میں، دار العلوم، دیوبند کی دار
الحدیث میں، "سجاد لائبریری" کے پروگرام میں، طلبۂ دار العلوم کو خطاب کرتے
ہوئے سنا تھا۔
سیاست کے میدان میں:
اگر انسان مخلص ہو؛ تو آج کے دور میں بھی سیاست کے میدان میں رہ کر،قوم
وملت کی اچھی خدمت انجام دے سکتا ہے؛ کیوں کہ ایک سیاسی رہنما کو ہر وہ
اسباب میسر ہوتے ہیں جن کی عوامی خدمت کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ آپؒ نے بھی
قوم وملت کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوکر، متعدد بار عام انتخابات میں حصہ
لیا۔ مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا؛ چناں چہ شکشت آپؒ کا مقدر بنی۔ پھر سن
2009 کے عام انتخابات میں، "کانگریس" پارٹی نے آپؒ کی قومی وملی خدمات پر
اعتماد کرتے ہوئے، آپؒ کو "کشن گنج" سے ٹکٹ دیا۔ پھر آپؒ نے 2009 کے عام
انتخاب میں حصہ لیا۔ آپؒ ایک مضبوط امیدوار ثابت ہوئے اورانتخاب میں فتح
حاصل کرکے پارلیامنٹ پہونچے۔ سن 2014ء میں؛ جب کہ پورے ملک میں مسٹر مودی
کی لہر تھی اور کانگریس حاشیے پر تھی۔ پھر بھی آپؒ کے حلقہ پر اس لہر کا
کوئی اثر نہیں پڑا۔ آپؒ نے بی جے پی کے امیدوار، ڈاکٹر دلیپ کمار جیسوال کو
تقریبا دو لاکھ ووٹوں سے شکشت دے کرپارلیامنٹ پہونچے۔
بحیثیت ایم پی آپؒ نے اپنے حلقہ کشن گنج میں"علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی" کی
برانچ قائم کرنے کی پوری کوشش کی ۔ آپؒ اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے۔ مگر
اس کام یابی کے پیچھے آپ کی قربانی پوشیدہ ہے۔ برانچ کے قیام کے لیے جتنی
زمین کی ضرورت تھی، اس کے حصول کے لیے بہار حکومت کے سامنے آپؒ نے بہت منت
سماجت کی۔ جب اس طرح سے کام نہیں چلا؛ تو آپؒ نے سیمانچل کے عوام کو دھرنا
دینے پر تیار کیا۔ پھر 12/اکتوبر 2010 کو سیمانچل کے عوام نے کشن گنج
میں"مہا دھرنا" کیا اور تقریبا چار لاکھ لوگ جمع ہوئے۔ تب جاکر، نتیش حکومت
تقریبا 224 ایکڑ زمین دینے کو راضی ہوئی۔ پھر بہار وزیر اعلی مسٹر نتیش
کمار،محترمہ سونیا گاندھی اور متعدد علاقائی سیاسی وسماجی رہنماؤں کی
موجودگی میں، برانچ کا سنگ بنیاد ڈالا گیا۔
صدمے اٹھائے، رنج سہے، گالیاں سنیں - لیکن نہ چھوڑا قوم کے خادم نے اپنا
کام
متواضع اور مخلص خادم:
مختلف پلیٹ فارمس سے مولاناکی نصف صدی کی سماجی، سیاسی ،ملی وقومی خدمات کے
دوران، مختلف میدان کے لوگوں سے شناشائی اور اچھے تعلقات رہے۔ مگر آپؒ نے
کبھی بھی ان تعلقات کو اپنے ذاتی مفاد یا اپنے اہل خانہ کے مفاد کی خاطر
استعمال نہیں کیا۔ آپؒ خود کئی اہم عہدے پر فائز رہے، مگر ان کا کوئی اثر
آپؒ کی زندگی میں نظر نہیں آیا۔ آپؒ نے پوری زندگی سادگی کے ساتھ گزاری۔
ہمیشہ آپؒ کا وہی طرز خطاب رہا جو شروع سے تھا، وہی لباس وپوشاک جو شروع سے
تھااور وہی رہن سہن جو پہلے تھا۔ لوگوں کو یہ کبھی محسوس نہیں ہوا کہ ان کی
طرزِ زندگی پہلے ویسی تھی اور اِس عہدہ پر آنے کے بعد ایسی ہوگئی۔ شاید آپؒ
نے اپنی زندگی کا اصول ہی بنا لیا تھا "سادہ زندگی اور بلند فکری"۔
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل - اس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ دل
نواز
آپؒ نے تزکیہ واصلاح کے حوالے سے اوّلا مفتی مظفر حسین صاحبؒ، سابق ناظم
مظاہرعلوم (قدیم) سے تعلق قائم کیا۔ مفتی صاحبؒ نے آپؒ کو خلافت سے نوازا۔
پھر ان کی وفات کے بعد، آپؒ شیخ طریقت حضرت مولانا قمر الزماں الہ آبادی
(حفظہ اللہ) سے منسلک ہوئے۔ شیخ الہ آبادی نے بھی آپؒ کو خلافت سے نوازا۔
آپؒ کے ان شیوخ نے آپؒ کی اس طرح تربیت کی کہ لوگوں نے شاید ہی کبھی آپؒ
میں عجب، خود پسندی، تکبر وغیرہ کا مشاہدہ کیا ہو۔ آپ نے بہت کامیاب زندگی
گزاری۔واضح لفظوں میں آپؒ نہایت سادہ، متواضع اور قوم وملت کے مخلص خادم
ثابت ہوئے۔
اظہارِ عقیدت:
آپؒ نے مختلف میدانوں میں میں کام کیا اور ہمیشہ ملت اسلامیہ کی بقا وتحفظ
کی کوشش میں پیش پیش رہے۔ آپؒ کی خدمات کو اہل نظر وفکر نے سراہا۔ آپؒ کے
تجربات سے فائدہ اٹھانے اور اظہارِ عقیدت کے لیے مختلف ادارے اور جامعات نے
آپؒ کو رکنیت سے نوازا۔ آپؒ اپنی مادرعلمی دار العلوم، دیوبندکے رکنِ شوری،
علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے کورٹ ممبر، مسلم پرسنل لا بورڈ کے قابل قدر
رکن، ملی کونسل کے نائب صدر اورآل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے بانی وصدر
تھے۔عوام نے آپؒ کو دو بار منتخب کرکے، پارلیامنٹ بھیجا۔ آپؒ ان کے علاوہ
متعدد مدارس ومکاتب کے نگراں وسرپرست تھے۔ آپؒ نے قوم وملت کی تقریبا نصف
صدی تک خدمات کی۔ اللہ تعالی اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے!
جنازہ وتکفین:
آپؒ کی وفات کی خبر سنتے ہی بہار کے وزیر اعلی جناب نتیش کمار نے آپؒ کی
خدمات کو سراہتے ہوئے آپؒ کو خراجِ عقیدت پیش کیااور آخری رسومات سرکاری
اعزازات کے ساتھ ادا کی جانےکی پیشکش کی؛ مگر مولانا کے پس ماندگان نے
سلیقہ سے اس پیشکش کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا نے وصیت کی
تھی کہ ان کی موت کے بعد، سادگی سے ان کو کفن ودفن کیا جائے۔ آپؒ کی نماز
جنازہ علاقے کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا انور الحق صاحب، ناظم: دار
العلوم، بہادر گنج نے پڑھائی۔ نمازِ جنازہ "ملی گرلز اسلول" میں ادا کی
گئی۔ تقریبا ڈھائی تین لاکھ لوگوں نے جنازہ میں شرکت کی۔ لوگوں نم آنکھوں
سےقوم وملت کے اس مخلص خادم کو، ان کے آبائی گاؤں کے قبرستان میں دفن
کردیا۔ اللہ تعالی آپؒ کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائےاور آپ کے پس
ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے! آمین!
دن ڈھل رہا تھا جب اسے دفنا کے آئے تھے – سورج بھی تھا ملول زمیں پر جھکا
ہوا ••• |